تاریخ

امریکی سامراج کی تاریخ کا خلاصہ

طارق علی
 
(طارق علی کی کتاب‘بنیاد پرستیوں کا تصادم’ 2023میں شائع ہوئی۔ اس کا ترجمہ  درجن بھر زبانوں میں ہوا۔ مسلم دنیا اور سامراج بارے اس کتاب کا اردو ترجمہ مدیر جدوجہد فاروق سلہریا نے کیا۔ اس کتاب کا ایک باب قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔)
 
متحارب نظریات اور سماجی نظاموں سے بھری دنیا میں کسی ایک یا دونوں کے متناسب عیوب پر مباحثہ معمول کی بات تھی۔ سرمایہ داری ، سوشلزم، کمیونزم، سامراج مخالفت اور کمیونزم مخالفت یا تو کسی تسلیم شدہ حقیقت کی مخالفت کا نام تھا یا موافقت کا۔ اس مبارزے کا عالمی سیاست پر بھی غلبہ تھا اور دانشورانہ مباحث پر بھی، نتیجہ یہ نکلا کہ آج جس روٹین ڈس انفارمیشن یا عدم معلومات کا غلبہ ہے اسے کسی ادارے کی شکل دینا ممکن نہیں رہا: جتنا کم آپ کی معلومات اتنا آسان گڑبڑ کرنا۔ ایک نظرئیے کی جیت اور دوسرے کے مکمل انہدام کے باعث بحث اور اختلاف کی گنجائش ڈرامائی طور پر کم ہو کر رہ گئی ہے۔
امریکہ کی نظریاتی برتری، جس کی پشت پر اس کی فوجی بڑھوتری کا بھی ہاتھ ہے، اس قدر فیصل شدہ ہے کہ بہت سے لوگ جو کبھی اس طاقت کے طریقہ استعمال پر تنقید کرتے تھے آج ان کا بھی یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ منمناتے ہوئے اور فرسودہ قصیدے پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ حادثاتی یا معمولی واقعات سے وسیع تعمیمات اخذ کر لی جاتی ہیں جبکہ بہت سے معروف امریکی اور معاون یورپی صحافیوں نے سامراجی مہا حب الوطنی کی خاطر تعصب سے پاک مشاہدے اور آزادانہ سوچ کا کام ترک کر دیا ہے۔ امریکی پنڈت ہمیشہ کسی ایسے ثبوت کی تلاش میں ہوتے ہیں جس سے ثابت کیا جا سکے کہ بیرون ملک حالات امریکہ سے زیادہ برے ہیں اور ایمپائر کی سرحدی چوکیوں…… لندن، سراجیو، ریاض، قاہرہ، لاہور، سؤل، ٹوکیو…… سے خبریں بھیجنے والے بھی یہی راگ الاپ رہے ہوتے ہیں۔ گور ویڈال، سوزن سنٹاگ اور نوم چامسکی ایسے بہت سے امریکی جو اس شاؤنزم سے برات کا اظہار کرتے ہیں یا پیروی سے منکر ہوتے ہیں اور ایمپائر کی خامیاں اور عیب آشکار کرتے ہیں، ان پر مہا محب وطن دشنام کے تیر برساتے ہیں۔
اس نظریاتی ماحول میں امریکی خارجہ پالیسی پر ہر تنقید کو ‘اینٹی امریکن ازم’ کا نام دیا جاتا ہے بلکہ حال ہی میں تو ‘اوکسیڈینٹل ازم’ کی اصطلاح گھڑی گئی ہے۔ یہ دونوں اصطلاحیں امریکیوں سے اندھی نفرت اور امریکی طرز زندگی، سیاست اور ثقافت کے سیکولر پہلوؤں سے اندھی نفرت کے اظہار کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ بہت سے مذہبی بنیاد پرستوں کی سوچ یہی ہے قطع نظر اس بات کے کہ ان کا مذہب کیا ہے۔ امریکہ کے بنیاد پرست ٹی وی ایونجل اسٹوں بارے اور کیا کہا جا سکتا ہے جن کا گیارہ ستمبر بارے کہنا تھا کہ یہ ہم جنس پرستی اور اسقاطِ حمل ایسے گناہوں کی آزادی پر ‘خدا کا قہر’ نازل ہوا ہے؟ نسبتاً معتدل نظریات رکھنے والے مبلغ بلی گراہم کی اُلجھن بارے آخر کیا وضاحت پیش کی جا سکتی ہے؟ مرحومین کے لئے نیویارک میں ہونے والی دعائیہ تقریب کے موقع پر صدر بش کی معیت میں معروف اور معروف ترین شخصیات کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ریورنڈ گراہم نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد سے انہیں خطوط اور سوالات کی بھرمار کا سامنا ہے۔ لوگ پوچھ رہے تھے کہ ‘خدا نے انہیں امریکہ پر حملہ کیوں کرنے دیا۔ انہوں نے اپنی بوکھلاہٹ کا اظہار کیا۔’ گراہم نے اس اجتماع کو بتایا کہ انہیں کچھ معلوم نہیں۔ (75)
مذہبی بنیاد پرستی نے حملوں کے لیے اگر امریکہ کا چناؤ کیا ہے تو اس کی کوئی مخصوص وجہ نہیں سوائے اجارہ دارانہ امریکی طاقت کے۔ وہ دیگر معاشروں کو بھی اسی سخت گیر کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ اسلام پرستوں کی نظر میں موجودہ مسلم ریاستوں کا کوئی حکمران ‘سچا’ مسلمان نہیں۔ ایک بھی نہیں۔ اسی لئے تو موجودہ حکومتوں کا خاتمہ کر کے ان کی جگہ مقدس امارات قائم کرنے کی جدوجہد ہو رہی ہے۔ کچھ رجعت پسند یہودی اسرائیل کے وجود کو ہی شرمناک قرار دیتے ہیں۔ وہ جو اسرائیلی آبادکار تحریک سے تعلق رکھتے ہیں، وہ آیتوں کا حوالہ دیتے ہیں اور اس اٹل عقیدے سے تقویت حاصل کرتے ہیں کہ سرزمین فلسطین پر پھر قبضہ مسیحا کی جلد واپسی کا باعث بنے گا۔ ہندو احیاء پرست اس کارن اپنے وزیراعظم سے مطمئن نہیں کہ ایک تو وہ بھارت کے تیرہ کروڑ مسلمانوں سے ‘نرمی’ کا مظاہرہ کر رہا ہے دوسرا وہ ‘غیر ملکیوں’ کے خلاف ہندو ثقافت کی مکمل فتح کے لئے ہندواتا کو یہ اجازت نہیں دے رہا کہ وہ بھارت کی تمام مساجد گرا کر ان کی جگہ مندر تعمیر کر دے۔ امریکہ کے بارن اگین عیسائی فرقے کافی سے زیادہ مطمئن ہیں کہ ان ایک بھائی بند وائٹ ہاؤس کا مکین ہے۔ وہ امریکہ کی بے حرمتی کرنے والے بدعنوان اور عیسائیت دشمن قوانین پر گریہ و زاری کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جو اسقاط حمل کرنے والے شفاخانوں پر بمباری اور ان میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو قتل کرنے کے حامی ہیں۔
ہاں مگر ایمپائر کے سیکولر پادری جب ‘اینٹی امریکن ازم’ اور ‘اوکیسڈینٹل ازم’ کی کھال کھینچتے ہیں تو وہ محض مذہبی تنگ نظری کا حوالہ نہیں دے رہے ہوتے۔(76) وہ ان لبرل نقادوں اور بائیں بازو والوں کو بھی لپیٹ رہے ہوتے ہیں جو سویت یونین کے انہدام سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرتے کہ وائٹ ہاؤس کے قیصر سامنے سرتسلیم خم کر دیا جائے۔ امریکہ کے ٹھیکیداروں کی نظر میں ہر وہ تنقید بے معنی ہے جو حب الوطنی کے دائرے سے خارج ہو۔ اس کے بعد تنقید کا رخ اندورنِ ملک موڑ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شخصیت کے گرد یوں ہالہ کھینچا ہوتا ہے گویا وہ برسراقتدار سیاستدانوں کے وفادار مگر بے لوث مشیر ہیں: اگر ان کے بے لوث مشورے پر عمل کر لیا جائے تو دنیا کے سارے معاملات ٹھیک ہو جائیں۔ اس انداز میں امریکہ کا ٹھیکیدار بننے کے لئے راست بازی سے جو سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے اس کے نتیجے میں دوست نقاد ہمیشہ کے لیے حکومت کا ایسا غلام بن جاتا ہے جو ہر وقت حکومت کو خوش کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ وہ ایسا عذر خواہ بن کر رہ جاتی/ جاتا ہے جسے یہ توقع ہوتی ہے کہ ایمپائر اس کے کہنے پر سچ مچ عمل کرے گی۔ ہائے مگر، ایمپائر جس کی آج کل بنیادی ترغیب معاشی مفادات ہیں، عین ممکن ہے ان لوگوں کو مایوس کرے جو نئے نئے اس کے نظریات پر ایمان لائے ہیں۔ جب ان کی توقعات پوری نہیں ہوتیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے البتہ وہ یہ بات ماننے پر تیار نہیں ہوتے کہ ان کی توقعات محض سراب تھیں۔ انہیں سب سے زیادہ کوفت ہوتی ہے جب انہیں تاریخ کی سڑاند یاد دلائی جائے۔ یہ دلیل اکثر دہرائی جاتی ہے کہ آدمی کو امریکہ کاساتھ دینا چاہئے کہ ‘صرف اسی کا سکہ چل رہا ہے’ اور یہ کہ امریکہ ان کی نسبت زیادہ روشن خیال ہے جنہیں وہ تباہ کرنا چاہتا ہے۔
ہزاروں سال سے فتوحات اور ہجرتوں کی تاریخ کا آپس میں گہرا سمبندھ رہا ہے۔ بیشتر جدید دنیا ہجرت اور سامراج کی پیداوار ہے۔ اڑھائی صدیوں تک موجودہ امریکہ خود انحصاری پر مبنی دنیا تھی جو یورپی تہذیب کی باقیات سے پرورش پا رہی تھی اور فرض کے دھنی مہاجروں کا ایک گروہ اسکا ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔ پہلے مرحلے میں مذہبی بنیاد پرست، دوسرے مرحلے میں یورپ اندر جبر سے فرار ہونے والے سیاسی قیدی اور آخر میں وہ جو محض سونے کی تلاش میں آئے۔ یہ ایک طاقتور مرکب تھا مگر اس متاعِ امکانات سے اندرونی سامراج (مقامی لوگوں کا قتل عام) اور افریقی ساحلوں پر بزورِ شمشیر تجارت (غلامی) کے امتزاج کی صورت ہی نفع حاصل کیا جا سکتا تھا۔ یہ کہ نئے آنے والے تکنیکی اعتبار سے مقامی لوگوں کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ تھے اور قتل عام نئے آنے والوں کا ترجیحی طریقۂ کار تھا، ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے گو بیسویں صدی کے اواخر تک لبرل تاریخ دان اور ماہرینِ تعلیم اکثر اس حقیقت کو جھٹلاتے تھے، ان کی ترجیح یہی ہوتی تھی کہ ان کے آباؤ اجداد ‘باقرہ سرزمین’ پر آکر آباد ہوئے تھے۔ اکتوبر 1948ء میں ہاورڈ یونیورسٹی کے صدر کو نانٹ نیویارک ہیرالڈ ٹریبون فورم کو بتا رہے تھے: 
پہلی بات، دیگر قوموں کے برعکس اس قوم کا ارتقاء عسکری فتح کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست سے نہیں ہوا۔ نتیجتاً ہماری روایات اندر کوئی ایسا طبقہ اشرافیہ نہیں پایا جاتا جو فاتحین سے سلسلۂ نسب جوڑتا ہو اور حکومت جس کا پیدائشی حق ہو۔ اس کے برعکس ہم نے ایک ایسے دور میں اپنی برتری قائم کی جس میں ایک سریع الحرکت معاشرہ ایک متمول اور خالی براعظم پر پھیل گیا۔
کم گنجان، جی ہاں، مگر خالی؟ کس کے مطابق؟ کیا مقامیوں سے جنگیں غیر حقیقی تھیں؟ وہ ہوائی معر کے تھے؟ یا یوں تھا کہ پروٹسٹنٹ بنیاد پرستی نے مختلف مقامی قبائل کی مشترکہ ملکیت میں موجود زمین کی بڑے پیمانے پر چوری اور ‘مشرکین’ کے قتل عام کا اخلاقی جواز فراہم کیا تھا؟ جس زمین پر ہاورڈ یونیورسٹی قائم کی گئی وہ انڈین لوگوں سے ‘عسکری فتح’ کے ذریعے حاصل کی گئی تھی۔ شمالی امریکہ کی ازسرنو سرحدیں قائم کرنے کا عمل بہت طویل تھا جسے تاریخ دان اولیور لافارگ٭ نے انتہائی احتیاط سے اپنی کلاسیکل تحریرایز لانگ ایز دی گراس شیل گرو میں بڑی احتیاط سے پیش کیا ہے:
انڈین مرد، خواتین اور بچوں کے قتل عام کا دور رہوڈ اندر 1696ء میں ہونے والے سوامپ قتل عام سے شروع ہو کر ، ویمونگ، پینسلوینیا کے دوستانہ عیسائی انڈین لوگوں کے قتل عام سے ہوتا ہوا، جب جمہوریہ ہنوز ایام جوانی سے گزر رہی تھی، ایریزونا کے دوستانہ ایروائپاس اور کولوروڈو چینیز کے ونٹر کیمپ سے گزر کر 1870ء کے برس وونڈڈنی کے خوفناک منظر پر ختم ہوتا ہے۔
 
