خبریں/تبصرے

12.5 ملین مزید پاکستانی خط غربت سے نیچے، مجموعی تناسب 39.4 فیصد تک پہنچ گیا

لاہور (جدوجہد رپورٹ) ورلڈ بینک نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران خراب معاشی حالات کی وجہ سے مزید 12.5 ملین افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کا تناسب بڑھ کر 39.4 فیصد ہو گیا ہے۔ ورلڈ بینک نے مالیاتی چیلنجز کا سامنا کرنے والے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ مالی استحکام کیلئے فوری اقدامات کرے۔

’ٹربیون‘ کے مطابق ورلڈ بینک نے پالیسی مسودے میں لکھا ہے کہ پاکستان میں غربت ایک ہی سال کے اندر 34.2 فیصد سے بڑھ کر 39.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جس کے باعث مزید 12.5 ملین افراد خط غربت سے نیچے آگئے۔ خط غربت کی حد 3.65 ڈالر یومیہ آمدن مقرر کی گئی ہے۔ یعنی پاکستان میں 39.4 فیصد آبادی 3.65 ڈالر یومیہ سے کم پر گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔

رپورٹ کے مطابق تقریباً 95 ملین پاکستانی اس وقت غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ورلڈ بینک کے سرکردہ ماہر معاشیات طوبیاس حق نے تبصرہ یا کہ ”پاکستان کا معاشی ماڈل اب غربت کو کم نہیں کر رہا ہے اور معیار زندگی ہم مرتبہ ممالک سے پیچھے ہو گیا ہے۔“

ورلڈ بینک نے زور دیا ہے کہ غیر ضروری اخراجات کو کم کرتے ہوئے زرعات اور رئیل اسٹیٹ جیسے اہم شعبوں پر ٹیکس لگا کر مالیاتی مسائل حل کئے جائیں۔ اس کوشش کا مقصد معیشت کے 7 فیصد سے زیادہ مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے معاشی استحکام حاصل کرنا ہے۔

غربت کی سطح میں مسلسل اضافے کا حوالہ دیتے ہوئے عالمی بینک نے آنے والی حکومت کیلئے اصلاحات کی ضرورت والے شعبوں کی نشاندہی کی۔ ان شعبوں میں کم انسانی ترقی، غیرپائیدار مالیاتی صورتحال، نجی شعبے کی حد سے زیادہ ریگولیشن اور زراعت اور توانائی کے شعبوں میں چیلنجز شامل ہیں۔

مجوزہ اقدامات میں ٹیکس سے جی ڈی پی کے تناسب میں فوری طور پر 5 فیصد اضافہ اور جی ڈی پی کے تقریباً 2.7 فیصد اخراجات میں کمی شامل ہے۔

حکومتی محصولات کو بڑھانے کیلئے عالمی بینک نے متعدد سفارشات کی ہیں۔ ان سفارشات میں ٹیکس چھوٹ واپس لینا، رئیل اسٹیٹ اور زراعت کے شعبوں پر ٹیکس کا بوجھ بڑھانا شامل ہے۔ اہم پالیسی تبدیلیوں پر بھی زور دیا ہے۔

ورلڈ بینک نے نوٹ کیا کہ پاکستان جی ڈی پی کے 22 فیصد کے برابر ٹیکس جمع کروانے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن موجودہ تناسب صرف 10.2 فیصد ہے۔ جی ڈی پی کے دو فیصد کے برابر ٹیکس پیدا کرنے کیلئے ٹیکس چھوٹ کو کم کرنے، زمین اور جائیداد پر ٹیکس بڑھانے اور زرعی شعبے سے جی ڈی پی کا مزید ایک فیصد پیدا کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔

ورلڈ بینک نے لین دین اور خاص طور پر اثاثوں کیلئے لین دین سے متعلق کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز کے لازمی استعمال کی تجویز پیش کی ہے۔ توانائی اور اجناس کی سبسڈی کو کم کرنے، ایک ہی ٹریژری اکاؤٹ کو لاگو کرنے اور اخراجات میں جی ڈی پی کا تقریباً ایک فیصڈ بچانے کیلئے عارضی طور پر کفایت شعاری کے اقدامات نافذ کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔

2022ء میں حکومت کے کمرشل بینکوں میں 2 ہزار ارب روپے سے زائد کے ذخائر تھے اور ان بے کار فنڈز کو استعمال کرنے کی بجائے خودمختار قرضے لینے کی وجہ سے حکومت کو 424 ارب روپے سود کی ادائیگی کرنا پڑی ہے۔

درمیانی مدت کیلئے ورلڈ بینک نے وفاقی ترقیاتی اور صوبائی منصوبوں پر موجودہ اخراجات کو کم کرنے، خسارے میں جانے والے اداروں پر اخراجات کم کرنے اور تقریباً 1400 ارب روپے کی بچت کیلئے ترقیاتی اخراجات کے معیار کو بڑھانے کا بھی مشورہ دیا ہے۔ ان مختصر درمیانی مدت کی بچتوں کا مجموعی اثر جی ڈی پی کا 2.7 فیصد ہو گا۔

ورلڈ بینک نے پاکستان کی جانب سے زرعی شعبے کو دی جانے والی بھاری سبسڈی کو بھی پیداواری صلاحیت کے کم ہونے کی وجہ قرار دیا ہے۔

ورلڈ بینک نے صوبائی ڈومین میں وزارتوں کو بند کر کے 328 ارب روپے کی ممکنہ بچت کی تجویز پیش کی۔ مزید برآں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو صوبوں کے حوالے کر کے 70 ارب روپے اور صوبوں کے ساتھ بی آئی ایس پی کی لاگت میں شراکت کے ذریعے سے مزید 217 ارب روپے کی بچت کی تجویز پیش کی ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts