حارث قدیر
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں رواں ماہ 24 اور 25 ستمبر کو دو جلسے منعقد ہوئے ہیں۔ ایک جلسہ کوٹلی کے مقام پر اور دوسرا ہجیرہ کے مقام پر منعقد کیا گیا۔ 24 اکتوبر کو حکومت کی جانب سے بھی یوم تاسیس کے سلسلے میں سرکاری ملازمین اور سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ و اساتذہ کو پابند کر کے جلسے منعقد کیے۔ تاہم جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام کوٹلی کے مقام پر جلسہ منعقد ہوا۔ یہ سارے ہی پر امن جلسے تھے، جن میں سیاسی تقاریر کی گئیں، جبکہ ایکشن کمیٹی کے جلسے میں مطالبات کی منظوری کے لیے حکومت کی جانب سے مانگے جانے والے وقت کا پاس رکھتے ہوئے تین ماہ بعد لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا۔
اگلے روز 25 اکتوبر کو جمعہ کے بعد ایک جلسہ ہجیرہ میں منعقد کیا گیا۔ بظاہر اس جلسہ کا انعقاد غزہ کے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کیا گیا تھا۔ تاہم سرکار کی طرف سے کالعدم قرار دی گئی عسکری تنظیموں جماعۃ الدعوۃ اور جیش محمد سمیت حزب المجاہدین کے مسلح دستوں نے اس جلسہ میں شرکت کی اور سٹیج پر کلاشنکوف اٹھائے نقاب پوش عسکریت پسندوں کو کھڑا کر کے تقاریر کی گئیں۔
حکومت کی طرف سے البتہ کوٹلی میں ہونے والے کمیٹی کے 24 اکتوبر کے پر امن جلسے کے منتظمین کے خلاف سخت کارروائی کی کوششیں تاحال جاری ہیں۔ اس جلسہ کا اسٹیج چلانے والے شاہد حنیف کو نوکری سے برطرف کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے ریڈ فاؤنڈیشن سکول سسٹم کے ریجنل ذمہ دار کو احکامات جاری کیے۔ اگلے روز کمشنر میرپور ڈویژن نے ایک خط کے ذریعے اسسٹنٹ کمشنر کوٹلی کو معطل کرنے کی تحریک کر دی ہے۔ ڈی ای او نے خط میں شاہد حنیف کو ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث قرار دیا گیا ہے، جبکہ کمشنر میرپور ڈویژن کی جانب سے کی گئی تحریک کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر نے جلسے کے اجازت نامے میں درج شرائط پر عملدرآمد نہ ہونے اور مقررہ وقت سے زائد وقت تک جلسہ جاری رکھے جانے پر منتظمین کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ اس لیے انہیں معطل کیا جانا ضروری ہے۔
تاہم ہجیرہ میں منعقد ہونے والے جلسے میں ایکشن کمیٹی کے مبینہ نظریہ پاکستان اور اسلام مخالف اقدامات کی وجہ سے ان کے خلاف جہاد کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ جموں کشمیر اور فلسطین میں بھی جہاد مسلح کارروائیاں کرنے کے اعلانات کیے گئے۔
دوسرے لفظوں میں اگر آپ بندوق اٹھا کر اس خطے کے نوجوانوں کو قتل عام پر اکساتے ہیں تو پھر آپ کو یہ ریاست ہر طرح سے سہولیات فراہم کرے گی، البتہ اگر آپ نے کوئی پر امن سیاسی جلسہ کر کے حقوق فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تو پھر آپ کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔
سیاسی جلسوں کے انعقاد کے لیے ڈپٹی کمشنر کے اجازت نامے کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس اجازت نامے میں واضح طور پر لکھا جاتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے خلاف کوئی سرگرمی نہیں کی جائے گی۔ ریاست کی سالمیت اور نظریاتی اساس کے خلاف بات نہ کرنے سمیت دیگر نوعیت کی شرائط کے ساتھ یہ اجازت نامہ دیا جاتا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کے مطابق کسی بھی نوعیت کی مسلح سرگرمی، اسلحہ لہرانا، دہشت پھیلانا یا پھر کسی بھی قسم کی عسکری سرگرمی و مذہبی منافرت پر پابندی عائد ہے۔ سب سے بڑھ کر ریاست کے اندر اسلحہ رکھنے کا اختیار صرف ریاست کے پاس قرار دیا گیا ہے۔ کوئی بھی گروہ جو اسلحہ اٹھائے گا اس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جانی ہے۔ تاہم اس نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی کا الزام ہمیشہ پر امن سیاسی کارکنوں پر ہی عائد کیا جاتا تھا ہے۔ بالخصوص وہ سیاسی کارکنان جو آزادی اور انقلاب کی بات کرتے ہیں۔
کالعدم جماعتوں کے ذمہ داران اور مسلح کارکنوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ حال ہی میں کالعدم تنظیموں کی اس طرح کی سرگرمی کے خلاف راولاکوٹ میں ایف آئی آر کے لیے درخواست دی گئی تھی، تاہم ابھی تک اس درخواست پر ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔
16نومبر کو راولاکوٹ میں ریاست کی اس پالیسی اور دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔تمام ترقی پسند اور آزادی پسند جماعتوں کی قیادت نے حکومت کو ڈیڈ لائن دے رکھی ہے کہ اگر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی اور کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد نہیں ہوتی تو پھر احتجاج کا سلسلہ بتدریج بڑھایا جائے گا۔