نقطہ نظر

میکڈونلڈز اور مولانا

فاروق سلہریا

امریکی پروفیسر جارج رٹزر (George Ritzer) کی مشہور کتاب میکڈونلڈائزیشن آف سوسائٹی (McDonaldization of Society) کا پہلا ایڈیشن 1992میں شائع ہوا۔ دو سال قبل اس کا نواں ایڈیشن شائع ہوا۔ اکیڈیمک کتابیں اس قدر کامیابی حاصل کریں، ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ اس شاندار کتاب میں پروفیسر جارج رٹزر نے میکڈونلڈ کو استعارہ بنا کر بڑے امریکی کاروباری اداروں ،جو اکثر ملٹی نیشنل کی شکل میں امریکہ کے علاوہ باقی دنیا پربھی حکومت کر رہے ہیں، کا خاکہ پیش کیا ہے۔ اس تھیوری کو انہوں نے میکڈونلڈائزیشن کا نام دیا ہے۔ یہ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے بار بار مولانا طارق جمیل کا خیال آتا ہے۔

میکڈونلڈائزیشن سے مراد ہے سماجی و معاشرتی شعبوں کا میکڈونلڈز (McDonald’s) کی طرز پر کام کرنا۔ پروفیسر جارج رٹزر کا کہنا ہے کہ ایک کے بعد ایک امریکی شعبہ میکڈونلڈائزیشن اپنا رہا ہے ۔ نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں میکڈونلڈائزیشن کا عمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ہمارے ہاں پاکستان مین میکڈونلڈائزیشن کی اورمثالیں بھی ہیں مگر ایک دلچسپ مثال یہ ہے کہ مولانا طارق جمیل نے مذہب کی میکڈونالڈائزیشن کر دی ہے۔یہ مضمون اسی بارے میں ہے مگر ساتھ ساتھ یہ وضاحت بھی کی جائے گی کہ میکڈونلڈائزیشن کیا ہے۔

میکڈونلڈائزیشن ،پروفیسر جارج رٹذر کے مطابق، چار چیزوں کا نام ہے:
(۱) کارکردگی (efficiency)
(۲)حساب کتاب (calculability)
(۳)پیش گوئی(predictability)
(۴) اختیار (control)

پروفیسر جارج رٹزرکے مطابق یونیورسٹیاں ، میڈیا، ہسپتال، کھیل اور سپورٹس سے لے کر وال مارٹ اور ایمازن اور ائر بی این بی جیسے بڑے بڑے برانڈ میکڈونلڈائزیشن کے چار اصولوں پر استوار ہیں۔ حتیٰ کہ چرچ اور جنازے بھی اس عمل کا شکار ہیں۔ہمارے ہاں تبلیغی جماعت اسکی ایک علامت ہے۔آئےے اب ذرا ان اصولوں کی تشریح کر کے دیکھتے ہیں ۔ساتھ ہی ساتھ دیکھا جائے گا کہ تبلیغی جماعت اور مولانا طارق جمیل پر یہ تھیوری کس طرح صادق آتی ہے۔

(۱) کارکردگی (efficiency):

ہر کاروباری شخص یا انتظامیہ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مزدور اور ملازم سے زیادہ سے زیادہ کام لے۔ فیکٹری ہو یا خدمات فراہم کرنے والا ادارہ،سرمایہ داری کی تاریخ اس کوشش سے تعبیر ہے کہ مزدور اور ملازم کو تنخواہ کم سے کم دو اور کام زیادہ سے زیادہ لو۔ سرمایہ داروں اور مالکوں کے اس استحصال کو روکنے کے لئے اور اپنے اوقات کار یا تنخواہ بہتر بنانے کے لئے مزدور جوابی طور پر ٹریڈ یونین بناتے ہیں۔ اس پر ذرا بعد میں بات کریں گے۔ فی الحال ایفیشینسی کی بات جاری رکھتے ہیں۔

لگ بھگ سو سال پہلے ایفیشینسی یا کارکردگی بہتر بنانے کے ٹیلر ازم یا فورڈ ازم کے حربے اپنائے گئے۔ چارلی چپلن کی مشہور فلم ’دی ماڈرن ٹائمز‘ میں ایک سوشلسٹ نقطہ نظر سے چارلی چپلن نے اپنے مخصوص انداز میں ان سرمایہ دارانہ حرکتوں کا مذاق بھی اڑایا ہے اور ان کا پردہ بھی چاک کیا ہے۔ یہ فلم میکڈونلڈائزیشن کو سمجھنے کے لئے ضرور دیکھنی چاہئے(یہ فلم یو ٹیوب پر دستیاب ہے)۔

