سماجی مسائل

ایسی تیسی ماحولیات کی: صاحب کا آرڈر لو

فاروق سلہریا

چند روز قبل، میں دوستوں کے ہمراہ بحریہ لاہور میں ’سویٹ کریم‘ نامی ایک آوٹ لیٹ(outlet) پر آئس کریم کھانے رک گیا۔ یہ ایک چھوٹا سے آوٹ لیٹ ہے۔ بیٹھنے کے لئے کوئی جگہ نہیں،حتیٰ کہ کوئی بنچ تک نہیں۔ غالباَ اسے یہ سوچ کر کھولا گیا ہے کہ لوگ اپنی کار میں آئیں گے،کار میں ہی انہیں آئس کریم پیش کر دی جائے گی۔

لگ بھگ دس نوجوان آرڈر لینے اور آئس کریم کار تک پہنچانے کے لئے موجود تھے۔ کافی بھیڑ بھی جمع تھی مگر کیش کاونٹر پر نہیں۔ آرڈر دینے کے لئے میں واحد شخص کیش کاونٹر پر موجود تھا۔

باقی لوگ گاڑی کا ہارن بجاتے، ایک مزدور بھاگا بھاگا جاتا،آرڈر وصول کرتا اور آئس کریم گاڑی تک پہنچا دیتا۔اگر کسی بات پر شکایت ہوتی تو پھر زور زور سے ہارن بجایا جاتا،کوئی مزدور بھاگم بھاگ جاتا اور صاحب،بیوی اور بچوں کی شکایت سنتا۔شائد شکایت رفع کرنے کی بھی کوشش کرتا۔ اس کے بعد، بل ادا کرنے کے لئے پھر سے ہارن بجایا جاتا۔

انسان کسی آئس کریم کے آوٹ لیٹ پر سکون کے چند لمحے گزارنے جاتا ہے۔ ہارن شور پر مبنی آلودگی کی ایک شرمناک ترین شکل ہے۔ ہارن ایمرجنسی میں بجانے کے لئے ہوتا ہے۔ پاکستان ہارن طاقت اور سٹیٹس کے اظہار کے لئے ہے۔ اس قدر ہارن بجائے جا رہے تھے کہ یہ آئس کریم کا آوٹ لیٹ کم اور ٹریفک جام والا چوک زیادہ لگ رہا تھا۔

بحریہ میں مزدور کسان تو رہتے نہیں۔گاڑیوں پر خاندان سمیت آئس کریم کھانے کے لئے اس آوٹ لیٹ پر جو لوگ آئے تھے، متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ کالج یونیورسٹی کی شکل بھی دیکھی ہو گی۔ نجی گفتگو میں یہ دعویٰ بھی کرتے ہوں گے کہ مغرب نے سب کچھ ہم سے سیکھا ہے۔

بار بار ہارن بجا کر آئس کریم منگواتے ہوئے صاحب لوگوں بارے میں سوچ رہا تھا کہ کاش مغرب کو اس قدر سکھانے کے بعد،آپ نے بھی کچھ مغرب سے سیکھ لیا ہوتا!

اور نہیں تو کم از کم اتنی تمیز سیکھ لی ہوتی کہ آیس کریم کا آرڈر دینے کے لئے ہارن بجانے کی بجائے کیش کاونٹر پر بھی جایا جا سکتا ہے۔ ہم کب آپ سے یہ فرمائش کر رہے ہیں کہ ہالینڈ کے وزیر اعظم کی طرح سائیکل چلائیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