جنوبی امریکہ پر ہسپانوی قبضے دوران کیتھولک بنیاد پرستی نے بھی یہی کردار ادا کیا تھا گو کیتھولک والوں کی حکمت عملیاں زیادہ پہلودار تھیں۔ انہوں نے لوگوں کو غلام بنایا، قتل کیا اور بڑی تعداد میں مرنے کے لئے چھوڑ دیا مگر انہوں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو کیتھولک بھی بنایا۔ انڈین آبادی اگر وہاں بچی تو اسی کارن بچی۔ میکسیکو، بولیویا، پیرو اور ایکواڈور میں وہ اکثریتی آبادی کے طور پر موجود رہے۔ باقی جگہوں پر ہسپانوی نسب رکھنے والی میستیزو اشرافیہ کے ابھرنے سے مقامی لوگوں کی آبادی کم ہو کر رہ گئی۔ صرف ارجنٹینا ایک ایسا ملک تھا جہاں مقامی لوگوں کا مکمل صفایا ہوگیا۔ شمال میں اپنے پروٹسٹنٹ ہم منصب کی نسبت کیتھولک چرچ اپنی نئی عالمی فتوحات سے نپٹنے کے لئے زیادہ بہتر تیاری کئے ہوئے تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تو تھی کہ باہر کا رخ کرنے سے قبل کیتھولک مذہب نے اپنے گھر اندر خونی مشق کی تھی۔ جزیرہ نما ابیریا٭ میں ری کون کیسٹ ٭٭جنگیں، جنگوں کے بعد ہسپانوی مسلمانوں اور یہودیوں کا عوامی پیمانے پر اخراج اور بزور طاقت تبدیلی ٔ مذہب: یہ وہ مشق اور تیاری تھی جو جنوبی امریکا کے بنیاد پرست جنگجوؤں نے ہسپانیہ میں کی تھی۔
امریکی سامراجی سرنوشت کے ابتدائی نقوش تو انیسویں صدی میں ہی واضح ہونے لگے تھے، اول اول لاطینی امریکا کے حوالے سے، بعد ازاں بحرالکاہل میں فلپائن کی فتح اور جاپان میں دلچسپی کے ابتدائی اعلان کی صورت۔ امریکی سلطنت سازی پر اول اول تنقید گھر کے ایک ایسے بھیدی نے کی جس کے کردار پر امریکہ کے ٹھیکیدار بھی انگلی نہیں اٹھا سکتے۔ یہ تھے امریکی بحری دستوں کے میجر جنرل سمیڈلے بٹلر (1888-1940) جنہیں دو بار میڈل آف آنر ملا اور ڈگلس میک آرتھر کے الفاظ میں وہ ‘امریکی تاریخ کے عظیم ترین جرنیلوں میں سے تھے’۔ میک آرتھر کی ستائش کا عملی اظہار یہ تھا کہ اوکیناوا میں امریکی اڈے کو بٹلر کے نام منسوب کیا گیا۔ کیا بٹلر بھی وائسرائے جاپان اور جزیرہ نما کوریا کے محافظ سے اتنا ہی متاثر ہوئے ہوتے؟ ان کی تحریریں تو کچھ اور ہی کہتی ہیں۔ امریکی فوج سے سبک دوشی کے بعد جنرل بٹلر نے کچھ عرصہ اپنے فوجی ماضی پر غور و فکر کیا اور آخر اس نتیجے پر پہنچے: ‘فوجی شعبے کے دیگر تمام لوگوں کی طرح میری اپنی کوئی سوچ نہیں تھی تاآنکہ میں نے یہ نوکری چھوڑ دی۔ جب تک میں اپنے بڑوں کے احکامات کی پیروی کرتا رہا میری ذہنی صلاحیتیں زنگ آلود رہیں۔ فوج کی ملازمت میں سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے’۔
ان کی پہلی کتاب کا عنوان تھا ‘وار ازاے ریکٹ۔’ کتاب کا مدعا سیدھا سا تھا۔ وہ جارحانہ جنگوں کے حامی نہیں رہے تھے۔ وہ اپنے ملک کا دفاع کرنے کے لئے تو تیار تھے البتہ ‘سرمایہ داری کے لئے ٹھگ ’ کا کردار ادا کرنے پر ہرگز تیار نہ تھے۔ ‘جنگ محض ٹھگ باز گروہ کا نام ہے۔ میرے خیال سے ٹھگ باز گروہ کی تعریف یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت اسے جو سمجھتی ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ محض اندر کے ایک چھوٹے سے ٹولے کو اس گروہ کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ جنگ عوام کی قیمت پر محض چند لوگوں کی خاطر لڑی جاتی ہے’۔ 1933ء میں جنرل بٹلر نے تقریر کرتے ہوئے اپنے ‘امریکہ مخالف’ یا آکسیڈینٹل نواز نظریات کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا اور لاطینی امریکہ اندر امریکی سامراج کے کردار کو پیش کیا:
ٹھگ بازی کا کوئی ایسا داؤ نہیں جو فوجی گروہ کو معلوم نہ ہو۔ ان کے پاس ‘مخبر’ ہوتے ہیں جو دشمن کی نشاندہی کرتے ہیں، ‘بانکے’ ہوتے ہیں جو دشمن کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتے ہیں، ‘چالباز’ ہوتے ہیں جو منصوبے بناتے ہیں اور ان کا ‘سرغنہ’ :بین الاقوامی سرمایہ داری’
یہ بات عجیب دکھائی دے گی اگر میرے ایسا فوجی اس قسم کا موازنہ پیش کر رہاہو۔ میں سچ کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ میں اس ملک کی فوج کے میرین کارپس ایسے مستعد ترین دستے کے ساتھ تینتیس سال اور چار ماہ متحرک رہا ہوں۔ میں سیکنڈ لیفٹنٹ سے لے کر میجر جنرل تک کے تمام عہدوں پر خدمات سرانجام دے چکا ہوں۔ اس سارے دور اندر میں زیادہ عرصہ بڑے سیٹھوں، وال سٹریٹ اور بنکاروں کے لئے بانکے کا کردار ادا کرتا رہا ہوں۔ قصہ مختصر، میں ایک ٹھگ باز تھا، سرمایہ داری کا بدمعاش تھا۔
اُن دنوں مجھے محض شک تھا کہ میں ٹھگ بازوں کے ٹولے میں ہوں۔ اب مجھے اس کا یقین ہے۔ میں نے 1903ء میں ہنڈوراس کو امریکی فروٹ کمپنیوں کے لئے ‘درست’ جگہ میں ڈھالا۔ میں نے 1914ء میں میکسیکو، بالخصوص تام پیکو، کو تیل کے امریکی کاروبار کے لئے محفوظ جگہ بنایا۔میں نے ہیٹی او رکیوبا کو ایک ایسی مناسب جگہ بنا دیا تاکہ نیشنل سٹی بنک کے لڑکے محاصل اکٹھے کر سکیں۔ میں نے وال سٹریٹ کے مفادات کی خاطر وسطی امریکہ کی نصف درجن ریاستوں کے ساتھ زبردستی کی۔ ٹھگ بازی کا حساب کتاب بہت لمبا چوڑا ہے۔ 1909-12ء کے عرصے میں میں نے براؤن برادرز کے عالمی بینکنگ ہاؤس کے لئے نکارا گوا کی صفائی میں کردار ادا کیا۔ 1916ء میں میں شکر کے امریکی کاروبار کی خاطر ڈومینیکن ری پبلک اجالا لے کر پہنچا۔چین میں میں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ سٹینڈرڈ آئل کے دامن پر کوئی داغ نہ لگے۔
ان دنوں، پچھلے کمرے اندر بیٹھے لڑکوں کے الفاظ میں، میں ایک بڑھیا ٹھگ باز گروہ چلا رہا تھا۔ آج مڑ کر دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ میں ال کاپون کو کئی مفید مشورے دے سکتا تھا۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتا تھا کہ اپنا دھندہ تین ضلعوں تک پھیلا دے۔ میں تین براعظموں میں دھندہ چلا رہا تھا۔
 
یقینا یہ کافی عرصہ پرانی بات ہے۔ اب تو سب بدل گیا ہے۔ کیا واقعی؟ نیویارک ٹائمز کے منبر سے سنائی دینے والی ایک آواز جو لہجے اور سیاست کے حوالے سے جنرل بٹلر سے زیادہ مختلف نہیں، اخبار کے معروف کالم نگار تھامس فرائڈ مین کی ہے۔ فرائیڈ مین کا شمار بھی امریکہ کے ٹھیکیداروں میں ہوتا ہے البتہ اس کی صاف گوئی انتہائی فرحت بخش ہے: وہ حقیقت کو برقعے میں مستور نہیں کرتا۔ جنرل بٹلر 28 مارچ 1999ء کو نیویارک ٹائمز میگزین میں شائع ہونے والے اس کے کالم کو ضرور سراہتے:
 
عالمگیریت پر عمل درآمد کے لئے امریکہ کو بطور آفاقی عالمی طاقت اپنا کردار نبھاتے ہوئے کوئی خوف لاحق نہیں ہو سکتا۔ منڈی کا خفیہ ہاتھ کبھی بھی خفیہ مکے کے بغیر کام نہیں کر سکتا۔ میک ڈونلڈ ایف پندرہ کے موجد میک ڈونل ڈگلس کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا اور سلی کان ویلی کی تکنیک کو پوری دنیا میں محفوظ بنا کر رکھنے والے خفیہ مکے کا نام ہے امریکی فوج، فضائیہ ، بحریہ اور میرین کارپس۔
 
یہ ‘آفاقی عالمی طاقت’ کیسے وجود میں آئی؟ پہلی جنگ عظیم میں امریکہ کی شمولیت کی ملک کے اندر شدید مخالفت کی گئی۔ اکثر نے اسے غیر ضروری قرار دیا۔ جرمن نژاد لوگوں کو اعتراض تھا کہ امریکہ قیصر کی بجائے برطانیہ کے بادشاہ کی حمایت کر رہا ہے۔ اشرافیہ کے بعض بااثر حلقے تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو والی حکمت عملی کو ترجیح دے رہے تھے تاآنکہ دو یورپی سلطنتیں ایک دوسرے کو ادھ موا کر دیں اور یوں امریکہ اپنے اقتصادی مفادات آگے بڑھا سکتا تھا اور امریکی سرمایہ دار ان دونوں ممالک اندر پوری طرح ملوث تھے۔ ایک سو اٹھائیس امریکی جانوں کے ضیاع اور جرمنی کے ساتھ سفارتی یادداشتوں کے تبادلے کے باوجود یہ لوسی تانیہ کی جرمن آبدوز کے ہاتھوں غرق ہونے کا واقعہ نہیں تھا جس نے امریکہ کا رخ یورپ کی طرف موڑا۔ سچ تو یہ ہے کہ تجارتی مفادات کی خاطر ایک واضح جرمن فتح امریکہ کو بے چین کئے دیتی تھی کیونکہ اس طرح جرمنی ناقابل تسخیر حریف بن جاتا۔ جس چیز نے امریکہ کو جنگ میں شامل ہونے کے لئے فیصلہ کن کردار ادا کیا وہ روس سے آنے والی خبریں تھیں۔ فروری 1917ء میں وہاں انقلاب پھوٹ پڑا جس نے زار شاہی کا خاتمہ کر دیا۔ ملک میں شورش بپا تھی۔ فوج کے حوصلے شکستہ ہوچکے تھے اور روسی سپاہی بڑی تعداد میں محاذ چھوڑ کر جا رہے تھے۔ بالشویک محاذ سے فراری کے حق میں خوب پراپیگنڈہ کر رہے تھے اور سپاہیوں کو قائل کر رہے تھے کہ اصل دشمن ملک کے اندر تھے۔ 
امریکی اعلانِ جنگ اپنے وقت کے لحاظ سے ایک بھرپور اشارہ تھا۔ چھ اپریل 1917ء کو ادھر واشنگٹن میں ولسن نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کیا ادھر پیٹروگراڈ میں ایک اہم واقعہ رونما ہو رہا تھا۔ بالشویک پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس ہو رہا تھا جس میں لینن کے ‘اپریل تھیسس’ پر بحث تھی جو اقتدار پر قبضے اور سوشلسٹ انقلاب کے لئے سرکشی کی محتاط تیاری کی وکالت کر رہا تھا۔ ولسن کے بہت سے ساتھی یورپ جا کر جنگ میں شامل ہونے کے حق میں نہیں تھے۔ لینن کے بعض قریبی ساتھی سرکشی کو دور کی کوڑی قرار دیتے ہوئے غیر ذمہ دارانہ خیال قرار دے رہے تھے۔ دونوں طرف تذبذب کا شکار ہونے والے غلط ثابت ہوئے۔ اگر انقلاب روس پہلے سے اپنی راہ پر گامزن نہ ہوا ہوتا تو صدر ولسن، جو برطانیہ اور جرمنی کے مابین امن قائم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے، کبھی اس جوش کے ساتھ مداخلت نہ کرتے۔
1914-18ء کی جنگ میں امریکہ کی شمولیت عالمی طاقت بننے کی طرف پہلا قدم تھا۔ اس نے تیزی سے اپنا سبق سیکھا۔ یورپ کے میدانوں میں گلتی لاشوں نے اسے اپنی سوچیں مجتمع کرنے میں مدد دی۔ جوں جوں اس کی وراثت میں اضافہ ہوا، اس کا طریقہ کارِ عمل بدلتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ ‘وجود’ عالم امریکی ‘شعور’ میں ملفوف ہوتا گیا۔ اس کے بعد اس نے ایک ایسی فوجی مشین تیار کرنے پر خرچ سے کبھی دریغ نہ کیا جو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو للکارنے والی ہر آواز کو خاموش کر سکے۔
کیسی دلچسپ بات ہے کہ بالشویک رہنماؤں نے اس تبدیلی کی اہمیت کو برطانیہ اور فرانس کے حکمرانوں سے کہیں پہلے بھانپ لیا۔ یورپ کی پرانی طاقتیں یوں حقارت اور بے جا غرور کے ساتھ امریکہ کی طرف دیکھتیں گویا کوئی نواب، جس کی جائداد قرق ہوچکی ہو، کسی نو دولتئے کی طرف دیکھتا ہے۔ لینن اور ٹراٹسکی کا یورپی بورژوازی کی طرف تو رویہ ہتک آمیز تھا مگر وہ امریکی سرمایہ داری کی توانائی اور استعداد کے معترف تھے۔ دونوں ہی تاریخ اقتصادیات کے باریک بین طالب علم تھے۔ وہ اتار چڑھاؤ کے اعداد وشمار کا مطالعہ کرتے اور بخوشی ہر دلچسپی رکھنے والے شخص تک اپنا علم پہنچانے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے۔ یہ ٹراٹسکی ہیں جو ایک اجلاس کے شرکاء کو تیل کے مستقبل بارے بتا رہے ہیں:
تیل ، جو اہم فوجی اور صنعتی کردار ادا کر رہا ہے، کی عالمی پیداوار میں امریکہ کا حصہ دو تہائی ہے اور 1923ء میں تو یہ 72 فیصد کے لگ بھگ پہنچ گیا تھا۔ یقینا وہ اس خطرے کی بابت اکثر شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے تیل کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں۔ جنگ کے بعد ابتدائی چند سال تک میں اعتراف کرتا ہوں میں یہی سمجھتا رہا کہ وہ مستقبل میں غیر ملکی تیل پر قبضے کے لئے ان شکایات کا مقدس پردہ ڈال رہے ہیں۔ ماہر ارضیات البتہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اور کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ کھپت کی شرح کے مطابق امریکی تیل پچیس سال بعد ختم ہو جائے گاجبکہ بعض ماہرین کے مطابق چالیس سال بعد۔ پچیس سال لگیں یا چالیس، امریکہ اپنی صنعت اور بحری بیڑے کے ساتھ دوسروں کی نسبت دس گنا زیادہ تیل لے چکا ہوگا۔ (77)
 
