پاکستان

ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ہاریوں کے مسائل

علی کھوسو

ایک طرف آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ سندھ ہے تو دوسری طرف زرعی پیداوار کے لحاظ سے بھی دوسرے نمبر پر سندھ ہے۔سندھ میں زرعی پیداوار کی بنیادی کڑی ہاری ہیں۔ یہ بے زمین ہوتے ہیں جو حصے پر زمینداروں کی زمینوں پر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ دن رات کام کر کے انہیں آباد کرتے ہیں۔

ہاری چھ چھ ماہ لگا کر ایک فصل تیار کرتے ہیں۔ فصل کی تیاری کے دوران فصل پر لگنے والی لاگت یعنی بیج اور ٹریکٹرکا خرچہ ہاری پر ہوتا ہے، جب کہ ڈی اے پی، یوریا اور زرعی ادوایات کے خرچے کا آدھا حصہ بھی ہاری پر ہوتا ہے۔

جب فصل تیار ہو جاتی ہے تو ہاریوں کو زمیندار فصل کی تیاری پر ہونے والے لاگت کا خرچہ نکال کر فصل کی پیداوار کا آدھا حصہ دیتے ہیں، جو آخر میں ان کے لیے نہ ہونے کے برابر بچتا ہے۔ تاہم گزشتہ کچھ سے سالوں ملک کے اندر رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہاریوں کو کچھ بھی نہیں بچ رہا ہے، الٹا وہ قرض دار ہوتے جارہے ہیں۔

عالمی رپورٹس کے مطابق پاکستان اس وقت دنیا کے 10 سب سے زیادہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے متاثر ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان میں پھر سب سے زیادہ متاثر صوبوں میں سندھ اور بلوچستان ہیں۔

2022 میں تاریخ کی تباہ کن بارشوں کی وجہ سے سندھ سمیت ملک کے چاروں صوبے متاثر ہوئے۔ملک کی تین کروڑ آبادی متاثر ہوئی، بہت ساری جانیں ضائع ہوئیں، بہت سارے لوگ زخمی ہوئے، گھر کر تباہ ہوگئے، راستوں، سکولوں، ہسپتالوں سمیت ہر چیز سخت متاثر ہوئی اورزندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے کاروبار سخت متاثر ہوئے۔ تاہم سندھ میں سب سے زیادہ متاثرہاری ہوئے کیوں کہ ہاریوں نے زمینوں میں ہل چلا کر دھان اور دیگر فصلوں کا بیج لگا کر یوریا اور ڈی اے پی ڈالا ہی تھا کہ اچانک اگست کے ماہ میں طوفانی بارشیں شروع ہوگئیں، جس کی وجہ ساری فصلیں ڈوب گئیں۔6 ماہ تک زمینوں میں پانی کھڑا رہا، پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے ربی کی فصل بھی نا ہوسکی اور ہاریوں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوگیا اور وہ قرض دار بن گئے۔

2023 میں سندھ کے ہاریوں کی خریف فصل یعنی دھان اور دیگر فصلیں اچھی ہوئیں۔ اس کے بعد پھر ربی کی فصل یعنی گندم اور دیگر فصلیں جنوری 2024 میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پڑنے والی سخت سردیوں کی وجہ سے بہت متاثر ہوئیں اور انکی اوسط پیدوار میں 50فیصد کم واقع ہوئی۔ گندم اسکینڈل کی وجہ سے گندم کا ریٹ بھی نا ہونے کے برابر تھا،جس کی وجہ ہاریوں کو فائدا ہونے کی بجائے بڑا نقصان ہوا، اور وہ قرضوں میں مزید جکڑ گئے۔

2024 کی سخت سردیوں کی وجہ سے متاثر ہونے والی فصلوں کی اوسط پیدوار کی کمی اور ریٹ نہ ملنے والی تکلیف سے ہاری نکلاہی نہیں تھا کہ اس سال ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی سخت گرمیوں کی وجہ سے دھان کی ایوریج پیدوار میں 60فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور فی ایکڑ پیداوار دھان کی پیداوار 80 من سے کم ہوکر 32 من ہوکر رہ گئے۔حکومت کی طرف سے عالمی سامراجی ادارے آئی ایم ایف کی فرمائش پر دھان کی کم از کم امدادی قیمت مقرر نہ ہونے کی وجہ سے مل مالکان اپنی من مانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھان ایری سکس نمبر 1600 روپے میں فی من،جب کہ دھان سپر کرنل 4000 روپے میں فی من خرید کرنے کے ساتھ ایک من پر دو کلو غیر قانونی کٹوتی بھی کر رہے ہیں۔گزشتہ سال ایری سکس نمبر دھان فی من 3200 روپے میں اور سپر کرنل فی من 6000 روپے میں فروخت ہو رہا ہے تھا۔ اس سال مل مالکان نے نصف سے زیادہ قیمتوں میں کمی کردی ہے،جب کہ انتظامیہ انکے خلاف کوئی ایکشن لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

رواں سال ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دھان کی پیداوار میں 60 فیصد کمی اور مناسب ریٹ نہ ملنے کی وجہ سے ہارری سخت پریشان ہیں۔ ان کافصل کی تیاری پر کیا ہوا خرچہ بھی نہیں نکل رہا ہے،کیوں کہ انکو فصل کی تیاری کے لیے ملنے والی کھادیں وغیرہ بہت مہنگے داموں بلیک ملتی ہیں۔

اس وقت سندھ میں ہاری ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سخت متاثر ہیں۔ ہاری وہ طبقہ ہے جس کے گھر سارا خرچہ اسکی زمین کی پیداوار پر چلتا ہے۔ وہ 6ماہ تک اشیاء خوردونوش اور دیگر ضروریات زندگی فصل کے آسرے پر ادھار پر خریدتا ہے اور شادیاں بھی فصل کے آسرے پر ادھار لیکر کرواتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں نے ان سے تمام چیزیں چھیں لی ہیں۔ غیر یقینی کی صورتحال ہونے کی وجہ سے کوئی انہیں اب ادھار دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں وہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتے اور بچوں سمیت فاقے کاٹنے پر مجبور ہیں۔

کسان اور ہاری دوستی کی دعویدار وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی طرف سے ماحولیاتی تباہی سے متاثر ہاریوں کو معاوضہ دینے یا مدد کرنے کے لیے کوئی کام نہیں کیا بلکہ انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والے ادارے بھی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہاریوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اگر سندھ میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی یہی صورتحال رہی اور حکمرانوں اور اداروں کی طرف سے متاثر ہاریوں کی طرف توجہ نا دی گئی،تو آنے والے وقت میں شاید سندھ سے ہاریوں کا وجود ہی ختم ہو جائے اوروہ زمین کو آباد کرنے والے کام چھوڑ کر کسی اور کام طرف چلیں جائیں گے۔

Ali Khoso
+ posts