دنیا

جموں کشمیر: ہندوتوا کی 5 سالہ انجینئرنگ کو شکست لیکن مرکز کی آمریت برقرار

حارث قدیر

بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی تمام تر حکمت عملیاں ناکام رہی ہیں۔ مقامی جماعت جموں کشمیر نیشنل کانفرنس اورانڈین نیشنل کانگریس کا اتحاد انتخاب میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ 7آزاد امیدواروں میں سے 4نے نیشنل کانفرنس میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے، جبکہ دیگر2آزادامیدواربھی نیشنل کانفرنس سے ہی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے انتخابات میں آئے اور کامیاب ہوئے۔ یوں ان کی بھی نیشنل کانفرنس میں شمولیت کا امکان باقی ہے۔

5اگست 2019کو بھارتی آئین کے آرٹیکل370کو غیر فعال کرنے اور آرٹیکل35اے کے خاتمے کے بعد بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا گیا تھا۔ اس خطے کو مرکز کے زیر انتظام دو الگ الگ حصوں (یونین ٹیریٹریز) میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ بھارتی حکومت کے اس فیصلے کے بعد جموں کشمیر کو قانون ساز اسمبلی کا حق دیا گیا، تاہم لداخ کو قانون ساز اسمبلی کا حق بھی نہیں دیا گیا۔

اس خطے میں گزشتہ انتخابات2014ء میں ہوئے تھے، جن کے نتیجے میں مقامی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تھی۔ یہ حکومت اپنی 6سالہ مدت مکمل کرنے کی بجائے 2018میں بی جے پی کی حکومت سے علیحدگی کے بعد ختم ہو گئی تھی۔ حکومت کے خاتمے کے بعد پہلے گورنر راج اور بعد ازاں صدارتی راج نافذ کر دیا گیا تھا۔ 5اگست 2019کے اقدام کے بعد گزشتہ پانچ سال سے اس خطے کا نظام حکومت لیفٹیننٹ گورنر کے سپرد ہے۔

بی جے پی حکومت کے اقدامات

بھارتی حکمران جماعت بی جے پی نے 2014میں اقتدار میں آنے سے قبل جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، جسے 2019کے انتخابات میں بھی دہرایا گیا تھا۔ مسلسل دوسرے دور اقتدار میں بی جے پی نے اپنے اس وعدے پر پہلی فرصت میں عملدرآمد کیا۔ وزیراعظم نریندر مودی کا مسلسل یہ دعویٰ رہا ہے کہ جموں کشمیر کی ترقی کی راہ میں خصوصی حیثیت رکاوٹ تھی اور ساتھ ہی مسلح بغاوت اور علیحدگی(آزادی) کی آوازوں کی وجہ بھی خصوصی حیثیت کو ہی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ مجموعی طور پر بی جے پی اور اس کی مدر آرگنائزیشن راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ(آر ایس ایس)کے مطابق جموں کشمیر میں موجود تمام مسائل کی جڑ خصوصی حیثیت ہی تھی۔

2019ء میں خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سب سے پہلے غیر ریاستی شہریوں کو جموں کشمیر میں آباد کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے اور 12ہزار سے زائد ڈومیسائل جاری کیے گئے۔ دوسرا اقدام حلقہ بندیوں کی صورت کیا گیا۔قانون ساز اسمبلی کی نشستوں میں 7کا اضافہ کیا گیا۔ یہ اضافہ ہندوتوا کے ایجنڈے کو سامنے رکھتے ہوئے کیا گیا۔ اکثریتی آبادی پر مشتمل کشمیر وادی، جو مسلم اکثریتی علاقہ بھی ہے، کو ایک اضافی نشست ملی، جبکہ آبادی میں اقلیتی اور ہندو اکثریتی علاقے جموں کے لیے6نشستوں کا اضافہ کیا گیا۔

ہندو وزیراعلیٰ تعینات کرنے کا ایجنڈا پیش کر کے حلقہ بندیوں میں بھرپور کوشش کی گئی کہ ہندو اکثریتی حلقوں میں اضافہ کیا جائے۔ یوں جموں میں ہندو اکثریتی حلقوں کی تعداد24سے بڑھا کر 31کر دی گئی اور مسلم اکثریتی حلقوں کی تعداد12سے کم کر کے 9کر دی گئی۔

