فاروق طارق
مریم نواز کوگزشتہ روز اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ میاں نواز شریف کے ساتھ ملاقات کے لئے کوٹ لکھپت جیل میں تھیں۔ ابھی ملاقات کا وقت ختم ہونے میں آدھ گھنٹہ باقی تھا کہ انہیں نیب نے چوہدری شوگر ملز کیس میں پیش ہونے سے انکار کے بعد گرفتار کرلیا۔ مقصد میاں نواز شریف کو یہ باور کرانا تھا کہ ایسی کاروائی بھی ہو سکتی ہے۔ میاں نواز شریف یہ کہتے رہے کہ گرفتاری میں اتنی کیا جلدی ہے‘ ملاقات کے بعد گرفتار کر لیں۔ مگر ایسا نہ ہوا۔
بعدازاں قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے اس گرفتاری پر شدید ردِعمل کا اظہار کیا اور وہ الفاظ بھی استعمال کیے جنہیں سپیکر نے قومی اسمبلی کی کاروائی سے تو حذف کرا دیا مگر ان کی دو منٹ کی تقریر کو لاکھوں لوگ سن چکے ہیں اور یہ وائرل ہو چکی ہے۔
مریم نواز پچھلے چند ہفتوں سے تیزی سے عوام میں مقبول ہو رہی تھیں۔ ہزاروں لوگ گھنٹوں ان کے انتظار میں ان کے جلسوں میں شرکت کے لئے کھڑے رہتے۔ آخری جلسہ جو گرفتاری سے دو دن پہلے تھا صبح چار بجے ختم ہوا اور ہزاروں لوگوں نے سرگودھا کے اس جلسے میں شرکت کی۔
مریم نواز کشمیر کی تقسیم اور قبضہ کے مسئلے پر بھی عمران حکومت کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہ تھیں اور حکومت پرکشمیر کاز کو نقصان پہنچانے کا بار بار الزام لگا رہی تھیں۔ عمران خان کی حکومت کی غیر مقبولیت کا اظہار مریم نواز کے جلسوں سے ہو رہا تھا۔ وہ جارحانہ تنقید کر رہی تھیں اور ان کے جلسوں میں عوام کی شرکت کا مسلسل اضافہ موجودہ حکومت کو مزید غیر مقبول بنا رہا تھا۔
عمران خان کی حکومت ماضی کی سول حکومتوں کے برعکس آمرانہ حکومتوں کے سیاسی، معاشی اور سماجی رویوں اور حکمت عملیوں کو اپنائے ہوئے ہے۔ تحریکوں سے خائف اس حکومت کو یہ اچھا لگتا ہے کہ گرفتاریوں کے ذریعے مخالفین سے نپٹا جائے۔ پشتون تحفظ موومنٹ سے جس آمرانہ طرز پر نپٹا گیا اب اسی طرز پر مسلم لیگ نواز کے ساتھ نپٹا جا رہا ہے۔
مریم نواز کی اس وقت گرفتاری کا ایک اور محرک اس کی کشمیر پالیسی پر لوگوں کا ردِ عمل بھی ہے۔ آج ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ مریم نواز تھا۔ حکومت چند ہفتے قبل امریکی صدر ٹرمپ کی کشمیر پالیسی پر ”ثالثی“ کی پیشکش کا ورلڈ کپ جیتنے سے موازنہ کر رہی تھی کہ اچانک بھارتی ریاست نے اس کی اس خوش فہمی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ بھارتی ریاست نے جس طرح کی آمرانہ پالیسی کشمیر بارے ا ختیار کی وہ شاید موجودہ حکومت کے پالیسی سازوں کے لئے بھی حیران کن تھی۔
عمران حکومت بوکھلاہٹ میں اب اس طرح کی سیاسی انتقامی کاروائیوں پر اتر آئی ہے کہ اس کے اپنے حامی بھی اس کا دفاع کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ حامد میر نے طنزاً آج ایک ٹویٹ میں کہا کہ ”عید سے پہلے مریم نواز کو گرفتار کرنا بہت ضروری تھا۔ عید کے دن وہ انڈیا پر حملے کا اعلان کرنے والی تھیں۔“
مریم نواز کی گرفتاری ایک سیاسی انتقامی کاروائی ہے۔ اس کا احتساب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ نواز شریف خاندان کو سبق سکھانے کا ایک اور واقعہ ہے۔ یہ عوام میں مریم کی بڑھتی مقبولیت کو روکنے کا ایک ہتھکنڈا ہے۔
لیکن عمران خان حکومت کے اس قدم سے اس کے خلاف عوامی مخالفت میں اور اضافہ ہو گا۔ حکومت‘ اپوزیشن کو جمہوری انداز کی بجائے آمرانہ طرز پر نیچا دکھانا چاہتی ہے۔ یہ حکمران طبقات میں بڑھتی چپقلش کا اظہار ہے جس میں سرمایہ داروں کا حکمران حصہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اپنے مخالفین کو سلاخوں پیچھے ڈال کر اپنی جاگیردارانہ انا کی تسکین چاہتا ہے۔
حکمرانوں کا موجودہ گروہ ریاست کے اداروں کی حمایت سے ایک عوام مخالف معاشی ایجنڈا ٹھونسنا چاہتا ہے۔ وہ امریکی سامراجی اداروں کی خوشنودی میں اتنا مگن ہے کہ عوام کو مکمل طور پر فراموش کر دیا گیا ہے اور جو اس کی نشاندہی کرتا ہے اسے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ احتساب کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ دائیں بازو کی یہ حکومت سامراجی ایجنڈے پر عمل درآمد کرانے پر تلی ہوئی ہے اور اس کی معمولی مخالفت کو بھی برداشت نہیں کیا جا رہا ہے۔
مریم نواز کی گرفتاری سے مسئلے حل ہونے کی بجائے اور الجھیں گے۔ مریم کی مقبولیت بڑھے گی۔ حزب اختلاف کو مزید تقویت ملے گی۔ عوام ابھی ذہنی طور پر جتھوں کی صورت میں باہر نکلنے کے شعور سے پیچھے ہیں مگر ایسی کسی صورتحال کے حالات تیزی سے پیدا ہو سکتے ہیں۔