قیصر عباس
1977ءکا مارشل لا لگ چکاتھا ا ور صادقین لاہور کی صوبائی اسمبلی کی دیواروں پر قد آدم شاہکار بنانے میں مصروف تھے۔ اس وقت کے مارشل لاایڈمنسٹر یٹرجو پنجاب کے گورنر بھی تھے ایک دن ان کے کام کا معائنہ کرنے تشریف لائے۔ تعلقات عامہ کے ایک افسر ِکی اس یاددہانی کے باوجود کہ گورنرصاحب ان سے ملنے آئے ہیں صادقین ان کے استقبال کے لئے اٹھے نہیں اور زمین پر بیٹھے ہوئے ا پنے کام میں مصروف رہے۔ آغا ناصر نے اپنی کتاب ’گمشدہ لوگ‘ میں یہ دلچسپ واقعہ کچھ اس طرح تحریر کیاہے:
” گورنر نے اسی میں عافیت سمجھی کہ ان کو مصافحہ کرنے کی تکلیف نہ دی جائے۔ تھوڑی دیر وہ ان کو پینٹ کرتا دیکھتے رہے۔ پھر چلتے ہوے صادقین کے جُسے کو دیکھتے ہوئے بڑی خوش دلی سے بولے ’صادقین صاحب کچھ کھایا پیا بھی کریں‘۔ ان کا فقرہ سن کرصادقین نے رنگوں کی ٹرے اور برش زمین پر رکھ دیئے اور اٹھ کر سیدھے بیٹھ گئے۔ اپنے مخصوص انداز میں عینک کو انگلی سے ذرا ناک کے اوپر سرکاکر بولے’گورنر صاحب میں کھاتا نہیں مگر پیتا خوب ہوں۔ ‘ گورنر صاحب ان کی بات کا مطلب سمجھ گئے اور مزید کچھ کہے بغیر مسکراتے ہوئے چلے گئے۔“
صادقین کے متعلق مشہو ہے کہ زندگی بھر انہوں نے افسروں، ارباب اختیار اور طاقتور سیاست دانوں کو گھاس نہیں ڈالی۔ ان کی زندگی قلندری ، سادگی اور صوفیانہ روش سے عبارت تھی جس کا محور صرف ان کالازوال فن تھا۔
حال ہی میں ایوان صدر کی جانب سے صادقین کے لئے بعد ازمرگ اعلیٰ ترین سول ایوارڈ نشا نِ امتیاز کا اعلان کیا گیاہے جسے صدرِ مملکت اگلے سال 23مارچ 2021ء کی تقریب میں ان کے لواحقین کو پیش کریں گے۔ ان کی زندگی میں بھی حکومت کی جانب سے انہیں 1960ءمیں تمغہ امتیاز اور پھر 1962ءمیں صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا جاچکاہے۔ وہ ان گنے چنے پاکستانی مصور اور شاعر وں میں سے ہیں جن کے فن کو نہ صرف ان کی زندگی میں بلکہ انتقال کے بعدبھی عالمی سطح پراحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
صادقین کا تعلق ہندوستان کی ریاست اترپردیش ( یوپی)کے شہر امروہہ سے تھا جہاں وہ 1928ء(یاایک روائت کے مطابق 1930ء) میں خطاطی اور نقاشی کے لئے ایک مشہور خاندان میں پیداہوئے۔ آگرہ یونیورسٹی سے آرٹ ہسٹری اور جیوگرافی میں تعلیم حاصل کی۔ پاکستان منتقل ہونے کے بعد انہوں نے اپنے فن پاروں کی کئی نمائشیں کرائیں اور شہرت حاصل کی۔
ان کی شخصیت کے بارے میں آغا ناصر لکھتے ہیں:
”صادقین کی شخصیت کو الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ لانبے قد، کھلتی رنگت، تیکھے خدوخال کا یہ انسان اپنے اندر بہت کشش رکھتا تھا۔ ان کے چہرے پر ہمہ وقت تخلیق کا ایک کرب ہوتا، بال کبھی بہت گھنے رہے ہوں گے مگر آخری وقت ایک ہی انداز میں الجھے اور بکھرے رہتے تھے۔ آنکھوں پر سیاہ فریم کا دبیز شیشوں والا چشمہ جسے بار بار وہ اپنی ایک انگلی سے اونچا کرتے تھے۔ نارمل لباس کے طورپر صرف شیروانی پہنتے اور گھر سے شیروانی پہنے بغیر کبھی نہیں نکلتے۔ کپڑے عام طور پر میلے ہوتے تھے اور ان پر جابجا رنگوں کے نشان لگے ہوتے۔ انداز بیاں ایک خاص ڈھب کا تھااور الفاظ کا استعمال بھی بس انہیں کا حصہ تھا۔“
خود کو ہمیشہ وہ ’فقیر‘ کہتے جو درست بھی تھا کہ ان کی زندگی ایک فقیرانہ انداز لئے ہوئے تھی۔ صادقین کو بہت کم بولتے دیکھا گیا لیکن علم وفن کی محفلوں میں بولتے توایک الگ اندازبیاں کے ساتھ۔ وہ جب وہ اپنی نپی تلی نستعلیق اردو میں بات کرتے تو ایسا لگتاکہ آپ اٹھارویں صدی کے کسی باکمال شاعر سے محو گفتگو ہیں۔
خطاطی اور مصوری کا امتزاج
نقاشی ، مصوری اور خطاطی کے خوبصورت امتزاج نے ان کے فن کو ایک نئی جہت عطا کی تھی جو پاکستان کے کسی اورمصور کو نصیب نہیں ہوئی۔ انہوں نے اپنے فن کی ابتدا خطاطی سے کی۔ بچپن میں وہ اسکول کی کتابوں کو اپنی خطاطی میں ڈھال کرصفحات کی جلد بندی کرتے اور اپنی کتاب خود بناتے تھے۔ اس طرح انہیں اسکول کا سبق بھی یاد ہوجاتا اورخطاطی کی مشق بھی ہوجاتی۔
تخلیق کا یہی جوہر تھا جس نے فن کی بلندیوں تک پہنچنے میں ان کی مدد کی لیکن خطاطی کا یہ فن انہوں نے کسی روائتی استاد سے سیکھا نہیں تھا، انہیں ورثے میں ملا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سکہ بند خوش نویسوں نے کبھی ان کو ایک خطاط کے طورپر تسلیم نہیں کیا۔ اس کے باوجود انہوں نے فن خطاطی کے جس نئے مکتبہ فکر کی بنیاد رکھی آج وہی اس فن کا معیار تسلیم کیا جاتا ہے۔ چونکہ خطاطی ان کی گھٹی میں پڑی تھی، مصوری میں بھی اس کی جھلک نمایاں تھی اور ان کی تصاویر بھی صفحہ قرطاس پر لکھے الفاظ کی طرح پڑھی جاسکتی ہیں۔
ان کی مصوری بر صغیر اور اس کی ثقافت سے ہم آہنگ تھی اوراپنی مٹی کی روحانی، تاریخی اور تہذیبی قدروں کی آئینہ دار تھی۔ جہاں خطاطی کے ذریعے انہوں نے مسلم آر ٹ کے نئے گوشوں کو اپنے شاہکاروں کا موضوع بنایا وہاں اپنی مصوری اور دل کش نقاشی کے ذریعے فطرت اور انسانی زندگی میں پھیلے گوناگوں موضوعات کا احاطہ بھی کیا۔ اسی لئے ان کی شہرت کی گونج پاکستان کے باہر بھی تھی۔ کائنات، حیات اورارتقاءان کی مصوری کے اہم موضوعات تھے۔ انہوں نے مصوری کے تقریبا پندرہ ہزار شاہکارتخلیق کئے جن میں انسان کا فکری اور تہذیبی ارتقاء، فلسفہ حیات، محنت کشوں کی جدوجہد، امن، عالمی اتحاد اور سائنسی ترقی جیسے موضوعات پر ان کی تصویرکشی جدیدیت کے مسائل کا ایک نئے انداز میں احاطہ کرتی ہے۔