وادی کشمیر میں ریاست کی 56.15فیصد آبادی رہتی ہے، جبکہ جموں میں 43.85فیصد آبادی رہتی ہے۔ پچھلی اسمبلی میں وادی کشمیر کی 46نشستیں تھیں، اب 47ہو گئی ہیں۔ تاہم جموں کی 37نشستیں بڑھا کر 43کر دی گئی ہیں۔ بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈے کی منصوبہ بندی کا انداز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جموں کشمیر میں 28فیصد ہندو آبادی کو نئی حلقہ بندیوں کے بعد34.44فیصد نشستیں دی گئی ہیں۔

لوک سبھا کے 5انتخابی حلقوں کی بھی نئی حلقہ بندیوں میں اس تقسیم کو بڑھاوا دینے کا خصوصی انتظام کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے راجوری اور اننت ناگ کو ملا کر ایک انتخابی حلقہ بھی بنایا گیا تھا۔ تاہم اس میں بھی بی جے پی کو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پائے تھے۔

جموں کے پہاڑی علاقے پیر پنجال کے 8انتخابی حلقوں سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بی جے پی نے پہاڑی قبول کو شیڈول ٹرائب میں شامل کر کے ملازمتوں اور تعلیم میں خصوصی کوٹے کا حقدار بھی بنایا۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اس اسمبلی میں 5مخصوص نشستیں بھی رکھی گئی ہیں، جن کا انتخاب منتخب ممبران اسمبلی نہیں کریں گے، بلکہ ان کی نامزدگی لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کریں گے۔ ان نامزد ہونے والے ممبران اسمبلی میں دو خواتین، دو کشمیری پنڈت اور ایک پاکستان سے ہجرت کر کے جانے والے ہندو مہاجرین کی نشست ہو گی۔ ان ممبران کو براہ راست منتخب ہونے والے ممبران کے برابر حقوق حاصل ہونگے۔ اس طرح مرکزی حکومت کو تمام تر تعصبات کو استعمال کر نے کے بعد بھی اگر کامیابی نہ مل پائی تو 5نشستوں کا ٹرمپ کارڈ ان کے پاس محفوظ تھا۔

انتخابی نتائج کیا آئے؟

رائے دہندگان نے بی جے پی کی تمام حکمت عملی کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اب 5ممبران کی نامزدگی کے اختیار کے باوجود ’ہندو‘وزیر اعلیٰ بنانے کا منصوبہ خاک میں مل چکا ہے۔

الیکشن کمیشن کے نتائج کے مطابق 90نشستوں میں سے 42 نیشنل کانفرنس، 29بی جے پی، 6انڈین نیشنل کانگریس،3پی ڈی پی، 1کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ)(سی پی آئی ایم)، 1پیپلز کانفرنس،1عام آدمی پارٹی، جبکہ 7آزاد امیدواروں نے جیتی ہیں۔

آزاد امیدواروں میں سے 4نے نیشنل کانفرنس میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے، دیگر دو بھی نیشنل کانفرنس کا ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے آزاد حیثیت سے الیکشن میں گئے تھے۔ لہٰذا ان کا بھی نیشنل کانفرنس میں شامل ہونے کا امکان موجود ہے۔ ایک آزاد امیدوار حال ہی میں لوک سبھا کے انتخابات میں سب کو سرپرائز کرنے والے انجینئر رشید کا حمایت یافتہ ہے۔

مجموعی طور پر انتخابات میں بی جے پی نے سب سے زیادہ ووٹ لیا ہے۔ پہلی بار بی جے پی کشمیر ویلی میں بھی ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی ہے، تاہم نشست کوئی نہیں جیت سکی ہے۔ بی جے پی کی گزشتہ اسمبلی میں اتحادی پی ڈی پی بری طرح شکست سے دو چار ہوئی ہے اور 28نشستوں سے3نشستوں تک محدود ہو گئی ہے۔

