آئمہ کھوسہ
پاکستان میں ایک نئی پختون قیادت ابھر رہی ہے اور وہ ملک کے دوسرے بڑے نسلی گروہ کی امنگوں کی ترجمانی کر رہی ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے 2018ءمیں مقبولیت حاصل کی جب پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ایک پختون نوجوان کے غیر معمولی قتل کے خلاف احتجاج شروع ہوا۔
مظاہرین قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں جعلی مقابلوں میں مارے جانے والے افراد کے لئے ’سچائی اور مفاہمتی کمیشن ‘کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ حراستی مراکز میں قید لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ اس تحریک کے ذریعے، جس کی باگ ڈور بڑی تعداد میں شامل نوجوانوں کے ہاتھ میں تھی، سکیورٹی چیک پوسٹوں پر لوگوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک پر بھی احتجاج کیا جارہا تھا اور ان کا مطالبہ تھا کہ پختون قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگیں ختم کی جائیں۔
پی ٹی ایم کے ان ابتدائی مطالبات میں پچھلی دو دہائیوں کے دوران نقل مکانی اور بے اختیار ہونے کی وجہ سے پختون نوجوانوں میں پائی جانے والی گہری بیگانگی کی جھلک تھی۔ اپریل 2018ءمیں ایک قومی روزنامے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میںسابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے پی ٹی ایم کے عروج کو ”جنگ اور بے گھر ہونے کے صدمے سے نکلنے کی طرف پہلا قدم“ قرار دیا تھا لیکن اس کے بعد بھی بہت کچھ رونما ہو چکا ہے اور 2020ءمیں تحریک کی نوجوان قیادت کواب اس کے مستقبل کے بارے میں بہت سے سوالات کا سامنا ہے۔
جنگ اور بے گھر ہونے کے صدمے کو بیان کرنے کے علاوہ کیا یہ تحریک ان نوجوان پختونوں کے لئے کوئی پروگرام پیش کر سکتی ہے جو سیاسی متبادل کی تلاش میں ہیں؟
پی ٹی ایم کے اندرمسابقتی رجحانات موجود ہیں، قیادت عوامی سطح پر متحد نظر آتی ہے تاہم مسابقتی رجحان اُس وقت واضح ہوجاتا ہے جب کوئی تحریک کے نوجوان رہنماوں کے سیاسی چال چلن کا مطالعہ کرتا ہے۔ ان میں سے ایک پارلیمانی سیاست کی طرف جھکاو رکھنے والا رجحان ہے۔ اس رجحان کی دلیل ہے کہ نئی انتخابی قوت نہ صرف ممکن ہے بلکہ ناگزیر بھی ہے۔ اس کی نمائندگی محسن داوڑ کرتے ہیں۔
وہ اس وقت پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور شمالی وزیرستان سے آزاد امیدوار منتخب ہوئے ہیں۔ محسن داوڑ کی سیاسی تربیت بلکہ ان کی پوری زندگی نے انہیں ایک نئی پارٹی کی صورت میں پختون بہار کے ترقی پسند نظریات کو آگے بڑھانے کے لئے تیار کیا ہے۔
وزیرستان میں پرورش
محسن داوڑ میران شاہ میں سرکاری ملازم جاوید اقبال کے ہاں 1984ءمیں پیدا ہوئے۔ داوڑ نے اپنا بچپن شہر در شہر گھومتے ہوئے گزارا۔ والد کے تبادلوںکی وجہ سے وہ سوات، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان اور مردان میں رہے جہاں ہر بار ایک نئے اسکول میں داخلہ لیا ۔ محسن داوڑ بہت کم عمری میں ہی اپنے خاندان کے سیاسی ورثے سے واقف ہو گئے تھے۔ ان کے پر دادا تقسیم ہند سے قبل کانگریس پارٹی میں شامل تھے اور پشتونوں کی آزادی کیلئے سرگرم عبدالغفار خان کے قریبی ساتھی تھے۔
راقم کے ساتھ ایک انٹرویو میں داوڑ نے بتایا کہ ان کے گھر کا ماحول ایسا تھا کہ ان کے ارد گرد کے بزرگوں کا بحث و مباحثہ جاری رہتا تھا جس نے ان کی توجہ سیاست کی جانب مبذول کی اور ان کے ابتدائی رجحان کو شکل دی۔ محسن داوڑ کے خیال میں 1990ءکی دہائی میں شمالی وزیرستان سیاسی لحاظ سے بالکل بنجر تھا۔ انہوں نے بتایا کہ صرف انتخابات کے قریب ہی قبائلی اضلاع میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہوتی تھیں اور ان علاقوں میں صرف مذہبی جماعتوں ہی کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت تھی۔ ایسی کسی ترقی پسند پارٹی کا وجود نہیں تھا جو نوجوان میں تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اے این پی اور اس کے طلبہ ونگ نے محسن داوڑ کو اپنی طرف راغب کیا جب انہوں نے پہلی بار سیاست کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔
2002ءمیں محسن داوڑ نے ایک بزنس ڈگری کیلئے گومل یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) میں شمولیت اختیار کی جو اے این پی کا طلبہ ونگ تھا۔ وہ تھوڑی مدت میں ہی اس کے صدر منتخب ہو گئے۔ اتفاقی طور پر پی ٹی ایم کے تمام مرکزی رہنما منظور پشتین، محسن داوڑ اور علی وزیر گومل یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ 2002ءمیں جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے تحت عام انتخابات ہوئے۔ وزیرستان میں متحدہ مجلس عمل پاکستان (چھ مذہبی جماعتوں کے اتحاد) نے کامیابی حاصل کی۔ انتخاب کے فوری بعد ہی عسکریت پسندی کی مکروہ صورت ابھرنا شروع ہوئی اور یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسند گروہ بندی کر رہے ہیں۔
”جب عسکریت پسند گروہ آپس میں ٹکراتے تو وہ اپنے مخالفین پر وحشیانہ تشدد کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے حریف گروہوں کے اہلِ خانہ کو ہلاک کیا اور ان کی لاشوں کو سر عام لٹکایا تاکہ علاقے میں اپنی موجودگی کا احساس دلا سکیں۔“
محسن داوڑ نے بتایا ”میں اس وقت زیر تعلیم تھا لیکن اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملاقاتوں میں میرا ہمیشہ یہ استدلال رہا کہ یہ بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی پورے خطے کے لئے تباہ کن ثابت ہوگی۔ ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو اِن عسکریت پسندوں کی آمد کے بعد مزاحمت نہیں کررہا تھا۔ دراصل معاشرے کے سب سے کمزور اور نظرانداز طبقوں کو ان عسکریت پسند گروہوں نے متوجہ کیا ۔ ایسے افراد جن کے پاس تعلیم یا وسائل نہیں تھے اور وہ ڈاکٹر یا پولیس اہلکار کی حیثیت سے اپنے لئے زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ایسے لوگ بڑے مخمصے میں پھنس گئے تھے۔انہیں بندوق اور پیسوں نے اپنے سحر میں گرفتار کر لیا۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ اگر ان کے پاس اسلحہ اور دولت ہے تو ان کی عزت کی جائے گی اور جو بھی عسکریت پسندوں کی مزاحمت کرے گا اسے ختم کیا جاسکتا ہے چنانچہ چند ہی برسوں میں ایک نئی کھیپ تیار ہو گئی۔ انتہائی غریب اور بے اختیار لوگ طالبان بن گئے اور انہوں نے علاقے میں اختیار حاصل کر لیا۔“
ان کا کہنا ہے: ”اس دوران ریاست خاموش تھی۔ یہاں خاص طور پر قبائلی عمائدین اور سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ لوگوں کو یہ کہتے ہوئے اغوا کیا گیا کہ وہ امریکی ایجنٹ ہیں۔ عسکریت پسند گروہوں کی مضبوط موجودگی کی وجہ سے شمالی وزیرستان ریاست کے اندر ایک ریاست بن گیا۔ سکیورٹی چیک پوسٹوں سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر یہ عسکریت پسند اس علاقے میں گھس رہے تھے۔ کبھی کبھی یہ عسکریت پسند رات کے وقت پہاڑوں سے گولیاں چلاتے اور سکیورٹی اہلکار انہیں دیکھ نہ پاتے تھے۔ سکیورٹی چیک پوسٹوں سے اگر جوابی کارروائی ہوتی توہر سمت اندھی گولہ باری کی جاتی تھی۔ صبح ہوتے ہی پہاڑوں کے نیچے دیہات میں رہنے والے انسانوں اور جانوروں کی لاشوں کے خوفناک نظارے سے اپنی صبح کا آغاز کرتے۔ وزیرستان میں وہ دردناک صحبتیں تھیں۔ دیہات میں مناظر حیرت انگیز طور پر تکلیف دہ تھے۔“
فیصلہ کن لمحات
انڈرگریجویٹ ڈگری مکمل کرنے کے بعد داوڑ آسٹریلیا روانگی سے قبل کچھ عرصہ طلبہ تنظیموں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ وہ 2013ءمیں واپس آئے اور ایک بار پھر سیاسی سرگرمیوں کے لئے اے این پی کا رخ کیا۔ وہ پارٹی کے یوتھ ونگ یعنی نیشنل یوتھ آرگنائزیشن (این وائی او) کے بانی رکن بن گئے۔ پہلے انہوں نے این وائی او کے مرکزی ترجمان کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور بعد میں اس کے چیئرمین بنے۔
انہوں نے بتایا ”ہم این وائی او کو ملک بھر میںگراس روٹ سطح کی تنظیم بنانا چاہتے تھے لہٰذا ہم ہر ضلع میں گئے اور یونٹ تشکیل دیئے۔ سوات سے کوئٹہ اور ڈیرہ اسماعیل خان تک، کراچی تک بھی گئے۔ ہم نے پورے ملک کا دورہ کیا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے۔“
این وائی او کے تحت ابھرنے والا نوجوان آج پی ٹی ایم کا دست و بازو ہے۔ 2013 ءکے عام انتخابات میں نوجوان ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کے باوجود، اے این پی، این وائی او کی بنیادی جماعت، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف سے بری طرح ہار گئی۔
”عام انتخابات میں اے این پی کی شکست سے لوگ خوفزدہ ہوگئے لیکن ہم ابھی بھی اسے ایک عارضی دھچکے کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور اس کی بحالی کے لئے پرعزم تھے۔ اس کے بعد 2014ءمیں وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن ضربِ عضب شروع کیا گیا اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں لاکھوں افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہوگئے۔“
جب یہ داخلی طور پر بے گھر افراد (آئی ڈی پیز) کیمپوں میں منتقل ہوگئے تو محسن داوڑ کو احساس ہوا کہ ان کی صورتحال تشویشناک ہے اور انہوں نے ان کے لئے امدادی مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔
”میں نے چندے کے لئے اپیل کی۔ غلام بلور جیسے پارٹی رہنماوں نے نہ صرف ہمارے کام کی توثیق کی بلکہ فراخدلی سے عطیہ بھی دیا۔ ہم نے بہت پیسہ اکٹھا کیا، راشن خریدا اور آئی ڈی پیز میں تقسیم کیا۔“ آئی ڈی پیز قومی کمیٹی نے محسن داوڑ کو اس امدادی مہم کے لئے ایوارڈ پیش کیا تھا۔ اس کے فوراً بعد ہی محسن داوڑ اس مقام پر پہنچے جس کو وہ اپنے سیاسی زندگی کا فیصلہ کن لمحہ کہتے ہیں: انہوں نے اسکول بنانے کا فیصلہ کیا۔
”ہم نے باچا خان ایجوکیشن اکیڈمی قائم کی اور ایک نجی اسکول کی عمارت کو کرایہ پر لیا۔ یہ مڈل اسکول کی حیثیت سے شروع ہوا لیکن بعد میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطح تک بڑھا۔ اساتذہ رضاکارانہ بنیادوں پر خدمات فراہم کر رہے تھے تاہم اسکول مالی طور پر تب بھی غیر مستحکم تھا۔ میں مالی حمایت کے لئے ریحام خان کے پاس پہنچا۔ انہوں نے اس وقت عمران خان سے شادی کر لی تھی اور ان کا بہت اثر و رسوخ تھا۔ کے پی میں تحریکِ انصاف کی حکومت بھی تھی۔ ریحام خان نے بنوں کا دورہ کیا اور ایک این جی او کی مدد سے اسکول کے لئے فنڈ اکٹھا کیا۔“
محسن داوڑ کہتے ہیں کہ اس اسکول سے فارغ ہونے والے طلبہ نے وزیرستان میں ایک نئی سیاسی بنیاد رکھی۔ ”ان نوجوانوں نے خود ہی سیاسی سرگرمیاں منظم کرنا شروع کیں۔ ہر چند دن بعد وہ ان مختلف مطالبات کے لیے احتجاج کا اہتمام کرتے جو انہیں درپیش تھے۔ وہ اس سے بھی بڑی سیاسی سرگرمیوں کے خواہاں تھے“۔
سیاسی متبادل کی تلاش اور پی ٹی ایم کا عروج
2016ءمیں محسن داوڑ نے لکھنا شروع کیا۔ ان کا پہلا مضمون ایک دوست کی حوصلہ افزائی پرلکھا گیا۔ اس مضمون میں آئی ڈی پیز کو ایک نیا معاشرتی معاہدہ پیش کیا گیا، جو آپریشن ختم ہونے کے بعد اپنے گھروں کو واپس جانے کے لئے تیار تھے کیونکہ علاقے کو عسکریت پسندوں سے پاک کر دیا گیا تھا۔
اس کے بعد محسن داوڑ نے اپنی تحریروں میں آئی ڈی پیز کو درپیش متعدد امور کو واضح کیا اور میران شاہ مارکیٹ میں ہزاروں دکانوں کو مسمار کرنے کا مسئلہ بھی اٹھایا جو سکیورٹی آپریشن ختم ہونے کے بعد دوبارہ تعمیر کی جا رہی تھیں۔ فوج مخالف ردعمل نے اے این پی کی قیادت کو ناراض کرنا شروع کیا۔ ”پارٹی قیادت کو بتایا گیا کہ یہ شخص ( محسن داوڑ) مسائل پیدا کر رہا ہے۔ جب میں نے میرانشاہ میں بازاروں کو گرانے کے بارے میں عوامی بیانات دیئے تو اسفند یار ولی بہت پریشان ہوئے“۔
اس کے بعد 2017ءکے موسم بہار میں مردان میں عبد الولی خان یونیورسٹی کے ایک طالب علم مشال خان کو یونیورسٹی کے احاطے میں ہجوم نے مار دیا۔ ”جب میں نے اس واقعے کی اطلاع سنی تو میں گھبرا گیا۔ میں نے پی ایس ایف ارکان کو کیمپس بلایا لیکن ان کے فون بند تھے۔ تب مجھے اس سخت معاملے کے خوفناک پہلو کا احساس ہوا۔ میں نےاین وائی او کی طرف سے ملک گیر احتجاج کے لئے کال دی۔ ابتدا میں اے این پی اس معاملے کو اٹھانے کیلئے ہچکچاہٹ کا شکار تھی، میں نے استدلال کیا کہ اگر وہ اس پر بات نہیں کرتے ہیں تو وہ اپنے ہی بیانیہ کو نقصان پہنچائیں گے۔ یہ این وائی اوکے کارکنوں کا غصہ تھا جس نے پارٹی کو اس قتل کے خلاف سخت احتجاج کرنے پر مجبور کیا۔“
جنوری 2018ءمیں نقیب اللہ محسود کراچی میں پولیس مقابلے میں مارا گیا جس کے بعد احتجاج کی لہر سے پی ٹی ایم کی تشکیل ہوئی۔ محسن داوڑ نہ صرف اس پیشرفت سے جڑے ہوئے تھے بلکہ وہ اس احتجاجی لہر کو محسود تحفظ موومنٹ سے پختون تحفظ موومنٹ میں تبدیل کرنے کیلئے بھی سرگرم تھے۔
”جب نقیب اللہ کو ہلاک کیا گیا تو عوام میں زبردست شور مچا لیکن لوگ اس حوالے سے قدرے گھبرائے ہوئے بھی تھے کیونکہ یہ واقعہ کراچی میں پیش آیا تھا لیکن ہم نے احتجاج کا مطالبہ کیا اور این وائی او نے کراچی میں ایک بہت بڑا مظاہرہ کیا۔“
محسود قبیلے کا جرگہ بلایا گیا۔ اجلاس میں اے این پی کی سینئر شخصیات نے بھی شرکت کی۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ ٹانک سے کراچی تک ملک بھر میں مظاہروں کا ایک سلسلہ منعقد کیا جائے گا۔ اور اسی طرح اس کا آغاز ہوا۔ بنوں میں وائی او کے رضاکاروں نے پہلا احتجاج کیا اور وہاں سے تحریک پشاور اور چارسدہ کی طرف بڑھنے لگی۔ مردان میں اے این پی کے کارکنوں نے مظاہروں کو منظم کرنے میں مدد کی لیکن صوابی میں ہی اس تحریک کا سارا نظریہ بدل گیا۔ محسن داوڑ نے اس دن اپنی تقریر کے ابتدا میں ہی اس تبدیلی کو لفظی شکل دی۔ ”نقیب محسود اب محسود نہیں رہے، اب وہ نقیب پشتون ہیں اور یہ مارچ اب محسود مارچ نہیں بلکہ پشتون لانگ مارچ ہے۔ یہ تحریک اب پشتون تحفظ موومنٹ ہے۔ ہمارا مارچ ڈیرہ اسماعیل خان سے شروع ہوا۔ آج یہ صوابی میں آچکا ہے اور اس کے بعد جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں کیے جاتے ہیں اسلام آباد دھرنے میں منتقل ہوجائے گا۔“
اسلام آباد دھرنا پی ٹی ایم کی پہلی بڑی کامیابی تھی۔ عمران خان سمیت جو اس وقت حزب اختلاف میں تھے دیگر رہنماوں نے بھی اس تحریک کی حمایت کی۔ کئی روز کے احتجاج کے بعد جس میں شعلہ بیان تقریریں شامل تھیں، وزیر اعظم نے مطالبات کو قبول کر لیا۔ محسود قبیلے نے جو اسلام آباد دھرنے میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کی رہنمائی کر رہا تھا، نے اپنا احتجاج ختم کر دیا اور مطالبات تسلیم ہونے کے بعد اپنے وطن واپس آ گیا لیکن تب تک یہ تحریک کسی ایک قبیلے کی شکایات کے بارے میں نہ تھی۔ اس نے پورے ملک میں پختونوں کی آواز کو وسعت بخشی تھی۔ محسود قبیلے کی رخصتی کے بعد جو لوگ اسلام آباد میں رکے رہے ان کے ساتھ اجنبیوں جیسا سلوک ہوا لیکن انہوں نے اسلام آباد دھرنے کے ثمرات کو نو تشکیل شدہ پختون تحفظ موومنٹ کے ذریعے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔
ابتدا میں اے این پی نے تحریک کے مطالبات کی تائید کی لیکن محسن داوڑ کی تحریک سے وابستگی نے قیادت کو بھڑکا دیا۔ اسلام آباد دھرنے کے چند ماہ بعد اے این پی نے محسن داوڑ کواین وائی او سے نکال دیا۔
’انتخاب‘ کے وقت انتخابات
محسن داوڑ نے 2018ءکے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر بطور آزاد امیدوار انتخاب لڑا۔ ان کا انتخابی الیکشن خاص طور پر گرم سیاسی ماحول میں ہوا۔ ان کے الیکشن لڑنے کے فیصلے سے پی ٹی ایم کے داخلی اختلاف کے ابتدائی آثار ظاہر ہو گئے تھے۔ محسن داوڑ کا کہنا ہے: ”الیکشن لڑنے کا میرا ارادہ لوگوں کو ہمیشہ معلوم تھا، میں نے اسے کبھی راز نہیں رکھا۔“
ان کے ساتھیوں نے انتخاب لڑنے کے ان کے ذاتی فیصلے کو اتنا اشتعال انگیز نہیں پایا جتنا ان کی اس دلیل کو کہ پی ٹی ایم کے عروج نے خیبر پختونخوا میں سیاسی خلا کو بے نقاب کر دیا ہے اور 2018ءکے انتخابات میں اسے کامیابی ملی تو تحریک کو زیادہ تقویت ملے گی۔ دوسرے لفظوں میں محسن داوڑ ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کی تجویز دے رہے تھے جو تحریک کے پروگرام پر وہ الیکشن لڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ ”میری دلیل یہ تھی کہ پی ٹی ایم روایتی قوم پرست جماعتوں کی ناکامی کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں کا بھی پختون عوام سے غیر متعلق ہونے کا مظہر ہے۔ بہت سے لوگ خاص طور پر نوجوان جو پی ٹی ایم کے ساتھ مل کر تنظیم سازی کر رہے تھے، انتخابات کے ذریعے خیبرپختونخوا کے شہری علاقوں میں مزید امکانات تلاش کرنا چاہتے تھے۔“
لیکن پی ٹی ایم کے اندر منظور پشتین کے زیراثر دوسرا رجحان محسن داوڑ سے متفق نہ تھا۔ محسن داوڑ کا کہنا ہے: ”ان کا موقف یہ تھا کہ پی ٹی ایم کی توقیر اور مقبولیت اس حقیقت میں ہے کہ یہ سیاسی جماعت نہ بنے، یہ زوال پذیر خاندانی سیاسی جماعتوں کے اثر سے بھی محفوظ رہے جن کے نوجوان ہماری تحریک کی جانب راغب ہوئے، ان کا موقف تھا کہ ملک میں پارلیمانی سیاست فضول ثابت ہوئی ہے لہٰذا اس کا حصہ بننا بے سود ہو گا۔ میں انھیں یہ یاد دلانے کی کوشش کرتا ہوں کہ پارلیمانی سیاست پر یہ عدم اعتماد فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اس تاریخی تاثر کا نتیجہ ہے کہ اس ملک میں سیاستدان عوام کی بھلائی کے قابل نہیں ہیں۔ میرا خدشہ یہ ہے کہ اگر پی ٹی ایم نے کوئی سیاسی حکمت عملی تیار نہ کی تو وہ پختونوں کے لئے جلد ہی اپنی مطابقت کھو دے گی۔ اگر میں ریاست سے نئے معاشرتی معاہدے کا مطالبہ کروں گا تو ریاست مجھ سے میرے مینڈیٹ کے متعلق پوچھے گی۔ اس لمحے مجھے لوگوں کی امنگوں کی ترجمانی کرنا ہو گی اور ان کیلئے کام کرنے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہم ریاست سے محض مطالبات کا سلسلہ ہی جاری نہیں رکھ سکتے۔ ہمارے پاس بھی ایک ایسا سیاسی پروگرام ہونا چاہئے جو ہمارے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہو اور ریاست سے ان کی توقعات کو واضح کرتا ہو۔ کسی نئی سیاسی جماعت کے بارے میں نہ سوچنا درحقیقت انہی روایتی جماعتوں کی خدمت ہے جو غیر سنجیدہ انداز میں پی ٹی ایم کی حمایت کے ساتھ ساتھ پختون نوجوانوں کو راغب کرنے کیلئے جدوجہد بھی کر رہی ہیں۔“
پی ٹی ایم قیادت کے ایک نئی ترقی پسند قوم پرست پارٹی کے قیام سے عدم اتفاق پر محسن داوڑ اور علی وزیر نے وزیرستان سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔
اندرونی اختلافات کے ساتھ محسن داوڑ پہلی بار انتخابی امیدوار کی حیثیت سے اسٹیبلشمنٹ کی انتخابی انجینئرنگ سے بھی لڑے۔ یہ خیبر پختون خوا کے نئے ضم شدہ ضلع کے طور پر شمالی وزیرستان کا پہلا انتخاب تھا۔ موجودہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف 2013ءسے جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کے ساتھ کے پی پر حکمرانی کر رہی تھی۔ مختلف قومی حلقوں میں مقبولیت رکھنے والی پی ٹی آئی 2018ءکے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ پارٹی تھی۔ قومی اسمبلی میں عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کرنے کے لئے عام انتخابات سے قبل بڑے پیمانے پر ساز باز کی گئی۔ محسن داوڑ نے ملک بھر کے متعدد امیدواروں کی طرح، مذاکراتی دور سے گزر کر عام انتخابات میں برتری حاصل کی۔
”مجھے پی ٹی آئی کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کی پیش کش کی گئی، میں نے انکار کر دیا۔ اس کے فوری بعدمجھے عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے لیے قومی اسمبلی کے ووٹ کے بدلے انتخابی مہم کے اخراجات دینے پیش کش کی گئی۔ میں عمران خان کو ووٹ نہیں دینا چاہتا تھا لہذا میں نے اس پیش کش کو بھی مسترد کر دیا اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے مہم جاری رکھی“۔
محسن داوڑ ان 35 امیدواروں میں شامل تھے جنہوں نے حلقہ این اے 48 سے انتخاب لڑا۔ ایک ایسے انتخابات میں جہاں تمام جماعتیں اپنی انتخابی مہم کے لئے فنڈز جمع کر رہی تھیں ، محسن داوڑ کی انتخابی مہم بہت کم وسائل سے چلائی گئی۔ ”لوگ ہم سے سٹیکرز اور پوسٹر طلب کرتے تھے اور ہمارے پاس سے بمشکل ہی کوئی برآمد ہوتا تھا“۔
وہ ہنستے ہوئے وہ وقت یاد کرتے ہیں: ”میں نے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے وقت اپنی گاڑی بیچ ڈالی اور ان پیسوں سے جیپ خریدی تھی تاکہ اس جیپ کے ذریعے اپنی انتخابی سرگرمیاں انجام دے سکوں۔“ محسن داوڑ کی انتخابی مہم میں وسائل کی کمی تھی لیکن انہیں اپنے قبیلے کی بھرپور حمایت حاصل تھی، نوجوان کارکنوں میں ان کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ پی ٹی ایم کے عروج سے پیدا ہونے والی خیر سگالی کی وجہ سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
”ہر صبح انتخابی مہم پر نکلنے سے قبل متعدد لوگ ہمارے کارواں کا حصہ بننے کی خواہش کرتے، ہم انہیں یہی کہتے اگر وہ اپنی گاڑیاں رکھتے ہیں تو وہ ہمارے کارواں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اس کارواں کے لئے اپنی کاریں پیش کیں۔ دوسری جماعتوں کے امیدوار مقبولیت اور توجہ حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے تھے، لوگوں کی بھرپور حمایت نے ہمارا بوجھ اٹھا لیا“۔
محسن داوڑ نے 25 دنوں میں 45 جلسوں سے خطاب کیا اور اپنی انتخابی مہم کا بیشتر وقت چیک پوسٹوں پر گزارا۔ در حقیقت، انہوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز شمالی وزیرستان میں داخلے پر پابندی کے دوران کیا تھا جو پولیٹیکل انتظامیہ کی جانب سے ”اشتعال انگیز تقاریر“ کرنے کی وجہ سے ان پر عائد ہوئی تھی۔ محسن داوڑ نے اس فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ سابقہ فاٹا میں عدالت کے دائرہ اختیار میں توسیع کے بعد محسن داوڑ اس کا فائدہ اٹھانے والے پہلے سائل تھے۔ عدالت نے پولیٹیکل انتظامیہ کے حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے قرار دیا کہ انتخابی امیدوار پر انتخابی مہم کے دوران اپنے آبائی حلقے میں جانے کی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
اس کے باوجود محسن داوڑ نے جس علاقے میں انتخابی مہم چلائی، وہاں مختلف سکیورٹی چیک پوسٹوں کو عبور کرنا مشکل تھا۔ ان کا قافلہ اکثر ان چیک پوسٹوں پر گھنٹوں رکا رہتا۔ ”جن لوگوں نے یہ سب انتظام کیا تھا ان کا خیال تھا کہ ہمیں ہر بار گزرنے کیلئے اعلیٰ کمان سے اجازت لینا پڑے گی، اجازت لینے کے اس عمل میں ہمیں انتظار کرنا پڑتا، ہر بار جب مجھے کسی جگہ روکا گیا تو لوگ ہمارے آس پاس جمع ہو جاتے لہٰذا میں گاڑی سے نکل کر موقع پر ہی انتخابی جلسہ کر دیتا، مجھے انتخابی مہم سے روکنے کے لئے مختلف ذرائع سے متعدد بار دھمکیاں بھی دی گئیں۔ دوسری طرف میں یہ بتا سکتا ہوں کہ ان لوگوں کی طرف سے میرے لئے بہت زیادہ حمایت کی گئی جو برسوں سے میرے سیاسی زندگی کو جانتے تھے۔ انتخابی فرائض انجام دینے والے سرکاری اہلکاروں کو میرے خلاف انتخابی نتائج دینے کے لئے بھاری رقم کی پیش کش کی گئی۔ ان اہلکاروں نے نہ صرف یہ پرکشش پیش کش ٹھکرائی، بلکہ ہر قسم کے دباو کی بھی مزاحمت کی۔ اس صورتحال کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ عمومی فضا میرے حق میں ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر بھی شیئر ہوئیں جن میں پی ٹی آئی کے انتخابی کارکنوں نے محسن داوڑ کے بیج سینے پر لگائے ہوئے تھے۔ داوڑ نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ”کچھ لوگ جو دوسرے امیدواروں کے لیے وال چاکنگ کا معاوضہ بھی وصول کر چکے تھے، وہ بھی بغیر کہے میرے لیے وال چاکنگ کر گئے“۔ تاہم محسن کی انتخابی مہم کو درپیش اصل چیلنج الیکشن کے دن تھا۔ ”ہفتوں تک میں اپنے ساتھیوں سے کہتا رہا کہ اصل جنگ 25 جون کو لڑی جائے گی۔ میں نے انہیں باور کرایا کہ ہمیں پختہ عزم کرنے کی ضرورت ہے ہم کسی کو بھی عوام کا مینڈیٹ چرانے نہیں دیں گے۔“
الیکشن سے ایک دن قبل محسن داوڑ نے ٹویٹ کیا، ”انتخابی مہم کے آغاز سے لے کر اب تک فوجی انتظامیہ اور سکیورٹی ایجنسیوں نے ہمارے حامیوں کو دہشت زدہ کرنے کی پوری کوشش کی ہے لیکن ہم ڈٹے رہے۔ کل شمالی وزیرستان کے عوام سٹیٹس کو کی اس حالت کو بدل دیں گے“۔
انتخابات کی صبح ایک افراتفری کا عالم تھا۔ ”بیلٹ پیپرز ، ڈاک ٹکٹ اور پولنگ عملہ ان علاقوں میں دیر سے پہنچا جو میرے گڑھ تھے۔ کچھ دیہات میں وہ دوپہر تک نہیں پہنچے تھے۔ ہم نے پی ٹی آئی کے ایک کارکن کو بیلٹ بکس کے ساتھ پکڑا اور اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ ان سب کے باوجود جب انہوں نے نتائج مرتب کرنا شروع کئے تو مجھے برتری حاصل تھی۔ جیسے ہی یہ بات سامنے آئی ، میران شاہ سے ہزاروں افراد مبارکباد کے لئے پہنچنے لگے۔ اسی دوران ریٹرننگ افسر کو کچھ دن کے لئے نتیجہ موخر کرنے کے لئے فون آنے لگے۔ یہ خاص طور پر ایک مشکل لمحہ تھا لیکن ہم نے اپنا حوصلہ قائم رکھا۔ ہم اصرار کرتے رہے کہ فارم 49 پر دستخط کریں اور اسے ہمارے حوالے کر دیں۔ جب ریٹرننگ افسر نے کہا کہ ان کے نتیجے میں تاخیر کرنے کے لئے دباو ہے تو میں نے اسے بتایا کہ ایک بہت بڑا ہجوم باہر جمع ہو گیا ہے اور میری فتح کی توقع کر رہا ہے۔ میں نے ریٹرننگ افسر سے کہا کہ اگر نتیجہ میں تاخیر ہوئی تو میں ہجوم کی ناراضی کا ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ ریٹرننگ افسر کو اس لمحے بہت زیادہ عوامی دباو کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے چند منٹ کے بعد فارم پر دستخط کیے اور ہم نے فتح کا اعلان کیا“۔
خڑکمر کا واقعہ اور قید
محسن داوڑ طالب علمی کے سرگرم دنوں سے ہی پاکستانی جیلوں سے واقف تھے۔ 2007ء میں انھیں طلبہ کے مظاہروں کی قیادت کرنے پر گرفتار کیا گیا اور کئی دنوں تک حراست میں رکھا گیا۔ جیل کے یہ ابتدائی دورے 2007ءمیں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف وکلا تحریک کے دوران ہوئے تھے۔ ”اس تحریک کے دوران وکلا اکثر ہڑتالوں پر جاتے تھے اور عدالتی سماعتوں میں پیش نہیںہوتے تھے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اچانک عدالتی سماعتوں کو منسوخ کرنا مقدمے کی سماعت کے منتظر لوگوں کے لئے کتنا تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔ وہ اپنی عدالتی تاریخ کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں اور اس کا ملتوی ہونا ان کے لیے کتنا مایوس کن ہوتا ہے۔ جب بھی ہماری سماعتوں میں تاخیر ہوتی تھی، ہم بہت ناراض ہوتے تھے اور قانون کے مقررہ عمل میں رخنہ ڈالنے پر وکلا کو بددعا دیتے تھے۔ بے شک اس وقت میں جوان تھا اور ملک کے بڑے سیاسی تناظر سے ناواقف۔ بعد میں عمر اور تجربے کے ساتھ ان واقعات کی تاریخی اہمیت کا اندازہ ہوا۔“
لیکن جیل کے یہ تجربات خڑ کمر واقعہ کے بعد چار مہینے کی قید کے مقابلے میں ہلکے تھے۔ پچھلے سال 25 مئی کو، محسن داوڑ پشاور میں تھے جب یہ خبر ملی کہ کچھ دیہاتوں کے باسی جنوبی وزیرستان کے داتا خیل کے کچھ علاقوں میں تلاشی کی کارروائیوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ بتایا جا رہا تھا کہ سرچ آپریشن میں ایک خاتون زخمی ہوگئی تھی اور کچھ لوگوں کو بھی اٹھا لیا گیا تھا۔
”یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور ہم عام طور پر اس میں سیاسی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں کیونکہ لوگ روزے سے ہوتے ہیں اور اپنی پوری توانائیاں دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ میں نے سول انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی حامی بھری تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ کیا کیا جا سکتا ہے لیکن لوگ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ ہم ذاتی حیثیت میں خرکمر جائیںچنانچہ اگلے دن سحری کے بعد علی وزیر اور میں خڑکمر کی طرف روانہ ہوئے۔ مجھے توقع تھی کہ میں شام تک واپس آ جاوں گا کیونکہ مجھے اس دن کے آخر میں قبائلی علاقوں میں انتخابات کے بارے میں اسمبلی میں پیش کی جانے والی ایک آئینی ترمیم پر پارلیمنٹیرین کے اجلاس میں شریک ہونا تھا۔“
محسن داوڑ اور علی وزیر صبح دس بجے کے قریب خڑکمر پہنچے اور نوجوان مظاہرین کے ایک گروپ نے ان کا استقبال کیا۔ وہ سب مل کر پہلے ایک رکاوٹ کی طرف بڑھے، جہاں سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی۔ ”ایک بہت ہی پرجوش فضا بن گئی تھی، لوگوں نے بحث شروع کر دی اور ہمارے آس پاس کے نوجوان کا رکن مشتعل ہو گئے۔ اس کے بعد دھینگا مشتی شروع ہو گئی۔ کسی نہ کسی طرح اس دھینگا مشتی کے بیچوں بیچ ہم سب آگے بڑھے اور رکاوٹ کو عبور کیا۔ کچھ میٹر کے فاصلے پر ایک اور رکاوٹ تھی اور صورتحال وہی تھی۔ لوگ زور زور سے بحث کرنے لگے اور غصے کا اظہار کرنے لگے لیکن ہم دوسری رکاوٹ کو بھی عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ علی وزیر مجھ سے کچھ قدم آگے تھے۔“
تب داوڑ نے فائرنگ کی آواز سنی۔ ”پہلے میں نے سوچا کہ ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے یہ ہوائی فائرنگ ہو گی لیکن فائرنگ تو بند نہیں ہوئی اور لوگ میرے آس پاس گرنے لگے۔ اس ہنگامے میں اچانک میں زمین پر جا گرا اور میرے ٹخنوں سے خون بہہ رہا تھا۔ نوجوان کارکنوں کے ایک گروپ نے مجھے اٹھایا اور مجھے رکاوٹ سے دور اور ایک پل کے نیچے لے جانے لگے جہاں ایک گاوں تھا۔ جب ہم آگے بڑھ رہے تھے، فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا اور لوگ گرتے رہے۔ مجھے حفاظت سے لے جانے والوں میں دو نوجوان زخمی ہوئے“۔
وہ بتاتے ہیں: ”فائرنگ اس وقت ختم ہوئی جب علاقے میں ہر شخص منتشر ہو گیا یا گر گیا۔ میں نے اس دن کچھ بہت ہی افسوسناک مناظر دیکھے۔ کچھ لوگوں کی موت صرف اس وجہ سے ہوئی کہ انہیں وقت پر ہنگامی امداد نہ مل سکی۔ نوجوان مجھے ایک دوست کے گھر لے گئے جہاں میں کچھ صحافیوں اور اپنے اہل خانہ کو فون کر سکا۔ جب میں ان سے بات کر رہا تھا تو لینڈ لائن کٹ گئی۔“
محسن داوڑ اپنے آبائی شہر میرانشاہ سے 35 کلو میٹر دور تھے اور راستے میں متعدد چیک پوسٹیں تھیں۔ محسن داوڑ جانتے تھے کہ انہیں فوری طور پر میران شاہ پہنچنا چاہیے۔ اس لئے نہیں کہ وہاں ان کا گھر تھا، بلکہ اس لئے کہ یہ قریب ترین شہری علاقہ تھا جہاں وہ اپنے ساتھیوں تک پہنچ سکتے تھے۔ محسن داوڑ سکیورٹی اہلکاروں سے بغیر کسی تصادم کے میرانشاہ منتقل ہونا چاہتے تھے لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس سفر میں ان سے مکمل طور پر بچنا ناممکن ہوگا۔ ”یہ علاقہ کرفیو میں تھا لہٰذا کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ میں پوشیدہ رہوں اور چھپ چھپ کر اپنا راستہ بناوں۔“
داوڑ چھپنا نہیں چاہتے تھے۔ ”میں نے ان سے کہا کہ اگر میں نے اب بزدلی دکھائی تو اس واقعے کے بعد خوف لوگوں کے ذہنوں میں مستقل طور پر سرایت کر جائے گا۔“ یہ وہ لمحہ تھا جب محسن داوڑ کو لوگوں کے جھرمٹ نے طاقت دی۔
”میں نے میران شاہ کی جانب سینکڑوں افراد کے ہمراہ 15 کلو میٹر کی مسافت طے کی، ایک چھاونی اور کئی پوسٹیں عبور کیں جو مکمل طور پر خالی تھیں۔ یہ اس لئے ممکن تھا کیونکہ اس سے قبل میں نے اپنے ساتھ موجود نوجوانوں سے ریلی کا اعلان کرنے کیلئے کہا تھا۔ وہ گھر گھر جا کر لوگوں کو یہ بتا رہے تھے کہ کیا ہوا ہے۔ مقامی مسجد سے ایک اعلان بھی کیا گیا جس میں عوام کو ریلی کی صورت میں جانے کے ہمارے ارادے سے آگاہ کیا گیا۔ شام ساڑھے چار بجے کے قریب میں اس گھر سے باہر نکلا جہاں مجھے پناہ دی گئی تھی، اس وقت لوگ اپنے گھروں سے نکل آئے اور ہمارے ساتھ شامل ہونے لگے۔ یہ واقعی بہت حیرت انگیز تھا۔ جب ہم دیہات سے گزر رہے تھے تو بہت سے لوگ ہمارے ساتھ چل پڑے۔ تاہم وہ غروب آفتاب کے آس پاس منتشر ہونا شروع ہو گئے۔ یہ افطاری کا وقت تھا اور وہ اپنے افطار کے لئے گھر جانا چاہتے تھے۔ آگے چلنے والا اسکاوٹ ہماری جانب گھوما اور ہمیں بتایا کہ آگے چیک پوسٹ سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ پوری طرح سیل کر دی گئی ہے۔ ہمارے پیچھے ریلی سکٹر گئی تھی، ہمیں سکیورٹی اہلکاروں نے آہستہ آہستہ گھیر لیا۔“