ڈاکٹراکبر نقوی اپنی کتاب Image and Identity میں لکھتے ہیں: ”اگر صادقین کچھ اور نہ کرتے اور صرف مصوری کرتے تو بھی انہیں ملک کے ایک ا علیٰ تخلیقی مصورکے طورپر پہچاناجاتا۔“
1960ءمیں فرانس گئے اور مصوری کی کئی نمائشوں میں اعزازات حاصل کرکے شہرت پائی۔ فرانس میں قیام کے دوران انہیں اپنے فن پاروں کی نمائشوں سے خاصی پذیرائی ملی اور مصوری کے کئی معتبر اداروں کی جانب سے انہیں خصوصی ایوارڈ ز سے نوازا گیا۔ 1965 ءمیں پاکستان واپسی کے بعدانہوں نے لاہور، اسلام آباد، کراچی اور دوسری جگہوں پر مشہور عمارتوں، اور قومی مراکز میں قدآدم میوریل انتھک محنت اور تخلیقی ذہانت سے بنائے جوآج پاکستان کا ثقافتی اور تہذیبی ورثہ بن چکے ہیں۔ یہاں اسٹیٹ بنک آف پاکستان، منگلاپاورہاوس، لاہور میوزیم ، پنجاب یونیورسٹی لائبریری اور فریر ہال کراچی کی عمارتوں میں ان کے میوریل اب بھی خاص و عام کی نگاہوں کا مرکز ہیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے ابوظہبی کے پاورہاوس اور انڈیا میں علی گڑھ یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی اور جیولوجیکل انسٹیٹیوٹ آف انڈیاکے علاوہ کئی اور عمارتوں کو بھی اپنے فن پاروں سے آراستہ کیا۔ صادقین کی مصور ی کے شاہکاردنیا کی مشہور گیلریوں میں آویزاں ہیں۔ ان کے میوریل پاکستان کے علاوہ انڈیا، مشرق وسطیٰ، شمالی امریکہ اور یورپ میں خاص وعام کی توجہ کامرکز ہیں۔ ان کی پینٹنگز نیویارک میٹروپولیٹن میوزیم، کینیڈا میں را ئل ٹورانٹو میوزیم ، پیرس میں میوزیم آف ماڈرن آرٹ اور دوسرے ملکوں کی مشہور گیلریوں میںمستقل نمائش کا حصہ ہیں۔
پیرس کے مشہورر اخبار لی موند ( Le Monde) نے ان کے فن کے بارے میں اپریل 1960 ءمیں لکھا تھا:”صادقین کا کئی پہلووں کو محیط کرتا ہوافن ہمیں پکاسو کی مصوری کی یاددلاتا ہے۔“
متحدہ عرب امارات کے اخبار خلیج ٹائمز نے 20 جون 1980ءکی اشاعت میں ’خطاطی کی نشاةثانیہ ‘کے عنوان کے تحت تحریر کیا :
” پاکستان کا ایک صوفی منش مصور اپنے وقت کا لجنڈبن چکا ہے۔ یہ صادقین کی ناقابل یقین شہرت کی ایک ایسی کہانی ہے جس نے تربیت نہیں بلکہ روحانی ادراک کے ذریعے خطاطی کو جلابخشی اور اسے فن کی بلندیوں تک پہنچادیا۔“
صادقین کی رباعیات
صادقین کو عام طور پرصرف ایک مصور اور خطاط کے طورپر ہی جانا جاتا ہے لیکن انہوں نے اردو اور پنجابی میں شاعری بھی کی ہے۔ انہیں اردو شاعری کی ایک مشکل ترین صنف رباعی میں مہارت حاصل تھی۔ بنیادی طورپر رباعی عربی شاعری کی ایک صنف ہے جس میں چار مصرعوں کی بندش میں صرف ایک بحر ہی استعمال ہوتی ہے۔ اس لگے بندھے حروفی نظا م میں رہ کرہی شاعر کو اپنا مدعا بیان کرنا ہوتاہے۔