میکڈونلڈز نے البتہ کارکردگی بہتر بنانے کے اس عمل کو ایک بالکل نئی جہت دیدی ہے۔اس ضمن میں میکڈونلڈائزڈ طریقہ کار تین حربوں پر مشتمل ہے:

اول:سٹریم لائنگ یعنی ایک ہی چھت تلے مختلف چیزیں مہیا کر دو۔ آپ نے تفریح کرنی ہے، بچوں کو خوش کرنا ہے، سستا کھانا (مغربی سیاق و سباق میں،پاکستان میں تو میکڈونلڈ امیروں کی جگہ ہے)کھانا ہے، کافی پینی ہے، گاڑی سے اترے بغیر کھانا خریدنا ہے تا کہ وقت بچ جائے تو میکڈونلڈز کا رخ کریں۔ اس عمل کی تازہ مثال سپر سٹور ہیں۔ جیسا کہ لاہور میں میٹرو سٹور یا الفتح۔ آپ نے دودھ دہی خریدنا ہے یا پھل اور سبزی، فرنیچر لینا ہے ٹائلٹ کا سامان یا برتن اور ریڈی میڈ کپڑے۔ سب ایک چھت تلے ملے گا۔ ورنہ ایک دور تھا دودھ گوالمنڈی سے لاو ۔کاپیاں کتابیں اردو بازار سے ۔ کپڑے انار کلی اور اچھرہ سے۔ یہی صورتحال مالز کی ہے۔پیکجز مال میں چلے جائیں۔ ہر طرح کا آوٹ لیٹ بھی مل جائے گا۔ سینما میں فلم بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جیب میں پیسے ہونے چاہئیں ،بچوں کو بھی کسی فن لینڈ میں خوش کر سکتے ہیں۔

غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ مولانا طارق جمیل نے بھیMTJ کا برانڈ لانچ کر کے مذہب کی سٹریم لائنگ کر دی ہے۔ آپ مولانا کا مرید بن جائیں،جنت بھی ملے گی اور دنیا میں بھی فیشن کا بھرپور موقع ہے حالانکہ باقی سب مولوی حضرات (ماضی میں مولانا طارق جمیل خود بھی)فیشن کو فحاشی سمجھتے ہیں۔ مولانا کا بیان سننا ثواب بھی ہے اور سوشل پورنوگرافی کی ایک شکل بھی۔ یوں ثواب بھی حاصل کریں اور انٹرٹینمنٹ بھی۔ اسی طرح انٹرنیشنل کرکٹ میں جوا کھیلا تھا یا کوئی ویڈیو لیک ہو گئی تھی تو تبلیغی جماعت میں شامل ہو کر کھوئی ہوئی دنیاوی عزت بھی حاصل کریں اور اگلی دنیا میں بھی کامیابی کا ٹکٹ۔ اور تو اور جس بلاسفینی پر گورنر تاثیر کا قتل ہو گیا، اس کا ارتکاب کرنے کے بعد جنید جمشید کی طرح جان بھی بخشوا لیں۔دنیا اور آخرت دونوں کو سٹریم لائن کر دیا گیا ہے،کم از کم مڈل کلاس اور بورژوازی کے لئے۔

دوم: چیزوں کو سادہ بنا کر پیش کرنا۔ مثال کے طور پر کڑاہی گوشت یا چکن قورمہ کھانا کتنا مشکل ہے۔ چلتے چلتے،بس یا گاڑی میں بیٹھ کر،ڈرائیونگ کرتے ہوئے تو یہ سب کھانا اور بھی مشکل ہوتا مگر میکڈونلڈ نے چکن اور گوشت کو بن (bun)کے اندر لپیٹ کر یہ عمل اتنا آسان بنا دیا کہ آپ چلتے چلتے کھائیں یا ڈرائیونگ کرتے ہوئے۔ آپ کو دستر خوان یا ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھے رہنے کی ضرورت نہیں۔ یہ عمل دیگر شعبوں میں بھی نظر آئے گا۔ فیس بک نے ہم سب کو سٹیزن جرنلسٹ بنا دیا ہے۔ اب ایم اے جرنلزم کی ضرورت نہیں۔ یوٹیوب پر ہم سب اسٹیفن سپیل برگ ہیں۔ ٹک ٹاک نے لاکھوں کروڑوں شاہ رخ خان اور ایشوریا رائے پیدا کر دی ہیں۔ گوگل اور ویکیپیڈیا نے اربوں لوگوں کو سکالر بنا دیا ہے۔ پی ایچ ڈی پر وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔

یہی صورت حال تبلیغی جماعت اور مولانا طارق جمیل کے کاروبار(جی ہاں ،تبلیغی جماعت معاشی لحاظ سے ایک کاروبار ہے) میں نظر آتی ہے۔ انہوں نے مذہب کو بالکل سادہ بنا دیا ہے۔ آپ کو مدرسے جانے کی ضرورت ہے نہ قرآن پاک حفظ کرنے کی۔ ایم اے اسلامیات چاہئے نہ حدیث اور فقہ کا علم۔ مولانا طارق جمیل خود بھی سند یافتہ عالم نہیں ہیں۔موصوف کا دینی علم بھی چند قصے کہانیوں سے آگے نہیں جاتا۔ میکڈونلڈائزڈ مذہب میں اس کی ضرورت بھی نہیں۔ تبلیغی جماعت کا رکن بن جائیں۔جس کا دل چاہے دروازہ کھٹکھٹائیں۔ اسے تبلیغ شروع ہو جائیں۔ تبلیغ کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ میں تم سے بہتر مسلمان ہوں،تم بھی میری طرح بن جاو اور یہ کہ میرے پاس دین کا علم تم سے زیادہ ہے اس لئے میری بات سنو۔ حقیقت میں تبلیغی بھائی کے پاس وہ چند قصے کہانیاں بھی نہیں ہوتیں جو مولانا طارق جمیل نے رٹا لگا رکھی ہیں مگر تبلیغی جماعت نے مذہب کو اتنا سادہ بنا دیا ہے جتنا میکڈونلڈ نے گوشت کھانا۔ جیسے میک چکن برگر کھانے کیلئے دستر خوان پر بیٹھنا ضروری نہیں،اسی طرح تبلیغی جماعت کا مبلغ بننے کے لئے سولہ سال یا اٹھارہ سال مدرسے جانا ضروری نہیں۔

سوم: میکڈونلڈ نے گاہک کو مزدور (producer)بنا دیا۔ وہ گاہک (consumer) سے بلا معاوضہ کام لیتا ہے. مثال کے طور پر آپ کاونٹر سے کھانا خود لیتے ہیں۔کوئی بیرا آپ کو سرو (serve)نہیں کرتا۔ کھانا کھانے کے بعد میز خود صاف کرتے ہیں یعنی میکڈونلڈ بیرا اور صفائی مزدور کا کام اپنے گاہکوں سے لے کر اپنا سٹاف کم کرتا ہے اور یوں اپنا منافع بڑھا لیتا ہے۔ آج کل ٹچ مشین اور اے ٹی ایم کارڈ نے کاونٹر پر سٹاف کی ضرورت اور بھی کم ہو گئی ہے۔ اب آپ بیرے اور صفائی مزدور کے علاوہ کیشئیر کا کام بھی خود کرتے ہیں۔ یوں آپ ،بقول پروفیسر جارج رٹزر، کنزیومر نہیں پروزیومر (prosumer) بن گئے ہیں۔ایمازن ،بنکنگ اداروں اور آن لائن کاروبار کرنے والے بہت سے اداروں نے یہی کچھ کیا ہے۔ کریم اور اوبر بھی اس کی ایک مثال ہیں۔

پاکستان کے اندر مذہب کی حد تک تبلیغی جماعت اس عمل میں سب سے آگے ہے۔ لوگ کاروبار، گھر بار،نوکری کی پروا کئے بغیر چالیس چالیس دن تبلیغ کے لئے نکل جاتے ہیں۔ اپنی جیب سے سارا خرچہ اٹھاتے ہیں۔ ہر وقت لاکھوں تبلیغی اپنی جماعت میں نئے رکن بھرتی کرنے کے لئے مصروف عمل ہوتے ہیں۔ جتنے زیادہ لوگ اس جماعت کا حصہ بنیں گے، اس کا کاروبار (چندہ اور اثر و رسوخ) اور بڑھے گا۔ اس کا برانڈ مضبوط ہو گا۔ اسی طرح، بھلے آپ تبلیغی جماعت کا رکن نہ ہوں صرف ہمدرد ہوں، پہلے آپ اپنا وقت بلا معاوضہ لگا کر مولانا طارق جمیل کا بیان سنیں گے ،پھر واٹس ایپ، فیس بک اور ٹوئٹر پر اسے ری پروڈیوس کریں گے۔ میکڈونلڈز تو چلیں آخر میں ایک برگر دے دیتا ہے،تبلیغی جماعت سے آپ کو صرف شراب طہورہ ملتی ہے وہ بھی مرنے کے بعد بشرطیکہ آپ نے نیک عمل کئے تھے ۔

