قیصر عباس
امریکہ کے انتخابات میں نائب صدر کے عہدے کے لئے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کاملا ہیرس نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے پوری دینا میں آمروں کی مدد اور ان کی حمائت کی ہے۔ انہوں نے روس کے صدپیوٹن کی پالیسیوں کی بلا شرائط حمائت کی اور ان کے خلاف امریکی مفادات کی حفاظت کے لئے کوئی اقدام کرنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ اس کے مقابلے میں جو بائیڈن اگر صدر منتخب ہوگئے تو روس کے خلاف سخت موقف اپنائیں گے۔
انہوں نے بتایاکہ ”ٹرمپ نے براک اوباما کے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کو منسوخ کرکے ایران کو ایٹمی تجربات کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔ صدر کی پالیسیوں کے نتیجے میں اب امریکہ پہلے کے مقابلے میں غیر محفوظ ہے۔“
انہوں نے مزید بتایا کہ پیو ریسرچ سنٹر کے ایک حالیہ سروے میں انکشاف ہواہے کہ عالمی رائے عامہ صدر ٹرمپ کے مقابلے میں چین کے صدر شی جن پنگ کو زیادہ قابل اعتماد سمجھتی ہے۔
بدھ کو ہونے والے نائب صدر کے امیدواروں کے مابین ایک مباحثے میں اپنی حریف کا جواب دیتے ہوئے موجودہ نائب صدر مائیک پنس نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے جہادی گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کئے اور البغدادی اور قاسم سلیمانی سے دنیا کو نجات دلائی جب کہ جو بائیڈن نے اپنی پینتالیس سالہ سیاسی زندگی میں ان گروہوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی حکومت نے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات میں توازن کے لئے اقدامات کئے ہیں تاکہ چین کے بڑھتے ہوئے منفی اثرات پر قابو پایا جا سکے۔ ان اقدامات سے امریکہ میں لوگوں کی ملازمتوں کو بچایا گیا۔
نائب صدر کے عہدے کے لئے ر پبلکن پارٹی کے امیدوار مائیک پنس اور ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کاملہ ہیرس کے درمیان ہونے والے انتخابی مباحثے میں دونوں امید واروں نے زیادہ تر اس کے تمام ضابطوں کا احترام کیا۔ عام لوگوں کے خیال میں یہ مباحثہ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے صدارتی مباحثے سے بہت بہتر تھا جس میں دونوں امیدواروں نے سنجیدگی اور متانت کا مظاہرہ کیا اگرچہ کئی مرتبہ مباحثے کی ناظم نے مائیک پنس کو مقررہ وقت سے زیادہ بولنے پر روکا بھی۔
مباحثے میں بین الاقوامی تعلقات، بیروزگاری، کرونا وائرس، سپریم کورٹ کے جج کی تقرری، ملک میں افریقی النسل باشندوں کے خلاف پولیس کا تشددر، سماجی انصاف اور خواتین کے حقوق کے علاوہ کئی اور مسئلوں پربھی بحث ہوئی۔
سینیٹر کاملا ہیرس نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت کرونا وائرس کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی منصوبہ ہی نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ شروع ہی سے اس وبا کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس کو جھٹلاتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں امریکیوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی اور ابھی تک اس پر قابو نہیں پایا گیا۔ ان کے مطابق”امریکہ کی تاریخ میں یہ کسی بھی صدر کی سب سے بڑی ناکامی کہی جائے گی۔“
انہوں نے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ وہ ”صحت کی موجودہ انشورنس پالیسی منسوخ کرنا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ کرونا وائرس کے علاج سے محروم ہو جائیں گے۔
