خبریں/تبصرے

50 سال میں 63 سرحدی دیواریں بنائی گئیں، 1989ء میں صرف 6 تھیں

حارث قدیر

عالمی تحقیقاتی ادارے ٹرانس نیشنل انسٹیٹیوٹ (ٹی این آئی) کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 1989ء میں دنیا کو تقسیم کرنیوالی صرف چھ سرحدی دیواریں تھیں جو اب بڑھ کر 63 ہو چکی ہیں۔ ہر دس میں سے چھ افراد کسی نہ کسی سرحدی دیوار سے متاثر ہو رہے ہیں۔

سرمایہ دارانہ ہوس، لالچ اور منافع خوری کی وجہ سے دنیا کو نسلی اور فرقہ وارانہ طور پر تقسیم کے عمل میں گزشتہ تیس سال کے دوران شدید تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ گزشتہ پچاس سالوں میں دنیا بھر میں 63 سرحدی دیواریں تعمیر کی گئیں، جن کی وجہ سے جنگی صنعت، دیوار سازی اور نگرانی کے آلات تیار کرنے والے سرمایہ داروں نے بے پناہ منافعے حاصل کئے۔ دیوار برلن کی موجودگی میں بائیں بازو کے نظریات کو انسانوں کو تقسیم کرنے اور دیواریں کھڑی کرنے والے نظام اور انسانی آزادیاں چھیننے والے نظام کے طورپر پیش کرنے والے سرمایہ داروں اور حکمران طبقات نے گزشتہ تیس سال میں نسل انسان کو نسل اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کیلئے مہاجرین اور دہشت گردوں کو روکنے کے نام پر ہزاروں میل لمبی ماضی سے کہیں زیادہ دیواریں تعمیر کر دی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بہت سے ملکوں نے فوج، بحری جہازوں، طیاروں، ڈرونز، ڈیجیٹل نگرانی، زمینی، سمندری اور فضائی گشت کے ذریعے سرحدوں کو بند کر رکھا ہے، اگر اس کو بھی شامل کیا جائے تو ان دیواروں کی تعداد سینکڑوں ہو جاتی ہے۔ غربت اور تشدد کی وجہ سے اپنے ملک سے فرار ہونے والے انسانوں کا سرحدی عبور کرنا اب پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ہو گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقہ میں 1990ء میں نسل پرستی پر قائم مصنوعی دیوار کے خاتمے کے تیس سال بعد کی دنیا ایک نئی قسم کی عالمی نسل پرستی تخلیق کر رہی ہے، یہ سرحدیں نسل پرستانہ نظریات پر استوار ہیں، جومراعات یافتہ اور طاقتور کو تحفظ فراہم کرتی ہیں اور عام انسانوں کے بنیادی حقوق کو چھیننے کاسبب بنتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق صرف 2015ء میں چودہ دیواریں تعمیر کی گئی ہیں، 2018ء تک دنیا بھرمیں 63 سرحدی دیواریں تعمیر ہو چکی تھیں۔ سرحدی دیواروں میں سب سے زیادہ تعداد ایشیا میں 56 فیصد ہے، یورپ میں 26 فیصد اور افریقہ میں یہ تعداد 16 فیصد ہے۔ دیواروں کی سب سے زیادہ تعداد (چھ) اسرائیل میں ہے، ایران اور ہندوستان میں تین جبکہ جنوبی افریقہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن، ترکی، ترکمانستان، قازکستان، ہنگری اور لیتھوانیا میں دو دیواریں ہیں۔

بھارت نے 6540 کلومیٹر لمبی تین سرحدی دیواری تعمیر کر رکھی ہیں جو اس کے 43 فیصد سرحدی علاقے کا احاطہ کرتی ہیں۔ دنیا کی نصف دیواروں کا بنیادی محرک مہاجرین اور دہشتگردی کو روکنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 32 فیصد دیواروں کا مقصد مہاجرین کو روکنا، 18 فیصد دہشتگردی، 16 فیصد ساز و سامان اور انسانوں کی سمگلنگ، 10 فیصد منشیات کی سمگلنگ، 11 فیصد علاقائی تنازعات اور 5 فیصد دیواروں کا مقصد غیر ملکی عسکریت پسندی کو روکنا ظاہر کیا گیا ہے۔

مغربی صحارا کی 2720 کلومیٹر لمبی سرحدی دیوار کو دنیا کی سب سے بڑی فوجی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے، جس میں نوے لاکھ لینڈ مائنز دبائی گئی ہیں۔ آسٹریلیاکی سمندری سرحدوں کی حفاظت کیلئے بحری و ہوائی جہازوں کے ذریعے گشت اور سمندر کنارے متنازعہ حراستی مراکز کا نظام استعمال کیا جاتا ہے۔ حراستی مراکز میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں۔ آسٹریلیا نے 2013ء اور 2019ء کے درمیان سرحدی تحفظ پر ایک اندازی کے مطابق پانچ ارب آسٹریلین ڈالر کی رقم خرچ کی۔