1939-45ء کی دوسری عالمی جنگ کے ذریعے جرمنی نے وہ حالات بدلنے کی کوشش کی جو بیس سال پہلے شکست کی صورت اس پر مسلط ہوئے۔ اگر تو اس کے جنگی عزائم اس حد تک محدود رہتے اور عنان اقتدار کسی زیادہ سیانے آدمی کے ہاتھ میں ہوتی تو عین ممکن ہے جرمنی جنگ کے بغیر ہی اپنا مقصد حاصل کر لیتا: برطانوی سامراجی اشرافیہ کا ایک بااثر حلقہ جرمن برطانوی اتحاد میں گہری دلچسپی رکھتا تھا۔ مگر جرمن سرمایہ دار ٹھاکر گھر میں موجود کمیونسٹ دشمن سے ایسے خائف تھے کہ انہوں نے ریاست جرمن فاشزم کی جنونی قیادت کے حوالے کر دی۔ یوں لندن، برلن محور کا قیام ناممکن بن کر رہ گیا۔ لندن دو وجوہات کی بنیاد پر یہ معاہدہ کرنا چاہتا تھا۔ اول، براعظم یورپ میں بالشوزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے، دوم، امریکہ کو دور رکھنے کے لئے۔ ان دنوں برطانوی حکمران طبقے میں پائی جانے والی ‘امریکہ مخالفت’ کو کسی طور معمولی نہیں گردانا جا سکتا۔
امریکہ ان چالبازیوں سے خوب آگاہ تھا۔ وہ نہ صرف فوری طور پر جنگ میں شریک ہوگیا بلکہ اسے توقع تھی کہ عنقریب جرمنی کو فتح حاصل ہونے والی ہے۔ جنگ میں امریکی شمولیت سے پہلے تک وہاں کی لبرل رائے برطانوی سامراج کے شدید خلاف تھی جس پر برطانوی لبرل پیچ و تاب کھاتے تھے۔ نیوری پبلک میں بیسیوں سامراج مخالف مضامین شائع ہوئے جن میں چین اندر جاپان اور برطانیہ کی لوٹ مار کا موازنہ پیش کیا گیا جبکہ ایک ادارئیے میں تو اخبار نے جرمن فاشزم سے اور برطانوی سامراج سے برابر ناپسندیدگی کا اظہار کیا: دونوں دھڑے ہی پاجی تھے۔ معروف لبرل ماہر اقتصادیات جان مینارڈ کینز تو اس پر ایسے مشتعل ہوئے کہ انہوں نے اس اخبار کے لئے لکھنا ہی بند کر دیا۔ چھ دہائیوں بعد چند غیر معروف امریکی لبرل حضرات نے گیارہ ستمبر کے بعد امریکی خارجہ پالیسی کی تنقید پر مبنی لندن ریویو آف بکس میں شائع ہونے والے ایک سلسلۂ مضمون پر اسی قسم کی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ دو نے تو اس پرچے کے لئے لکھنا ہی چھوڑ دیا۔ یوں لگتا ہے گویا لبرل یونیورسل ازم سامراجی قوتوں کے اقدامات سے زیادہ میل نہیں کھاتا۔
جنگ کے ابتدائی مرحلے میں صدر فرینکلن روزویلٹ نے شفقت آمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چرچل سے کہا کہ وہ اگر جرمنی کی فتح کو قریب پائیں تو اپنے بحری بیڑے کو بحراوقیانوس کے دوسرے سرے پر محفوظ کناروں تک پہنچانے میں دیر نہ کریں۔ بعد میں جب روز ویلٹ نے دیکھا کہ برطانیہ اور اس سے بھی زیادہ اہم بات، سویت روسی نازی حملہ جھیل گئے ہیں تو انہوں نے جاپان کے ساتھ تنازعات کے ایک سلسلے کو ہوا دی اور یوں دوسری جنگ میں امریکی شمولیت کے لئے راہ ہموار کی۔(78)
امریکہ دو عالمی جنگوں کا اقتصادی فاتح بن کر ابھرا۔ اس کے بڑے حریف بری طرح ناتوانی کا شکر ہوگئے: جرمنی تقسیم ہوگیا، جاپان پر قبضہ ہو گیا، سلطنت برطانیہ آخرکار زوال پذیر ہوگئی۔ اس کی اپنی معیشت پہلے سے کہیں زیادہ ترقی کر رہی تھی: خام مال کی فراوانی، صنعت اور زراعت میں زبردست توازن، جغرافیہ اور ڈیموگرافی کی بدولت بڑے پیمانے پر پیداوار کی حامل معیشت پر عمل درآمد اور طرہ یہ کہ ایک بہت بڑا خطہ۔
ہاں مگر امریکہ کے سیاسی اور نظریاتی رہنماؤں نے اپنی اقتصادی یا فوجی برتری کو 1945ء میں مقابلے کا خاتمہ کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا۔ سویت یونین کی تکریم میں بے پناہ اضافہ، مشرقی یورپ تک اس کا پھیلاؤ اور مشرقی جرمنی پر قبضہ، اس پر طرہ چین، ویت نام، انڈونیشیا، ملائشیا، جزیرہ نما کوریا اور ہندوستان کے نامکمل انقلابات اور جنگیں/ جدوجہدیں اس بات کی علامت تھیں کہ دنیا تشکیلِ نو کے لئے پکار رہی ہے۔ (79) اس ہنگامہ خیزی کے دوران سیاست اور نظریہ، سرمایہ داری اور اس کے حریفوں کے مابین تنازعے میں کلیدی حیثیت اختیار کر گئے۔
اس کا ٹھوس مطلب یہ تھا کہ جنگ کے ہاتھوں تباہ حال یورپ کی بحالی۔ اگر تو امریکی حکمرانوں کے پیش نظر معاشی بالادستی کا حصول ہوتا تو کبھی بھی مارشل پلان سامنے نہ آتا۔ اس منصوبے کا مقصد مغربی یورپ کو اپنی بیعت میں لینا ہرگز نہیں تھا۔ اس کے دو مقاصد تھے: امریکہ کی سیاسی بالادستی قائم کرنا اور سرمایہ دار یورپ کی بطور ایک خودمختار معاشی اکائی کے طور پر ازسرنو تشکیل۔ اپنے عالمی مفادات کے حصول کی خاطر امریکہ کو پھر سے ایک منڈی بنانے کی ضرورت تھی۔ یہ چھوٹی برائی تھی۔ فرانس، اٹلی، مغربی جرمنی، یونان اور جاپان اگر ڈھیر ہو جائیں تو اس کا مطلب تھا آپ یہ تمام ممالک تھالی میں رکھ کر سویت یونین کو پیش کر رہے ہیں۔ مارشل پلان اور ناٹو وہ سامی جڑواں تھے جن کی ایجاد پرانے حریف کے خلاف ایک لمبی جنگ لڑنے کی خاطر کی گئی۔
خام مال کے حوالے سے خود انحصاری جو امریکہ کی خصوصیت تھی وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ختم ہوگئی۔ اتحادی فوجوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسری عالمی جنگ کے درمیان زرعی پیداوار میں جو زبردست اضافہ ہوا تھا اسے برقرار رکھنے کے لئے اندرون ملک موجود ذرائع ناکافی تھے۔امریکہ کو تیل، لوہا، کچی دھات، باکسائٹ، تانبہ، منگنیز اور نِکل درآمد کرنے کی ضرورت تھی۔ تیل کی ضرورت کا مطلب تھا لاطینی امریکہ کے کچھ علاقوں کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور نائجیریا پر بالادستی، لوہا لاطینی امریکہ کے کچھ اور علاقوں اور مغربی افریقہ جبکہ دیگر دھاتیں ،کینیڈا، آسٹریلیا او رجنوبی افریقہ سے حاصل کی جاتی تھیں۔
سیاست اور معیشت مزید گڈمڈ ہوگئے۔ خام مال کی ضرورت کا مطلب تھا مزید سے مزید تر سیاسی مداخلت۔ کمیونسٹ دشمن سے لڑنے اور امریکی معیشت کی رکھوالی کا آسان طریقہ تھا: بغاوت کے ذریعے حکومتی تبدیلیاں، مقامی جنگیں، امریکی فوجی اڈوں کا قیام، وینزویلا کے طبقۂ امراء، برازیل اور چِلی کے جرنیلوں جبکہ سعودی عرب کے سعود خاندان کی بے لاگ حمایت۔ اس حکمت عملی پر ہمیشہ امریکہ کی حسبِ منشا عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اکتوبر 1949ء میں چینی کمیونسٹوں نے ملک سنبھال لیا، کوریا میں عوامی ابھار کے باعث امریکہ کو مداخلت کرنی پڑی، جزیرہ نما کوریا دو حصوں میں بٹ گیا اور اقوام متحدہ کی پشت پناہی سے لڑی جانے والی جنگ کے نتیجے میں ایک ایسا جمود پیدا ہوا جو آج بھی حل طلب ہے، مافیا کے ہاتھوں میں کھیلنے والی کیوبا کی آمریت کو 1959ء میں فیدل کاسترو اور چے گویرا کی گوریلا فوج کے ہاتھوں شکست ہوگئی، ویت نامیوں نے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا ۔ اپریل 1975ء میں پندرہ سالہ جنگ کے بعد انہوں نے آخرکار امریکہ کو شکست دے دی۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ نے عالمی تھانیدار کا جو کردار ادا کرنا شروع کیا تو اندرون ملک اس کے زبردست اثرات مرتب ہوئے۔ اسلحہ پر مبنی ایک معیشت مستقل طور پر وجود میں آئی جس نے بھاری صنعت کو ابھارا اور الیکٹرونکس، ائر کرافٹ، کیمیا اور خلائی شعبوں میں تحقیق کی حوصلہ افزائی کی۔ اس صنعت نے جو اشیاء پیدا کیں ان کی واحد گاہک امریکی ریاست تھی۔ اس کی اجازت کے بغیر دنیا کے باقی حصوں میں کچھ بھی نہیں بیچا جا سکتا تھا۔ معاشی معیار واضح ہیں۔ اسلحہ ساز صنعت ایک ایسا مستحکم شعبہ تخلیق کرتی ہے، جس پر معاشی اتار چڑھاؤ اثرانداز نہیں ہوتے۔ اس کی مدد سے معاشی گراوٹ کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے جو سرمایہ داری کی مستقل خصوصیت ہے اور یہ بات بھی کہی جاتی رہی ہے کہ اس کی مدد سے 1929ء ایسے تباہ کن بحران کے خلاف بھی پشتہ بندی کی گئی۔ لہٰذا تمام اسلحہ ساز اجارہ داریوں کو خودکار منافع کی ضمانت دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلحے کے ٹھیکیدار اپنی سرمایہ کاری کی حفاظت کے لئے کچھ بھی کر گزریں گے۔ اسلحہ ساز صنعت، مسلح افواج کی افسر شاہی اور سیاستدانوں کے مابین جنم لینے والے ازدواج کے نتیجے میں فوجی-97 صنعتی-97 سیاسی مثلث وجود میں آئی۔
اس عمل کے باعث جمہوریت کو لاحق ہونے والے خطرات بارے پہلی پہلی تنبیہہ بھی ایک جرنیل نے کی البتہ بٹلر کے برعکس یہ جرنیل کسی طور بھی ترقی پسند نہیں تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس جرنیل کو ری پبلکن جماعت کے مفادات مدنظر رکھتے ہوئے صدر منتخب کیا گیا تھا۔ 17 جنوری 1961ء کو قوم سے الوداعی خطاب کرتے ہوئے آئزن ہاور نے پورے ملک کو خبردار کیا:
ہم اس صدی کی چھ سے زائد دہایاں گزار چکے ہیں اور اس دوران بڑے ملکوں کے مابین چار بڑی جنگیں لڑی گئیں۔ تین جنگوں میں تو ہمارا اپنا ملک بھی ملوث تھا۔ ان عالمگیر تباہیوں کے باوجود امریکہ آج دنیا کا طاقتور ترین، بااثرترین اور موثر ترین ملک ہے۔ ہم اس بڑائی پر بلاشبہ ناز کرتے ہیں مگر ہمیں احساس ہے کہ امریکی قیادت اور توقیر کا انحصار محض ہماری مادی ترقی ، امارت اور فوجی قوت پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ ہم اپنی طاقت کو عالمی امن اور انسانی بھلائی کے لئے کیسے استعمال کرتے ہیں…………
حالیہ عالمی تنازعات تک امریکہ کے ہاں اسلحے کی صنعت نہیں تھی۔ پُل بنانے والے امریکی وقت کے ساتھ ساتھ اور بوقت ضرورت تلوار بھی بنا لیتے تھے۔ لیکن اب ہمیں قومی دفاع کے لئے ہنگامی برجستگی کی ضرورت نہیں، ہم ایک مستقل اور وسیع البنیاد اسلحہ ساز صنعت قائم کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ مزید یہ کہ پینتیس لاکھ مرد و خواتین براہ راست دفاعی شعبے سے وابستہ ہیں۔ فوجی سلامتی پر ہمارے اخراجات امریکہ کی تمام کارپوریشنوں کی کل آمدن سے زائد ہیں۔
حکومتی مجلس شوریٰ اندر ہمیں اس بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ فوجی-97 صنعتی ادارے کو بے جا رسوخ حاصل نہ ہو، چاہے یہ ادارہ اس رسوخ کے حصول میں لگا ہو یا نہ لگا ہو۔ ہمیں کسی بھی بات کو یقینی نہیں سمجھ لینا چاہیے۔صرف اور صرف چوکس اور باعلم پرجا ہی اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ دیو قامت صنعتی و فوجی دفاعی مشین ہمارے پُرامن طریقۂ کار اور نصب العین سے ہم آہنگ ہو کر چلتی رہے تاکہ ہم امن اور آزادی ساتھ پھل پھول سکیں۔
 
