پاکستان

راولاکوٹ میں نابینا افراد کا احتجاجی دھرنا: ’ہمیں بھیک مانگنے یا خود کشی پر مجبور کیا جا رہا ہے‘

حارث قدیر

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے شہر راولاکوٹ میں درجن کے قریب نابینا مرد و خواتین کا احتجاجی دھرنا62روز سے جاری ہے۔ یہ احتجاجی دھرنا 50سے زائد ایام تک پریس کلب کی عمارت کے سامنے جاری رہا، جس کے بعد ڈسٹرکٹ کمپلیکس اور جوڈیشل کمپلیکس کے وسط میں چند میٹر کے فاصلے پر واقع چوک میں یہ دھرنا گزشتہ10روز سے جاری ہے۔

احتجاجی دھرنے میں دن رات گزارنے والے ان درجن بھر نابینا افراد میں زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکے اور لڑکیاں ہیں، جبکہ ایک بزرگ سرپرست ان کے ہمراہ اس احتجاجی دھرنے میں شریک ہیں۔

مطالبات کیا ہیں؟

احتجاجی شرکا یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہر محکمے کے اندر معذور افراد کے لیے پانچ فیصد کوٹہ مختص کیا جائے۔ این ٹی ایس میں کامیاب ہونے والے اصل(معذور) حقداروں کے آرڈر جاری کئے جائیں۔ جو معذور افراد نوکری نہیں کر سکتے، یا بوڑھے ہیں، ان کو بے روزگاری الاؤنس دیا جائے۔ جو معذور افراد حافظ ہیں ان کو مسجدوں اور محکموں میں سرکارینوکریاں دی جائیں، اور معذوری کارڈ پر معذور کٹیگری درج کی جائے۔

درج بالا مطالبات کے حوالے سے دھرنے میں موجود ممتاز احمد کا کہنا تھا کہ معذور افراد کا کوٹہ کم کر کے پانچ فیصد کی بجائے 1فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس کوٹے پر بھی ان افراد کی تقرریاں کی گئی ہیں، جو کسی معمولی معذوری کا شکار ہیں۔ وہ ایسے افراد ہیں، جو چل پھر بھی سکتے ہیں، دیکھ بھی سکتے ہیں اور دماغی طور پر بھی تدرست ہیں۔ تاہم کسی انہیں کسی معمولی معذوری کا سامنا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ جو اصل معذور ہیں، بالخصوص جو نابینا ہیں۔ وہ این ٹی ایس پاس کرنے کے بعد بھی ملازمت حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔

انکا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے ساتھ دھرنے میں بیٹھے افراد میں ایم فل سکالر خاتون بھی موجود ہیں، ڈبل ایم اے اور بی ایڈ کرنے والی خاتون بھی موجود ہیں اور ایسے نوجوان بھی ہیں، جنہوں نے بی ایس اور ایم ایس کی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔ حکومت روزگار بھی نہیں دے رہی ہے، رہائش بھی ہمارے پاس موجود نہیں ہے اور گزر بسر کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ ہمیں مجبور کیا جارہا ہے کہ یا تو ہم بھیک مانگیں یا پھر خود کشی کر لیں۔

حکومت کا موقف

حکومتی اور انتظامی ذمے داران نے دھرنا میں موجود نابینا افراد سے ملاقاتیں اور مذاکرات کیے ہیں۔ وزیراعظم نے بھی ان کے مطالبات منظور کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ تاہم ابھی تک ان کے مطالبات حل نہیں ہو سکے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر پونچھ ممتاز کاظمی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا ہے کہ یہ نابینا افراد اپنے حق سے زیادہ مانگ رہے ہیں۔ ہر ضلع میں معذور افراد کے لیے دو فیصد کوٹہ مختص ہے، اس میں جولوگ میرٹ پر آرہے تھے، ان کی تقرریاں کر دی گئی ہیں۔ دھرنے میں بیٹھی خاتون میرٹ میں 9ویں نمبر پر آرہی ہیں۔ا س وجہ سے ان کی تقرری نہیں ہو سکتی۔

انکا یہ بھی کہنا تھا کہ چند لوگ اپنے مذموم مقاصد کے تحت ان لوگوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اس سے قبل نجی کالجز کے طلبہ کو اکسا کر افراتفری کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، جس میں ناکامی کے بعد یہ طریقہ اپنایا گیا ہے۔