پنس نے جواباً کہاکہ ہماری کوششوں سے”امریکہ میں جلد ہی ویکسین کو متعارف کرایا جائے گا اورکاملا ہیرس اس کی اہمیت کو کم کرنے سے باز رہیں۔“ ان کے خیال میں ڈیموکریٹک پارٹی کرونا جیسی مہلک بیماری کو سیاسی رنگ دے کر لوگوں کی زندگی سے کھیل رہی ہے۔
سپریم کورٹ کی جج گنز برگ کے انتقال کے بعد خالی ہونے والے عہدے کے متعلق کاملا نے کہاکہ ٹرمپ کی حکومت جلد بازی سے کام لے کر انتخابات سے پہلے اس کو پر کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے جج کی نامزدگی انتخابات کے بعد ہونی چاہئے۔ انہوں نے تاریخی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خود رپبلکن پارٹی کے صدر لنکن کو بھی یہ مسئلہ درپیش تھا لیکن انہوں نے فیصلہ کیا کہ انتخابات کے بعد منتخب ہونے والے صدر کونیا جج نامزد کرنے کا اختیا ر ہونے چاہئے۔
مباحثے میں پولیس کے ہاتھوں افریقی النسل باشندوں کے قتل اور تشددکا مسئلہ بھی زیر بحث آیا جس میں نائب صدر پنس نے کہا کہ انہیں ان واقعات پر بہت افسوس ہے اور ان کی تحقیقات ہو رہی ہیں لیکن ملک میں لوٹ مار اور املاک کی تباہی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے کاملا ہیرس کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے لاطینی امریکہ کے تارکین وطن کو ہمیشہ بدمعاشوں اور جرائم پیشہ افراد کہا ہے اور سفید فام نسلی برتری کے گروہوں کی مذمت سے گریز کیا بلکہ انہیں تشدد پر اکسانے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان کے مطابق اقلیتوں کے حقوق کی حفاطت کے لیے ملک میں پولیس اصلاحات اور عدالتی انصاف کے نظام میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔
اس سال ملک میں انتخابات کرونا وائرس، بیروزگاری اور سیاسی بے یقینی کے پس منظر میں ہو رہے ہیں۔ ادھر صدر ٹرمپ کے بیانات سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ اپنی شکست کو تسلیم نہیں کریں گے اور انتخابات کے بعد انتقال اقتدار کا مرحلہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔
اس بارے میں سینیٹر کاملا نے کہاکہ جو بائیڈن جمہوریت پر ئقین رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انتقالِ اقتدار جمہوری روایات کے مطابق ہونا چاہیے۔ دوسری طرف پنس نے سوال کا جواب دینے کے بجائے کہا کہ ”انہیں پوری امید ہے کہ صدر ٹرمپ آنے والے انتخابات میں کامیاب ہوں گے اور ہماری شکست کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“
اس سال نومبر میں ہونے والے انتخابات اس لحاظ سے تاریخی حیثیت کے حامل ہیں کہ ملک میں پہلی بار نائب صدر کے عہدے کے لئے کسی خاتون کو نامزد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کاملا نہ صرف افریقی النسل بلکہ بھارتی نژاد بھی ہیں اور اس طرح وہ اقلیتوں کی نمائندگی بھی کرتی ہیں۔
امریکہ میں نائب صدر کا انتخاب نہیں ہوتا،ا سے صدارتی امیدوارکی نامزدگی کا ہی ایک حصہ سمجھا جاتاہے اور اس کی اہمیت اتنی نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود اس سال نائب صدر کے امیدواروں کی بحث صدارتی امیدواروں کے مباحثے سے زیادہ معیاری ثابت ہوئی ہے۔
ادھر صدر ٹرمپ جوکرونا وائرس ٹسٹ میں مثبت نتائج آنے کے بعدہسپتال داخل ہو چکے تھے اب واپس وائٹ ہاؤس آچکے ہیں اور اپنی انتخابی مہم پوری طرح جاری رکھنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ لیکن ان کی صحت کے بارے میں غیر یقینی اور متضاد بیانات کے بعد یہ کہنا قبل از وقت ہے کی ان کی مہم کس طرح جاری رہے گی اور وہ آنے والے دو صدرارتی مباحثوں میں حصہ لے بھی سکیں گے یا نہیں۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