‘چوکس اور باعلم پرجا’ چند سال بعد ویت نام جنگ کے دوران ابھری اور اس نے اپنے پاؤں جنگ مخالف تحریک کی چادر سے باہر تک پھیلا دیئے۔ جب سینٹرولیم فل برائٹ جنگ بارے سینٹ کی طرف سے تحقیقات کی سماعت کر رہے تھے تو تمام امریکی ذرائع ابلاغ اس کارروائی کو باقاعدگی سے نشر کرتے تھے۔ اسی کارن چوکس پرجا کو گیان ملا۔ اس پرجا نے اپنے جرنیلوں کے تصورات کوللکارا، اپنے نیتاؤں کے جھوٹ پر یقین کرنے سے انکار کر دیا اور یوں جنگ کا خاتمہ کر دیا۔ یہ امریکی جمہوریت کا اُبھار تھا۔ بہت سے سپاہی جو گھر لوٹے وہ جنگ کے ہاتھوں اپاہج ہو چکے تھے اور انہوں نے اسی طرح آزادانہ طور پر سوچنا شروع کر دیا جیسے تیس سال پہلے جنرل سمیڈلے بٹلر آزادانہ طور پر سوچ رہے تھے۔(80) لیکن اس سامراجی بنیاد پرستی سے ناپسندیدگی راتوں رات پیدا نہیں ہوئی تھی۔ پانچ سال لگے تھے اسے پختہ ہونے میں۔ اگر ایسا ہوا تو اس کی وجہ تھی ویت نامیوں کی مسلسل جدوجہد اور بے تحاشا ظلم کے باوجود ہار ماننے سے انکار ۔ 1966ء سے سامراجی بنیاد پرستی نے ویت نامیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی شروع کر دیا۔ شہری آبادیوں کا قتل عام امریکی جنگی حکمت عملی کا ہمیشہ سے ایک لازمی جزو تھا۔ ڈیفولینٹس، ہربی سائڈس اور زہریلی گیسوں کے استعمال سے دیہی علاقے بے آب و گیاہ ہوگئے۔ علاقوں کے علاقے تھے جہاں کاشت کاری ممکن نہ رہی اور آج بھی ممکن نہیں۔(81) اس کے باوجود ویت نامیوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ ان باتوں سے جانکاری کے باعث فوج میں جبری بھرتی کے گئے سپاہیوں، جنگ میں حصہ لینے والوں، جنگ میں مارے جانے والوں کے دوستوں اور رشتہ داروں نے جنگ کے مقاصد اور اثرات بارے سوالات پوچھنے شروع کئے اور ان کا اصرار تھا کہ جنگ بند کی جائے۔ امریکی رہنما ہار ماننے پر تیار نہ تھے۔ نکسن اور کسنجر نے ویت نام کو تنہا کرنے کے لئے جنگ کا دائرہ کار پہلے کمبوڈیا پھر لاؤس تک بڑھا دیا۔ وہ ناکام رہے۔ کمبوڈیا پر بمباری نے پول پاٹ کی متعصب انتہا پسندانہ قوم پرستی کی کامیابی کے لئے موزوں حالات ضرور پیدا کئے۔ وہ چونکہ ویت نام کا مخالف تھالہٰذا مغربی طاقتوں نے کئی سال تک اس کی خفیہ مدد کی اور اس کے جرائم سے پردہ پوشی کرتے رہے۔
اپریل 1975ء میں ویت نام کی فتح سے چار براعظموں میں سرمستی کی لہر دوڑ گئی۔ افریقہ کے جنوب، وسطیٰ امریکہ اور جزیرہ نما ابیریا میں انقلابی موڈ پایا جاتا تھا۔ 1979ء میں نکاراگوا کی فتح نے واشنگٹن کو کاری ضرب لگائی کہ واشنگٹن تو سموزا آمریت کو سرمائے سے لے کر اسلحہ تک فراہم کر رہا تھا۔ نو آبادیاتی اقتدار کے خلاف جدوجہد آزادی نے انگولا اور موزنبیق اندر نئے امکانات وا کر دیئے لیکن واشنگٹن کے بنیاد پرست اس جاری عمل کو روکنے پر تلے ہوئے تھے۔ افریقہ میں انہوں نے جنوبی افریقہ سے ساز باز کی اور جنوبی افریقہ والوں نے اپنی فوج انگولا بھیج دی۔ انگولا کی قیادت نے کیوبا سے اپیل کی اور کیوبا نے انگولا میں حکومت کی حفاظت کے لئے اپنے دستے بھیج دیئے۔ ان سپاہیوں کو سویت جہازوں پر وہاں پہنچایا گیا اور ان کے پاس سویت اسلحہ تھا۔ آخرکار جنوبی افریقہ والوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا گیا۔ ادھر خود جنوبی افریقہ اندر افریقین نیشنل کانگرس نے اہم فوجی اور معاشی ٹھکانوں پر منتخب حملوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا۔ نکاراگوا میں امریکہ نے کونٹرا باغیوں کو مسلح کیا اور کونٹرا باغیوں کے ذریعے نکاراگوا کو غیر مستحکم کرنے اور گڑبڑپھیلانے کی امریکی کوشش خاصی کامیاب رہی۔
امریکی تاریخ کی واحد حقیقی شکست کے چودہ سال بعد دیوار برلن ڈھیر ہوگئی اور سویت یونین بکھرگیا۔
بغیر کسی گرج کے سرد جنگ اچانک ریں ریں کرتے ہوئے ختم ہوگئی۔ معاہدہ وار سا اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ زوال اچانک بھی تھا اور غیر متوقع بھی۔ یہ کسی فوجی مداخلت کا نتیجہ نہیں تھا۔ اس کی اندرونی وجوہات تھیں: سویت یونین کی قیادت کرنے والی نوکر شاہی کا سیاسی و معاشی دیوالیہ پن۔ آخری سویت رہنما میخائل گوربا چوف کی یقینا یہ نیت نہیں تھی۔ وہ ہر سطح پر اصلاحات چاہتے تھے۔ وہ بحر اوقیانوس سے لے کر ارلز تک ایٹمی ہتھیاروں سے پاک خطے کا قیام چاہتے تھے۔ وہ ریاستی معیشت سے پچاس کی دہائی والی یورپی سوشل ڈیموکریٹک طرز کے معاشی نظام کی طرف تبدیلی کی آس لگائے بیٹھے تھے اور ان کا خیال تھا کہ مغرب اس جاری عمل میں مدد دے گا۔ وہ رونالڈ ریگن اور مارگریٹ تھیچر بارے مہلک خوش فہمی کا شکار تھے۔ دونوں نے گوربا چوف کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ لٹیروں نے قبضہ کر لیا۔ ہوا کیا؟ اس سوال کا جواب اس سارے واقعہ کے عینی شاہد تاریخ دان جارجی درلوگئین دیتے ہیں۔ وہ سابق سویت شہری ہیں جو اب شکاگو میں رہائش پذیر ہیں: 
سویت یونین کو باہر سے کسی نے شکست نہیں دی…… مغرب تو کھڑا حیرت سے محو تماشا تھا۔ نہ ہی اسے اوپر یا نیچے سے کھوکھلا کیا گیا۔ شگاف تو درمیان میں پڑا اور یہ ان اداروں کے اعتبار سے بٹ گیا جو نوکر شاہی کی مختلف پرتوں کے نمائندہ تھے۔ انہدام اس وقت ہوا جب درمیانی سطح کے افسر ایک طرف گوربا چوف، جو نظام کے سربراہ تھے، کی سیماب صفتی سے خطرہ محسوس کر رہے تھے اور دوسری جانب وہ اپنے سے نچلی سطح کے اہل کاروں کے دباؤ میں تھے جنہوں نے اپنا آپ جتانا شروع کر دیا تھا۔ مشرقی یورپ میں اٹھنے والے ابال نے مظاہرے کی آڑ فراہم کر دی۔ ٹوٹ پھوٹ کے اس عمل کی ابتدا ینگ کمیونسٹ لیگ، جو ایک عرصہ سے بوسیدگی کا شکار ہوچکی تھی، کے ترش رو اپرات چکس نے کی۔ اس کے بعد قومی جمہوریوں اور روسی صوبہ جات کے گورنر صاحبان اور معاشی وزارتوں کے اعلیٰ افسران سے لے کر دفتری سربراہوں اور سپرمارکیٹ کے منیجروں تک، سب ہی اس راہ پر چل پڑے۔جیسا کہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے کہ زوال پذیر سلطنت کے اوچھے ترین ملازم…… شہنشاہوں کی نااہلی سے شہ پا کر اور آنے والی افراتفری سے خوفزدہ ہو کر…… اپنی پہنچ میں موجود ہر قسم کے مال اسباب پر قبضہ جمانے کے لئے لپکتے ہیں۔ ان کے ساتھ کایاں قسم کے وہ ٹھگ بھی شامل ہوگئے جن کی فہرست میں ہم ممکنہ امراء سے لے کر سابق ذخیرہ اندوں اور باقاعدہ بدمعاشوں سمیت سب کو شامل کر سکتے ہیں۔ (82)
درلوگئین کا پرمغز تبصرہ سن کر ممکن ہے بہت سے چینی اپرات چکس کے لبوں پر اطمینان بھری مسکراہٹ نمودار ہو۔ان کا ملک اس انجام سے دوچارنہ ہونے سے بچ رہا۔ بیجنگ میں موجود پولٹ بیورو روسیوں کی نسبت زیادہ چالاک ثابت ہوا۔ دونوں ملکوں میں ایک سی خصوصیات تھیں: کمزور جمہوری روایات، ریاست اور پارٹی کے ادغام پر مبنی ڈھانچہ، اقتدار پر کمیونسٹ پارٹی کی طویل اجارہ داری اور نیچے کی سطح سے آنے والی ہر مخالفت کو کچلنے کا تقاضا۔ دونوں ملکوں کے رہنما سرمایہ داری کے راستے پر گامزن تھے، جیسا کہ ایک بار چیئرمین ماؤ نے پیش گوئی کی تھی، مگر ایک موڑ پر آکر دونوں کے مابین مزید موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
اپنے نئے سرپرستوں کو خوش کرنے کے لئے مشتاق اور امریکی رنگ میں ڈھلنے کے لئے بے چین سویت قیادت نے ہاورڈ کے عامل جادوگر-97 ڈاکٹروں کی تجویز کردہ ‘شاک تھراپی’ والا نسخہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔ دس سال بعد، 2000ء میں، اعداد و شمار ساری داستان سنا رہے تھے: غریب اور امیر کا فرق تین گنا بڑھ چکا تھا، آبادی کا ایک تہائی حصہ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہا تھا، جرائم اور بدعنوانی قابو سے سے باہر ہوچکے تھے، اور ملک کے بعض حصوں میں سکہ رائج الوقت کی بجائے اشیاء کے بدلے اشیاء کے ذریعے لین دین ہو رہا تھا۔ بعد از جنگ کی نسل کے لئے یہ تجربہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی ابتلا تھی۔ ستم بالائے ستم کہ ان کا رہنما بورس یلسن نقلی ہیرا ثابت ہوا: شرم و حیا سے عاری ایک شرابی مسخرہ جس میں قابلیت تو کوئی نہیں تھی البتہ لالچ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ دیگر متبادل سے خوفزدہ مغرب نے یلسن کی پشت پناہی کا فیصلہ کیا۔ فرمانبردار مغربی میڈیا نے بھی پیروی کی۔
جرائم اور بدعنوانی تو چین میں بھی بہت تھے، بہت سے پارٹی بیوروکریٹ اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر ریاستی جائداد خرید خرید کر سرمایہ دار بن رہے تھے البتہ ایک فرق ضرور تھا۔ روسی طرز کی افراتفری سے بچاؤ کی تدبیر کی گئی۔ معیشت نے قابل لحاظ ترقی کی۔ چینی سرمایہ داری نے نسبتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کی شرح ترقی کئی مغربی ممالک سے بہتر رہی اور امریکہ کی صورت اس کی اشیاء کو بہت بڑا نکاس بھی دستیاب ہوگیا۔ چین نے مستقبل کی طرف کہیں زیادہ خوداعتمادی اور تیقن سے دیکھنا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی ساتھ کمیونسٹ پارٹی نے اقتدار پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھی۔خالص سرمایہ دارانہ اصطلاحات کے مطابق مارکیٹ__ سٹالنزم بظاہر قابل عمل ثابت ہوئی۔
سویت یونین اور مشرقی یورپ کے سابق ہم منصبوں کے برعکس چینی کسی حد تک اپنی تہذیب و ثقافت کے باعث بھی الگ تھلگ رہے۔ وہ مغرب کی نقل کرنے کے لئے بے چین نہیں تھے گو انہیں احساس تھا کہ وہ اپنی انفرادیت محض اندرونی افتاد مزاج کے ذریعے برقرار نہیں رکھ سکتے۔ معیشت کو عالمی توازن کی ضرورت تھی۔ یوں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی رکنیت اور ورلڈ بنک آئی ایم ایف سے تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت پیش آئی۔ منفی اثرات جانے پہچانے تھے: بڑھتی ہوئی طبقاتی تفریق، بدعنوانی، بے روزگاروں کا لشکر۔ حسب توقع بے روزگار چینی…… دانشور اور مزدور…… دنیا کے دیگر حصوں کی طرف کوچ کرنے لگے۔ رکاوٹوں کے باوجود یہ بہاؤ توں توں بڑھتا جائے گا جوں جوں چین عالمی منڈی کا حصہ بنتا جائے گا۔ اس جاری عمل کی ایک علامت دسمبر 2000ء میں نیویارک اندر ہونے والی وہ پُرسوز تقریب تھی جو چینی منحرف وانگ رو وانگ کے اعزاز میں منعقد ہوئی جن کا انتقال اس شہر میں ہوا۔ ان کی عمر 83 سال تھی، انہوں نے زندگی کا پیشتر حصہ چین میں سماجی اور سیاسی حالات بہتر بنانے کے لئے جدوجہد میں صرف کیا مگر ان کی وفات امریکہ میں ہوئی۔ ایک اور معروف جلاوطن، صحافی اور لکھاری لیؤبن یان، نے کلمات تدفین ادا کرتے ہوئے حکومت کے گھناؤنے چہرے کو بے نقاب کیا:
وانگ نے بلند پایہ آدرشوں اور جواں جذبوں کے ساتھ زندگی کا آغاز کیا، یہ سب انہوں نے کمیونسٹ پارٹی کے لئے وقف کر دیا جس کے رہنماؤں نے جلد ہی انہیں پارٹی سے نکال دیا، شہر بدر کر دیا، جیل میں ڈال دیا، فاقوں پر رکھا، تشدد کیا، خاندان تباہ کر دیا، پھر ‘معاف’ کر دیا، دوبارہ پارٹی میں لے لیا، پھر نکال دیا، پھر سے جیل میں ڈال دیا اور آخرکار جلاوطنی پر مجبور کر دیا…………
آج کے چین پر نظر دوڑائیے! کیا یہ وہی چین ہے جس کا خواب ساٹھ سال پہلے میں نے اور وانگ نے دیکھا تھا؟ کیا ہم نے ایسے چین کے سپنے دیکھے تھے جہاں بدعنوانی، دھوکا اور سگ خوئی ہوگی؟ جہاں استحصال، بیماری، جسم فروشی اور غنڈہ گردی پنپ رہی ہوگی! جہاں دیہی علاقوں اندر خودکشی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہوگی؟ جہاں ‘ہشیار’ لوگ اخلاق سے عاری ہوں گے اور انہیں اس سے کوئی دلچسپی بھی نہ ہوگی؟ جہاں ماحولیات کی تباہی سے بحالی کی طرف سالہا سال درکار ہوں گے اگر کبھی یہ عمل شروع ہوا تو؟
ایک ایسی حکومت ہوگی جو گریٹ لیپ قحط اندر ہلاک ہونے والے لاکھوں لوگوں کی طرف ایمانداری سے دیکھنے کی بجائے ہر مخالف اور ممکنہ مخالف آواز و تنظیم کا سر کچلنے پر تلی ہوگی؟ کیا وانگ رو وانگ نے سفر زندگی کے آغاز پر یہ امیدیں باندھی تھیں؟
 
