نقطہ نظر

مشنری سکولوں کو قومیا کر بھٹو نے مسیحی برادری کی کمر توڑ دی

فاروق سلہریا

یکساں قومی نصاب (ایس این سی) پر جاری بحث مباحثے کے درمیان، ایک اہم اور انتہائی متعلقہ تحقیقی رپورٹ، جس کا عنوان ہے: 1972ء میں تعلیم کی نیشنلائزیشن سے حاصل شدہ اسباق، لاہور میں قائم’سنٹر فار سوشل جسٹس‘نے شائع کی ہے۔

زبردست تحقیق پر مبنی اس رپورٹ میں دلائل کے ساتھ کہا گیا ہے کہ 1972ء میں چرچ کے زیر انتظام اسکولوں کو قومی ملکیت میں لینے سے پہلے سے پسمانگی کا شکار عیسائی برادری، سیاسی اور ثقافتی طور پر مزید تنہائی کا شکار ہو گئی جبکہ معاشی طور پر مزید غریب۔

ڈاکٹر یعقوب بنگش کے پر مغز ’ابتدائیہ‘کے علاوہ، یہ رپورٹ دو ابواب پر مشتمل ہے: پیٹر جیکب کا باب مسیحی برادری کی زندگیوں پر مشنری سکولوں کو قومیانے کے اثرات کا تجزیہ کرتا ہے جبکہ ڈاکٹر طاہر کامران نے تعلیم کے معیار پر نیشنلائزیشن کے نتائج کو پیش کیا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 15 مارچ 1972ء کو 3,343 اداروں کو نیشنلائزکیا۔ قومی ملکیت میں لئے گئے اداروں میں 1,826 اسکول، 346 مدرسے، 155 کالج اور پانچ ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ شامل تھے۔ ان میں سے 118 چرچ کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی ادارے تھے۔

اگرچہ مشنری اسکول و کالج مجموعی طور پر نیشنلائزیشن کا ایک چھوٹا سا حصہ تھے لیکن پھر بھی ان اداروں کی نیشنلائزیشن کے پاکستان کی مسیحی برادری کے لئے خوفناک نتائج نکلے۔

آئیے پہلے مسیحی برادری کے معاشی نقصان کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان اسکولوں سے مسیحی برادری کے لئے ملازمت کے مواقع پیداہوتے تھے۔ ان کے لئے عمومی طور پر نوکری حاصل کرنا آسان نہ تھا۔ اسی طرح، نیشنلائزیشن کی وجہ سے اس برادری میں میں خواندگی کی شرح کو بھی ایک بہت بڑا دھچکا لگا۔ 2019ء تک، سابقہ مشنری اسکولوں میں عیسائی اساتذہ کا حصہ 9 فیصد رہ گیا تھا جبکہ ان اسکولوں میں عیسائی طلبہ کی تعداد صرف 16 فیصد رہ گئی تھی۔ اسی طرح، ان اسکولوں کی نیشنلائزیشن کا مطلب یہ بھی نکلا کہ چرچ کے ذرائع آمدن بھی چھن گئے۔ان کی سافٹ پاور بھی چلی گئی۔

دوسری بات یہ کہ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے ایک اہم رابطہ ختم ہوگیا کیونکہ متوسط طبقے کے بہت سے خاندان اپنے بچوں کو مشنری اسکول بھیجتے تھے کیونکہ یہ معیاری تعلیم والے اسکول اتنے مہنگے نہیں تھے جتنا کہ نجی اسکول۔ ادھر سرکاری اسکولوں میں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، عیسائی طلبہ کے ساتھ جو امتیازی سلوک برتا جاتا ہے، اس کی وجہ سے مسیحی لوگ اپنی بستیوں تک محدود ہو گئے۔

تیسرا نقطہ: جیسا کہ ڈاکٹر طاہر کامران نے ثابت کیا ہے، مشنری اسکولوں کی نیشنلائزیشن دراصل نیشنلائزیشن کی روح کی ہی نفی تھی۔ نیشنلائزیشن کا مقصد پرائیویٹ اور ایلیٹ سکولوں کے خاتمے کے ذریعہ، سب کو معیاری تعلیم تک رسائی فراہم کرنا تھا۔ چرچ کے زیر انتظام اسکول نہ تو تجارتی تھے اور نہ ہی اشرافیہ کے۔

