نقطہ نظر

آئین پاکستان ابہام اور تضاد کا ایک نادر مجموعہ ہے: توصیف کمال

قیصر عباس

کسی بھی ملک کا آئین اس کی سیاسی، نظریاتی اور سماجی امنگوں کا پرتو اور اس کے مستقبل کا آئینہ دار ہوتاہے۔ دستور چونکہ ملک کے ہر قانون کا بنیادی ستون بھی ہوتاہے اسی لئے ماہرین قانون کے مطابق اس اہم دستاویز کو ہر لحاظ سے مکمل اورمعیاری ہونے کے علاوہ غیرمبہم بھی ہونا چاہئے۔

پاکستان کا موجودہ دستو رماہر ِقانون توصیف کما ل کی نظرمیں تضادات اور ابہام کا ایک ایسا مجموعہ ہے جسے غیر معیاری متن نے اوربھی متنازع دستاویز بنادیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ آئین پاکستان کو عدم مساوات کی ترویج اورملک میں سیاسی عدم استحکام کو فروغ دینے کا ذمہ دار بھی قرار دیتے ہیں۔

توصیف کمال پاکستانی نژاد امریکی ماہرقانون ہیں جنہوں نے اپنی نئی کتاب Pakistan: A Possible Future میں ملک کے مسائل اور ان کے ممکنہ حل اور آئینی پہلوؤں پرتفصیلی بحث کی ہے۔ مصنف یمن کی نیشنل آئل اینڈ گیس کمپنی کے علاوہ کئی بین الاقوامی کمپینوں میں ماہر قانون رہ چکے ہیں اور ان امور پر لکھتے رہتے ہیں۔

وہ آج کل کئی انسانی حقوق کی تنظیموں سے منسلک ہیں اور ڈیلس میں ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ (SDW) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن بھی ہیں۔

ان کی تصنیف کا سب سے اہم حصہ اس کے دو ابواب ہیں جن میں انہوں نے ملک کے دستور کا قانونی نقطہ نظرسے تجزیہ پیش کیاہے۔ ان کے خیال میں ”آمروں ا ور غیر دیانت دارسیاست دانوں نے دستور میں ترامیم ور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے غیر مناسب حصے شامل کرکے اسے ایک متنازع دستاویز میں تبدیل کردیاہے۔“

وہ اپنے تجزیے میں 1956ء کے دستور کو، جسے آئین ساز اسملی نے تشکیل دیا تھا، سب سے زیادہ جمہوری آئین قراردیتے ہیں، 1962ء کے دستور کو ایک فوجی آمر کی خواہشوں کا ترجمان کہتے ہیں اور 1973ء کے دستور کو ایک جمہوری طور پر تشکیل دیا گیا آئین سمجھتے ہیں جس میں کئی شقیں سیاسی مقاصد کے لئے بھی شامل کی گئی تھیں۔

جنرل ضیاء نے اس آئین میں 58(2)(b)کی ترمیم کے ذریعے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کئے اور مذہبی بنیادوں پراس کی نئی تاویلات کیں۔ پھر بعد میں کی گئی ترمیموں کے ذریعے، جس میں ستارہویں اور اٹھارویں ترمیمات بھی شامل ہیں، اس اہم دستاویز کومزید کمزور بنادیا گیا۔

مصنف کے مطابق ابہام پاکستانی دستو ر کی سب سے اہم خصوصیت ہے۔ آئین کے ایک سرسری جائزے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی بیشترشقیں جن میں بنیادی حقوق اور اداروں کے اختیارات کا ذکرہے، مبہم اور دوسری شقوں کی محتاج کردی گئی ہیں اورآئین کے کئی حصوں کو ’قانون کے تحت‘ یا ’آئین کے تحت‘ دوسرے قوانین کا پابند کردیا گیاہے۔

مثال کے طورپر آئین کے ارٹیکل 22(3)(a) کا تعلق تعلیمی اداروں میں مذہب کے تحفظ سے ہے جس میں کہاگیاہے کہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے اعتقادات کی تعلیم کی اجازت ہے مگر ’قانون کے تحت۔ ‘ یہاں مصنف نے ایک اہم سوال اٹھایاہے کہ آئین ملک کے تمام دوسرے قوانین کا سرچشمہ اور بنیاد ہوتے ہوئے کسی اور قانون کا تابع کس طرح ہوسکتاہے؟پاکستان میں ماہرینِ قانون کو اس اہم نکتے پر غور کرنا چاہئے۔