چینی سرمایہ داری کی کامیابی کے پیچھے کارفرما ایک اہم عنصر وہ سیاسی و معاشی معاہدے تھے جو چینی قیادت نے 1970ء کے عشرے میں-97-97 عظیم سکان گیر ہنوز تا حیات تھے-97 امریکہ کے ساتھ کئے اور جو آج تک چلے آرہے ہیں۔ چینی قیادت کا ویت نام پر حملے کے فیصلے کا مقصد ایک تو یہ تھا کہ امریکہ کو شکست دینے پر ویت نام کو سزا دی جائے دوسرا یہ واشنگٹن میں اپنے اتحادیوں سے اظہار یکجہتی تھا۔ اثرات حسب توقع نمودار ہوئے۔ اپنے شہریوں کے انتہائی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے باوجود چینی حکومت کو مغربی سرمایہ داری نے ‘موسٹ فیورڈ نیشن’ کا درجہ دے رکھا ہے۔ ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ اس طرح کے اتحاد کی کچھ حدود ہوتی ہیں البتہ ابھی تک اس سے طرفین کو فائدہ ہی پہنچا ہے۔
عرصہ جنگ (1942-5ء) کے علاوہ سویت یونین ہمیشہ سے اور قسم کا مسئلہ تھا۔ وہ تاریخی دشمن تھے۔ ان کے انقلاب نے سرمایہ داری نظام کا طوق گلے سے اُتار پھینکا، ستر سال بعد، یہ انقلاب دنیا کے نقشے پر ہی موجود نہ رہا۔ 
سویت یونین کے انہدام پر امریکہ کا ردعمل کیا رہا ہوگا؟ یقینا اس کی جگہ روس نے لے لی لیکن درجن بھر کنواری ریاستیں بھی تو تھیں جو مغرب کے ہاتھوں اپنا کنوارپن کھونے کے لئے مری جا رہی تھیں۔ پھر مشرقی یورپ بھی تو تھا۔ سامراجی طاقتوں کے لئے یہ وہ سودا تھا جو بلامعاوضہ ہاتھ لگ گیا تھا۔ میخائل گوربا چوف نے بدلے میں کچھ لئے بغیر مشرقی جرمنی دے دیا تھا۔ وسطی یورپ سانس روکے اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کر رہا تھا۔
یوں دکھائی دیتا تھا سرمایہ داری کو مکمل فتح حاصل ہوگئی ہے۔گو سویت یونین کئی دہائیوں سے سنجیدہ انقلابی خطرے کے طور پر باقی نہیں رہا تھا البتہ اس کی موجودگی سے تین براعظموں میں قومی آزادی کی تحریکوں کو شہ ملی تھی، کیوبن اور ویت نامی اس قابل ہوئے کہ انہوں نے مزاحمت کی اور باقی بچے رہے، جنوبی افریقہ میں اے این سی کو مسلح کیا اور یورپی سوشل ڈیموکریسی کو وہ پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں سے وہ مختلف سرمایہ دار حکمرانوں سے چند مراعات حاصل کر سکے۔ انہدام کیا ہوا ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ تھی وہ دنیا-97-97 جو ہنوز پوری طرح اس کے قبضے میں نہیں تھی-97-97 جس کے سامنے فاتح امریکی ایمپائر کو اپنا پنڈورا باکس کھولنا تھا جس میں سے اس کی چند بلائیں اور خوف نمودار ہونے تھے۔ دنیا کی ازسرنو ترتیب کون کرے گا اور کیسے کرے گا؟ اگر تنازعات موجود نہ رہے تو کیا فوجی -97 صنعتی کمپلیکس کا کوئی جواز باقی رہ جائے گا؟ کیا راتوں رات کچھ دشمن گھڑے جا سکتے ہیں؟ اہل یورپ کو مٹھی میں رکھنے کی بہترین تدبیرکیا ہو سکتی ہے؟ جرمنی اور جاپان کو قابو میں رکھنے کے لئے کیا جتن کیا جائے؟
اشتراکیت کا زوال ہوا تو امریکی ایمپائر کے سرکاری دانشوروں نے تابناک مستقبل بارے بحث چھیڑ دی۔ نظریاتی و معاشی فتح تو بھرپور تھی لیکن کیا دنیا میں واقعی کوئی تنازعہ باقی نہ رہا تھا؟ فتح کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے کی پہلی سنجیدہ کوشش تھی نیشنل انٹرسٹ میں شائع ہونے والا فرانسس فوکویاما کا مضمون ‘تاریخ کا خاتمہ؟’ فوکویاما سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سابق ملازم تھے اور پاکستانی فوجی آمر ضیاء الحق (1977-898 کو یہ تباہ کن مشورہ انہی کا تھا کہ وہ پاکستان کو بھارت سے ہر ممکن حد تک دور رکھیں، پاکستان کے لبرل اور جمہوریت پسند افراد کو اس مشورے کا خوب خمیازہ بھگتنا پڑا۔ (83)
ہیگل اور کوژیف کی تحریروں سے اخذ کیا ہوا فوکویاما کا تھیسس یہ تھا کہ دوسری عالمی جنگ میں فاشزم کی شکست اور پینتالیس سال بعد سویت یونین کے انہدام کی صورت لبرل جمہوریت کو حاصل ہونے والی فتح سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانیت کا نظریاتی ارتقاء اپنی معراج پر پہنچ گیا ہے۔(84) یہ انجام تھا کہ آگے تو کوئی رستہ ہی نہیں جاتا تھا۔ قوم پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی تو ماضی کے جھمیلے تھے۔ یہ فتح مغرب تک ہی محدود نہیں تھی۔ مشرق میں جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان کی کامیابی بھی ایسی ہی تبدیلیوں کی نقیب تھی۔ لبرل ڈیموکریسی کی فتح سرمایہ داری کی تاریخ ساز فتح کا نقطۂ عروج تھا جبکہ اس کے ڈھانچوں کے ذریعے ریاستوں کے مابین معاشی مقابلہ بازی کو محدود کیا جائے گا جو شائد تاقیامت جاری رہے۔ کچھ تنازعات سر اٹھائیں گے مگر وہ محض معمولی نوعیت کے ہوں گے جن سے لبرل اجارہ داری کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوگا۔ اس مضمون کی کامیابی کا عملی اظہار یہ ہوا کہ کتابی شکل میں چھپا تو ہاتھوں ہاتھ بکا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور معروف کالم نگار اور اداریہ نویس اس کا حوالہ دینے لگے بھلے کسی نے ایسے پڑھا ہو کہ نہ پڑھا ہو۔ کچھ عرصہ تو نئی عالمگیریت پر سوال جواب ہی اس کے حوالے سے ہوتے رہے۔ پھر یوں ہوا کہ یہ کتاب غائب ہو گئی گویا اسے وارث کا انتظار تھا۔
1993ء کے موسم گرما میں سیموئیل ہنٹنگٹن جو کبھی جانسن انتظامیہ میں ویت نام جنگ میں ویت نامیوں سے نپٹنے کے لئے بطور ماہر کام کرتے تھے بعد ازاں ہاورڈ یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے، کا مضمون ‘تہذیبوں کا تصادم،’ فارن افیئرز میں شائع ہوا جس پر فوراً ایک عالمی مناظرہ شروع ہوگیا۔ جیسا کہ ہنٹنگٹن نے بعد میں کہا ‘مضمون نے ہر تہذیب کے لوگوں کی رگ کو چھیڑا،’ مضمون کتابی شکل میں چھپا اور بعد ازاں، بشکریہ اسامہ بن لادن، ہاتھوں ہاتھ بکا۔ مصنف پیغمبر بن گیا۔ یقینا یہ مضمون فوکویاما اور ‘تاریخ کا خاتمہ’ سے مناظرہ تھا جس میں ہنٹنگٹننے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کمیونزم کی زبردست شکست سے تمام نظریاتی مباحث تو اپنے انجام کو ضرور پہنچ گئے البتہ اس سے تاریخ کا خاتمہ نہیں ہوا۔ دنیا کی آئندہ تقسیم سیاست اور معیشت کی بجائے تہذیب کی بنیاد پر ہوگی اور آئندہ ثقافت کا ہی غلبہ رہے گا۔
ہنٹنگٹن نے آٹھ تہذیبوں کو فہرست میں رکھا: مغربی، کنفیوشیس، جاپانی، اسلامی، ہندو، سلاو__آرتھوڈاکس، لاطینی امریکی اور……شائد……افریقی۔ ‘شائد’ کیوں؟ اس لئے کہ ہنٹنگٹن کو افریقہ کے پوری طرح مہذب ہونے کا یقین نہیں تھا۔ یہ تمام تہذیبیں مختلف نظام ہائے اقدار کی تجسیم ہیں اور مذہب ان کی علامت ہے اور ہنٹنگٹن یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ‘شائد لوگوں کو ترغیب دینے اور متحرک کرنے والی مرکزی قوت’ مذہب ہے۔ سب سے بڑی تقسیم ‘مغرب اور باقی دنیا’ کے بیچ ہے کیونکہ ‘انفرادیت’ لبرل ازم’ آئین پرستی، انسانی حقوق، برابری، آزادی، قانون کی حکومت، جمہوریت، آزاد منڈی، ایسی اقدار محض مغرب کا خاصہ ہیں۔ لہٰذا مغرب (درحقیقت امریکہ) کو ان حریف تہذیبوں سے لاحق خطرات سے عسکری انداز میں نپٹنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ دو خطرناک ترین تہذیبیں، امکانی طور پر، اسلام اور کنفوشین ازم ہیں (تیل اور چینی برآمدات) اور اگر ان دونوں کا اتحاد ہوگیا تو اصل تہذیب کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ اپنی بات کا اختتام وہ اس منحوس نقطے کے ساتھ کرتے ہیں: ‘دنیا ایک نہیں ہے۔ تہذیبیں انسانیت کو متحد بھی کرتی ہیں اور منقسم بھی…… لوگ اپنی پہچان خون اور عقائد کے حوالے سے کراتے ہیں اور انہی کی خاطر وہ لڑیں گے اور مریں گے’۔ دیگر بنیاد پرستوں کو اس سوچ سے بھلا کیا اختلاف ہو سکتا ہے؟
یہ سیدھا سادہ مگر سیاسی لحاظ سے مفید تجزیہ واشنگٹن اور دیگر جگہوں میں موجود پالیسی سازوں اور نظریہ دانوں کے لئے انتہائی کارآمد بہانہ ثابت ہوا۔ اسلام ایک بڑا خطرہ دکھائی دے رہا تھا کیونکہ دنیا کا تیل جو ایران، عراق اور سعودی عرب سے آتا ہے۔ ہنٹنگٹن جب یہ لکھ رہے تھے، اسلامی جمہوریہ ایران کی عمر چودہ سال تھی اور وہ ہنوز ‘شیطان اعظم’ کا دشمن سمجھا جاتا تھا، عراق کی سماجی، معاشی اور عسکری طاقت خلیجی جنگ کے بعد جنم لینے والے حالات کے باعث روبہ زوال تھی جبکہ سعودی عرب محفوظ قلعہ تھا جہاں بادشاہت کی حفاظت امریکی دستے کر رہے تھے۔ ‘مغربی تہذیب’ نے (اور اس معاملے میں انہیں کنفوشین اور سلاو آرتھوڈاکس ساتھیوں کی حمایت بھی حاصل تھی) عراق اندر، جیسا کہ ایک گزشتہ باب اندر میں تفصیلاً بیان کر چکا ہوں، 300,000 بچوں کی آہستہ رام موت کا انتظام کیا جبکہ لبرل جمہوری__وہابی اتحاد سعودی عرب کے مشرقی صوبوں میں تیل کے کنوؤں کی حفاظت کر رہا تھا۔ تہذیب کے پرچارک حضرات اور ہنٹنگٹن کی خدمت میں دو نقاط بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ اول، جیسا کہ اس کتاب اندر میں نے بتانے کی کوشش کی ہے، ہزار سال سے زائد عرصہ ہوا دنیائے اسلام کوئی اکائی نہیں ہے۔ سینیگال، چین، انڈونیشیا، عرب اور جنوب ایشیا کے مسلمانوں اندر سماجی و ثقافتی فرق اس مماثلت کی نسبت کہیں زیادہ ہے جو ان علاقوں کے مسلمان اپنے غیر مسلم ہم وطنوں سے رکھتے ہیں۔ گزشتہ سو سال سے دنیا اسلام نے بھی باقی دنیا کی طرح جنگوں اور انقلابوں کی گرمی محسوس کی ہے۔ امریکی سامراج اور سویت یونین کے مابین لڑی جانے والی ستر سالہ جنگ نے ہر ‘تہذیب’ کو متاثر کیا ہے۔
کمیونسٹ پارٹیوں کی تعمیر، ترقی اور عوامی سطح پر مقبولیت پروٹسٹنٹ جرمنی تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ کنفوشین چین اور مسلم انڈونیشیا میں بھی ایسا ہوا۔ محض برطانیہ اور امریکہ پر مبنی اینگلوسیکسن خطہ اس وبا سے محفوظ رہا۔
بیس اور تیس کی دہائی میں یورپ کی طرح عرب دنیا کے دانش ور بھی دو حصوں میں تقسیم تھے، ایک طرف روشن خیال مارکسزم سے متاثر ہونے والے تھے تو دوسری جانب ہٹلر اور مسولینی کی پاپولرازم، جسے سلطنت برطانیہ کا نظریہ سمجھا جاتا تھا، زیادہ مقبول نہیں تھی۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ فلسطین اور چیچنیا کے بعض مسلم گوریلا سپاہی چے گویرا اور نگیان گیاپ کی تحریریں پڑھتے ہیں۔ ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں مسلم مفکر-97 علی شریعتی اور سید قطب-97 الیکس کاریل ایسے الٹرا قوم پرست کی تحریروں کے زبردست مداح تھے اور آج فرانسیسی نیشنل فرنٹ کے ہاں اس پیتانسٹ کی تحریریں تربیتی نشستوں میں پورے انہماک سے پڑھی جاتی ہیں۔ (85)
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے انتہائی رجعتی عناصر کی پشت پناہی کی تاکہ ان عناصر کو کمیونزم اور ترقی پسند/سیکولر قوم پرستی کے خلاف بطور فصیل استعمال کیا جا سکے۔ یہ عناصر عموماً سخت گیر مذہبی بنیاد پرست ہوتے: مصر میں ناصر کے خلاف اخوان المسلمین، انڈونیشیا میں سائیکارنو کے خلاف مس جومی، پاکستان میں بھٹو کے خلاف جماعت اسلامی، اور بعد ازاں افغانستان میں سیکولر کمیونسٹ نجیب اللہ کے خلاف اسامہ بن لادن۔ 1996ء میں کابل پر طالبان کا قبضہ ہوا تو آتے ساتھ ہی انہوں نے ایک کام یہ کیا کہ اقوام متحدہ کے دفتر سے جہاں نجیب اللہ نے پناہ لے رکھی تھی، انہیں نکال کر ہلاک کر ڈالا۔ ہلاک کرنے کے بعد ان کا عضو تناسل اور خصئے منہ میں ٹھونس کر لاش سر عام لٹکا دی گئی تاکہ کابل کے شہری جان جائیں کہ ایک دہرئیے کو کیسی بھاری قیمت چکانی ہوگی۔ میرے علم کے مطابق مغرب کے کسی رہنما، کسی اداریہ نویس نے اس عمل سے اپنی برأت کا اظہار نہیں کیا۔ تہذیبوں کا تصادم؟
عراق اور ایران ایک استثناء تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں عراق اندر کسی مذہبی گروہ کا قیام کسی طور ممکن نہیں تھا۔ کمیونسٹ پارٹی ملک کی سب سے اہم سماجی طاقت تھی اور اسے فتح حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی تھی۔ امریکہ نے بعث پارٹی کے غنڈہ گرد دھڑے کی پشت پناہی شروع کر دی اور اس دھڑے کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ پہلے کمیونسٹوں کا صفایا کرے اور پھر تیل کے شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں کی ٹریڈ یونینوں کا۔ صدام حسین نے حکم کی تعمیل کی جس پر مغرب نے صدام کو اسلحے اور تجارتی معاہدوں سے نوازا تاآنکہ 1990ء میں کویت بارے صدام سے مہلک فیصلہ کرنے کی غلطی سرزد ہوئی۔ ایران میں مغرب نے شاہ ابن شاہ کی پشت پناہی کی جس کی جدت پسندی کی تکمیل برطانوی کارخانوں میں خصوصی حکم پر تیار کئے گئے آلات تشدد کے ساتھ ہوئی۔ سیکولر حزب مخالف جس نے ایک بار شاہ کو چلتا کیا آخرکار برطانوی انٹیلی جنس اور سی آئی اے کی چالبازی سے مات کھاگئی۔ یوں جو خلا پیدا ہوا اسے ملاؤں نے پورا کیا جو آج حکومت میں ہیں۔
ثابت یہ ہوا کہ ایک آزمودہ کار سامراج لمبے عرصے سے پوری تندہی سے اپنے معاشی، سیاسی اور فوجی مفادات کے حصول میں لگا ہوا ہے۔
یہ سائنس اور تکنیک میں ترقی تھی کہ مغرب کا غلبہ ممکن ہوا۔(86) 1917ء سے قبل اس نے علاقائی سطح پر کیا، بعد ازاں عالمی سطح پر اور سویت یونین کی موت کے بعد وہ اہم نوعیت کی اکھاڑ پچھاڑ میں مصروف ہے۔ اس سلسلے کی ایک کڑی تو ناٹو کی توسیع تھی جس کا مقصد نوخیز جمہوریاؤں سے روس کو دور رکھنا تھا اور اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ امریکی مفادات کی موثر نگرانی ہوتی رہے۔ اگر ناٹو کا مقصد یورپ والوں کو قابو میں رکھنا نہیں تو اس کا اور جواز کیا ہے؟ اور اسلحہ پر بھاری امریکی اخراجات کا مقصد اپنی سامراجی وراثت کی حفاظت کے سوا کیا ہے؟ امریکہ آج سب سے طاقتور سامراج ہے۔ 2000ء میں اس کا دفاعی بجٹ 267.2 ارب ڈالر تھا جو چین، روس، بھارت، جرمنی اور فرانس کے مجموعی دفاعی بجٹ سے زائد تھا۔ اگر امریکہ کے دفاعی بجٹ میں ناٹو، جاپان، جنوبی کوریا اور اسرائیل پر صَرف ہونے والے اخراجات بھی شامل کر لئے جائیں تو پوری دنیا کے کل دفاعی بجٹ کا اَسی فیصد امریکہ خرچ کرتا ہے۔ اگر اس کی کوئی وجہ ہے تو یہ کہ وہ اپنے اتحادیوں پر اپنی برتری قائم رکھنا چاہتا ہے۔ جنرل بٹلر کی پرانی بات آج زیادہ برمحل ثابت ہوتی ہے۔ یہ ٹھگ بازی کے تحفظ کا عالمی گروہ ہے۔ اپنے چند حامیوں کے مفادات کی حفاظت کے عوض امریکہ بھاری قیمت وصول کرتا ہے۔ یہ، مثلاً جاپان کی تجارتی بچتیں اور ڈالر کے ذخائر ہیں جن کی بدولت ڈالر عالمی کرنسی کے طور پر بدستور قائم ہے۔
معروف امریکی تاریخ دان چالمرز جانسن انتہائی مہارت سے ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ نظام چلتا کیسے ہے؟ جانسن روایتی ‘امریکہ مخالف’ یا ‘آکسیڈینٹل’ عالم نہیں کہ جنہیں ریاست بھی اور سرکاری دانشور بھی مطعون کرتے ہیں۔ (87) ان کی ساکھ پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ جانسن کا تعلق مغربی ساحل پر امریکی بحریہ سے وابستہ ایک خاندان سے ہے۔ جانسن کے والد نے دونوں عالمی جنگوں میں حصہ لیا۔ جانسن خود نیول ائر ریزرو میں تھے اور بحری بیڑے کے ساتھ تھے۔ شکست خوردہ جاپان میں مقیم رہے۔ وہاں ‘ان ایکٹو ڈیوٹی’ ختم ہوئی تو وطن واپس آکر برکلے میں گریجویٹ طالب علم کے طور پر داخلہ لے لیااور چین و جاپان کے عالم بن گئے۔ ساٹھ کی دہائی میں یونیورسٹیوں میں بے چینی پھیلی تو جانسن اس سے قطعاً متاثر نہ ہوئے اور لیفٹ اسٹ نہیں بنے۔ ویت نام میں انہوں نے امریکہ کی حمایت کی۔ یہ تو سرد جنگ کا خاتمہ ہونے کے بعد امریکی ایمپائر کی فوجی تیاریاں تھیں کہ جانسن امریکہ اندر ایک موثر ترین تنقیدی آواز بن کر ابھرے اور ان کی تازہ ترین کتاب بلوبیک ٭ پر امریکہ کے ٹھیکیدار بلاسوچے سمجھے تنقید کر رہے ہیں اور وطن پرستی کے نیزے برسا رہے ہیں۔ بلوبیک میں چالمرز جانسن کا کہنا یہ ہے کہ امریکی ایمپائر نے اپنی بساط سے بڑھ کر دامن پھیلا دیا ہے اور جوں جوں وہ اس حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے گی توں توں دامن سمیٹنے کا عمل کربناک ہوتا جائے گا۔ وہ خلیج فارس کے دفاع پر آنے والے اخراجات…… امریکہ کے سالانہ دفاعی بجٹ میں سے 50 ارب ڈالر…… کا موازنہ درآمد شدہ تیل کی قیمت سے کرتے ہیں جو محض 11 ارب ڈالر بنتی ہے اور یہ تیل امریکی ضروریات کا محض دس فیصد پورا کرتی ہے۔ اس تیل سے یورپ کی ایک چوتھائی اور جاپان کی آدھی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ یہ ‘پوسٹ امپیریل ازم’ کم اور ‘الٹرا امپریل ازم’ زیادہ ہے۔ مغرب کے ایک عام شہری کو شاید یہ دکھائی نہ دیتا ہو لیکن باقی ساری دنیا اس کے بارے جانتی ہے۔ اس کا ردعمل ہوتا ہے۔ 
اس وقت 187 ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہیں۔ ان میں سے 100 ممالک کے اندر امریکہ کی فوجیں موجود ہیں۔ ان میں چھوٹا سا جزیرہ قطر بھی شامل ہے جو الجزیرہ ٹی وی کا بھی ہیڈ کوارٹر ہے۔ ولیم ارکن ایل اے ٹائمز کے قارئین کو اڈے بارے بتاتے ہیں:
 
