خبریں/تبصرے

امریکی خوشنودی اہم ہے: ’سلطان اردگان‘ نے دو سال بعد سفیر پھر اسرائیل بھیج دیا

لاہور (جدوجہد رپورٹ) ترکی نے 2 سال بعد اسرائیل میں اپنا سفیر مقرر کر دیا ہے۔ خبررساں ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق چالیس سالہ افق التاس کو اسرائیل میں نیا سفیر مقرر کیا گیا ہے اور یہ کوشش نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق افق التاس نے یروشلم میں عبرانی یونیورسٹی میں عبرانی اور مشرق وسطی کی سیاست کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ ایران کے امور کے ماہر بھی مانے جاتے ہیں لیکن وہ سفارتکار کبھی نہیں رہے۔

ترکی نے مئی2018ءمیں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی بربریت پر احتجاجاً اپنا ایلچی واپس بلا لیا تھا۔ ترکی نے سب سے پہلے 2010ءمیں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات اس وقت ختم کئے تھے جب اسرائیلی کمانڈوز نے غزہ میں محصور فلسطینیوں کو امداد دینے کےلئے جانے والے دس ترک سماجی کارکنوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ 2016ءمیں ترکی نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات دوبارہ بحال کئے لیکن 2 سال بعد ہی 2018ءمیں امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کئے جانے کے فیصلے کے بعد یہ تعلقات دوبارہ ختم کر لئے گئے تھے۔

ترکی کے اسرائیل میں سفیر کی تقرری بھی دیگر عرب ممالک کی جانب سے صدر ٹرمپ کے ساتھ معاہدووں کے تحت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معمول پر لانے کے سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے۔ فلسطینی قیادت نے اس عمل کو عرب ریاستوں کی فلسطینیوں سے سنگین غداری اور فلسطینیوں کے حق خودارادیت کے حصول کی کوششوں کو مزید کمزور کرنا قرار دیا ہے۔

رواں سال کے آغاز میں ٹرمپ نے مشرق وسطی کےلئے اسرائیل کے حق میں اس منصوبہ کی تجویز پیش کی تھی جسے فلسطینیوں نے مسترد کر دیا تھا۔ ٹرمپ کی اس تجویز اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کے عرب ممالک کے معاہدں پر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے بھی شدید تنقید کرتے ہوئے کود کو مسلم دنیا میں فلسطینیوں کا سب سے بڑا حامی قرار دیا تھا۔

ترکی کی جانب سے اسرائیل میں سفیر کی تقرری نے ایک بار پھر ترک حکمرانوں کی دوغلی پالیسیوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ ماضی میں بھی ترک صدر رجب طیب اردگان ایک جانب جارحانہ بیانات کے ذریعے خود کو مسلم امہ کا ہیرو قرار دینے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں اور دوسری جانب اسرائیل سمیت دیگر سامراجی ریاستوں کےساتھ تعلقات ہوں یا سامراجی جنگوں میں حصہ داری ہو ہر جگہ پر وہ پیش پیش ہی رہے ہیں۔ فلسطینیوں کے حق میں نام نہاد آواز اٹھانے والے ترک حکمران کردوں کی آزادی کی تحریک کو کچلنے اور کردوں کے قتل عام میں بھی ملوث ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts