لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان میں صحت، تعلیم اور روزگار کیلئے سرمایہ کاری نہ ہونے اور سرمایہ داروں کے مفادات کی ترجمانی کرنے والی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے 22 ملین سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں، نصف آبادی کی صحت کی سہولیات تک رسائی ہی نہیں ہے، جبکہ بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے ایک مطالعے کے مطابق پاکستان دنیا میں سب سے کم تعلیمی بجٹ رکھنے والا ملک ہے۔ پاکستان کی جی ڈی پی کا صرف 2.2 فیصد تعلیم کیلئے مختص کیا جاتا ہے۔ تعلیمی شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 22 ملین سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
پاکستان میں صحت کے نظام میں اس سے بھی کم سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان صحت کے شعبہ کیلئے جی ڈی پی کا صرف 0.9 فیصد مختص کرتا ہے۔ آبادی کی ایک بڑی اکثریت صحت کی معیاری سہولیات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی۔
پاکستان بیورو آف شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں صرف 43 فیصد گھرانوں کو صحت کی بنیادی سہولیات تک رسائی حاصل ہے، جبکہ شہری علاقوں میں یہ شرح 70 فیصد ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق وسائل پر اشرافیہ کا کنٹرول دولت کی غیر مساوی تقسیم کا باعث بنا ہے۔ امیر ترین 10 فیصد آبادی کل ملکی آمدن کا 34.8 فیصد رکھتی ہے، جبکہ غریب ترین 10 فیصد کے پاس صرف 2.2 فیصد ہے۔
عالمی بینک کے مطابق اشرافیہ کے چند افراد کے ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کی وجہ سے روزگار کے مواقع محدود ہو رہے ہیں۔ زیادہ تر کاروبار اور صنعتیں اشرافیہ کی ملکیت اور کنٹرول میں ہیں، جو بیروزگاری کی بلند شرح اور آبادی کی اکثریت کیلئے معاشی مواقع کی کمی کا باعث بنتا ہے۔