العدید ہوائی اڈہ ایک ارب ڈالر کا منصوبہ ہے۔ اس کا 15000 فٹ لمبا رن وے خلیج اندر سب سے بڑا رن وے ہے۔ یہاں پر تعمیر کا کام اپریل 2000 میں ڈیفنس سیکرٹری ولیم۔ایس۔کوھن کے دورے کے بعد شروع ہوا۔ قطر میں ایک آرمی بریگیڈ کے لئے ساز و سامان پہلے بھی موجود تھا اور 1996ء میں یہاں فضائیہ کے تیس لڑاکا طیارے ‘مہم جویانہ’ مقاصد کے لئے کھڑے تھے۔ گو العدید ایسے خلیجی اڈوں کا اصل مقصد تو ازسرنو عمل کے لئے تیاری تھی البتہ گزشتہ سال ایک اعلیٰ عسکری عہدیدار کا کہنا تھا کہ قطر میں سہولیات کا ‘مرکز نگاہ کوئی خاص ملک نہیں بلکہ یہ اس نظام کا حصہ ہیں جو ہم اس جگہ قائم کرنا چاہتے ہیں’…… جہاں گیارہ ستمبر تک پینٹاگون کی دستاویزات کے مطابق امریکہ نے اس قسم کا معاہدہ قطر سمیت 92 ممالک سے کر رکھا ہے۔ (88)
 
چالمرجانسن نے فوجی-97 صنعتی کمپلیکس‘ بارے آئزن ہاور کی پیش بین تنبیہہ کو وسعت دے کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ کمپلیکس اب بین الاقوامی حیثیت حاصل کر چکا ہے:
 
یہ دیوقامت فوجی اسٹیبلشمنٹ ایک کام یہ کرتی ہے کہ دوسرے ملکوں کو اسلحہ فروخت کرتی ہے یوں پینٹاگون امریکی حکومت کی اہم معاشی ایجنسی بن چکی ہے۔ فوج سے متعلق اشیاء امریکی جی ڈی پی کا لگ بھگ ایک چوتھائی ہیں۔ حکومت نے لگ بھگ 6,500 ایسے ملازم بھرتی کر رکھے ہیں جن کا کام دنیا بھر میں امریکی سفارت خانوں میں کام کرنے والے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ مل کر اسلحہ فروخت کی نگرانی ہے اور سفارت خانے کے یہ اہل کار بطور سفارت کار ملازمت کا زیادہ عرصہ اسلحے کے بیوپاری بن کر کاٹتے ہیں۔ آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ کے مطابق انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے تمام فوجی و تعمیراتی سودے کانگرس کے علم میں لائے جو پینٹاگون نے براہ راست کئے ہوں۔ 14 ملین ڈالر سے زائد مالیت کی کمرشل سیل جو کسی اسلحہ ساز کمپنی نے کی ہو، اسے بھی کانگرس کے علم میں لانا ضروری ہے۔ پینٹاگون کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1990-96ء کے عرصہ میں ان تین مدوں کی مجموعی مالیت 97,836,821,000 ڈالر بنتی ہے۔ اس رقم سے لگ بھگ 100 ارب ڈالر سالانہ منہا کر دیئے جائیں، سالانہ تین ارب حکومت اپنے غیر ملکی گاہکوں کو امریکی اسلحہ خریدنے کے لئے سبسڈی مہیا کرتی ہے۔(89)
 
ان حقائق سے باخبر کہنہ سامراجی نظریہ دان زبیگینو برژنسکی نے 1996ء میں روس کو خبردار کرتے ہوئے کہا: ‘روس بطور قومی ریاست تو قابل عمل ہے۔ البتہ میرے خیال میں بطور ایمپائر اس کا کوئی مستقبل نہیں۔ اگر انہوں نے بے وقوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایمپائر بننے کی کوشش کی تو ایسے ایسے تنازعات کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے مقابلے پر چیچنیا اور افغانستان تو پک نک معلوم ہوں گے’۔(90) البتہ یہ اصول امریکہ پر لاگو نہیں ہوتے۔ امریکہ جتنے چاہے تنازعات کھڑے کر لے: صومالیہ، بوسنیا، کوسوو۔ ان میں سے پہلا تنازعہ تو مکمل تباہی ثابت ہوا۔ اس موقع پر مداخلت میں اقوام متحدہ کی طرف سے مہیا کئے جانے والا ‘انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت’ کا لبادہ اوڑھا گیا۔
آنے والی جنگوں کی طرح اس جنگ میں منظم پراپیگنڈہ مہم بھی ساتھ ساتھ چلائی گئی۔ سیاست خفیہ اداروں کے نوابی انداز میں کی جاتی ہے اور اسی انداز میں پیش کی جاتی ہے: ڈس انفارمیشن، جھوٹی اطلاعات، دشمن کی طاقت اور صلاحیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، ٹی وی کی تصویروں کی سفید جھوٹ کے ساتھ وضاحت کرنا اور سنسر شپ۔ مقصد شہریوں کو دھوکا دینا اور غیر مسلح کرنا ہوتا ہے۔ چیزوں کو یا تو بالکل ہی سیدھا سادہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے یا اس قدر مشکل کہ سمجھ میں نہ آپائیں۔ پیغام سیدھا سادہ سا ہے۔ کوئی متبادل موجود نہیں۔
صومالیہ میں آپریشن ری سٹور ہوپ کا اعلانیہ مقصد قحط کا شکار صومالی لوگوں کی جان بچانا تھا۔ ٹیلی ویژن پر متعلقہ تصویریں چلائی گئیں۔ دنیا کو بتایا گیا کہ اگر خانہ جنگی روکنے اور قحط زدہ لوگوں تک خوراک پہنچانے کے لئے فوجی مداخلت نہ کی گئی تو بیس لاکھ جانیں تلف ہو جائیں گی۔ زیادہ تر اموات ملیریا کے ہاتھوں ہوئیں۔ جب امریکی دستے اور امدادی تنظیمیں وہاں پہنچیں تو ان کے پاس ملیریا سے نپٹنے کے لئے کوئی دوا دارو نہ تھا جبکہ قحط کا زور کم پڑ چکا تھا۔ امدادی ایجنسیاں دارالحکومت موگا دیشو میں فوج کی موجودگی کے حق میں نہ تھیں۔ امدادی ادارے چاہتے تھے کہ ‘قحط کی مثلث’ میں محدود اور محتاط انداز میں خوراک کو فضائی مدد سے مخصوص جگہوں پرپھینکا جائے لیکن اس تجویز کو ڈپٹی سیکرٹری فار ڈیفنس فار امریکن افیئرز ایل وڈز نے یہ کہہ کر رَد کر دیا کہ ‘یہ تجویز امریکی فوج کی اس نئی تاکید سے میل نہیں کھاتی تھی جس میں بھرپور طاقت کے استعمال کے لئے کہا گیا تھا’۔
1992ء میں جنگ شروع ہوئی تو کولن پاول، جو ان دنوں پینٹاگون کے چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف تھے، نے حملے کو پینٹاگون کے لیے ایک ایسا ‘سیاسی اشتہار’ قرار دیا جو کسی نے عطیہ کیا ہو۔ سرد جنگ کو ختم ہوئے ابھی سال بھی نہیں گزرا تھا اور پاول 300 ارب ڈالر سے زائد کے بجٹ کو برقرار رکھنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔ ان اخراجات کا جواز مہیا کرنے کے لئے بے چارے صومالیوں کی قربانی دی گئی۔ آپریشن بالکل ناکام رہا۔ برطانوی اور اطالوی نوآبادیاتی جبر کے خلاف صومالیہ والوں کی مزاحمت کی تاریخ قابل احترام تھی۔ امریکی فوجی مرنے لگے، ایک امریکی پائلٹ پکڑا گیا اور اسے موگا دیشو کی گلیوں میں گھسیٹا گیا اور ٹی وی پر یہ منظر بار بار دکھایا گیا۔ امریکہ کے خصوصی ایلچی رابرٹ اوکلے نے پہلے ایک جرنیل کو خوش کیا پھر دوسرے کو (91) امریکہ/ اقوام متحدہ کی فوجوں نے ‘ہرگیسا کے قصاب’ جنرل محمد ہرسی مورگن کو کسماؤ پر قبضہ کرنے کی کھلی چھٹی دے دی لیکن موگادیشو پر قبضے کے خلاف شہریوں نے مظاہرہ کیا تو ان پر گولی چلا دی۔ ماضی کی طرح اس بار بھی بدترین ظلم بلجیئم کے دستوں نے ڈھائے۔ انہوں نے سات سو صومالی ہلاک کئے جبکہ خواتین سے زیادتی کے کئی واقعات پیش آئے۔ ایک رسکیومشن کے دوران امریکی ہیلی کاپٹروں نے ساٹھ شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا تو اقوام متحدہ کے ترجمان میجر ڈیوڈ سٹاک ویل کو اس پر کوئی ندامت نہیں ہوئی: ‘وہاں نہ تو تماشائیوں کے بیٹھنے کے لئے نشستیں ہیں نہ ہی لکیریں کھینچ کر میدان کی حد بندی کی گئی ہے…… زمین پر موجود لوگوں کو جنگجو سمجھا جاتا ہے’۔ (92) اس کے ذمہ دار کسی شخص پر نہ تو کوئی الزام لگا نہ مقدمہ چلا۔ اگر یوگوسلاویہ کے سابق صدر پر اس کے مبینہ سابقہ جرائم کی الزام میں مقدمہ چل سکتا ہے تو امریکہ/ اقوام متحدہ کی ہائی کمانڈ یا پیرا ٹروپرز پر مقدمہ کیوں نہیں چل سکتا؟ اس سارے آپریشن پر بھرپور تنقید کرتے ہوئے الیکس ڈی وال اس نتیجے پر پہنچے:
 
اقوام متحدہ-97 امریکہ کی مداخلت کس حد تک ناکام تھی اس کا اندازہ اسی وقت لگایا جا سکتا ہے جب یہ اندازہ ہو جائے کہ اقوام متحدہ کی فوجوں نے صومالی معاشرے کے ایک بڑے حصے کو کس قدر اپنا مخالف بنا لیا تھا۔ جب 9 دسمبر 1992ء کو سپاہی موگادیشو پہنچے تو ان سے بڑی امیدیں وابستہ کی گئیں…… لیکن فوجیوں کی اکثریت کا برتاؤ قابل مذمت تھا۔ اکثر ممالک نے تربیت یافتہ پیراٹروپر اور لڑاکا دستے بھیج دیئے تھے حالانکہ اس مشن کے لئے پولیس ٹریننگ اور سول انجینئرنگ کی مہارت رکھنے والوں کی ضرورت تھی۔ اکثر اوقات یہ ہوا کہ آپریشن صومالی شہریوں کے خلاف معمول کا جبر بن کر رہ گیا……
ایک بات جو امریکہ اور اقوام متحدہ کے کبھی پلے نہیں پڑ سکی یہ تھی کہ وہ جوں جوں قتل و غارت گری میں اضافہ کرتے توں توں صومالیوں کا جدوجہد اور مزاحمت کا ارادہ پختہ ہوتا جاتا۔ 3 اکتوبر کی لڑائی شروع ہوتے ہوتے موگادیشو کی اکثریت امریکہ اور اقوام متحدہ کو اپنا دشمن سمجھتی تھی اور ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر تیار تھی۔(93)
 
