خبریں/تبصرے

کافرانہ ٹائلٹ بمقابلہ صفائی نصف ایمان والے ٹائلٹ

فاروق سلہریا

لگ بھگ 15سال پہلے کسی سویڈش اخبار میں ایک خبر پڑھی تھی۔ خبر سویڈن کے پبلک ٹائلٹس بارے ایک تحقیق سے متعلق تھی۔ ثابت یہ ہوا تھا کہ اوسطاََ سویڈن کا پبلک ٹائلٹ لوگوں کے گھروں میں موجود نجی ٹائلٹ سے زیادہ صاف ہوتا ہے۔

زیر نظر تصاویر سٹاک ہولم کے علاقے سگتونا میں موجود ایک پبلک ٹائلٹ کی ہیں۔ میرا فلیٹ یہاں سے قریب ہے۔ میں جاگنگ یا والک کرنے کے لئے جھیل کنارے واقع اس ٹائلٹ کے پاس سے اکثر گزرتا ہوں۔ اسے استعمال بھی کرتا ہوں۔ مندرجہ ذیل تصاویر میں نے گذشتہ ہفتے لی تھیں۔

یہ ٹائلٹ ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاں گرمیوں میں ہزاروں لوگ پکنک منانے آتے ہیں۔ سگتونا ایک سیاحتی مرکز ہے۔ مجھے سگتونا میں رہتے پندرہ سال ہو چکے ہیں۔ گرمیوں میں بھی یہ ٹائلٹ کبھی گندہ نہیں ملا۔ایسا نہیں کہ سویڈن میں پبلک ٹائلٹ کبھی بھی گندی حالت میں نہیں ملے گا۔ زیادہ آبادی والی جگہوں پر، ویک اینڈ کے موقع پر ممکن ہے کچھ ٹائلٹ اتنی صاف حالت میں نہ ملیں مگر یہ بات طے ہے کہ 12 گھنٹے بعد اس کی صفائی ہو چکی ہو گی۔ وہاں ٹائلٹ پیپر موجود ہو گا۔ فلش کام کرے گا۔ ہاتھ دھونے کے لئے لیکویڈ سوپ موجود ہو گا۔

اب ذرا آئیے پاکستان کے پبلک ٹائلٹس کی جانب۔ اول تو ان کی شدید کمی ہے۔ جہاں پبلک ٹائلٹ موجود ہوں گے،وہاں ان کے اندر جانا تو ایک سزا سے کم نہیں ہوتا، ان کے پاس سے گزرنا بھی کسی سزا کے ہی مترادف ہوتا ہے۔ اور تو اور،مساجد کے ٹائلٹ اس قدر بدبو دار اور گندے ہوں گے کہ انسان کو علامہ اقبال کی ساری شاعری پر یقین آ جاتا ہے۔ کوئی شاہین ہی ان ٹائلٹس میں طہارت کا فریضہ سرانجام دے سکتا ہے۔

میں نے کسی پڑھے لکھے دوست سے سنا تھا کہ آزاد ی کے بعد، کسی انگریز صحافی نے پنڈت نہرو سے پوچھا تھا: آپ کے خیال میں وہ کون سا مقام ہو گا جس پر پہنچ کر آپ یہ کہہ سکیں گے کہ بھارت ترقی یافتہ ملک بن گیا ہے؟ نہرو جی کا جواب تھا: جب ہر گھر میں ٹائلٹ ہو گا۔
ہندوستان کی ساٹھ فیصد آبادی ابھی بھی بغیر ٹائلٹ کے رہتی ہے۔ ویسے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لئے لگ بھگ پانچ ارب ڈالر کا چندہ جمع کیا گیا ہے۔ رہے پبلک ٹائلٹ تو ان کے اندر جانا عام طور پر کسی یودھ سے کم نہیں ہوتا۔

گویا صفائی نصف ایمان کے علاوہ چھوت چھات کا خیال رکھنے والوں کا بھی حال زیادہ بہتر نہیں ہے۔ ویسے یہ ایک امید افزا بات بھی ہے۔ کم از کم کوئی چیز تو ہے جس پر برصغیر کے دونوں بڑے ملک اور دھرم متفق ہیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