میکڈونلڈائزیشن کا دوسرا پہلو ہے حساب کتاب (calculability)، اب اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

(۲)حساب کتاب (calculability):

میکڈونلڈز کی کامیابی یہ ہے کہ اس کے پاس حساب کتاب اور ناپ تول بڑا پکا ہے۔ دنیا بھر میں، سو سے زائد ملکوں میں چالیس ہزار سے زائد میکڈونلڈز آوٹ لیٹ ہیں۔ 3,75,000ملازم ہیں۔ روز کتنے برگر بکے،کتنا کمایا،کہاں کمایا۔۔۔پل پل اور پائی پائی کا حساب ہے۔

اسی طرح دنیا بھر میں برگر ہو یا چپس،اس کا سائز اور وضع قطع ایک جیسے ہیں۔ کسی چیز میں رتی برابر ،حتیٰ کہ ذائقے میں فرق نہیں آئے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ فیکٹری میں جس اسمبلی لائن کو فورڈ نے متعارف کرایا، اس اسمبلی لائن کو میکڈونلڈ زنے فوڈ انڈسٹری میں متعارف کرا دیا۔ دونوں کا مقصد مزدور کی طاقت توڑنا اور کارکردگی کو بہتر بنانا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ، اس عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقدار (quantity)کو معیار (quality)بنا دیا گیا۔

میکڈونلڈز اپنے ذائقے کی وجہ سے مشہور نہیں بلکہ اپنے گلوبل برینڈ ہونے کی وجہ سے (سو ملکوں میں چالیس ہزار آوٹ لیٹ) کامیاب ہے۔ اربوں کا کاروبار کرنے کی وجہ سے کامیاب ہے۔ یہ عمل فلم اور کھیل یا تعلیم اور دیگر منافع خور شعبوں میں بھی نظر آئے گا۔ مثال کے طور پر بڑا کرکٹر وہ ہے جس نے زیادہ سنچریاں بنائی ہیں۔ یہ نہیں دیکھیں گے کہ ویسٹ انڈیز میں کلائیو لائیڈ کی قیادت میں کھیلنے والی ٹیم کن حالات میں بنی تھی اور ان کے لئے کھیل محض کھیل نہیں، نسل پرستی کے خلاف جدوجہد بھی تھی۔ یوں ویوین رچرڈز جس نے ساوتھ افریقہ میں کھیلنے کے عوض ملنے والا بلینک چیک یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ وہ افریقہ کی سیاہ فام آبادی سے غداری نہیں کر سکتا، وہ ٹنڈولکر یا ویراٹ کوہلی سے اچھا نہیں ہے۔ کامیاب فلم وہ ہے جو زیادہ بزنس کرے ۔کامیاب لکھاری محسن حامد(اگر اسے لکھاری کہا جا سکتا ہے تو) ہے نہ کہ سعادت حسن منٹو۔

یہی کچھ تبلیغی جماعت نے کیا۔ اس جماعت کی طاقت اس کی تعداد میں ہے۔ اس جماعت نے نہ کوئی اصلاح کا کام کیا (ہاں جگہ جگہ کرونا ضرور پھیلایا)نہ کوئی علمی کام۔ اس کا واحد مطمع نظر اپنے ارکان کی تعداد بڑھانا ہے۔ جوں جوں رائے ونڈ کا تبلیغی اجتماع بڑا ہوتا گیا توں توں اس جماعت کا اثر و رسوخ اور چندہ بڑھتا گیا۔ گویا مقدار ہی معیار ہے۔ اس کامیابی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مولانا طارق جمیل نے مزید کامیابی یہ حاصل کی کہ فلمی ستاروں اور کرکٹرز کو شاتھ شامل کر لیا۔ دی ریسٹ از ہسٹری۔

اب آئے میکڈونلڈائزیشن کے تیسرے پہلو کی ،یعنی پیش گوئی،کی تفصیلات دیکھتے ہیں ۔

(۳)پیش گوئی(predictability):

اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کو کوئی سرپرائز نہیں ملے گا۔ آپ کو وہی ملے گا جس کی آپ توقع کر رہے ہیں۔ اگر آپ میک چکن کھانا چاہتے تھے اور ساتھ کوک پینا چاہتے تھے تو ہر دفعہ میک چکن اور کوک کا ذائقہ وہی ہو گا جو پچھلی بار تھا۔ یوں آپ بھی مطمئن اور میکڈونلڈ کا بھی بھلا۔ شکوہ شکایت، تو تو میں میں کی نوبت ہی نہیں آتی۔ کارکردگی بھی اچھی اور گاہک بھی قابو (کنٹرول) میں [کنٹرول کی بات بھی آگے آ رہی ہے]۔

آپ ڈینم کی جینز لیں گے تو پتہ ہو گا کہ اسے پہننے کا تجربہ کیسا ہو گا۔ سٹار بکس کی کافی یا کے ایف سی کا پیزا کیسا ہو گا۔ اس کے برعکس کسی نئے کیفے پر جائیں، کسی درزی سے کپڑے سلوائیں یا موچی سے جوتے بنوائیں ۔۔۔کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ پراڈکٹ کیسی ملے گی۔بہت اچھی بھی ہو سکتی ہے ،بہت بری بھی۔ بعض اوقات بہت اچھا باورچی کھانا خراب کر سکتا ہے اور ماہر درسی شلوار قمیض کا بیڑا غرق کر سکتا ہے لیکن میک چکن اور کوک کا ذائقہ۔۔۔ارشاد بھٹی کے تجزئےے کی طرح۔۔۔ ہر دفعہ ایک جیسا ہو گا،گارنٹی ہے۔ اسے کہتے ہیں predictability۔

مولانا طارق جمیل کا بیان بھی ہر دفعہ ایک جیسا ہو گا: حوروں کے پورنوگرافک قصے، فحاشی (مراد عورت کی ’بے حیائی‘)پر ماتم،ایسے تاریخی قصے جن کی نہ تردید ہو سکتی ہے نہ تصدیق، سرمایہ داری اور فوجی آمریت پر کبھی تنقید نہیں ہو گی، طالبان کی دہشت گردی پر انگلی نہیں اٹھائی جائے گی، مزدور حقوق کی کوئی بات نہیں کی جائے گی، سرمایہ داری جاگیرداری پر ایک حرف تنقید جاری نہیں ہو گا۔ جابر کو بھی خوش رکھا جائے گا،مجبور کو بھی۔ظالم سے بھی تعلقات قائم رہیں گے،مظلوم سے بھی[لیکن تعلقات کی نوعیت اور نتائج مختلف ہوں گے]۔ واٹس اپ پر ملنے والی ہدایات کی روشنی میں ارشاد بھٹی آپ کو سرپرائز کر سکتا ہے مگر مولانا طارق جمیل نہیں۔

اب بات کرتے ہیں میکڈونلڈائزیشن کے چوتھے پہلو کی ۔

(۴) اختیار (control) :

جیسا کہ اوپر عرض کیا تھا کہ ہر کاروباری شخص یا انتظامیہ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مزدور اور ملازم سے زیادہ سے زیادہ کام لے۔ فیکٹری ہو یا خدمات فراہم کرنے والا ادارہ،سرمایہ داری کی تاریخ اس کوشش سے تعبیر ہے کہ مزدور اور ملازم کو تنخواہ کم سے کم دو اور کام زیادہ سے زیادہ لو۔ سرمایہ داروں اور مالکوں کے اس اتحصال کو روکنے کے لئے اور اپنے اوقات کار یا تنخواہ بہتر بنانے کے لئے مزدور جوابی طور پر ٹریڈ یونین بناتے ہیں۔

دو تین سو سال کی تاریخ یہ ہے کہ سرمایہ دار ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مزدوروں کی ٹریڈ یونین نہ بن پائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مزدور کنٹرول میں رہتا ہے۔مزدور کو کنٹرول میں رکھنا ہی سرمایہ داری کی سب سے بڑی سر درد ہوتی ہے۔ مسلسل۔ ہمیشہ۔ہر دم۔

اس کے بے شمار حل تلاش کئے گئے۔ تشدد۔بدمعاشی۔قانون سازی۔ اس کے باوجود،بالخصوص مغرب میں جب مزدور جماعتوں کی حکومتیں بنیں یا انقلاب آئے تو مزدور طاقتور اور خوش حال ہو گیا۔

اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ستر کی دہائی سے پراڈکشن کو چین ،مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکہ میں شفٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ نوے کی دہائی میں سویت روس ٹوٹا تو مشرقی یوپ بھی اس عمل کا حصہ بن گیا۔ گلوبلائزیشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب میں وہ انڈسٹری ہی ختم ہو گئی جہاں مزدور طبقہ اور ٹریڈ یونین کی بنیاد تھی مگر میکدڈنلڈز اپنی پراڈکشن نہ تو باہر بھیج سکتا تھا نہ ہی برگر کو ڈاون لوڈ کیا جا سکتا ہے۔

اس مسئلے کا حل میکڈونلڈز نے یہ نکالا کہ اپنے ملازمین کے اوقات کار اتنے برے بنا دئے اور تنخواہ اتنی تھوڑی بنا دی کہ کوئی ٹک کر کام ہی نہیں کر سکتا۔دوم، یہ کام اتنی زیادہ طاقت توانائی اور پھرتی مانگتا ہے کہ صرف نوجوان ہی یہ کام کر سکتے ہیں۔ یہ میکڈونلڈز کی نوکری جسے McJobs کا نام دیا گیا اور اس کی تنخواہ کو McWages کہا گیا، کا نتیجہ یہ نکلا کہ مززدور سال دو سال کے بعد نوکری چھوڑ جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہاں یونین بھی نہیں بنتی۔
ایمازن اور اوبر یا ائر بی این بی نے تو’ مزدور طبقہ ہی ختم کر دیا‘۔ مثال کے طور پر اوبر کیپٹن یا کریم کیپٹن کوتو اوبر اور کریم اپنا ملازم ہی تسلیم نہیں کرتے۔ کس ٹیکسی ڈرائیور کے خون پسینے سے اربوں کمایا جاتا ہے ،اسے اپنا ملازم ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ جب کوئی مالک ہی نہیں ہو گا تو مزدور ٹریڈ یونین بنا کر اپنے مطالبات کسے پیش کریں گے؟

فیس بک اور گوگل نے بھی یہی کیا۔ ہم سب فیس بک پر زُکربرگ کے لئے مفت کام کر رہے ہیں۔ بظاہر ہم سمجھتے ہیں کہ زُکربرگ نے ہمیں مفت میں پیج بنانے کی سہولت فراہم کی ہوئی ہے۔ بات یوں ہے کہ ہم زُکربرگ کی آڈینس نہیں،پراڈکٹ ہیں۔ اس پراڈکٹ کو وہ ڈیٹا خریدنے والوں کے ہاتھوں بیچتا ہے۔ جتنے زیادہ فیس بک یوزر،اتنے زیادہ مفت مزدور۔

دوسری جانب زکربرگ کا ہمارے پیج پر مکمل کنٹرول ہے۔ ہم زُکربرگ سے کوئی مطالبہ نہیں کر سکتے مگر وہ جب چاہے یہ کہہ کر ہمارا پیج تیس دن کے لئے بلاک کر دیتا ہے کہ ہماری پوسٹ کمیونٹی سٹینڈرڈز کے خلاف تھی۔

تبلیغی جماعت بھی اسی طرز پر کام کرتی ہے۔ جماعت کے ارکان مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں ہیں۔ سیاست(نواز شریف ہو یا عمران خان،آرمی چیف ہو یا آئی ایس آئی چیف ۔۔۔سب رائے ونڈ کا چکر لگاتے ہیں یا مولانا طارق جمیل کو گھر بلاتے ہیں)، معیشیت (بذریعہ سرمایہ دار اور تاجر جو کروڑوں کا چندہ دیتے ہیں)، بیانیہ، معاشرے میں کروڑوں افراد ۔۔۔سب مولانا طارق جمیل کی مٹھی میں ہیں۔اور تو اور کرکٹ بورڈ بھی مولانا طارق جمیل کے کنٹرول میں ہے۔میکڈونلڈائزڈ اداروں نے تو ایک طبقے پر کنٹرول حاصل کیا۔مولانا طارق جمیل کا ہر طبقے پر کنٹرول ہے۔

مسلم لیگ نواز، پی پی پی اور پی ٹی آئی یاتو فوج اور ملک ریاض کے پیج پر ایک نظر آئیں گے یا تبلیغی جماعت کے پیج پر۔ اتنا بھرپور کنٹرول تو کوئی امریکی ملٹی نیشنل بھی امریکی معاشرے میں حاصل نہیں کر سکی۔ مولانا نے تو میکڈونلڈائزیشن میں میکڈونلڈز کو بھی مات دیدی ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