11 ستمبرکے بعد صومالیہ میں دوبارہ مداخلت اور 1992ء کی ہزیمت کا بدلہ لینے بارے خاص بڑھک بازی ہوئی۔ 17 اکتوبر 2001ء کو ہالی وڈ کے بڑوں کا ایک اجلاس ہوا جس میں انہوں نے ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات سے وابستگی کا اظہار کیا’۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی 90 ملین ڈالر سے تیار ہونے والی کریہہ، نسل پرست فلم بلیک ہاک ڈاؤن تھی جس کا شرمناک مقصد بالکل واضح ہے: اگر صومالیہ کے خلاف جنگ کرنی پڑ جائے تو اس کے لئے رجعت پرست حب الوطنی کے جذبات کو ہوا دینا۔ واشنگٹن میں اس فلم کے پریمیئر کو سیکرٹری دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ اور جنگی جرائم کے پرانے مجرم اولیور نارتھ نے اپنی موجودگی سے رونق بخشی۔
وحدانیت پرست تینوں مذاہب سے جنم لینے والی ثقافتیں/تہذیبیں نہ تو کوئی اکائی ہیں نہ ہی وقت سے ماورا۔ تینوں میں موجود فرق کے باوجود تینوں ہی اس دنیا سے متاثر ہوتی ہیں جس میں وہ مل کر زندہ ہیں۔ وقت بدلنے کے ساتھ وہ بھی تبدیلی کے عمل سے گزرتی ہیں مگر اپنے اپنے انداز میں۔ موجودہ حالات کی اہم ترین بات یہ ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں کوئی ایسی بڑی سیاسی جماعت موجود نہیں جو کسی بڑی تبدیلی کا لارا لگاتی ہو۔ اگر یہ سچ ہے کہ تاریخ اور جمہوریت قدیم یونان اندر جڑواں کے طور پر پیدا ہوئے تھے تو کیا ان کی موت بھی بیک وقت ہوگی؟ غالب ثقافت کی طرف سے تاریخ کو باقاعدہ غیر قانونی قرار دے دینے کی وجہ سے جمہوری عمل تماشا بن کر رہ گیا ہے۔ اس کا نتیجہ ترش روئی، مایوسی اور فرار کے ملغوبے کی صورت نکل رہا ہے۔ قصہ مختصر یہ ایک ایسا ماحول ہے جس کا مقصد ہر قسم کی نامعقولیت کو پروان چڑھانا ہے۔ پچھلے پچاس سالوں کے دوران مختلف ثقافتوں میں سیاسی مقاصد کے ساتھ تجدید مذہب کا عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ عمل ہنوز جاری ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے دیگر سب راستے بنیاد پرستوں کی ماں: امریکی سامراج نے بند کر رکھے ہیں۔
یہ بات سیموئیل پی ہنٹنگٹن تسلیم کریں گے نہ ہی فرانسس فوکویاما، یہ ایسی ہی بات ہے کہ آج کا اسلامی مفکر ممکن ہے بہت سے مسائل پر دسترس رکھتا ہو لیکن وہ ہرگز یہ بات تسلیم نہیں کرے گا کہ اس کا اپنا مذہب تشکیل نو کا تقاضا کر رہا ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد لکھے گئے مضامین اور دیئے گئے انٹرویوز میں دونوں حضرات اپنی گزشتہ تحریروں کی وضاحت اور قطع و برید میں مصروف ہیں۔ دونوں میں سے ہنٹنگٹن کی مانگ زیادہ ہے کیونکہ بہت سے لوگوں نے ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ’ کو تہذیبی تصادم کے حوالے سے دیکھا ہے۔ خود ہنٹنگٹناس بات کے قائل نہیں۔ وہ ‘مغرب بمقابلہ باقی دنیا’ والے اس نقطہ نظر سے چمپت ہوچکے ہیں جس کے مطابق مغربی تہذیب کو ویسے ہی دیوہیکل ‘سٹریٹیجک گاؤں’ میں قلعہ بند ہو کر بیٹھ جانا چاہئے جو ویت نام میں پائے جاتے تھے اور وہاں اس تہذیب کی نمود ہونی چاہئے تاکہ یہ ہر قسم کے منفی بیرونی اثرات سے ہر قیمت پر محفوظ رہے۔ نیوز ویک میگزین کے ‘سپیشل ڈاؤس ایڈیشن’ (دسمبر 2001ء فروری 2002ء) میں وہ بعد از سرد جنگ دور کو ‘مسلم جنگوں’ کا عہد قرار دیتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ ‘مسلم آپس اندر اور غیر مسلموں سے دوسری تہذیبوں کے لوگوں کی نسبت کہیں زیادہ لڑتے دکھائی دیتے ہیں’۔ اس سادہ لوح رائے کے کارن ان کا نظریہ ‘تہذیبوں کا تصادم’ بری طرح تضاد کا شکار نظر آتا ہے۔ ہم یا تو ‘مسلم جنگوں کے عہد’ سے گزر رہے ہیں یا ‘تہذیبوں کا تصادم’ والا دور ہے۔ دونوں بیک وقت ممکن نہیں۔ حقیقت میں تو یہ دونوں باتیں ہی غلط ہیں۔ ہنٹنگٹنکے مضمون میں دو تنازعات کو ‘مسلم جنگوں’ کا نقطۂ آغاز بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اول، ایران عراق جنگ لیکن اس کتاب کے شروع میں یہ بحث کی گئی ہے کہ یہ جنگ کبھی شروع نہ ہوتی اگر واشنگٹن اور لندن صدام حسین کو براہ راست مسلح کرنے اور تھپکی دینے سے باز رہتے لیکن انہیں امید تھی کہ ان کا آمرِوقت ملاؤ ں کو شکست دے دے گا اور کسی نہ کسی شکل میں وہاں مغرب دوست حکومت قائم ہو جائے گی۔
مسلم جنگ کی دوسری مثال افغانستان میں سویت مخالف جہاد ہے۔ ہنٹنگٹن تسلیم کرتے ہیں کہ ‘امریکی ٹیکنالوجی، سعودی اور امریکی سرمایہ، پاکستانی حمایت اور تربیت، دیگر مسلم ممالک، عموماً عرب ممالک، سے آئے ہوئے ہزاروں جنگجوؤں کے بغیر فتح ممکن نہیں تھی’۔ بالکل درست، البتہ وہ اس بات کا اضافہ بھی کر سکتے تھے کہ ان میں نہ صرف اسامہ بن لادن شامل تھے بلکہ بہت سے وہ جنگجو بھی شامل تھے جنہیں ان دنوں امریکہ نے تربیت بھی دی اور شاباش بھی اور بعد ازاں یہی لوگ تھے جو القاعدہ کی روح رواں بنے اور انہوں نے اپنے سابقہ سرپرست سے ترک تعلق کا قصد کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ افغان جنگ لڑی ہی امریکہ نے تھی اور یہ جنگ اس نے لڑی تھی اپنے پروردہ غاصبوں کے ذریعے: سعودی عرب اور پاکستان کی بے رحم ضیا آمریت۔(94) اسے مسلم جنگ کیسے کہا جا سکتا ہے؟
جن دو تنازعات کا حوالہ دیا گیا ہے انہیں مغرب کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اب کی طرح تب بھی مسلمان انفرادی حیثیت میں بھی اور مسلمان ریاستیں بھی ایمپائر کے بجائے ہوئے طبل جنگ پر بخوشی لبیک کہہ رہی تھیں اور جب ہنٹنگٹن کھل کر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ‘مسلم جنگوں کے عہد کی بنیاد ساتویں صدی کے عقائد نہیں بلکہ عمومی سیاسی مسائل ہیں’ اور وہ ان مسائل کی درست نشاندہی کرتے ہیں جن میں 1991ء کے بعد سے عراق کے خلاف امریکی کارروائی اور امریکہ و اسرائیل کے مابین قریبی تعلقات شامل ہیں، یہاں ان کے نظریات ایمپائر کے ان نقادوں سے میل کھاتے ہیں جو افغانستان میں بدلے کی خاطر جنگ لڑنے کے مخالف تھے۔ وہ کہ جنہوں نے حال ہی میں مذہب تبدیل کیا ہے…… لبرل حضرات جنہوں نے رجعت پرست وطن پرستی کا طوق گلے میں ڈالا ہے…… اپنی وفاداری ثابت کرنے میں اس قدر مصروف ہیں کہ عالمی سیاست پر سنجیدگی کے لئے ان کے پاس وقت ہی نہیں۔
ہنٹنگٹنکو اندازہ تو ہوگا کہ اپنی تازہ تحریروں سے وہ اس عمارت کی بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں جو انہوں نے بڑی محنت سے تعمیر کی تھی۔ ان کے حریف نظریہ دان فرانسس فوکویاما بارے البتہ یہ نہیں کہا جا سکتا۔وہ اپنے اخذ کردہ نتائج سے ابھی تک مطمئن نہیں اور ہنٹنگٹن سے بڑی حد تک فاصلہ برقرار رکھتے ہیں۔ فوکویاما کے خیال میں گیارہ ستمبر جدت پر ایک حملہ تھا جس کی بنیاد مغربی اقدار سمیت ہم جنس پرستی، اباحت اور خواتین سے اسلامی بنیاد پرستانہ نفرت تھی۔ وہ صراحت کے ساتھ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ اس واقعہ کا سیاست سے کوئی تعلق تھا۔ انتہائی دلچسپ بات ہے کہ فوکویاما ہنٹنگٹن کے اصل مقدمے سے ہنٹنگٹن کی نسبت زیادہ قریب ہیں: ‘مسلم دنیا ایک اہم حوالے سے حالیہ ثقافتوں کی نسبت مختلف ہے۔ گزشتہ سالوں میں صرف مسلم دنیا نے ایسی اہم ریڈیکل اسلامی تحریکوں کو جنم دیا ہے جو نہ صرف مغربی پالیسیوں کو رد کرتی ہیں بلکہ جدت کے بنیادی اصول یعنی مذہبی رواداری کو بھی رد کرتی ہیں’۔ (95)
پہلی بات تو یہ ہے کہ ‘اباحت’ سے نفرت یا اس سے عدم رواداری نہ تو کوئی نئی بات ہے نہ ہی اسے اسلام سے مخصوص کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ میں مذہب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے…… نوے فیصد آبادی باقاعدگی سے خدا میں یقین کا اظہار کرتی ہے، ساٹھ فیصد فرشتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ پورے مغربی یورپ میں مذہب پر اعتقاد رکھنے والوں کی تعداد امریکہ سے کم ہے۔ پھر یہ کہ مذہبی جذبات کا زور ہے اور ہم نے دیکھا کہ عیسائی بنیاد پرست گیارہ ستمبر کو ہم جنس پرستی اور اسقاط حمل کی اجازت پر خدا کی طرف سے نازل ہونے والا قہر قرار دے رہے تھے۔ آیا کہ امریکہ اندر شہریوں کے قتل کی روایتی طور پر بڑی شرح بھی مقتولین کے گناہوں کی سزا ہے، اس بابت عیسائی دانا خاموش ہیں۔ ان کا مذہب بھان متی کا کنبہ ہے۔ مغربی کنارے کے یہودی آبادکار زمین پر اپنی پرانی مذہبی آیات کی بنیاد پر حق جتاتے ہیں اور کسی مذہبی رواداری کا اظہار نہیں کرتے۔ فوکویاما البتہ نئے دشمن کے خلاف جنگ چاہتے ہیں لہٰذا وہ ‘تہذیبی’ خلیج پر زور دیتے ہیں اور اس سے بھی آگے بڑھ کر اسلام ازم کو ‘اسلامو فاشزم’ قرار دیتے ہیں۔ یہ تاریخ کا خاتمہ کم اور مغربی تخیل کا خاتمہ زیادہ ہے۔
جب سے دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہوا ہے، ہٹلر کا نام اور فلسفہ مغرب کی جنگوں کے لئے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے انتہائی غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔ مغرب کی حالیہ تاریخ کا یہ ایک دلچسپ پہلو ہے کہ اسے جنگ کا جواز گھڑنے کے لئے پچاس سال پیچھے جانا پڑتا ہے اور ایک ایسے دشمن کا سہارا لینا پڑتا ہے جو عوام کی یادداشت اندر نقش ہے۔ 1956ء میں تیل کی پہلی جنگ (سویز) کے دوران برطانیہ نے مصر کے رہنما جمال عبدالناصر کو ‘نیل کا ہٹلر’ قرار دیا، تیل کی تیسری جنگ (یعنی خلیجی جنگ) کے دوران ہٹلر کی تختی عراقی رہنما صدام حسین کے گلے میں ڈالی گئی۔ صدام ہٹلر جب بنے، جب انہوں نے امریکی اشارہ سمجھنے میں غلطی کی۔ ایران عراق جنگ کے دوران یا سارا عرصہ جب صدام کمیونسٹوں اور کُردوں کا صفایا کر رہے تھے، وہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی آنکھوں کا تارا بنے رہے۔ اسی طرح جب میڈلین البرائٹ نے فیصلہ کیا کہ کوسوو میں جنگ لازمی ہے تو انہوں نے اس معاہدے اندر ایک ایسی خفیہ اور ناقابل قبول شق نکالی جسے یوگوسلاویہ کی قیادت پہلے سے تسلیم کرچکی تھی، سرب رہنما کو جانے پہچانے خطاب سے نوازا گیا: مُلاسوچ ہٹلر بن گئے۔ یہ ناگزیر تھا کہ جلد یا بدیر تازہ جنگ کا کوئی عُذر خواہ اس حالیہ دشمن کو ‘فاشسٹ’ قرار دے گا۔ تبدیلی ہئیت جب ہی رونما ہوتی ہے جب ‘فاشسٹ’ امریکی مفادات کے خلاف کام کرنے لگتے ہیں۔ اگر وہ اسی کی دہائی میں بھی ‘فاشسٹ’ ہوتے تو فوکویاما کو ایول ایمپائر کے خلاف ‘اسلاموفاشٹس’ کے ساتھ اتحاد کا جواز ڈھونڈنا پڑتا جس کے لئے ممکن ہے بات کو تروڑ مروڑ کر پیش کرنے کی ضرورت پڑتی یا شاید ایسا نہ بھی ہوتا۔ آخر لبرل جمہوری برطانیہ اور فرانس کی حکمران اشرافیہ کے تمام اہم حلقے تیس کی دہائی میں ‘بالشویک خطرے’ کے خلاف ہٹلر کے ساتھ ہوبہو ایسے اتحاد کی تجاویز دے رہے تھے۔ برا ہو بدنام زمانہ نامعقول جرمن رہنما کا جس نے ان لوگوں کی امیدوں پرپانی پھیر دیا۔(96)
فاشزم کی تعریف متعین کرنے کا لبرل طریقہ کار تو یہ ہے کہ کسی پرانے طبع زاد نسخے سے حوالے تلاش کئے جائیں اور موازنہ کیا جائے آیا کہ یہ تعریف ان حوالوں کے مطابق ہے یا نہیں۔ البتہ فاشزم کی اکثر سوشل ڈیموکریٹک اور مارکسی تعریفیں تجربے کے نتیجے میں سامنے ہیں۔ ان تعریفوں کے مطابق اطالوی، جرمن، ہسپانوی اور فرانسیسی فاشزم سرمایہ دار معاشروں کی مجموعی کارکردگی کا نتیجہ تھیں۔ فاشزم بیک وقت درپیش معاشی بحران اور انقلابی مزدور تحریک کے خطرے سے نپٹنے کے لئے حکمران طبقے کا آخری ہتھیار تھی۔ عالمی جنگوں کے درمیانی عرصہ میں یورپ کے بعض حصوں میں یقینا ایسی ہی صورت حال تھی۔
جرمنی میں سرمایہ دار طبقے کی حمایت کے بغیر فاشزم کی جیت ممکن نہیں تھی جس نے تیسری رائخ کے پہلے پانچ سالوں کے اندر خوب فائدہ اٹھایا: 1933ء میں منافع 6.6 ارب مارک تھا جو 1938ء میں بڑھ کر 15 ارب ہوگیا۔ فاشسٹ نظرئیے کی تخریبی سراسیمگی کو احتیاط سے نشانہ بنایا گیا۔ یہ چیز اپنے معاشی سرپرستوں کو مستقل ہدیۂ عقیدت پیش کرنے میں کبھی حائل نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ جب جنگ عروج پر تھی جب بھی وطن پرستی کو منافع کی راہ میں حائل ہونے کی اجازت نہ دی گئی۔ اکثر اوقات نازی حکومت نے فرمانبرداری سے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اس ضمن میں ایک بہترین مثال وہ طویل مذاکرات ہیں جو بازو کا شیل کی قیمت متعین کرنے کے لئے حکومت اور فلک٭ کمپنیوں کے درمیان ہوئے۔ حکومت 24 آر ایم فی شیل کی پیش کش کر رہی تھی۔فلک کا مطالبہ تھا 39.25 آر ایم فی شیل۔ 37 آر ایم پر معاہدہ طے پا گیا جس کا مطلب ہے 1940-3ء کے عرصہ میں دس لاکھ مارک سے زائد کا منافع۔(97)
تمام نئے دشمنوں کو یورپی فاشزم کی کالی شرٹس اور لیدر جیکٹس پہنا دینا عجیب بات ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ یوں میڈیا دشمن کو باآسانی دشمن بنا کر پیش کر سکتا ہے لیکن مغرب کے شہریوں کی سریع العتقادی کی بھی کوئی حد ہے اور ایک دن آئے گا کہ ہٹلر کہنے سے کام نہیں چلے گا۔ سرکاری دانشوروں کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ اپنے گریبان میں جھانک کر بھی دیکھ لیں۔ وہ جس جمہوریت پر اتراتے ہیں وہ علیل ہو رہی ہے۔ سیاست مجتمع معاشیات کا پرتو ہوتی ہے۔ حال ہی میں تاکویل کی دانشورانہ سوانح عمری تحریر کرنے والا مصنف لکھتا ہے:
 