میکسیکو کی گوئٹے مالا سے متصل سرحد پر اگرچہ دیوار نہیں تعمیر کی گئی لیکن امریکی تعاون سے ایسا انفراسٹرکچر تعمیر کیا گیا ہے جو تاریکین وطن کو سمگلروں کے ہتھے چڑھنے اور مزید خطرناک ترین راستوں کی طرف جانے پر مجبور کرتا ہے۔

شام سے متصل پانچ ممالک میں سے چار نے دیواریں تعمیر کر کے جنگ اورتشدد زدہ آبادی کو داخل ہونے سے روکنے کے اقدام کئے، حالانکہ شام میں تیرہ ملین افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے اور 6.2 ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

سرحدی دیواروں کی تعمیر ایک منافع بخش کاروبار ہے، جو ایک مکمل بارڈر انڈسٹریل کمپلیکس کی شکل اختیارکر چکا ہے۔ اس صنعت نے نقل مکانی اور سرحدی چیلنجوں کو ایک سکیورٹی کا مسئلہ بنا کر اسکے حل کیلئے جدید ترین سکیورٹی تکنیک کے استعمال کو پیش کیا۔ گو کہ بہت ساری دیواریں اور سرحدی باڑ مقامی تعمیراتی کمپنیوں یا فوجی اداروں کے ذریعے تعمیر کی جاتی ہیں۔ تاہم، دیواروں اور باڑ کے ساتھ ساتھ متعدد تکنیکی نظام بھی استعمال ہوتے ہیں، جیسے نگرانی، ڈیٹکشن کے آلات، گاڑیاں، طیارے، اسلحہ، روبوٹک سسٹم، ڈرون اور سمارٹ ٹاور وغیرہ جو مختلف اسلحہ ساز اور سکیورٹی کمپنیاں فراہم کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایئر بس، جنرل ڈائنامکس، لیونارڈو، لاک ہیڈ مارٹن، ایل تھری ٹینالوجیز، نارتھروپ گرومین اور تھیلس جیسی کمپنیوں نے امریکہ اور یورپ میں سرحدی دیواروں اور باڑ کی تعمیر سے جڑے معاہدوں میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ اس کے علاوہ سی ایس آر اے، ای ڈیٹ کون، ایلبٹ، اندرا، لیڈوس اور ریتھیون سمیت متعدد کمپنیاں سرحدی دیواروں اور باڑ کی عالمی منڈی میں بڑی حصہ دار ہیں۔ اسرائیل کی کمپنیاں ایلبٹ اور میگل سکیورٹی عالمی سطح پر دیواروں کی تعمیر اور معاونت کیلئے نمایاں ہیں، اکثر مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کے وسیع انفراسٹرکچر کی تعمیر میں ان کمپنیوں کی شمولیت کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کر کے اپنے کام کو فروغ دیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرحدی دیواروں میں اضافے اور بارڈر انڈسٹری کے پھیلاؤ کے لئے طاقتور بیانیہ مسلط کرنے کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔ تارکین وطن کو طاقتور ممالک کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں کے متاثرین کی بجائے ترقی یافتہ ملکوں کی معیشت کیلئے خطرہ بنا کر پیش کر کے ایک خوف مسلط کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ سرحدوں کو روکنے اور سکیورٹی نافذ کرنے کے حل پر آمادہ ہوتے ہیں۔ اس جعلسازی کے ذریعے سے لوگوں کو عدم تحفظ کی اصل وجوہات سے دو رکھا جاتا ہے۔ اقلیتی اشرافیہ کے پاس دولت اور طاقت کے ارتکاز کا ایسا نظا م جو دنیا کی غریب ترین آبادیوں کے استحصال کی بنیاد پر قائم ہے۔ ایک ایسا نظام جو انسانوں کو رہائش، صحت، تعلیم اور روزگار کی فراہمی کے راستے میں رکاوٹ ہے، جو کہ پائیدار امن اور سلامتی کیلئے ضروری ہیں۔

عوامی شعور میں تبدیلی اور عوامی تحریکوں کی کامیابی جبر کے طاقتور نظام کو کمزور بھی کر سکتی ہے۔ انسانوں کو تقسیم کرنیوالی دیواریں معمول کے ادوار میں مستقل معلوم ہو سکتی ہیں لیکن سیاسی عمل ان کا خاتمہ بھی کر سکتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایک محدود اقلیت پر مبنی اشرافیہ کی دولت اور طاقت کا تحفظ کرنیوالی اس دیواروں والی دنیا کو تبدیل کرکے انسانیت کو باوقار اورمنصفانہ معاشرے پر مبنی دنیا سے سرفراز کیا جائے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