مصنف کے مطابق پورے دستور میں ایسی لاتعداد شقیں شامل ہیں جو مبہم ہیں اور ان کے قانونی اطلاق کے بارے میں شکوک اور شبہات پیدا کرتی ہیں۔ مثلا آرٹیکل 62(1)(f)کے مطابق کوئی بھی شخص قومی اسمبلی کی رکنیت کا اہل نہیں ہوسکتا جب تک وہ ’صادق اور امین‘ نہ ہو۔ یہ خصوصیات انتہائی مبہم اور تشریح طلب ہیں جنہیں سابق وزیراعظم نواز شریف کو برطرف کرنے کے لئے ایک سیاسی حربے کے طور پر بھی استعمال بھی کیا جاچکاہے۔ مصنف کے خیال میں مندرجہ بالا آرٹیکل اور آرٹیکل 62(1)(d) کو دستور کا حصہ نہیں ہونا چایئے۔

پاکستان کا آئین سول اور ملٹری اداروں کے اختیارات میں بھی ابہام کا شکار نظرآتاہے۔ آئینی نقطہ نظر سے آرمی چیف وزارت دفاع کو رپورٹ کرتا ہے جو وزیرِ دفاع کورپورٹ کرتاہے جو جو وزیراعظم کورپورٹ کرتاہے۔ اس کے علاوہ آرٹیکل 243(1) کے تحت”فیڈرل گورنمنٹ کو آرمی کے کنٹرول اور کمانڈ کے اختیارات حاصل ہیں۔“ لیکن آرٹیکل 243(2)کے تحت آرمی’سپریم کمانڈ‘ کے اختیارات صدر کے پاس ہیں۔

مصنف کے نزدیک اس اہم ادارے کووفاق اور پھر صدر کے ماتحت رکھ کر سول اور ملٹری تعلقات میں پیچیدگی اور ابہام کوفروغ دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ ان آرٹیکلز میں ’سپریم کمانڈ‘ اور’کمانڈ‘ کی اصطلاحات نے ان اداوروں کے باہمی تعلقات کو مزید مبہم بنادیاگیاہے جس سے پیچیدگیاں اور شکوک پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔

ابہام کے علاوہ پاکستان کا آئین شہریوں کو یکساں حقو ق کی ضمانت دینے کے بجائے عدم مساوات کو بھی فروغ دیتا ہے۔ دستور ایک ہاتھ سے پاکستانی شہریوں کو مساوات فراہم کرتاہے اور دوسرے ہاتھ سے یہی حق واپس لے لیتا ہے۔ آرٹیکل 25(1) کے تحت تمام شہریوں کویکساں حقوق حاصل ہیں اور’قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں‘ لیکن دوسری جانب آرٹیکل 41(2) کے مطابق ’کوئی بھی شخص صدر کا انتخاب نہیں لڑسکتا اگر وہ مسلمان نہ ہو‘۔

یہی شرط وزیراعظم کے اننخاب کے لئے بھی عائد کی گئی ہے۔ یہ شرائط نہ صرف خود آئین میں دئے گئے اقلیتوں کے حقوق بلکہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ڈکلیریشن کے بھی خلاف ہیں۔

دستورکی ایک اور متنازع شق عدالت عالیہ کی جانب سے ازخود ملکی مسائل پر نوٹس لے کرانہیں حل کرنے کی کوشش ہے۔ آئین کا آرٹیکل 184(3) عدالت عالیہ کو بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے ازخود نوٹس لینے کی اجازت دیتا ہے جسے ’Sue Moto‘ کہاجاتاہے۔ آئین کے اس حصے میں "Question of public importance with respect to the cenforcement of Fundamental Rights” کے الفاظ نے اس شق کوکسی بھی مسئلے کے لئے استعمال کی کھلی اجازت دے دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قانون کو وسیع پیمانے پراستعمال کرنے کے عدالتی فیصلوں پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔

جہاں اسے استعمال کرتے ہوئے ایک سابق چیف جسٹس نے ملک میں مقننہ اور انتظامیہ کے امور میں بے دریغ مداخلت کرکے سیاسی افراتفری پیدا کی وہاں ایک اور چیف جسٹس نے ہسپتالوں اور اداروں میں مداخلت سے لے کر اشیاکی کی قیمتوں اور ملک کے دوسرے معاملات ٹھیک کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔

مصنف کے مطابق اس قانون کے بے دریغ استعمال نے نہ صرف جمہوری طورپر منتخب عوامی نمائندوں کو برطرف کیا بلکہ ملک میں سیاسی استحکام کوبھی نقصان پہنچایا ہے۔

دستورِپاکستان لوگوں کو انصاف کے حصول کے لئے کچھ حقوق فراہم کرتا ہے جن میں اپیل کا حق، اپنی صفائی پیش کرنے کا حق اور مقدمے سے پہلے ملزم کو مجرم قراردینے سے احتراز اور دوسرے حقوق شامل ہیں لیکن سوؤموٹو کے ذریعے ان ہی آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور لوگوں کو اپنی صفائی دینے سے پہلے ہی عدالت مجرم قراردے دیتی ہے۔

دستور کے مطابق ملک کے صحافیوں او رمیڈیا کوآزادی اظہار کا حق حاصل ہے۔ آئین کا ارٹیکل 19 ملک میں آزادی اظہاراور پریس کی آزادی کا حق حاصل ہے لیکن مروجہ قوانین کے تحت۔ آئین کا یہ حصہ اگرچہ ملک میں محدود دائرے میں آزادی اظہارکا حق دیتا ہے مگرعملی طور پر ملک میں آزادی اظہار کی یہ ضمانت ایک کھلا مذاق لگتی ہے۔ ملکی اور غیر ملکی ذرائع کے مطابق پاکستان کا شمار دنیامیں صحافیوں کے لئے خطرناک ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں میڈیا کے کارکنوں پر تشد، دھمکیاں اور قاتلانہ حملے اب روز کا معمول بن گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ پر معاشی دباؤ کے نتیجے میں سینکڑوں صحافی بے روز گار ہیں۔ ملک کی اعلیٰ عدالتیں اگر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں، میڈیکل ریسرچ کے اداروں پر پابندیوں، اور ڈیم بنوانے کا بیڑہ اٹھا سکتی ہیں تو آزادی اظہار کے آئینی تحفظ کو کیوں یقینی نہیں بناسکتیں؟

لیکن حال ہی میں اس سلسلے میں ایک مثبت پیش رفت ہوئی جب اسلام آباد میں سینئر صحافی اور ٹی وی اینکر متی اللہ جان کے اغوا کے فورابعد چیف جسٹس نے سو ؤ موٹو کے ذریعے پولیس سے تفصیلات طلب کی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عدالت کی اسی بروقت مداخلت نے صحافی کی جان بچائی ہے۔ امریکہ اور دوسرے جمہوری ملکوں میں سوؤموٹو کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کی جائے۔ مصنف کی تجویز ہے کہ پاکستان میں بھی سوؤموٹو کے درست اطلاق کے لئے آئینی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

دنیا کے بیشترملکوں کے آئین نہ صرف قانون کی معیاری اور قابلِ تقلید دستاویز ہوتے ہیں بلکہ ان میں بدلتے ہوئے ملکی اور عالمی حالات کے مطابق تبدیلوں کی گنجائش بھی موجود ہوتی ہے۔ کتاب کے مصنف کے مطابق ایک ملٹی کلچرل ملک کی حیثیت سے پاکستان ایک سیکولر، معیاری اور غیر متضاد آئین کا مستحق ہے جو لوگوں کو مساوات اور انصاف کی مکمل ضمانت دے سکے۔
ان کے خیال میں پاکستان کو جنوبی افریقہ کے آئین سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے جو ایک کثیرالثقافتی ملک میں مساوات، انسانی حقوق اور ہم آہنگی کی ضمانت دیتا ہے۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