اس عمل کے ذریعے سیاحتی مقامات پر مقامی آبادیوں کی رسائی ختم ہو جائے گی۔ زیادہ تر مقامات ایسے ہیں جو مقامی آبادیاں چراگاہوں کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ دور دراز پہاڑی علاقوں میں رہنے والے شہریوں کیلئے مال مویشی اور سردیوں کی لکڑیوں کا انحصار انہی مقامات پر ہوتا ہے۔ اس طرح نہ صرف ان مقامات پر شہریوں کو مویشی پالنے اور زندگی گزارنے میں مشکلات ہوں گی ، بلکہ سیاحتی مقامات پرمقامی آبادیاں جو چھوٹے کاروبار کرتی ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں گے۔ اس وجہ سے پہلے سے موجود بیروزگاری کی بلند شرح میں مزید اضافہ ہو گا۔ جنگلات کے کٹاؤ کی وجہ سے شدید ترین ماحولیاتی تبدیلیوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ ایکو سسٹم متاثر ہوگا اور خطے کی زمینی ہیت بھی تبدیل ہو جائے گی۔
Day: مئی 8، 2024
سائنس و ٹیکنالوجی اور سماج
انسان کی تاریخ نیچر کے ساتھ مقابلے کی تاریخ ہے۔ زندہ رہنے کی خاطر ہمیشہ سے انسان فطرت سے جنگ آزما رہا ہے۔ شعوری ارتقاء کے نتیجے میں نیچر سے مقابلے میں انسان کا پلڑا نسبتا بھاری ہوگیا۔ اور انسانی شعور نے نیچر یعنی خارجی کائنات کو مسخر کرکے تہذیب و تمدن کی بنیادیں رکھیں۔ نیچر کے ساتھ اسی مقابلے کے دوران ہی سائنس کا ظہور ہوا۔ اشیاء خارجیہ کو اپنے استعمال میں لانے کے لئے ان کی شناخت بھی ضروری تھی۔ انسان جب فطرت میں موجود اشیاء کی خاصیت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے سائنس جنم لیتی ہے۔ اور جب ان اشیاء کی خاصیتوں کو سمجھ کر ان سے مختلف آلات بناتا ہے۔ اور سائنس کو استعمال میں لاتا ہے تو اس سے ٹیکنالوجی ظہور میں آتی ہے۔ چقماق پتھر کی خاصیت کو سمجھنے سے آگ جلانے کی سائنس نے جنم لیا۔ دیا سلائی کی ایجاد سے پہلے تک چقماق پتھر ہی آگ کی ٹیکنالوجی تھی۔
وقت کے بدلتے مزاج اور ماضی کے طریقہ ہائے واردات
حضور والا اگر صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے کچھ سیکھنے پر تیار ہیں تو سب سے پہلے یہ جانکاری ضروری ہے کہ وقت اور حالات بہت بدل چکے ہیں۔ سرمایہ دارانہ استحصال نے عوام کے لیے وہ حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ انہوں نے اب مرنا ہی ہے۔ یا تو وہ بھوک اور افلاس کے ہاتھوں مریں یا پھر اپنے حق کی خاطر لڑتے ہوئے مریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے حالات میں عوام ہمیشہ دوسرے آپشن کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ سربکف ہو چکے ہیں۔ مسئلہ آپ کا اور آپ کی حکومت کا ہے کہ آپ نے انھیں روٹیاں دینی ہیں یا گولیاں۔ آپ نے عوام کو دہائیوں سے غصب بنیادی حقوق دینے ہیں یا ریاستی تشدد۔ دونوں آپشن آپ کے لیے کھلے ہیں،لیکن یہ طے شدہ ہے کہ آخری تجزیے میں ماضی کے اوزار عصر حاضر سے ہم آہنگ نہ ہیں۔لہٰذا ناکامی ان کا مقدر ہے۔