نیشنل کانفرنس واحد ایسی پارٹی رہی ہے جس کے کامیاب ہونے والے امیدواروں میں مسلم اور ہندو دونوں شامل ہیں۔کانگریس اپنے ماضی کے گڑھ جموں کے ہندو اکثریتی حلقوں میں بری طرح سے شکست سے دو چار ہوئی ہے۔ انتخابی تجزیہ کاروں کے مطابق کانگریس نے جموں میں انتخابی مہم چلانے کی بجائے وادی کشمیر میں مہم چلانے کو ترجیح دی۔یہی وجہ ہے کہ اس کے 5امیدوار کشمیر سے اور 1جموں سے کامیاب ہوا ہے۔ اس انتخابی پالیسی کو نیشنل کانفرنس نے بارہا تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔

نیشنل کانفرنس کووادی کشمیر سے 35اور جموں سے 7نشستیں ملی ہیں۔ آزاد امیدواروں کے شامل ہونے کے بعد جموں سے نیشنل کانفرنس کی نشستوں میں اضافہ ہو جائے گا۔

اتحادی کانگریس اور سی پی آئی ایم کی نشستوں کو ملا کر نیشنل کانفرنس اتحاد کے پاس اب 53نشستیں ہو چکی ہیں، جس کے بعد وہ باآسانی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

حکومت کو حاصل اختیارات

نیشنل کانفرنس اور اس کے اتحادیوں کویہ انتخابی فتح آرٹیکل370کی بحالی، ریاستی تشخص کی بحالی اور باعزت زندگی کے انتخابی وعدوں پر حاصل ہوئی ہے۔ بالخصوص وادی کشمیر میں ووٹروں نے بی جے پی کے پچھلے پانچ سال کے اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنا ووٹ تقسیم کرنے کی بجائے ایک جماعت کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ پی ڈی پی کو ماضی میں بی جے پی کا ساتھ دینے کی سزا دی گئی ہے۔ تاہم نئی حکومت کو ان دعوؤں اور اعلانات پرعملدرآمد کرنے کے لیے مرکز میں حکمران بی جے پی کے رحم و کرم پر ہی رہنا ہوگا۔

5اگست2019میں جموں کشمیر تنظیم نو بل اور بعد ازاں دسمبر2023میں جموں کشمیر تنظیم نو ترمیمی بل کی منظوری کے بعد بھارت کی دیگر یونین ٹیریٹریز کی اسمبلیوں کو حاصل اختیارات سے بھی جموں کشمیر کی اسمبلی کو محروم کر دیا گیا ہے۔ پولیس، بیوروکریسی، اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر کی خدمات پر لیفٹیننٹ گورنرکا کنٹرول ہوگا۔تقرریوں اور تبادلوں سے متعلق امور کے لیے لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری لینی ہوگی۔ مالیاتی اختیارات بھی لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری کے محتاج ہونگے۔ لیفٹیننٹ گورنر کا نمائندہ کابینہ کے تمام اجلاسوں میں شرکت کا پابند ہوگا اور وزراء کے شیڈول اور اجلاسوں کے ایجنڈے کم از کم دو دن پہلے گورنر کے دفتر میں جمع کروانا ہونگے۔ سب سے بڑھ کر کی جانے والی قانون سازی بھی لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری سے ہی مشروط ہو گی۔ لیفٹیننٹ گورنر کے اعتراض کے بعد اسمبلی دوبارہ کوئی بل منظور کر دے تو لیفٹیننٹ گورنر اسے منظور کرنے کے پابند ہوتا ہے، تاہم جموں کشمیر میں ایسا نہیں ہے۔

اس طرح عملی طور پر یہ اسمبلی ایک بلدیاتی ادارے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی اور نئی منتخب ہونے والی حکومت اپاہج ہی ہوگی۔ عملی طور پر لیفٹیننٹ گورنر اور اس کے ذریعے بی جے پی کی مرکزی حکومت کی حکمرانی کا سلسلہ مستقبل قریب میں بھی برقرار ہی رہے گا۔

