راولا کوٹ(نامہ نگار)کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات کیلئے وفاقی سطح پر قائم کئے گئے ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ اوپریشن سنٹر (این سی او سی) نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشات کے پیش نظر پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات کو 2 ماہ تک ملتوی کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ این سی او سی کی اس تجویز کو وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے نہ صرف مسترد کیا ہے۔ فاروق حیدر نے تحریک انصاف پر الزام بھی عائد کیا ہے کہ وہ منتخب ہو کر پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچائیگی۔
2روز قبل 28مئی کو این سی او سی کی جانب یہ خط چیف الیکشن کمشنر کے نام لکھا گیا تھا۔ خط میں کہا گیا تھا کہ فیڈریشن کی تمام یونٹس کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے تیسری لہر کو پاکستان میں قابو کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ این سی او سی کی موجودہ پالیسی ملک بھر میں وسیع بنیادوں پر ویکسینیشن کا عمل مکمل کرنے کی ہے۔’اے جے کے‘(پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر) میں تقریباً پونے دو لاکھ لوگوں کو ویکسین لگائی جا سکی ہے۔ ستمبر تک ایک ملین آبادی کو ویکسین لگائی جانی ممکن ہے۔ الیکشن میں بڑے سماجی اکٹھ ہوتے ہیں، سیاسی اجتماع ہوتے ہیں اور بڑے پیمانے پر انفکیشن کے خدشات پیدا ہوجاتے ہیں۔ ماضی قریب میں بھی ’اے جے کے‘ میں بہت زیادہ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں اور جولائی میں انتخابات کے انعقاد سے بڑے پیمانے پر وائرس پھیل سکتا ہے۔ لہٰذا موجودہ حالات کے پیش نظر انتخابات کو دو ماہ کیلئے ملتوی کیا جائے تاکہ اس وقت تک ویکسین کا عمل ایک خاطر خواہ حد تک مکمل کیا جا سکے۔
این سی او سی کے خط اور عبوری آئین کی کاپی ہاتھ میں رکھتے وزیراعظم فاروق حیدر نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے این سی او سی کے فیصلے کو مسترد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”آئین میں الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے، الیکشن کمیشن آئین سے ہٹ کر کسی ادارے کی رائے نہیں مان سکتا نہ اس کے پاس ایسا اختیار ہے۔ آئین میں این سی او سی نام کا کوئی ادارہ بھی نہیں ہے۔ آئین ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے سے قبل 60روز کے اندر انتخابات کا انعقاد کیا جائے اور 14روز کے اندر نتائج کا اعلان کیا جائے۔الیکشن کمیشن اسی کا پابند ہے۔“
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ”آئین کوکوئی تبدیل نہیں کر سکتا، آئین کو صرف اسمبلی ہی تبدیل کر سکتی ہے، الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت فیصلے کرنے ہونگے اور الیکشن وقت پر منعقد کئے جائیں گے۔“
وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ”عمران خان کی حکومت یہ چاہتی ہے کہ الیکشن ملتوی ہو جائیں اور انہیں توڑ پھوڑ کر وقت ملے اور وہ یہاں حکومت قائم کر کے اس خطے کو پاکستان کا صوبہ بنانے کا راستہ ہموار کر سکیں۔ یہ صوبہ نہیں بن سکتا، یہ کچھ بھی کر لیں، آئین پاکستان میں کشمیر اور پاکستان کے رشتے کی تفصیلی وضاحت موجود ہے لیکن آئین کو کون پوچھتا ہے۔۔؟“
ایک طرف وزیراعظم فاروق حیدر نے انتخابات کو ملتوی کرنے کیلئے اس آئین میں ترمیم کو ناگزیر قرار دیا اورکسی بھی غیر آئینی اقدام کو ناممکن قرار دیا، جو پاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے ہی تیار کر کے ممبران قانون ساز اسمبلی سے منظور کروارکھا ہے، ماضی میں اسے ’ایکٹ 1974ء‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، تاہم اب اس ’ایکٹ‘ کو وفاقی حکومت ہی کی طرف سے تیار کردہ ڈرافٹ کے تحت ’عبوری آئین‘ قرار دیا گیا ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم فاروق حیدر نے آئین پاکستان کے حوالے سے بھی یہ کہا ہے کہ ’آئین کو کون پوچھتا ہے‘۔ وزیراعظم کے اپنے ہی بیان میں جہاں آئین پاکستان کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کی وضاحت ہو رہی ہے، وہیں آئین پاکستان سے متعلق اس طرح کے ریمارکس کے بعد یہ بات اور بھی واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام ایک علاقے میں وفاقی حکومت ہی کا نافذ کردہ آئین کس قدر سپریم ہو سکتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں آئین، قانون، انصاف وغیرہ حکمران طبقات کے مفادات کے تحفظ کیلئے ہی بنائے جاتے ہیں اور انہی مفادات کے تحفظ کیلئے انہیں پیروں تلے روند بھی دیا جاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں جہاں سرمایہ دارانہ نظام کلاسیکل بنیادوں پر استوار نہیں ہو سکا، وہاں آئین اور آئینی حقوق محض دکھاوے سے زیادہ کوئی حیثیت ثابت نہیں کر سکے۔ ایسے ہی پسماندہ ممالک کی نوآبادیوں میں مقامی حکمران اشرافیہ بھی آزادانہ طور پر کوئی آئین اور قانون بنانے کی حیثیت نہیں رکھتی، وہ بھی محض نوآبادیاتی اقتدار میں حصہ لینے جیساکردار ہی ادا کر سکتی ہے۔
تاہم اس طرح کی بیان بازی کسی حد تک حکمران طبقات اور طاقتور حلقوں کو بلیک میل کرنے اور کسی حد تک سماج میں مزاحمت عناصر کی حمایت جیتنے کیلئے ماضی میں بھی کی جاتی رہی ہے۔ فاروق حیدر بھی اسی طرح کی بیان بازی کے ذریعے وہ جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، بالخصوص صوبہ بنائے جانے کی بات کرنے اور وفاق پاکستان کو آنکھیں دکھانے جیسے اقدامات اس خطے میں مسئلہ کشمیر کے ساتھ جڑے جذبات کو اپنے حق میں استعمال کرنیکی کوشش کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ جموں کشمیر کا مسئلہ محض شناخت کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ قومی، معاشی اور سیاسی آزادی کا مسئلہ ہے،جوسرمایہ داری اور نوآبادیاتی کنٹرول کے ذریعے سے نہیں بلکہ انقلابی جدوجہد کے ذریعے اس نظام کو تبدیل کرنے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