سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے ملک بھر میں طلبہ کو ایک ترقی پسند ایجنڈے پر متحرک کر کے دائیں بازو کو شدید ہیجان میں مبتلا کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں...
”سی پیک کوئی جادو کی چھڑی نہیں جس کے ذریعے گمبھیر مسئلوں کا حل نکالا جاسکے“
پہلے تو یہ کہ امریکہ اور ہندوستان کے تجارتی تعلقات مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسرا یہ کہ دونوں ملک اپنے تعلقات کی نوعیت پر پوری طرح متفق نہیں ہیں۔ تیسری جانب ہندوستان اور چین اپنے اختلافات کے باوجود دوطرفہ تجارت اوربین الاقوامی سطح پر کئی امورپر تعاون بھی کرتے ہیں۔ اور آخرمیں یہ بھی کہ چین اور پاکستان میں دوستی کے دعوؤں کے باوجود چین کی خواہش ہے کہ پاکستان اس کی سرزمین پر دہشت گرد سرگرمیوں کے ذمہ دار ان گروہوں کا سختی سے قلع قمع کرے جن کا تعلق پاکستان سے ہے۔
حکومت میں آ کر سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بند کر دیں گے: جیرمی کوربن
یمن میں ایک لاکھ افراد جنگ سے جبکہ 85 ہزار بھوک سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ دو کروڑ سے زائد افراد قحط کا شکار ہیں۔
طلبہ یکجہتی مارچ کی حمایت پر فاروق طارق سمیت 6 افراد کے خلاف مقدمہ: عالمگیر وزیر لاپتہ
”یہ مقدمہ سراسر اشتعال انگیزی ہے۔ طلبہ نے یونینز کی بحالی کے لئے جبکہ مزدوروں نے کم از کم تنخواہ کے مسئلے پر ریلی نکالی۔ مارچ کے شرکا نے ٹریفک میں خلل ڈالا نہ کسی کو نقصان پہنچایا۔ مقدمہ شہری انتظامیہ کی بوکھلاہٹ کی نشانی ہے۔ یہ مقدمہ بائیں بازو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے خلاف رد عمل اور آزادی اظہار پر حملہ ہے۔ ہم تمام افراد کے خلاف مقدمے کی واپسی کابھر پور مطالبہ کرتے ہیں۔“
153 ممالک کے 2,300 شہروں میں ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف مظاہرے
ایک سروے کے مطابق یورپ میں 47 فیصد لوگ ماحولیاتی تبدیلی کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
عراق: 400 ہلاکتوں کے بعد وزیر اعظم کا استعفیٰ
مظاہرین یہ کہتے نظر آئے کہ وہ ان سب کا استعفیٰ چاہتے ہیں۔
ملک گیر طلبہ مظاہروں نے 68ء کی انقلابی تحریک کی یادیں تازہ کر دیں!
’تم نے ایک مشال شہید کیا تھا‘ آج گلی گلی میں مشال پیدا ہو چکے ہیں۔‘
پاکستان میں طلبہ سیاست کی تاریخ و تناظر
طلبہ کی تحریکوں کا انقلابات میں ایک اہم ابتدایہ کا کردار بنتا ہے۔ شاید اسی صورت حال کو مدِ نظررکھتے ہوئے ٹراٹسکی نے یہ تجزیہ پیش کیا تھا کہ طلبہ درختوں کی بلند ٹہنیوں کی طرح ہوتے ہیں جو آنے والے انقلابی طوفانوں میں سب سے پہلے جھولنے لگتی ہیں اوران انقلابی ہواؤں کی آمد کا پیغام دیتے ہیں۔
پاکستان میں طلبہ سیاست کا عروج و زوال
منافع کی ہوس اور تعلیم کے کاروبار کے باعث طلبہ کو گھٹن زدہ کیفیت میں رکھا جا رہا ہے، جہاں سیاست تو دور سانس لینے کی آزادی بھی محال ہے۔ جہاں پلازوں میں مختلف انٹرنیشنل برانڈ کی دکانیں ہیں، انہی پلازوں میں ڈربہ نما کمروں کو یونیورسٹی اور کالج کا نام دیا جا رہا ہے۔ ریاست تعلیم کی فراہمی میں مکمل طور پر نااہل ہے، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سکولوں کے بعد تعلیمی اخراجات برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہے۔
طلبہ یونینز سے خوفزدہ کون؟
قوی امکانات ہیں اس ملک میں ناگزیر ضرورت بن جانے والی انقلابی تحریک کی پہلی چنگاری طلبہ تحریک سے ہی ابھرے گی۔ طلبہ کو اپنے بنیادی حقوق کی لڑائی کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد سے جوڑنا ہوگا، جو تمام تر ذلتوں اور مسائل کی جڑ ہے۔اس عظیم مقصد میں انہیں محنت کشوں اور غریبوں کے لئے اپنے دل میں عاجزی اور احترام کے جذبات پیدا کرنا ہوں گے، ان سے سیکھنا ہو گا۔ اسی صورت میں وہ محنت کش طبقے کے ساتھ جڑت بنا کر تاریخ کا دھارا موڑ سکتے ہیں۔