انجینئر رشید کا کردار

لوک سبھا انتخابات میں سرپرائز دینے والے عبدالرشید شیخ عرف انجینئر رشید قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں کوئی سرپرائز دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر نئی پارٹیاں بھی کوئی نشست جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی کے حمایت یافتہ ایک آزاد امیدوار وادی کشمیر سے کامیاب ہوئے ہیں، جبکہ جموں کی چناب ویلی کے حلقہ ڈوڈہ سے عام آدمی پارٹی ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

انجینئر رشید ایک ایسا کردار ہیں، جو بیک وقت عسکریت پسندوں اور ریاستی ایجنسیوں کے زیر عتاب رہے ہیں۔ عارضی ملازمت کے دوران عسکریت پسندوں کو سیمنٹ کی بوریاں دینے سے انکار کرنے پر بری طرح تشدد کا نشانہ بننے کے بعد سرکاری ملازمت حاصل کی۔ بعد ازاں ملازمت چھوڑ کر انتخابی سیاست میں قدم رکھا اور دو بار ریاستی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ 2019 میں ٹیررفنڈنگ کے الزام میں گرفتار کر کے تہاڑ جیل منتقل کیے گئے اور 5سال جیل میں رہے۔ جیل سے ہی لوک سبھا انتخابات میں کاغذات نامزدگی داخل کیے اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور بی جے پی کے حمایت یافتہ معروف سیاسی رہنما سجاد غنی لون کو بھاری مارجن سے شکست دے کر رکن لوک سبھا منتخب ہوئے۔ ایک وقت میں انجینئر رشید بائیں بازو کے نظریات کے حامی سمجھے جانے والے سینئر سیاستدان عبدالغنی لون کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کے بطور ممبر اسمبلی دو ادوارمسلسل جدوجہد اور کرپشن مخالف جدوجہد کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ بھارت میں عام آدمی پارٹی کے قیام کے وقت انجینئر رشید کے اپنے حلقے میں اٹھائے گئے اقدامات کو ماڈل کے طور پر اپنایا گیا تھا۔

عبوری ضمانت پر ان کی رہائی کے بعد بڑے پیمانے پر ان کا استقبال کیا گیا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں بھی سرپرائز دینگے۔ تاہم 40نشستوں پر آزاد امیدوار نامزد کرنے اور4نشستوں پر جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی حمایت کرنے کے باوجود محض ایک ہی نشست حاصل کر پائے۔ نیشنل کانفرنس اور دیگر جماعتوں نے ان پر الزام عائد کیا کہ وہ بی جے پی سے کوئی خفیہ ڈیل کر کے آئے ہیں۔ تاہم ان الزامات کے علاوہ انتخابی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ انجینئر رشید کو امیدواروں کے چناؤکے لیے مناسب وقت بھی میسر نہیں تھا اور محض ایک حلقے کی پارٹی نے عجلت میں جو امیدوار نامزد کیے وہ بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ اس کے علاوہ تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ وادی کشمیر کا ووٹر کسی بھی صورت ووٹ تقسیم کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کہ انجینئر رشید کے امیدواروں کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

جماعت اسلامی کا یوٹرن

1987کے انتخابات میں شکست اور دھاندلی کے الزامات کے بعد جماعت اسلامی انتخابات کا بائیکاٹ کرتی رہی ہے۔ عسکری تحریک کے دوران جماعت اسلامی کی حمایت یافتہ حزب المجاہدین، البدر مجاہدین سمیت دیگرمسلح تنظیمیں متحرک رہیں اور ہندو پنڈتوں کے قتل کا الزام بھی ان تنظیموں پر لگتا رہا ہے۔ جماعت اسلامی سے ہی تعلق رکھنے والے سید علی شاہ گیلانی وادی کشمیر میں پاکستان کے سب سے بڑے حامی سمجھے جاتے تھے۔

