لاہور (روزنامہ جدوجہد) لاہور لیفٹ فرنٹ 8 مارچ کو شملہ پہاڑی سے شروع ہونے والے عورت مارچ کی مکمل حمایت، یکجہتی اورساتھ دینے کا اعلان کرتا ہے اور ہمارے ساتھ شامل تمام مزدور نوجوان اور کسان تنظیمیں عورت مارچ میں بھرپور شرکت کریں گی۔
اس بات کا اعلان لاہور لیفٹ فرنٹ کے رہنماؤں نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں ربیعہ باجوہ ایڈووکیٹ، روبینہ جمیل، رفعت مقصود، طاہرہ جالب، سیدہ دیپ، شازیہ خان، ایمن بچہ، آئمہ کھوسہ، علی بہرام، فاروق طارق، فرخ سہیل گوئندی، اویس قرنی، علی آفتاب، ڈاکٹرتیمور الرحمان اور دیگر شامل تھے۔
ان رہنماوں کا کہنا تھا کہ عورتوں کا عالمی دن 8 مارچ 1909ء سے منایاجارہا ہے۔ عورتوں نے مختصر اوقات کار، بہتر اجرت اور ووٹ ڈالنے کے حق کے مطالبات منوانے کے لیے جوتحریک 111 سال قبل شروع کی تھی وہ آج بھی مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عورت مارچ پاکستان کی عورتوں کا آئینی، قانونی اور جمہوری حق ہے۔ یہ پاکستان میں اس لیے بھی ضروری ہے کہ اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا کے 90 فیصد مرد اور 86 فیصد عورتیں بھی عورت کے خلاف کم از کم ایک تعصب کا شکار ضرور ہیں۔ پاکستان اس ضمن میں دنیا کا بدترین ملک ثابت ہوا ہے جہاں 99.81 فیصد افراد عورتوں کے بارے میں کم ازکم ایک تعصب ضرور رکھتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم عورتوں کے مقبول ترین نعرہ ”میراجسم میری مرضی“ کے خلاف رجعتی پراپیگنڈا کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ یہ ایک بنیادی انسانی حق ہے۔ یہ نعرہ واضح کرتا ہے کہ عورت بھی مرد کی طرح برابر کی انسان ہے۔ اس نعرے کا مطلب ہے کہ عورتوں کے خلاف جسمانی تشدد، ریپ، ظلم وبربریت، زبان بندی، ہراسانی اورگھریلو تشدد جیسے جرائم کا ارتکاب بند ہونا چاہیے۔ اس نعرے کامطلب ہے عورت کو مرضی کی تعلیم، شادی، پروفیشن کا انتخاب اور مذہبی آزادی جیسے آئینی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ اس نعرے کی اساس یہ ہے کہ عورت کو ایک باعزت اور باوقار زندگی گذرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ عورت مارچ پدرسری نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان ہے۔ پدرسری سے مراد مرد کا دیگر اشیا کی طرح عورت کو کنٹرول کرنا اور اس پر ظلم کرنا ہے۔ عورت مارچ مردکی بالادستی کے خلاف جدوجہد کا اعلان ہے۔ 8 مارچ اس بات کااظہار ہے کہ عورت کسی کی ملکیت نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی انفرادی شناخت اور حیثیت ہے۔