آخری بات: نظام تعلیم (اور عام طور پر پورے معاشرے) کی اسلامائزیشن کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسیحی طلبہ’اخلاقیات‘ (ایتھکس) کی بجائے سکول اور کالج میں اسلامیات پڑھتے ہیں۔

درج ذیل اعداد و شمار ملاحظہ فرمائیں: 2018ء میں، عیسائی طلبہ کی 0.07 فیصد تعداد اخلاقیات کو پانچویں جماعت کی سطح پر اور 0.06 فیصد تعداد آٹھویں جماعت کی سطح پر پڑھ رہی تھی۔

اسی طرح میٹرک کے سالوں میں 80 فیصد (15,917 طلبہ میں سے) نے اسلامیات کا انتخاب کیا۔ انٹرمیڈیٹ کی سطح پر (7,405 میں سے) 1.7 فیصد نے اخلاقیات، 8.8 فیصدنے سوکس جبکہ 90 فیصد نے اسلامیات کا انتخاب کیا۔

ڈاکٹر بنگش کے مطابق: ”مذہبی برادری کی عزت نفس اور شناخت پر حملہ 1972ء کی نیشنلائزیشن کا بنیادی مقصد شائد نہیں تھا…بہرحال اس کارروائی نے پاکستان میں عیسائیوں کے اعتماد کو سخت نقصان پہنچایا ہے“۔

مسیحی برادری اسی وقت سمجھ گئی تھی کہ بھٹو نے مسیحی برادری کو زبردست نقصان پہنچا یاہے لہٰذا انہوں نے احتجاج شروع کر دیا۔ اس احتجاج نے ایک افسوسناک موڑ لیا جب 30 اگست 1972ء کو راولپنڈی میں پرامن جلوس کو پولیس نے بے دردی سے گولیوں کانشانہ بنایا۔ جلوس میں دو ہزار افراد شامل تھے۔ تین مظاہرین: آر ایم جیمز، نواز مسیح اور ایک نامعلوم شخص کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا جبکہ مزید 25 زخمی ہوگئے۔ ایک درجن سے زائد افراد کو بھی گرفتار کیا گیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ بھٹو لاہور کے ایک ایسے حلقے سے منتخب ہوئے تھے جہاں ستر ہزار مسیحی باشندے رہتے تھے۔ عیسائی ووٹوں کے بغیر، وہ لاہور میں نہیں جیت سکتے تھے۔ بعد ازاں، انہوں نے اس نشست کو خالی کردیا کیوں کہ وہ اپنی لاڑکانہ والی نشست برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی جگہ محمود قصوری ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار منتخب ہوئے تھے لہٰذا، عیسائیوں کو دو طرح دھوکہ دیا گیا۔ ایک تو ان کے ووٹوں کی قدر نہ کی گئی۔ دوسرا یہ کہ بھٹو نے خود کو محکوم لوگوں کا چیمپئن بنا کر پیش کیا تھا۔

یہ رپورٹ ایک طر ح سے بھٹو کی موقع پرست سیاست کا بھی ایک قرطاس ابیض ہے۔ مثال کے طور پر: گو 118 اردو میڈیم مشنری اسکولوں کو نیشنلائزیشن کیا گیا لیکن اشرافیہ کے اسکولوں کو نیشنلائز نہیں کیا گیا۔ بھٹو نے اپنی کابینہ میں کوثر نیازی کو بھی شامل کیاجس کی وجہ سے مسیحی برادری مزید بد ظن ہو گئی۔ کوثر نیازی نے مسیحی عقیدے بارے ایک کتابچہ لکھا تھا جس پر مسیحی برادری کو تحفظات تھے۔

بھٹو کو بھی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ دھوکہ دہی کا احساس ہوا لہٰذا 1973ء میں روایتی شور و غوغے کے ساتھ ایک ’اقلیتی کانفرنس‘ کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس کے پلیٹ فارم سے بھٹو نے اقلیتوں کو مساوی حقوق دینے کا وعدہ کیا۔ تاہم، 1974ء میں، احمدیوں کو اسلام سے خارج کرنے کے لئے آئین میں ترمیم کی گئی۔

اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسیحی برادری میں پنجاب کی حد تک بھٹو کی حمایت ختم ہو گئی۔ بھٹو کے بعد کے دور میں، ڈی نیشنلائزیشن شروع کی گئی اور ان تعلیم اداروں کی واپسی کا ایک عمل شروع کیا گیا۔ تاہم، 2018ء تک 118 نیشنلائز کئے گئے مشنری اداروں میں سے صرف 58 چرچ کو واپس ملے تھے۔ باقی کے لئے کوشش جاری ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیشنلائز کئے گئے اسکولوں کو سابقہ مالکان کو واپس کرنے کے لئے کی گئی قانون سازی سے احمدیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ احمدیہ برادری ان اسکولوں کے لئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے جو نیشنلائزیشن کی وجہ سے ان سے چھن گئے تھے۔

مشنری سکولوں کی نیشنلائزیشن کو لگ بھگ پچاس سال گزر گئے۔ بدقسمتی سے ایک اور موقع پرست انسان بر سر اقتدار ہے۔ اگر یکساں قومی نصاب لاگو کیا گیا تو مسیحی طلبہ مزید تنہائی کا شکار ہوں گے۔ اس پس منظر میں بھی ڈاکٹر طاہر کامران اور پیٹر جیکب کی یہ تحقیقی رپورٹ انتہائی بروقت ہے۔

بہت ساری خوبیوں کے باوجود، اس رپورٹ سے بہر حال کچھ اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہے۔ مشنری سکولوں کی نیشنلائزیشن غلط سہی مگر بھٹو کی تعلیمی اداروں کو قومیانے کی مجموعی پالیسی بہر حال ہمدردانہ سلوک کی مستحق ہے۔ اس رپورٹ میں اگرچہ مشنری اسکولوں کی ناقص نیشنلائزیشن کو ثابت کرنے کے لئے کافی ثبوت اور دلائل دئے گئے ہیں لیکن نیشنلائزیشن کو ہی رد کرنا نا مناسب ہو گا۔

رپورٹ میں تاثر دیا گیا ہے کہ بھٹو نے سیاسی بنیادوں پر تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن کی۔ بات یہ ہے کہ جنرل ضیا کی ڈی نیشنلائزیشن بھی تو سیاسی بنیادوں پر تھی۔ ویسے بھی کیا کسی بھی عمل کو غیر سیاسی قرار دیا جاسکتا ہے؟

دوم، ملک میں تعلیمی زوال کو صرف نیشنلائزیشن کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ کچھ دیگر وجوہات بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ضیا آمریت نے تعلیم کی جو اسلامائزیشن کی، اس نے بھی تو نقصان پہنچایا۔ تعلیم کے لئے شرمناک حد تک کم بجٹ بھی تو تعلیم کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ تعلیم کی نیشنلائزیشن کم از کم تعلیم کی ذمہ داری ریاست کے سپرد تو کرتی ہے۔ اس نیو لبرل عہد نے تو تعلیم کو تجارت بنا کر رکھ دیا ہے اور اس تجارت میں صرف مالدار لوگ ہی اپنے بچوں کے لئے تعلیم کی جنس خرید سکتے ہیں۔

اس رپورٹ کے مصنفین اپنے عوام دوست نظریات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ اس لئے امید کی جا سکتی ہے کہ بعض ثانوی اختلافات کے باوجود یہ شاندار رپورٹ مزیدبحث کو جنم دے گی۔ سکولوں کی نیشنلائزیشن کے فائدے نقصان پر تو بحث جاری رہے گی مگر اندریں حالات ایک نتیجہ ضرور اخذ کیا جا سکتا ہے: مستقبل میں کوئی بھی تعلیمی پالیسی پاکستان کی جبر کا شکار مذہبی اقلیتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے تشکیل دی جائے۔ نہ صرف ان اقلیتوں کی شکایات دور کی جائیں (فوری طور پر قومیائے گئے سکولوں کی واپسی ایک اچھا قدم ہو گا) بلکہ ان کی ثقافتی، سماجی،معاشی اور تعلیمی تنہائی کو ختم کرنے کئے ہر ممکن وسائل مہیا کئے جائیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ عقیدے کی بنیاد پر نہیں، اقلیت کا تعین طبقے کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔

یہ مضمون معمولی تبدیلیوں کے ساتھ اردو ترجمے میں پیش کیا جا رہا ہے۔ پہلی بار یہ مضمون ’دی فرائیڈے ٹائمز‘ میں شائع ہوا۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