فن و ثقافت

سندھ نامہ (دوسرا حصہ): روپلو کوہلی، کارونجھر، مزاحمت

فاروق سلہریا

پہلی قسط

7 اپریل کو دیر سے ننگر پارکر پہنچے۔ ہمارے قیام و طعام کا بندوبست روپلو کوہلی گیسٹ ہاوس میں تھا۔ حال ہی میں تعمیر ہونے والے اس خوبصورت گیسٹ ہاوس کو روپلو کوہلی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔

روپلو کوہلی بارے ویر جی کوہلی نے سندھی زبان میں ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا جا رہا ہے۔ روپلو کوہلی بارے ہمیں سندھ یونیورسٹی سے وابستہ ایک ایم فل سکالر تولا رام نے ابتدائی معلومات فراہم کیں۔

میں نے اس سے قبل، روپلو کوہلی بارے کبھی نہیں سنا تھا۔ایسے کرداوروں بارے سکول کی کتابوں میں پڑھایا جانا چاہئے مگر ان کے نام سے جانکاری کے لئے بھی دو ہزار میل کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ روپلو کوہلی نے انگریز سامراج کے خلاف،تھر پارکر کے خطے میں بارہ سال سے بھی زیادہ عرصہ فوجی مزاحمت کی قیادت کی۔ ہوا یوں تھا کہ حیدر آباد اور خیرپور میں تو فوجی مزاحمت پر انگریز سامراج نے جلد ہی قابو پا لیا لیکن تھر پارکر نے کئی سال مزاحمت کی۔ آخر کار روپلو کوہلی کو گرفتار کر لیا گیا۔انہیں پھانسی دی گئی۔ فخرکی بات ہے کہ کلونیل ازم کے خلاف مزاحمت کرنے والے اس مقامی ہیرو کے نام پر ایک گیسٹ ہاوس قائم کیا گیا ہے۔

گیسٹ ہاوس کے قیام کے دوران مجھے بار بار بھگت سنگھ چوک کا خیال آیا۔ لاہور میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک ڈپٹی کمشنر نے شادمان چوک کا نام بدل کر بھگت سنگھ چوک رکھ دیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی۔ بائیں بازو کے کارکن ہر سال،مختصر تعداد میں سہی، 23 مارچ کو یہاں جمع ہوتے ہیں اور بھگت سنگھ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

چوک کو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کرنے کے خلاف مذہبی جنونیوں نے مہم شروع کر دی۔ نام بدلنے کا نوٹیفیکیشن واپس ہو گیا۔

صبح آنکھ کھلتے ہی کارونجھر پہاڑیوں کا رخ کیا گیا۔ فطرت کا شاہکار،ان پہاڑیوں کو دیکھ کر انسان حیرت سے دم بخود رہ جاتا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ ہر پتھر آرٹ کا ایک نمونہ ہے جسے فطرت نے تراش کر یہ ثابت کیا ہے کہ فطرت ہی سب سے بڑی مائیکل انجیلو ہے۔ اسی پہاڑی سلسلے میں روپلو کوہلی نے پناہ لے رکھی تھی۔ ایک دن جاسوسی کے نتیجے میں وہ کنوئیں سے پانی بھرتا ہوا گرفتار ہو گیا۔

کارونجھر میں ہماری منزل ایک ہندو مندر تھا۔ اس سیر کی میزبانی خلیل کمہار کر رہے تھے جو گاڑی بھی چلا رہے تھے اور کارونجھر بارے معلومات بھی فراہم کر رہے تھے۔

خلیل کمہار شاعر بھی ہیں۔ کارونجھر کی پہاڑیوں بارے ان کا ایک گیت سندھ کے معروف گلوکار رجب فقیر نے گایا ہے (لنک

یہ گیت کارونجھر کو سرمایہ دارانہ تباہی سے بچانے کے لئے جاری موجودہ تحریک کا حصہ ہے۔ کارونجھر محض پہاڑیوں کا نام نہیں ہے۔ اس خطے کی معشیت،تاریخ اور ثقافت بھی اس پہاڑی سلسلے سے جڑی ہے۔

