لاہور (جدوجہد رپورٹ) بھارت کی دس بڑی ٹریڈ یونینوں کی کال پر 26 نومبر کو ملک گیر عام ہڑتال کی گئی۔ اس ہڑتال میں پچیس کروڑ محنت کشوں نے شرکت کی جبکہ ہزاروں کسانوں کے ’دہلی چلو‘مارچ کو بھارتی دارالحکومت دہلی میں داخلے سے روکنے کیلئے واٹر کینن، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کا استعمال کیا گیا۔
ہڑتال کی کال انڈین ٹریڈ یونین کانگریس (آئی این ٹی یو سی)، آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس (اے آئی ٹی یو سی)، ہندو مزدور سبھا (ایچ ایم ایس)، سنٹر آف انڈین ٹریڈ یونینز (سی آئی ٹی یو)، انڈیا یونائیٹڈ ٹریڈ یونین سنٹر (اے آئی یو ٹی سی)، ٹریڈ یونین کوآرڈینیشن سینٹر (ٹی یو سی سی)، سیلف ایمپلائڈ ویمن ایسوسی ایشن (ایس ای ڈبلیو اے)، آل انڈیا سنٹرل کونسل آف ٹریڈ یونین (اے سی سی ٹی یو)، لیبر پروگریسو فیڈریشن (ایل پی ایف) اور یونائیٹڈ ٹریڈ یونین کانگریس (یو ٹی یو سی) کے مشترکہ فورم کی طرف سے دی گئی تھی۔ اس پلیٹ فارم پر دیگر آزاد فیڈریشنیں اور انجمنیں بھی شامل تھیں۔
ملک بھر میں سرکاری و نجی شعبے کے ملازمین نے ہڑتال میں حصہ لیا، 250 سے زائد کسان تنظیموں کے متحدہ محاذ آل انڈیا کسان جدوجہد کوآرڈی نیشن کمیٹی (اے آئی کے ایس سی سی) نے بھی ہڑتال کی حمایت کی اور ٹریڈ یونین قیادت نے کسانوں کے ’دہلی چلو‘ مارچ کے انعقاد میں حمایت کا اعلان کیا۔ بھارت بھر کے کسان حالیہ کسان مخالف قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جن کے تحت زرعی مصنوعات کی قیمت میں حکومتی مدد کو واپس لیکر کسانوں کو نجی شعبے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
ٹریڈ یونین قائدین نے حکومت سے مزدور مخالف اور کسان مخالف قوانین کو فوری منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں صنعتی اور زرعی مزدور وں اور کسانوں کی بڑے پیمانے پر نقل و حمل سے دیہی اور شہری علاقوں میں عام زندگی بری طرح سے متاثر ہو ئی ہے۔ انہوں نے نے ملک بھر میں عام ہڑتال میں شریک مزدوروں اور کسان رہنماؤں کی گرفتاری کی مذمت کی اور کہا کہ کورونا وبا کے بہانے کو استعمال کر کے حکومت نے وسیع پیمانے پر جبر کا آغاز کیا ہے۔ چھبیس اور ستائیس نومبر کو پر امن طریقے سے دارالحکومت کی طرف مارچ کرنے والے ہزاروں مزدوروں اور کسانوں پر پولیس تشدد کا استعمال کیا گیا۔
اس عام ہڑتال کے سات مشترکہ مطالبات تھے:
٭ انکم ٹیکس کی حد سے کم آمدنی والے محنت کشوں کوماہانہ 7500 روپے دیئے جائیں۔
٭ تمام ضرورت مند افراد کو ہر ماہ 10 کلو گرام مفت راشن فراہم کیا جائے۔
٭ مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ میں توسیع، روزگار کی فراہمی کیلئے دیہی علاقوں میں موجود 100 سے 100 دن تک کام والی ملازمتوں کی فراہمی اور اس پروگرام کو شہری علاقوں تک بڑھایا جائے۔
٭ لیبر کوڈ میں کی جانیوالی تمام مزدور دشمن تبدیلیاں اور کسان مخالف قوانین واپس لئے جائیں۔
٭ تمام پبلک سیکٹر کارپوریشنوں بشمول فنانس سیکٹر کی نجکاری روکی جائے۔ حکومت کے زیر انتظام ریلوے، آرڈیننس مینوفیکچرنگ، بندرگاہوں اور خدمات کے اداروں کی کارپوریٹائزیشن کا عمل روکا جائے۔
٭ سرکاری شعبے کے ملازمین کی قبل از وقت جبری ریٹائرمنٹ کا سرکلر واپس لیا جائے۔
٭ سب کو پنشن فراہم، پرانی پنشن اسکیم کو بحال کی جائے اور ای پی ایس 95 کو بہتر بنایا جائے۔
ایس ایم ای ایف آئی کے جنرل سیکرٹری سنجے وڈھاوکرنے کہا کہ ”ملک بھر میں پولیس کی سخت کارروائیوں کے باوجود محنت کشوں نے جوش و خروش سے اس ہڑتال میں حصہ لیا۔ حالیہ مزدور قانون میں تبدیلی، سماجی تحفظ، اجرت اور صنعتی تعلقات سے متعلق نئے ضابطوں کی منسوخی کی جانی چاہیے۔ یہ نئے ضابطے بہت سے پہلوؤں پر بین الاقوامی انسانی حقوق اور بھارتی حکومت کے وعدوں کے منافی ہیں۔ کورونا کے دوران غلط حکمت عملی اور عوام دشمن معاشی پالیسیوں نے لاکھوں افراد کو تکلیف میں ڈال دیاہے۔ یہ ہڑتال اور کسانوں کے ساتھ اتحاد حکومت کو مزدوروں کے مطالبات اور عوام الناس کی پالیسیوں کے خلاف ایک سخت پیغام ہے۔“
انڈسٹریل گلوبل یونین کے جنرل سیکرٹری والٹر سانچس نے کہا کہ ”ہم اختلاف رائے کے جمہوری اظہار کو روکنے کیلئے استعمال ہونے والے پرتشدد ذرائع کی مذمت کرتے ہیں۔ انڈسٹریل گلوبل یونین انڈین ٹریڈ یونین تحریک کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی ہے اور عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف جدوجہد اور زرعی کارکنوں کے ساتھ وسیع بنیادوں پر اتحاد بنانے میں ان کی کاوشوں کو سراہتی ہے۔ ہندوستانی ٹریڈ یونینوں کے مطالبات حقیقی ہیں، خاص طور پر وبائی مرض کے بعد پھیلنے والی بیروزگاری اور ملازمتوں کے خاتمے کی وجہ سے حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹریڈ یونینوں کو سنیں اور معاملات کو حل کیا جائے۔“