اقتدارکو جمہوری رنگ میں رنگنے اور سیاسی برابری کی بنیاد پر شراکتی معاشرے کی تعمیر کی علامت کے طور پر جمہوریت کی قدر کرنے کی بجائے…… جمہوریت بطور مضمون………… حالیہ جدید حکومتی اشرافیہ کے نزدیک ایک ناگزیر مگر بیش قیمت داستان ہوگی جو ایسے معاشروں میں امریکی مفادات آگے بڑھانے میں کام دے گی جو جدت سے پہلے دور میں ہیں یا مطلق العنان دور سے گزر آئے ہیں۔ اندرون ملک جمہوریت شہریوں کی شرکت پر مبنی سیلف گورنمنٹ کی بجائے معاشی موقع کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ ایسے سیاسی و معاشی نظام میں یہ موقع عوام کو جمہوریت مخالف بنا کر رکھ دیتا ہے، انہیں ایک ایسے سیاسی ومعاشی نظام میں الجھا کر رکھ دیتا ہے جس میں ایسی تنظیموں کا غلبہ ہوتا ہے جو چند خاندانوں کی میراث ہوتی ہیں، اس موقع کے نتیجے میں طبقاتی خلیج مزید بڑھتی ہے اور ایک ایسے معاشرے سے پالا پڑتا ہے جس میں موروثی عنصر کا مطلب ہے کہ غریب نسل در نسل تحفظ سے محروم رہیں گے۔ (98)
 
نیؤلبرلزم کے متعصب مبلغ ہمیشہ سے اسی بات کے خواہش مند رہے ہیں۔ جب پچھلی صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی میں ان لوگوں نے کام شروع کیا تو کنیزین لبرل ان کا مذاق اڑاتے، سوشل ڈیموکریٹ ان کو نفرت سے دیکھتے اور قدامت پسند ان سے اجتناب برتتے۔ مارکسی معیشت دانوں کی اکثریت نے تو ان کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ ربع صدی تو وون ہائک اور اس کے مقلدین بل میں گھس کر بیٹھے رہے لیکن پھر اچانک کامیاب ردِ انقلاب کے رہنماؤں: رونلڈ ریگن اور مارگریٹ تھیچر کو خوش آمدید کہنے کے لئے نمودار ہوئے۔ ان سماجی قوتوں، جن کی نمائندگی یہ دو سیاستدان کرتے تھے، اور نیؤلبرل نظریات کے اختلاط نے کرہ ارض کو بدل کر رکھ دیا۔
ہائک صرف اندرون ملک ہی سخت نظریات کا مفتی اعظم نہیں تھا۔ وہ بیرون ملک امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے فوجی کارروائی کا حامی تھا۔ اندرون ملک وہ کارپرداز منڈی مارکیٹ کے مخفی جادو کا قائل تھا۔ سرمائے کے مفادات میں حائل کوئی ریاستی مداخلت قابل قبول نہیں تھی۔ البتہ عالمی تعلقات کے حوالے سے فوجی مداخلت کرنے کے لئے ریاست انتہائی اہم تھی۔ نیولبرل حلقے ویت نام جنگ کے زبردست حمایتی تھے۔ انہوں نے چلی میں امریکی پشت پناہی سے ہونے والی فوجی بغاوت کی حمایت کی۔ 1979ء میں ہائک نے تہران پر بمباری کی حمایت کی ۔1982ء میں مالونیاس تنازع کے دوران ارجنٹینا کے دارالحکومت پر چڑھائی کی بات کی۔ یہ تھا نیؤلبرل اجارہ دار کا عقیدہ جو اس کے بانی کو حد درجہ عزیز تھا۔
براہ راست ٹیکسوں میں کمی، فنانشل مارکیٹوں کی ڈی ریگولیشن، کمزور ٹریڈ یونین اور پبلک سروسز کی نج کاری ایسے اقدامات کھپت کی برتری-97-97 تمام اشیاء اور خدمات کو جنس میں بدل دینا-97-97 کے لئے اور اس کی قوت محرکہ تھا نجی شعبہ۔ اس نئے سرمایہ دارانہ نظام نے اب یہ کیا کہ سٹے بازی کو عالمی فنانشل مارکیٹوں کی معاشی زندگی کی مرکزی خصوصیت تسلیم کر لیا۔ اس نظام کی کامیابی کا تقاضا تھاکہ نجی سرمائے کو سماجی تانے بانے میں میوچل اور پنشن فنڈز کی ماس مارکیٹنگ کے ذریعے گھس بیٹھ جانے دیا جائے۔
نیو لبرل ‘اصلاحات’ لاگو کرنے کے سوال پر مغرب کو راضی کرنے کے بعد امریکہ کی کوشش تھی کہ اپنی طاقت عالمی سطح پر جتائے۔ اس مقصد کے لیے اسے یورپی یونین اندر اپنے پرانے ٹروجن گھوڑے کی حمایت حاصل تھی جسے برطانیہ کہا جاتا ہے۔ کئی سالوں سے ڈبلیو ٹی او کی اہم ترجیح تعلیم، صحت، بہبود، ہاوسنگ اور ٹرانسپوٹ کی نج کاری کو تیز کرنا رہا ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر جو کبھی خاصا نفع بخش تھا، میں شرح منافع میں کمی کے باعث مغربی سرمایہ داری کا ارادہ ہے کہ پبلک شعبے کا رُخ کرے جو کبھی اس سے مکمل طور پر پاک تھا۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں مقابلے پر ایسے ٹینڈر بھرنے میں مصروف ہیں جن کے ذریعے وہ جی ڈی پی کے خدمات والے حصے پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔
‘صحت میں سرمایہ کاری’ کے عنوان سے 1993ء میں جاری ہونے والی ورلڈ بنک کی ایک بدنام رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پبلک سروسز عالمی سطح پر غربت ختم کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ امریکہ / کینیڈا اور ای یو کے مابین ڈبلیو ٹی او کی بعض ایسی پالیسیوں پر اہم نوعیت کے تنازعات جنم لیتے رہے جن کے نتیجے میں شہریوں کی صحت اور تحفظ کی سہولتیں متاثر ہو رہی تھیں مگر ملٹی نیشنل ادارے کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں۔ چند سال قبل ہارمون ٹریٹڈ گوشت کے تنازعے پر ڈبلیو ٹی او نے امریکہ/ کینیڈا کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ای یو نے جو معیار مقرر کر رکھا ہے وہ عالمی معیار سے زیادہ اونچا ہے۔ ڈبلیو ٹی او پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے پروفیسر ایلی سن پولک نے (جو یونیورسٹی کالج، لندن کے ہیلتھ سروسز ریسرچ یونٹ سے وابستہ ہیں) 9 دسمبر 2000ء کو برطانیہ کے معروف میڈیکل جریدے لانسٹ میں لکھا: 
ڈبلیو ٹی او کے نیشنل ٹریٹ منٹ رول کے مطابق پبلک ہیلتھ کے اقدامات پروٹیکشن ازم کے زمرے میں آتے ہیں لہٰذا یہ غیر قانونی ہیں …… ڈبلیو ٹی او کے مجوزہ نئے معیار کے مطابق بعض اہم نوعیت کے ایسے طریقہ کار خطرے سے دوچار ہو گئے ہیں جن کے ذریعے حکومتیں اپنی عوام کو صحت کی سہولتیں فراہم کر سکتی تھیں کیونکہ حکومتوں کے لیے لازمی قرار دیا جا رہا ہے کہ جب وہ سماجی بہبود کے حصول کے لیے پالیسی سازی کریں تو اس سے تجارت نہ تو متاثر ہو نہ اس کی راہ میں بے جا رکاوٹیں حائل ہوں۔ 
 
اپنے تھیچرائٹ پیش رو کی طرح، نیو لیبر، ہمیشہ امریکہ اور اس کے فنانشل اداروں کو خوش کرنے کے لیے کمر باندھے ہوئے، اس کوشش میں لگے ہیں کہ ای یو کے اندر وہ ڈبلیو ٹی او کی شرائط پوری کرنے والی پہلی ریاست بن جائیں۔ اس منصوبے کے تحت برطانوی عوام کو بتایا گیا کہ پرائیوٹ فنانس انی شیٹو٭ (پی ایف آئی) کو عوامی شعبے میں ایک نیا ڈھانچہ بنانے کے لیے استعمال کیاجائے گا۔ باالفاظِ دیگر نیولیبر کا کہنا تھا کہ وہ تھیچر کے رد انقلاب کو مکمل کرنے کے لیے اس حد تک جائیں گے جہاں تھیچر اور میجر نے بھی جانے کی جرأت نہیں کی۔ ائیر ٹریفک کنٹرولر چند امیر ائیر لائنز کو بیچ دیئے جائیں گے۔ ریلوے، جس کی نج کاری مالی اور سلامتی کے لحاظ سے بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے، اسے کسی طرح واپس قومی ملکیت میں نہیں لیا جائے گا۔ نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں جن کے ذریعے ممکن ہو گا کہ مقامی اتھارٹیز کسی بھی سکول کو کسی نجی ادارے کے ہاتھوں بیچ سکیں گی۔ اس لمحے صرف وہ سکول کمپنیوں کے حوالے کئے جا رہے ہیں جو ‘ناکام’ ہیں………… یعنی ایسے سکول جہاں غریبوں کے بچے پڑھنے جاتے ہیں اور حکومت ان سکولوں کو مناسب سہولتیں فراہم نہیں کرتی۔ ان ‘ناکام’ سکولوں کے بچوں کو تعلیم دینے جو کمپنیاں براہ راست ملوث ہیں ان میں شیل آئل (ماحولیات پر خاص درس؟) ‘‘برٹش ایروسپیس (اسلحہ کی تجارت پر لیکچر؟) اور میکڈونلڈ (صحت مندانہ خوراک؟) ہیں۔ 
فرانس اور جرمنی ایک ہی سمت جا رہے تھے۔ لوئنل جوسپاں اور جیرہارڈ شروڈر ان سخت گیر پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے برسراقتدار آئے تھے جن کے نتیجے میں سرمائے کا ارتکار ہو رہا تھا اور غریب امیر کے مابین خلیج بڑھ رہی تھی مگر ان دونوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں ان دونوں چیزوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ فرانسیسی سوشلسٹوں نے جونجکاری کی اس پیمانے پر تو گزشتہ چھ ایڈمنسٹریٹر نجکاری نہیں کر سکے۔ جرمن سوشل ڈیموکریٹ اس قدر سبک خرام ثابت نہیں ہوئے البتہ ان کا رُخ متعین ہو چکا ہے۔
جس طرح انہوں نے اندرونِ ملک نیؤلبرل بنیاد پرستی کو جگہ دی اسی طرح انہوں نے بیرون ملک اس کی فوجی منطق کو تسلیم کیا۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے تیل کی تیسری جنگ (1991)، بلقان کی جنگوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت کی۔ جرمنی نئے ورلڈ آرڈ کا حصہ بننے کے لیے اس قدر مشتاق تھا کہ ریڈگرین الائنس نے بیرون ملک فوجی مہمات میں جمہوریہ جرمنی کے ازسر نو حصہ لینے کے لیے ووٹنگ کرا ڈالی۔ گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایوان زیر یں کے وہ ارکان جو اس فیصلے کے خلاف تھے، وہ نجی طور پر یہ فیصلہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے کہ کس طرح مخلوط حکومت کو خطرے سے دوچار کئے بغیر اس فیصلے کے خلاف چند ووٹ ڈالے جا سکتے ہیں۔ 
یہ سوچنا غلط ہو گا کہ جب امریکہ شکار پر نکلتا ہے تو ای یو کے تین بڑے ہی اس فرمانبردار کُتے کی طرح ساتھ ہو لیتے ہیں جس کا کام شکار کردہ جانور کو لانا ہوتا ہے۔ سکینڈے نیویا کے ممالک جو کبھی اپنی آزادی کے باعث پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، کسی صورت باقیوں سے پیچھے رہنے پر تیار نہیں۔ وہ سدھائے ہوئے کُتے کی طرح ایمپائر کے رہنماؤں پیچھے چلے آتے ہیں: ناروے فلسطینی بانتوستان کی تخلیق میں کردار ادا کرنے پر نازاں تھا، فن لینڈ نے یوگو سلاویہ پر بمباری کا سودا کروایا، سویڈن کی حکومت عراقی قحط میں کردار ادا کرتی رہی ہے جبکہ ڈنمارک نے کوسوو کے لیے وائسرائے مہیا کیا۔
دریں اثناء باقی دنیا میں ایک ارب لوگ کم خوراکی کا شکار ہیں اور ستر لاکھ بچے اس قرض کے ہاتھوں دم توڑ دیتے ہیں جو ان کے ملکوں پر چڑھا ہوا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف نفرت کی وجہ یہی تو ہے۔ آئی ایم ایف کے ملاؤں نے سینیگال کو ہدایت کی کہ وہ اپنے سمندروں کے پانی سے دستبردار ہو جائے ورنہ اس کے قرضے ری شیڈول نہیں ہوں گے۔ سینیگال نے ایسا ہی کیا۔ نتیجہ؟ یورپ کے فیکٹری ٹرالر ای یو کی سپر مارکیٹوں کے لیے مچھلیاں نکال کر لے گئے ہیں۔ وہ پانی جس سے سینیگال کے مچھیرے کی روٹی روزی ہزاروں سال سے وابستہ تھی اس پر صاحب ثروت مغرب کا قبضہ ہو گیا ہے۔ اس ملک کے ماہی گیر مشکل کا شکار ہیں کہ یہاں اب مچھلی کی کمی واقع ہو گئی ہے۔ بولیویا سے کہا گیا کہ اپنے پانی کی نجکاری کر دے۔ غریبوں پر بارش کے اس پانی کو اکٹھا کرنے پر پابندی لگا دی گئی جو ان کی چھتوں پر اکٹھا ہو جاتا تھا۔ پانی کے نرخ پہنچ سے باہر ہو گئے۔ کوچابامبا میں ایک نیم سرکشی پھوٹ پڑی تب جا کر کچھ رعایتیں حاصل ہوئیں۔ گھانا میں بھی بالکل یہی صورت حال ہے۔ یہاں غریب لوگوں کو مضر صحت پانی پینے پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجے میں بیماری اور موت نے جنم لیا۔ آئیوری کوسٹ کو مجبور کیا گیا کہ وہ کوکا کاشت کرنے والے کسانوں کو سبسڈی دینا بند کرے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ زبردست بے روزگاری پھیلی۔ ہنر مند مزدوروں کی جگہ مزدوری پر بچے کام کرنے لگے۔ مغرب میں کھائی اور پی جانے والی چاکلیٹ کا بیس فیصد حصہ ان بچوں کے ہاتھوں تیار ہوتا ہے جو استحصال کا بُری طرح شکار ہیں۔
یہ ہے وہ دنیا جس میں ہم جی رہے ہیں………… یہ دنیا اس انسان دوستی اور سماجی ہمدردی سے میل نہیں کھاتی جس کا مطالبہ عالمگیریت کے مخالف مظاہرین کرتے ہیں جبکہ اس نظام کے عذر خواہ دانشور کہتے ہیں کہ اس سے پرے کسی ٹھوس بہتری کا امکان نہیں۔ عالمگیریت زدہ دنیا کے سیاستدان چلا تے ہیں۔ ‘تمام سیاسی جذبات بھلا دو۔’ مجھے ستر سال پہلے لکھی برتولت بریخت کی نظم کا عنوان یاد آتا ہے: ‘سات سو دانشور ایک آئل ٹینکر آگے جھکے ہیں۔’ 
Tariq Ali
+ posts

طارق علی بائیں بازو کے نامور دانشور، لکھاری، تاریخ دان اور سیاسی کارکن ہیں۔