عرب ممالک میں کہا جاتا ہے کہ ان کی بدقسمتی جو صحرا کے نیچے تیل نکل آیا۔ اکیڈیمک زبان میں بعض سکالر اسے ریسورس کرس (resource curse) کا نام دیتے ہیں۔ تھر پارکر کی بھی بد قسمتی کہ یہاں کارونجھر ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ یہاں کے لوگوں کے لئے مقدس و محترم یا زراعت و معشیت کا ذریعہ ہے تو ملک کے سر مایہ داروں کے نزدیک محض گرینائٹ کا ایک ڈھیر۔ مجھے بتایا گیا کہ دنیا میں چند ہی پہاڑیاں ہیں جنہیں گرینائٹ کی پہاڑیاں کہا جا سکتا ہے۔ یہ پتھر انتہائی قیمتی ہے۔

ضیا آمریت کے دور میں کوہ نور نامی ایک سر مایہ دار کمپنی کو اجازت دی گئی کہ یہاں موجود پتھر کو ٹائل بنا کر بیچ دے۔ زبر دست مقامی مزاحمت کے بعد، یہ فیصلہ معطل ہو گیا۔ پھر مشرف دور میں کوشش ہوئی کہ کارونجھر کو تباہ کر دیا جائے تا کہ کچھ سر مایہ دار اپنی تجوریاں مزید بھر سکیں۔ مزاحمت کے بعد،یہ سلسلہ پھر سے رک گیا۔

پیپلز پارٹی کی گذشتہ صوبائی حکومت نے تیسری مرتبہ اشتہار جاری کیا جس میں ان پہاڑیوں کی مائننگ کے لئے ٹھیکے مانگے گئے۔ مجھے ایک مقامی رہائشی نے بتایا”اس اشتہار کے بعد آصف زرداری کو سوشل میڈیا پر اس قدر تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ چوبیس گھنٹے میں نوٹس واپس لے لیا گیا“۔

سندھ ہائی کورٹ بھی کارنجھر کی تباہی کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے۔

ان پہاڑیوں میں گھومتے ہوئے مجھے خلیل کمہار نے ایک دلچسپ سوال پوچھا”کیا تھر پارکر سے باہر ایسی کوئی مزاحمتی تحریک ہے جس کا مقصد ایک ثقافتی لیگیسی کو بچانا ہے“؟

یقین کیجئے پورے ملک میں کم،از کم مجھے ایسی کوئی مزاحمت یاد نہیں آئی۔

دو دن ان پہاڑیوں میں گھومتے رہے۔ کہیں مندر تو کہیں بدھ ٹمپل اور صدیوں پرانی مسجد۔ جا بجا ایک سے بڑھ کر ایک منظر اور ہر موڑ پر نوادرات۔ایک شام سندھ کے معروف گلوکار سیف سمیجو سے بھی ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے تھر پارکر میں چھٹیاں گزارنے کے لئے ایک گھر بنا لیا ہے۔ وہ کارونجھر کو بچانے کے لئے جاری مزاحمت کے زبردست حامی ہیں۔

اگلی شام،پاس گاوں میں ایک اجلاس تھا جس کا مقصد کارونجھر کو بچانے کے لئے جدوجہد جاری رکھنے کے طریقہ کار پر بات چیت کرنا اور حکمت عملی پر بحث تھی۔ گاوں میں بجلی تو نہ تھی لیکن شعور کی روشنی سے پورا گاوں منور تھا۔ کچھ سال پہلے جب پہاڑیوں پر مقامی لوگوں کا داخلہ منع ہو گیا تھا تو اس گاوں کے ہر بچے،عورت اور مرد نے جلوس نکال کر پہاڑی پر جانے کا فیصلہ کیا۔ دیگر دیہاتوں سے بھی لوگ آئے۔ یوں پہاڑیوں پر مقیم سپاہی وہاں سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔

اس گاوں میں مزاحمت کی قیادت ایک سکول ٹیچر کے ہاتھ میں ہے۔

تھر پارکر قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ ہندو شہری آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ ہر مذہب کے ماننے والے امن اور بھائی چارے کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ترقی کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت دو درجن سے زائد نو تعمیر شدہ چھوٹے ڈیم ہیں۔یہاں برسات کے موسم میں بارش بھی خوب ہوتی ہے اور ندیاں نالے بہنے لگتے ہیں۔ اکثر لوگ مجھے یہی کہہ رہے تھے”آپ برسات کے دنوں میں ضرور آئیں۔ تھر پارکر کا حسن ساون میں اپنے جوبن پر ہوتا ہے“۔

ڈیموں کی مدد سے اب اس قدر پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے کہ سال بھر زرعی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ یہاں زراعت بالکل اورگینک ہے۔ نہ کوئی کھاد نہ کیڑے مار دوائیاں۔ یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی سبزی کھاو،اور ہی مزا تھا۔

یہاں چین نے کوئلے سے چلنا والا ایک بہت بڑا پاور ہاوس بھی تعمیر کیا ہے۔ معلوم نہیں مقامی لوگوں کو اس سے کتنی نوکریاں ملیں یا کتنے گاوں تک بجلی پہنچی،البتہ اس خطے کا ماحول اس کے نتیجے میں تباہ ہو جائے گا۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس پاور ہاوس کے بننے کے بعد،آسمانی بجلی گرنے کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ میں ایسے معاملات بارے کوئی علم نہیں رکھتا۔ممکن ہے پاور ہاوس اور آسمانی بجلی کے مابین کوئی تعلق ہو۔ممکن ہے نہ ہو۔ ایک بات بہر حال وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ دنیا بھر سے کوئلے کی مدد سے بجلی بنانے کا سلسلہ روکا جا رہا ہے،ہمارے ہاں یہ سلسلہ شروع ہے۔

کارونجھر کی سیر کراتے کراتے خلیل کمہار ہمیں ایک ایسے مندر بھی لے گئے جہاں سینکڑوں مور اور ہزاروں پرندے ہیں۔ مندر کے نگران نے ہمیں بتایا کہ لگ بھگ بیس ہزار پرندے وہاں آتے ہیں جبکہ پانچ سو مور ہیں جنہیں روز منوں کے حساب سے دانہ دیا جاتا ہے۔

تھر پارکر کی دو یادیں بہت خوبصورت ہیں۔ ایک وہاں شام کو چلنے والی ہوا۔ دوسرا، وہاں کا ستاروں بھر ا آسمان۔ان یادوں کے ساتھ حیدر آباد واپسی کا رخ کیا۔ راستے میں عمر کوٹ میں ایک دھرم شالہ بھی گئے۔ اگلی منزل تھا سکھر۔

ذیل میں ملاحظہ کیجئے،تھر پارکت کی کچھ تصویری جھلکیاں۔۔۔

روپلو کوہلی گیسٹ ہاوس میں لگا ہوا روپلو کوہلی کا پورٹریٹ:

روپلو کوہلی گیسٹ ہاوس:

 

ایک بدھ ٹمپل:

ایک پرانی مسجد:

کارونجھر پہاڑی میں واقع ایک مندر:

 

کارونجھر پہاڑیوں کا ایک منظر:

ایک گاوں کی کچھ تصویری جھلکیاں:

نوٹ: میں فرخ سہیل گوئندی صاحب اور جسٹس ریٹائرڈ انوار الحق صاحب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے، گذشتہ قسط کے بعد، مجھے یاد دلایا کہ مرزا ابراہیم سے جھرلو کے ذریعے الیکشن جیتنے والے مسلم لیگی رہنما کا نام احمد سعید کرمانی تھا۔

(جاری ہے)

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