دھرنے کے شرکاء کو یہ لوگ سہولیات مہیا کر رہے ہیں تاکہ یہ دھرنا جاری رہے اور حکومت کے لیے مسائل پیدا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ اب سبزی والے یہ نہیں بتا سکتے کہ قوانین کس طرح بنیں گے اور میرٹ کیسے بنے گا۔ جو کچھ قانون کے مطابق جس کا حق بنتا ہے اس کو وہی مل سکتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو انتظامیہ کو مجبوراً ان کے خلاف کارروائی کرنی پڑے گی۔

معذور افراد کے حقوق

معذور افراد کے حقوق کے لیے یونیورسل ڈیکلریشن میں بنیادی حقوق مقرر کیے گئے ہیں، جو پوری دنیامیں ہر معذور افراد کو فراہم کیے جانے ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ملکوں کی حکومتوں نے بھی ان کو یونیورسل ڈیکلریشن سے اضافی حقوق بھی فراہم کر رکھے ہیں۔

یونیورسل ڈیکلریشن کے مطابق معذور افراد کے انسانی وقار کا احترام ان کا فطری حق ہے۔ معذور افراد ان اقدامات کے حقدار ہیں جو انہیں ہر ممکن حد تک خودانحصاری کے قابل بنا سکیں۔ انہیں طبی، نفسیاتی اور فعال علاج کا حق حاصل ہے،بشمول مصنوعی آلات، طبی اور سماجی بحالی، تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت اور بحالی، امداد، مشاورت، تقرری کی خدمات اور دیگر خدمات جو انہیں اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے قابل بنا سکیں۔ تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ مہارت حاصل کر سکیں اور سماج کے اندر ان کے انضمام کا عمل تیز ہو سکے۔

معذور افراد کو حق حاصل ہے کہ وہ تمام سماجی، تخلیقی اور تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔ انہیں اپنی صلاحیتوں کے مطابق روزگار فراہم کیے جانے، پیداواری اور منافع بخش پیشے میں مشغول ہونے کا حق حاصل ہے۔

معاشی اور سماجی منصوبہ بندی کے تمام مراحل میں ان کی خصوصی ضروریات کو مد نظر رکھنے کا حق حاصل ہے۔ ہر ادارے کا ماحول اس قابل بنانا ضروری ہے کہ اس میں معذور افراد کی آسان رسائی وغیرہ ممکن ہو سکے۔

معذور افراد کو ہر طرح کے امتیازی سلوک، بدسلوکی یا ذلت آمیزسلوک سے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ قانونی اور دیگر حوالوں سے بھی معذور افراد کے لیے عالمگیر حقوق متعین کیے گئے ہیں۔

معذور افراد کی دیکھ بھال اوران کی تمام ضروریات کی تکمیل کئی ملکوں میں ریاستوں کی ذمے داری ہے۔ خصوصی سکول، تربیتی مراکز، علاج معالجے کے مراکز بنائے جاتے ہیں اور روزگار کی فراہمی تک ان کی کفالت ریاستوں کی ذمے داری ہوتی ہے۔

تاہم پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں احتجاج پر بیٹھے یہ نابینا افراد اپنی مدد آپ کے تحت اور مختلف مخیر حضرات سے حاصل کی گئی مالی امداد کے ذریعے اپنی تعلیم مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ تعلیم کے لیے خصوصی مراکز بھی میسر نہیں ہیں اور نہ ہی معذوری کے دوران ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے درکار مصنوعی آلات فراہم کرنے کا حق انہیں میسر آسکا ہے۔ اس سب کے باوجود یہ نابینا افراد بھیگ مانگنے کی بجائے، معاشرے کے لیے کارآمد شہری بننے کی کوششوں میں مصروف جہد ہیں۔ تاہم ریاست ان کی اس کوشش کے راستے میں رکاوٹ بنے بیٹھی ہے۔

احتجاج سے اظہار یکجہتی

راولاکوٹ میں جاری اس احتجاجی دھرنے کے شرکاء سے مختلف سیاسی و سماجی رہنماؤں کی طرف سے یکجہتی کی گئی ہے۔ تاہم حکومتی نمائندگان کی طرف سے ہر ممکن کوشش کی گئی ہے کہ انہیں دھرنا اٹھانے پر مجبور کیا جائے۔ دوسری جانب سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہی ہے اور ان کی روزمرہ ضروریات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ان کے احتجاج کو پھیلانے میں اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کر رہی ہے۔

سیاسی کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ نابینا افراد کو ان کا جائز حق دیا جائے۔ ریاست انہیں روزگار فراہم کرے، بصورت دیگر ان کی کفالت کا ذمہ لے۔ اس سلسلہ میں جو ضروری قانون سازی درکار ہے اس کو فوری طور پر کیا جائے۔ معذور افراد کو بھیک مانگنے پر مجبور کرنے کی بجائے باعزت زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