آئمہ کھوسہ
13 دسمبر، گذشتہ اتوار کے دن جب پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے لاہور میں جلسہ منعقد کیا تو لازمی بات تھی کہ اس کا موازنہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اُن جلسوں سے ہو گا جو پی ٹی آئی نے حزب اختلاف میں رہتے ہوئے کئے تھے۔
پی ٹی آئی کے جلسے ایک ایسے پیمانے کے طور پرعوامی شعور کا حصہ بن چکے ہیں جس سے کسی سیاسی جماعت کی طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عمران خان کی مقبولیت اور ایک نئی طاقت کے ابھار کا ایک اظہار یہ تھا کہ پی ٹی آئی کہ جلسوں میں لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ گو عمران خان بڑے بڑے جلسے کرنے والے پہلے مقبول سیاسی رہنما تو نہیں تھے مگر وہ نوجوان جو اس دور میں سیاست کی طرف آئے، ان کو شائد ایسا ہی لگ رہا تھا۔
وجہ یہ بھی تھی کہ سوشل میڈیا کے رواج پا جانے کی وجہ سے عمران خان کے پیغام کو بڑھاوا مل رہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ الیکٹرانک میڈیا میں بھی عمران خان کو بھر پور کوریج مل رہی تھی۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں شریک ہونے والے حاضرین بتاتے ہیں کہ جلسے کتنے پر جوش ہوتے تھے، ڈی جے بٹ کا پر شور میوزک ایک نیا ولولہ پیدا کر دیتا جبکہ عمران خان کی تقاریر پر پریس اور ٹاک شوز میں گرما گرم بحثیں ہوتیں۔
اس سیاق و سباق کو مد نظر رکھا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ 13 دسمبر کا جلسہ منعقد کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز، تیاری کے مراحل میں، دباؤ کا شکار تھی۔ لاہور آخر شریف خاندان کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ لاہور سے نواز لیگ کے 11 ایم این اے ہیں جبکہ کئی اہم پارٹی رہنماوں کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔
جلسے کی تیاری کے لئے نواز لیگ نے اپنے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے ذریعے نہ صرف اپنے روایتی حلقوں میں حامیوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی بلکہ سول سوسائٹی سے بھی رابطہ کیا گیا۔ سول سوسائٹی کی قیادت سے کہا گیا کہ وہ پی بھی پی ڈی ایم کے چارٹر میں اپنے مطالبات شامل کرائیں۔ نواز لیگ نے طلبہ سے رابطے کے لئے بھی اپنے نمائندے بھیجے۔ اس کی ایک مثال تو یہ ہے کہ 29 نومبر کو ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ میں رانا مشہود بھی شریک ہوئے۔ اس مارچ میں انہوں نے زور پکڑتی ہوئی طلبہ تحریک کے رہنماؤں سے درخواست کی کہ طلبہ 13 دسمبر کے جلسے میں شریک ہوں۔ رانا مشہود نے وعدہ کیا کہ طلبہ کا یونیز بحال کرنے کا مطالبہ بھی پی ڈی ایم کی قیادت پیش کرے گی۔
سینئر صحافی نصرت جاوید نے ایک بار کہا تھا کہ مسلم لیگ نے اپنے ووٹر کو سیاسی کارکن بنا دیا ہے اور یہی اس کے بیانئے کی کامیابی کا رازہے۔ ان نئے نئے سیاسی کارکنوں کیلئے چیلنج یہ تھا کہ وہ انتہائی معاندانہ حالات میں جلسہ منظم کر رہے تھے۔ جلسے سے چند روز قبل ڈی جے بٹ کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے بارے میں خبر تھی کہ وہ 13 دسمبر کے جلسے میں میوزک کا انتظام سنبھالیں گے۔
ان کی گرفتاری کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایسے دیگر لوگ خوفزدہ ہو گئے جن کی خدماے انتظامات مکمل کرنے کے لئے درکار تھیں۔ ایک پارٹی کارکن نے مجھے بتایا کہ ڈی جے بٹ کی گرفتاری کے بعد کوئی بھی ہمیں سامان دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ ”کوئی بھی جیل نہیں جانا چاہتا تھا۔ آخر کار ہم نے لاہورکے باہر سے ساونڈ سسٹم منگوایا“۔
پارٹی کارکنوں کا کہنا تھا کہ مقدموں اور انتقامی کاروائیوں کے خوف کا یہ عالم تھا کہ جلسے سے 36 گھنٹے پہلے تک تنبو اور کرسیوں کا بندوبست ہونا باقی تھا۔ ایک اور پارٹی کارکن نے بتایا: ”12 دسمبر کی رات تک ہمارے پاس کنٹینر دستیاب نہیں تھا جس پر جلسے کا سٹیج بنانا تھا۔ کوئی کنٹینر دینے پر تیار نہیں تھا کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ جلسے کے بعد حکومت کنٹینر قبضے میں لے لے گی“۔
