احمد فراز
دل سلگ اٹھتا ہے اپنے بام و در کو دیکھ کر
پھیلنے لگتی ہیں جب بھی شام کی پرچھائیاں
اس قدر ویران لمحے اس قدر سنسان رات
سوچ میں گم ہیں افق سے تا افق پہنائیاں
کس لیے روشن کروں دیوار و در کوئی تو ہو
گنگ دیواروں میں کیا ہوں انجمن آرائیاں
دور ہر شب جاگ اٹھتے ہیں کئی ماہ و نجوم
آگ بھڑکاتی ہیں سنگ و خشت کی رعنائیاں
راستوں سے خواب گاہوں تک مسلسل موج رنگ
جس طرح قوس قزح کی ٹوٹتی انگڑائیاں
زخم نظارہ لیے آنکھوں میں چپ تکتا رہا
گو مری نیندیں بھی مجھ سے لے اڑیں شہنائیاں
کل ذرا سی دیر چمکے تھے مرے دیوار و در
جھلملا اٹھی تھیں میری روح کی گہرائیاں
چند لمحوں کے لیے لو دے اٹھا تھا اک چراغ
اور دمک اٹھی تھیں کچھ لمحے مری تنہائیاں
آج اتنا شور کیوں ہے اے مرے بے درد شہر
ہر نظر میری طرف ہے اس قدر رسوائیاں