خبریں/تبصرے

سیکولرازم اور سوشلزم انسانی حقوق کے لئے پیشگی شرط ہیں

فاروق سلہریا

آج انسانی حقوق کا عالمی دن ہے۔ لیکن انسانی حقوق سے مراد کیا ہے؟

اقوام متحدہ کی تعریف کے مطابق ”انسانی حقوق سے مراد وہ حقوق ہیں جو تمام انسانوں کو حاصل ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی نسل، صنف، قومیت، لسانیت یا مذہب سے ہو، وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں اور ان کا سماجی رتبہ چاہے کچھ بھی ہو۔ ان حقوق میں زندہ رہنے کا حق اور آزادی، ٹارچر اور غلامی سے آزادی، اظہار رائے کی آزادی، کام اور تعلیم کا حق اور دیگر بہت سے حقوق شامل ہیں۔ ہر انسان بلا امتیاز ان حقوق کا حق دار ہے“۔

انسانی حقوق پر کام کرنے والی معروف سکالر مشلین اشے نے بھی انسانی حقوق کی ملتی جلتی تعریف کی ہے: ”انسانی حقوق وہ حقوق ہیں جو ہر انسان کے پاس محض اس لئے ہیں کہ وہ بنی نوع انسان کا حصہ ہے۔ یہ حقوق برابر ی کی بنیاد پر سب کو حاصل ہیں چاہے انسان کا تعلق کسی بھی صنف، نسل، قومیت یا معاشی طبقے سے کیوں نہ ہو۔ یہ حقوق یونیورسل (عالمگیر) ہیں“۔

اگر ان دونوں تعریفوں (Definitions) کو دیکھا جائے تو بہت سے سوال بلا شبہ ادھورے رہ جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی ایک جامع اور مستند تعریف کا تعین کرنا سان کام نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لبرل اور مارکس وادی، جو درست طور پر انسانی حقوق کی جدوجہد کے وارث کہلا سکتے ہیں، معیشت کے سوال پر اختلاف رکھتے ہیں۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن اور سکالرز نئی نئی جہتوں کا اضافہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ماحولیاتی انصاف کے لئے کام کرنے والے حلقے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ صاف ہوا میں سانس لینا انسانی حق ہے۔

امید کو ایک انسانی حق قرار قرار دیا جا رہا ہے۔ گویا اگر آپ ایک ایسے انسانی سماج میں رہ رہے ہیں جہاں آپ سے مستقبل میں بہتری کی امید چھین لی گئی ہے تو یہ آپ کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یوں انسانی حقوق ایک توسیع پذیر کانسیپٹ ہے۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ لبرل برابری کی بات کرتے ہیں مگر وہ معاشی برابری کی بات نہیں کرتے۔ مارکس وادی یا انارکسٹ درست طور پر یہ نقطہ اٹھاتے ہیں کہ اگر معاشی حقوق موجود نہ ہوں تو سیاسی و سماجی حقوق اورذاتی آزادیاں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ دونوں دھڑے البتہ اس بات پر ضرور متفق دکھائی دیں گے کہ سیکولرازم کے بغیر انسانی حقوق کا تحفظ ممکن نہیں۔

اس مختصر مضمون میں بھی یہ دلیل دی جائے گی کہ سیکولرازم اور سوشلزم کے بغیر انسانی حقوق کا حصول اور تحفظ ممکن نہیں۔ کیوں؟

آسان جواب: ہمیں طے کرنا ہو گا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا کیا پیمانہ ہے؟

انسانی حقوق کی مندرجہ بالا تعریفوں کے نتیجے میں یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا تعین کرنے کے لئے انتہائی آ سان اور مدلل پیمانہ یہ ہے کہ اگر کسی فرد یا گروہ ہے کہ ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے یا ان کی شخصی آزادی کو سلب کیا جا رہا ہے تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ اگر امتیازی سلوک کو روکنا ہے تو سیکولرازم اور سوشلزم بنیادی شرائط ہیں۔ پہلے سیکولرازم کی بات ہو جائے۔

سیکولرازم انسانی حقوق کی آکسیجن ہے:

سیکولر ازم یورپی نظریہ ہے۔ یورپ میں سیکولرازم کے پنپنے کی مختلف وجوہات تھیں۔ ایک اہم وجہ تو سالہا سال جاری رہنے والی مذہبی جنگ تھی۔ 1618ء سے لے کر لگ بھگ 1648ء تک پروٹسٹنٹ اور کیتھولک ممالک کے مابین لگ بھگ تیس سال جاری رہنے والی جنگ نے یورپ کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا تھا۔

1648ء میں ویسٹ فیلیا اندر ہونے والے امن معاہدے کی مدد سے یہ طے پایا کہ نہ صرف یہ لڑائی ختم کی جائے بلکہ اگر کسی کیتھولک ملک میں پروٹسٹنٹ ہیں یا پروٹسٹنٹ ملک میں کیتھولک ہیں تو مذہبی اقلیت کو تنگ نہیں کیا جائے گا نہ ہی کوئی بادشاہ مراعات اور رشوت کے ذریعے دوسرے فرقے کے لوگوں کو اپنے فرقے میں لانے کی ترغیبات دے گا۔ یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ اقلیتی فرقے کودوسرے ملک میں پناہ لینے کا حق ہو گا۔

ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بادشاہتیں اور چرچ مل کر حکومت کرتے تھے اور بادشاہت کا جواز مذہب کی مدد سے پیش کیا جاتا تھا لہٰذا جب بورژوا انقلابات آئے، تخت گرائے گئے اور تاج اچھالے گئے تو چرچ بھی اس کی ضد میں آیا۔ یہ عمل اپنے عروج پر انقلاب فرانس کی شکل میں پہنچا۔ ایسا نہیں تھا کہ 1640ء کی دہائی میں آنے والے انقلاب برطانیہ سے لے کر (جب 1649ء میں بادشاہ کا سر قلم کیا گیا اور تھوڑی دیر کے لئے برطانیہ ایک جمہوریہ قرار پایا) انقلاب فرانس تک یہ سیدھی لکیر میں جاری رہنے والا ایک سفر تھا۔ انقلابات کے بعد رد انقلاب بھی آئے۔ رد انقلابی ادوار میں مذہب کو پھر سے بادشاہتوں کے تحفظ کے لئے استعمال کیا گیا لیکن سرمایہ دارانہ عہد کا آغاز ہو چکا تھا۔ سرمایہ دار طبقہ جاگیرداری کے بل بوتے پر قائم سیاسی نظام گرا کر لبرل جمہوری نظام قائم کر رہا تھا۔

یورپ میں سیکولرازم کے پھلنے پھولنے کی ایک اور وجہ روشن خیالی کے عہد میں رواج پانے والے عقلیت پسندی پر مبنی نظریات تھے۔ ان نظریات کے فروغ میں مندرجہ بالا حالات بھی تھے۔ پھر نت نئی تحقیق اور دریافتوں نے بھی مذہب کی مضبوط گرفت کو کمزور کر دیا تھا۔ گیلیلیو سے لے کر ڈارون تک، نت نئی دریافتوں نے یورپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

سیکولرازم کا عمل جوں جوں مضبوط ہوتا گیا توں توں ہر طبقے اور حلقے کو سمجھ آتی گئی کہ سیکولرازم میں ہی سب کی نجات ہے لیکن سیکولرازم بغیر جمہوریت کے ممکن نہیں۔ سیکولرازم نام ہے آزادی کا۔ انسان کو نہ صرف یہ آزادی ہے کہ وہ کوئی بھی مذہب اختیار کرے، اسے یہ بھی آزادی حاصل ہے کہ وہ مذہب سے آزاد زندگی بھی گزار سکتا ہے۔

اس شخصی آزادی کو نہ تو ریاست اس سے چھین سکتی ہے نہ معاشرہ بلکہ ریاست کا فرض ہے کہ فرد کی اس آزادی کا تحفظ کرے۔ شخصی آزادی کوئی بھی ہو یہ تب ہی ممکن ہوتی ہے جب معاشرے اور سیاسی نظام کے اندر تمام دیگر آزادیاں مہیا ہوں (اس لئے جب اتا ترک، ایوب خان، پرویز مشرف یا صدام حسین کو سیکولر بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو یہ ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں کہلا سکتا)۔

دوم، سیکولرازم اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ مذہبی بنیادوں پر کسی سے امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ آزادی کا سلب ہونا یا امتیازی سلوک ہی تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا پیمانہ ہے۔

گو بورژوا انقلابات نے شخصی آزادیوں کی راہ ہموار کی مگر یہ آزادیاں اشرافیہ تک ہی محدود رہیں۔ مثال کے طور پر بیسویں صدی کے شروع تک خواتین کو وٹ دینے کا حق نہیں تھا جبکہ انیسویں صدی کے آخر تک مرد مزدوروں کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا۔ ووٹ وہی دے سکتا تھا جس کے پاس جائداد اور تعلیم تھی۔ ان آزادیوں کو اجتماعی شکل میں عوامی شکل دینے کا کام سوشلسٹ تحریک نے سر انجام دیا۔

سوشلزم ہی انسانی حقوق کی حتمی ضمانت ہے:

ہم نے اوپر دیکھا کہ اگر ایک طرف سیکولرازم کا راستہ ہموار ہوا تو دوسری طرف’لبرل‘ جمہوریت قائم ہوتی چلی گئی۔ پارلیمنٹ نے بورژوا انقلابات کے نتیجے میں جنم لیا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ لگ بھگ دو صدیوں تک عوام (مزدور اور کسان، بالخصوص خواتین) کو جمہوری عمل سے باہر رکھا گیا حالانکہ ہر یورپی انقلاب میں عام شہری پیش پیش تھے۔

ہر انقلاب کے بعد بورژوازی نے عوم سے دھوکا کیا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 1848ء میں جب فرانس کے اندر تیسرا انقلاب آیا تو پارلیمنٹ نے تسلیم کیا کہ ہر بالغ مرد کو ووٹ دینے کا حق ہو گا مگر چند ہفتوں کے اندر یہ حق واپس لے لیا گیا جبکہ انارکسٹ اور سوشلسٹ رہنماؤں پر جبر شروع ہو گیا۔ اس انقلاب کے لئے کم از کم دس ہزار افراد نے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔

ان بار بار کے دھوکوں سے محنت کشوں نے یہ سبق سیکھا کہ اگر ان کو اپنے انسانی حقوق حاصل کرنے ہیں تو انہیں مزدور انقلاب کرنے ہوں گے اس کے لئے انہیں مزدوروں کی پارٹیاں تشکیل دینی ہوں گی کیونکہ اگر معاشی حقوق حاصل نہ ہوں تو سیاسی آزادی ممکن نہیں۔

اس انقلابی سوچ کا پہلا اظہار تو مارچ سے مئی 1871ء تک قائم ہونے والا پیرس کمیون تھا۔ یہ مزدوروں کی پہلی ریاست تھی۔ یہ صرف تین ماہ قائم رہی۔ اسے ایک خونی فوجی آپریشن کی مدد سے کچلا گیا۔ اس مختصر سے تجربے نے بہر حال ثابت کر دیا کہ انسانی حقوق ایک سوشلسٹ نظام ہی سب تک پہنچا سکتا ہے۔

اگلے دس بیس سال میں یورپ کے ہر ملک میں مزدور پارٹیاں قائم ہو چکی تھیں جن کا مطالبہ تھا کہ ووٹ دینے کا حق سب کے پاس ہونا چاہئے۔ خواتین کے پاس بھی۔ چائلڈ لیبر پر پابندی ہونی چاہئے۔ کلونیل ازم کا خاتمہ کیا جائے۔ جنگ و جدل منظور نہیں (کیونکہ جنگ انسانی حقوق کا جنازہ ہوتی ہے)۔ روٹی، روزگار، تعلیم اور علاج ہر شہری کو فراہم کیا جائے ورنہ شخصی آزادیاں بے معنی ہیں۔

گذشتہ دہائیوں کی تاریخ سے محنت کش یہ سبق بھی سیکھ چکے تھے کہ ان مطالبات کی تکمیل سرمایہ دار طبقہ نہیں کرے گا۔ مزدور طبقے کو خود حکومت میں آنا ہو گا۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح انقلاب فرانس عہد ِروشن خیالی میں پنپنے والے نظریات کی تجسیم بن کر برپا ہوا، انقلاب روس انیسویں صدی کی سوشلسٹ اور مزدور تحریک کے نظریات کی تجسیم بن کر نمودار ہوا (گو بعد میں انقلاب کی زوال پزیری اور سٹالنزم کے قیام نے سویت روس کو انسانی حقوق کا قبرستان بنا دیا)۔ بعض صورتوں میں سوشلسٹ تحریکوں نے فلاحی ریاست کی شکل میں انسانی حقوق کا عوامی سطح پر حصول ممکن بنایا۔ اس کی مثال مغربی یورپ، بالخصوص سکینڈے نیویا کے ممالک ہیں۔

گو انسانی حقوق کی جدید تحریک اور موجودہ بیانئے کا نقطہ آغاز روشن خیالی کی تحریک کو کہا جاتا ہے مگر انسانی حقوق کا عوامی سطح پر حصول تاریخی طور پر سوشلسٹ تحریک کی جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ انسانی حقوق سوشلسٹوں، انارکسٹوں اور غلامی و نوآبادیاتی نظام کے خلاف لڑائی لڑنے والے انقلابیوں کی میراث ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ سوشلسٹ اس دن کو ایک انقلابی فریضے کے طور پر منائیں۔ انسانی حقوق ہی سوشلزم ہیں اور جمہوری سوشلزم ہی انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