کرسیاں بھی کوئی نہیں دے رہا تھا۔ ”آخر کار ہم نے کرسیاں خریدنے کا فیصلہ کیا۔ کوئی کرائے پر تو دے نہیں رہا تھا۔ کرسیاں بھی بہت مہنگے داموں خریدنی پڑیں۔ اگر نئی کرسی سو روپے میں ملتی ہے تو ہم نے سیکنڈ ہینڈ تین سو کے بھاؤ خریدی“۔ پارٹی نے جلسے کی رات 18,000 کرسیاں خرید کر جلسہ گاہ پہنچائیں۔ جلسے کے روز البتہ یہ کرسیاں کم پڑ گئیں۔
پاٹی کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جلسے کے لئے حکومت کی جانب سے نہ تو کوئی سکیورٹی کا بندوبست تھا نہ ہی ٹریفک کا نظام چلانے کے لئے کوئی بندوبست۔ ”عمومی طور پر حکومت ٹریفک کے لئے کئے گئے بندوبست کی تفصیلات شہریوں کو فراہم کرتی ہے۔ جلسہ منعقد کرنے والی جماعتوں کوبھی یہ منصوبہ بتایا جاتا ہے۔ یہ معلومات فراہم کی جاتی ہیں کہ عام شہریوں کے لئے کون سے متبادل راستے ہوں گے۔ پارکنگ کہاں ممکن ہو گی۔ جلسہ گاہ پہنچنے کے لئے کون سا راستہ ہو گا۔ اخبارات میں بھی اس کی تفصیلات شائع کی جاتی ہیں۔ بڑے جلسوں سے پہلے رہنماؤں کے ساتھ سکیورٹی انتظامات بارے بھی بات چیت ہوتی ہے اور معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ گو 13 دسمبر کے جلسے میں بڑے بڑے رہنما شریک تھے مگر ان کے لئے کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے تھے۔ ہزاروں لوگ شریک تھے۔ ان کے لئے بھی نہ تو حفاظت کا کائی بندوبست تھا نہ ٹریفک پولیس کہیں دکھائی دے رہی تھی۔“
میں بھی جلسے میں شریک تھی۔ دوران جلسہ مجھے پتہ نہیں چلا کہ الیکٹرانک میڈیا میں اس جلسے کی کوئی کوریج ہو رہی ہے یا نہیں۔ موبائل فون کے سگنل جام تھے۔ یوں سوشل میڈیا تک رسائی ممکن نہ رہی۔ صحافی سوشل میڈیا پر براہ راست ویڈیوز یا تصاویر شیئر نہیں کر سکے۔ جیمرز کی وجہ سے ڈرون کیمرے بھی ٹھیک سے کام نہیں کر پائے۔ ایک پارٹی ورکر نے کہا ”ہمیں پتہ ہے کہ ایک دن پہلے مینار کے اوپر جیمر لگایا گیا تھا۔ ہمارے سامنے ہی لگایا گیا تھا مگر ہم نے اسے اتارا نہیں کیونکہ یہ کار ِسرکار میں مداخلت کے برابر ہوتا۔ اس جیمر کی وجہ سے ڈرون کی پرواز محدود کر دی گئی“۔
جب میں گھر پہنچی تو ٹیلی ویژن پر یہ خبریں دیکھ کر حیران رہ گئی کہ جلسے میں شرکاء کی تعداد کم تھی جبکہ جوش و خروش کی کمی تھی۔ جو میں دیکھ کر آئی تھی، وہ تو اس کے بالکل بر عکس تھا۔ جلسہ گاہ کو جانے والے راستے ٹریفک کی وجہ سے بند تھے اور مینارِ پاکستان پہنچنے کے لئے چند میل کا فاصلہ پیدل طے کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا۔
جلسہ گاہ کے گیٹ پر بھی بھیڑ تھی۔ گیٹ نمبر پانچ سے شرکا جلسہ نے داخل ہونا تھا جبکہ گیٹ نمبر چار قائدین کے لئے مختص تھا۔ قائدین کی آمد کے بعد تو دونوں گیٹوں کے درمیان تمیز کرنا ممکن نہ رہا۔ لوگوں نے تمام رکاوٹیں توڑ دیں اور سٹیج کے بالکل قریب پہنچ کر براجمان ہو گئے۔ میڈیا گیلری اور مینار بھی لوگوں سے بھر گیا۔ لوگوں کی تعداد مسلم لیگ کی توقع سے بھی زیادہ تھی۔ اس کی تیاری نہیں تھی۔ دھکم پیل بھی ہوئی۔ کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے۔ سٹیج کے گرد جاری بے ہنگم پن کی وجہ سے ساونڈ سسٹم اور لائٹ کا بھی مسئلہ پیدا ہوا۔
نظم و ضبط کے مسائل کے باوجود جلسہ پر جوش تھا۔ عورتیں، بچے اور نوجوان سخت سردی کے باوجود موجود تھے۔ ’ووٹ کو عزت دو‘ کا ترانہ سپیکروں سے گونج رہا تھا۔ اتحاد میں شامل جماعتوں کے جھنڈے روشنیوں کی مدد سے بھی بنائے جا رہے تھے اور کارکنوں نے بھی اپنی اپنی پارٹیوں کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔
ایک موقع پر کچھ نوجوانوں میں جھگڑا ہو گیا۔ جمعیت علمائے اسلام (ایف) کے کارکن (جو اپنی وردی کی وجہ سے با آسانی پہچانے جا سکتے تھے) فوراً پہنچ گئے اور اس جھگڑے کو رفع دفع کیا۔ جب نواز شریف سکرین پر نمودار ہوئے تو جلسے میں ہلچل سی پیدا ہو گئی۔نواز شریف نے ہاتھ ہلا یا تو مجمعے نے بھی جواباً ہاتھ ہلایا۔
جلسے میں کتنے لوگ تھے؟
مسلم لیگ کے کارکنوں کا جواب سیدھا سا ہے۔ ان کے مطابق یہ جلسہ اتنا بڑا ضرور تھا کہ ان کی طاقت کا اظہار ہو گیا اور یہ ثابت ہو گیا کہ لاہور اب بھی مسلم لیگ نواز کے ساتھ ہے۔ اتنا بڑا بھی ضرور تھا کہ اس جلسے کے خلاف ایک زہر آلود پراپیگنڈہ مہم شروع کی گئی اور اتنا بڑا بھی تھا کہ حکومت کو سینیٹ کے الیکشن مارچ کی بجائے فروری میں کرانے پڑ رہے ہیں۔