ان ہی پابندیوں میں صادقین نے اپنی قلبی واردات کو ایک بہتی ہوئی ندی کی طرح بڑی آسانی سے قلم بند کیا جیسے وہ رباعی نہیں نظم لکھ رہے ہوں۔ رباعیات کے ذریعے انہوں نے اپنے فن، عشق، حسن اور صوفیانہ تخیلات کو بڑی ہنر مندی سے بیان کیاہے۔ اس صنف شاعری کے ذریعے وہ سماج اور اس کے متضاد رویوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے نظر آتے ہیں۔
فن ، چاہے مصوری ہو، موسیقی ہو یا شاعری، ہر صورت ریاضت اور تخلیقی صلاحیت کے بغیر نامکمل رہتا ہے۔ اس تصور کو اپنی ایک رباعی میں کچھ اس طرح باندھتے ہیں:
تخلیق میں معتکف یہ ہونا میرا
اب تک شبِ ہستی میں نہ سونا میرا
خطاطی ادھر ہے تو ادھر نقاشی
وہ اوڑھنا میرا یہ بچھونا میرا
تنقید نگار اور ان کے چاہنے والے ان کے جن شاہکاروں کودنیائے فن کی معراج سمجھتے ہیںان کی تخلیق صادقین جیسے زیرک فن کار کے لئے بہت آسان تھی جسے ان کے بقول ’دھپل ‘ میں فن کے سانچے میں ڈھال لیتے تھے:
بننا ہوتو اک پل میں بنا کرتاہے
کب سعی مسلسل میں بنا کرتا ہے
تخلیق تو ہوجاتی ہے آناً فاناً
شہکار تو دھپل میں بنا کرتا ہے
نگارخانہ ہستی میں چاروں اطراف پھیلے ہوئے حسن وجما ل سے متاثر ہوکر فن کار اسے اپنے بے باک رنگوں میں فن کی معراج تک پہنچادیتا ہے۔ اپنی شاعری اور مصوری کو وہ ایسا لباس سمجھتا ہے جس سے جمالیات کے سہارے ’ لیلائے خیالات ‘ کا تن ڈھانپنے کاکام لیاجاتاہے:
جاناں کے جمال کا جو کچھ ہوا ادراک
ہوجاتی ہے اظہار کی صورت بیباک
لیلائے خیالات کا تن ڈھانپنے کو
ہیں طغرہ و تصویر و رباعی پوشاک
لیکن جب عشق کے لوازمات کی بات ہو توان کے نزدیک محبت ’جذبات کی تپش‘ اور حسن ’جنسی کشش ‘ ہی کا دوسرانام ہے:
وہ جس کو محبت کی روش کہتے ہیں
جذبات کی ہم اس کو تپش کہتے ہیں
وہ چیز جسے حسن سمجھتے ہیں وہ
اس کو ہی ہم جنسی کشش کہتے ہیں
جب یہی کشش گہری ہوجائے تو اس کی رومیں ڈوب کر شاعر خداوند سے ایک چھوٹے سے گناہ کی اجازت بھی طلب کرتاہے:
سچائی پہ اک نگاہ کرلوں یارب
اب درد کی حد ہے آہ کرلوں یارب
رکھنے کو تری شان کریمی کی لاج
معمولی سا اک گناہ کرلوں یارب
انڈیا میں شائع کی گئی ایک تصنیف ’تنقیدِ رباعی‘ میں صادقین کوعہدِ جدیدمیں رباعی کا اہم ترین شاعر قرادیاگیاہے۔ ان کا بیشتر کلام’ رباعیات صادقین‘کے عنوان سے چار جلدوں میں شائع ہوچکاہے جس میں مصوری، شاعری اور خطاطی کی اصناف کا بیش قیمت امتزاج ایک انوکھے ا نداز میں فن کے نئے زاویے اجاگر کرتا نظر آتاہے۔ ان کی رباعیات کے انگریزی ترجموں پر مشتمل ایک نئی کتاب ’صادقین ازم‘ عنقریب شائع ہورہی ہے جس کے مصنف سلمان احمد ہیں۔