2019میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ پابندی کے اس فیصلے کی گزشتہ سال توثیق کی گئی۔ تاہم جماعت پابندی ختم کروانے اور بھارتی آئین کے دائرے کے اندر رہ کر سرگرمیاں کرنے کی بارہا یقین دہانیاں کروا چکی ہے۔ جماعت کو امید تھی کہ یہ پابندی ختم کر دی جائے گی اور وہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔ تاہم پابندی ختم نہ ہونے کے باوجود جماعت نے 4امیدوار آزاد حیثیت میں کھڑے کیے اور 4دیگر آزادامیدواروں کی حمایت کا بھی اعلان کیا۔ اس بڑے یوٹرن کے باوجود جماعت اسلامی کا حمایت یافتہ صرف ایک ہی امیدوار اپنی ضمانت بچانے میں کامیاب ہوا۔

یوسف تاریگامی کی فتح

جماعت اسلامی نے سب سے کامیاب الیکشن کلگام میں سی پی آئی ایم کے امیدوار یوسف تاریگامی کے خلاف لڑا۔ یوسف تاریگامی 1996کے بعد مسلسل 5ویں بار ممبر اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ وہ اس اسمبلی میں منتخب ہونے والے واحد کمیونسٹ رہنما ہیں۔ اس بار ان کا مقابلہ جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سیار احمد رشی سے تھا، جنہوں نے اس انتخاب کو اسلام اور کفر کی جنگ بنا کر پیش کر رکھا تھا۔ واضح طو رپر انہوں نے اعلان کیا کہ ’میری شکست ’اسلام‘ کی شکست ہوگی اور لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ احمد رشی ہار گیا، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ اسلام ہار گیا۔‘

تاہم اس کے باوجود یوسف تاریگامی کامیاب ہوئے۔ ان کا شمار سی پی آئی ایم کے سینئر رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ زمانہ طالبعلمی سے ہی طلبہ حقوق اور کسانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد میں مصروف رہے۔ متعدد بار قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کیا، عسکریت پسندوں کی دھمکیوں اور پروپیگنڈہ کا سامنا رہا۔ ان کی انتخابی سیاست کا محور معاشی مطالبات اور ترقیاتی منصوبے ہی ہوتے ہیں۔ سیاسی مسائل اور خاص کر کے جموں کشمیر کی قومی محرومی کے حوالے سے واضح موقف اپنانے سے انہوں نے ہمیشہ گریز ہی کیا ہے۔ تاہم گزشتہ 5سالوں کے دوران جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کی جدوجہد میں وہ روایتی یا بھارت نواز سمجھی جانے والی جماعتوں کے اتحاد’گپکار الائنس‘ کے ترجمان رہے ہیں۔ جمہوریت اور سماجی انصاف کی مضبوط آواز سمجھے جاتے ہیں۔

مستقبل کیا ہے؟

جموں کشمیر میں انتخابات کے نتائج نے جہاں بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈے کو تو شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ تاہم جمہوری، معاشی اور سیاسی آزادیوں کے حصول کی منزل ابھی طویل اور مسلسل جدوجہد کی متقاضی ہے۔ خصوصی حیثیت اور ریاستی تشخص کی بحالی اگر ہوتی ہے تو ایک ترقی پسند عمل ضرور ہوگا لیکن وہ جمہوری، معاشی اور سیاسی آزادیوں کی ضامن کسی صورت نہیں ہو سکتی۔ بی جے پی کی پالیسیوں کے نتیجے میں جموں اور وادی کے مابین علاقائی تقسیم اب مذہبی تقسیم کی صورت میں مزید گہری اور پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔

یہ پولرائزیشن آخری تجزیے میں محنت کشوں اور نوجوانوں کو تحفظاتی پالیسیوں کے تحت حکمران اشرافیہ کے مفادات کاایندھن بننے پر مجبور کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان انتخابات میں 68فیصد سے زائد ووٹر ٹرن آؤٹ بھی سامنے آیا ہے اور نتائج میں ریاست کی پیوست کردہ مذہبی تقسیم اور تعصب کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔

انتخابی نتائج سے البتہ بی جے پی کی پالیسیوں کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار نوجوانوں اور محنت کشوں میں ایک اعتماد کی بحالی ضرور ہوگی، جو آنے والے دنوں میں مستقبل کی نئی راہیں تلاش کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