سین ڈیاگو امریکہ میں ایک غیرمنافع بخش تنظیم ’صادقین فاونڈیشن ‘ 2007 ءسے کام کررہی جو ان کے فن پر اب تک23 کتابیں شائع کرچکی ہے اور اس کے زیر اہتمام 70 سے زیا دہ پروگرام اور سیمینار کرائے جاچکے ہیں۔ فاونڈیشن کے بانی سلمان احمد، جو صادقین کے بھتیجے بھی ہیں، کاکہنا ہے کہ صادقین نے پوری دینا میں برصغیر کو اپنے فن کے ذریعے روشناس کرایا اور ان کے اپنے ملک نے ان کی جس طرح قدر کی وہ یقینا قابل تعریف ہے۔ ان کے مطابق صادقین کی شخصیت کا قد ان کے فن سے کہیں زیادہ بڑاتھاجس کی وجہ ان کا صوفیانہ رکھ رکھاواور مالی فوائد کے بجائے انسانی تعلقات کو اہمیت دینے کا رویہ تھا۔
سلمان احمد کے مطابق حکومت پاکستان نے لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں صادقین گیلریاں قائم کیں جو ان کے انتقال کے بعد بند ہوگئی ہیں۔ بد قسمتی سے ان میں رکھی ہوئی صادقین کی بیش قیمت مصوری کے شاہکار جن کی مالیت انہوں نے تقریبا چارسو ملین ڈالر بتائی چوری کرلئے گئے ہیں جن کو ابھی تک بازیاب نہیں کرایا گیا۔ انہوں نے کہاکہ کراچی میں صادقین کے انتقال کی رات ہی ان کی گیلری سے پینٹنگز چوری کر لی گئیں۔
مجموعی طورپر صادقین کی مصوری میں خطاطی کی جھلک ، شاعری میں مصوری کے رنگ اور خطاطی میں مصوری کے پرتو ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں۔ ان تینوں کے امتزاج سے جو فن تشکیل پاتا ہے وہ صرف صادقین ہی کا خاصہ ہے۔ ان کے بنائے ہوئے یہی دلکش طغرے، خوبصورت میوریل اور دل پذیر رباعیات وہ پیرایہ اظہارہیں جو اس ذہین فنکار کی عالمگیر شہرت کا سبب بنے۔
عمر کے آخری حصے میں وہ کراچی منتقل ہوگئے جہاں وہ فریر ہال کی خوبصورت عمارت میں بنائی گئی نئی ’صادقیں گیلری ‘ کو اپنے فن سے آراستہ کرنے میں مصروف تھے۔ وہیں10 فروری 1987ءکے دن ان کا انتقال ہوا۔
اپنے ملک کو فنون لطیفہ کے ذریعے دنیا سے متعارف کرانے والا یہ مشہور مصور شاید برصغیر کا آخری قلندر تھا جس نے کبھی اپنے ہنر کی قیمت نہیں لگائی ا ور اسے بازار میں نیلام نہیں کیا۔ پاکستان کا یہ مایہ ناز فرز ندساری عمر اپنے شہ پاروں کو تحفوں کی طرح باٹتا رہا لیکن جب اس نے دنیاسے کوچ کیا تو فن اور شہرت کے علاوہ ما ل واسباب میں اور کچھ بھی نہ تھا۔ انہیں اپنی اس قلدرانہ روش پر ہمیشہ ناز رہا:
خود اپنے طریقے میں قلندر میں ہوں
خود اپنے سلیقے میں ہنرور میں ہوں
خود اپنے بنائے ہوئے آئینوں میں
خودگیر ہوں، خود نگر ہوں، خودگر ہوں میں
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