اس کے بعد محسن داوڑ نے قریب ہی ایک اور گاوں ہمزونی میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ایک بار پھر ان کی آمد پر ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ ”کچھ لوگوں نے مجھے پانی دیا، کچھ نے مجھے کھانا دیا اور یوں میں اپنا روزہ افطار کر سکا۔ انہوں نے مجھے گھر میں رکھا، صاف کپڑے دیئے اور مجھے آرام کرنے کا موقع ملا۔“
اپنے ساتھیوں اور پناہ دینے والے گاوں کے باسیوں سے صلاح مشورہ کرنے کے بعد داوڑ نے رات کو اپنی نقل و حرکت محدود کرنے کا فیصلہ کیا۔ ”میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ میں نے ابھی لوگوں کو دن کی روشنی میں مرتے دیکھا ہے۔ رات کے اندھیرے میں کوئی بھی گولیوں کو گرتے ہوئے نہیں دیکھ سکے گا۔“
اس کے باوجود محسن داوڑ ہر دو گھنٹوں کے بعد مختلف دیہات میں مقامات کی تبدیلی کیلئے منتقل ہوتے رہے۔ وہ اس رات پانچ بار منتقل ہوئے، اندھیرے میں چھپے راستوں سے گزرتے رہے۔ سحری کے وقت جب لوگ اگلے دن کے روزے کی تیاری کر رہے تھے، ان کے گاوں سے لوگ آن پہنچے۔ ”جب دن ڈھل گیا تو میں نے ان لوگوں کے ہمراہ گاوں چھوڑا۔ اس کے بعد ہم ایک ریلی کی شکل میں میران شاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک بار پھر میں نے گھر جانے کے لئے لگ بھگ 15 کلو میٹر کی مسافت طے کی۔ میں اپنے پیروں کے تلووں میں ہونے والا درد بیان نہیں کر سکتا، آخر کار جب میں گھر پہنچا تو اپنے جوتے اتار دیئے۔“ میرانشاہ پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد ایک جرگہ ایک پیش کش لے کر آیا۔
محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ ”یہ پی ٹی ایم کے اندر ایک اہم موڑ تھا۔“ جرگے نے عید تک جنگ بندی کی پیش کش کی، اگر ہم نے مزید احتجاج نہ کیا تو ہمیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ میں نے ذاتی طور پر لگاکہ یہ جیت کی صورتحال ہے۔ اس سے ہمیں نئی حکمت عملی بنانے اور دوبارہ گروپ بندی کا موقع مل جاتا۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ دوسری جانب دباو پڑا ہے اور وہ اس میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتے۔ تاہم پی ٹی ایم کے اندر غالب رائے یہ تھی کہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہونا چاہئے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ایسے شخص کے طور پر جانا جاﺅں جس نے اپنی ذات کیلئے معاہدہ کیا، لہٰذا اسی دن ایک جنازے میں شرکت کے بعد میں نے اعلان کیا کہ ہم پاکستان مارکیٹ میں دھرنا دیں گے۔“
محسن داوڑ نے نجی طور پر منظور پشتین کو میرانشاہ دھرنے میں شامل ہونے کیلئے کہا۔ ”میں نے انہیں بتایا کہ مجھے کسی بھی معنی خیز احتجاج کو برقرار رکھنے کے لئے 200 افراد کی ضرورت ہے۔ منظور نے پشاور سے آنے کیلئے حامی بھری لیکن کہا کہ انہیں کچھ وقت درکار ہے۔ میں نے تین دن تک احتجاج کیا۔ اس کے بعد منظور نے مجھ تک یہ پیغام پہنچایا کہ بہت سے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور وہ میرانشاہ تک نہیں پہنچ سکتے، تاہم وہ پشاور میں احتجاج کا اہتمام کریں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ اب مزید مظاہروں کا کوئی امکان نہیں۔ چنانچہ ایک بار پھر جرگے نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں خود کو گرفتاری کے لئے پیش کر دوں۔ میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ اگر میں مزاحمت کرتا اور اس پر میرے گاﺅں میں سکیورٹی آپریشن شروع کیا جاتا تو میرے لوگ مجھے اس سے ہونے والے نقصان پر کبھی معاف نہ کرتے۔ میں اپنے ضمیر پر خون کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہتا تھا۔“
محسن داوڑ اپنی گرفتاری دینے پر راضی ہوگئے لیکن ایک شرط کے ساتھ، وہ خود کو پولیس کے حوالے کریں گے ، فوج کے نہیں۔ اس کے بعد محسن داوڑ بنوں کی عدالتوں میں گئے جہاں انہیں محکمہ انسداد دہشت گردی نے گرفتار کیا۔ آٹھ دن پولیس کی تحویل میں گزارنے کے بعد محسن داوڑ کو پشاور کی ایک جیل میں منتقل کردیا گیا۔ ”علی وزیر پہلے ہی وہاں موجود تھے گویا ان غمگین دنوں کے بعد دوبارہ ہم اکٹھے ہوئے۔ ہمیں جس سیل میں رکھا گیا تھا وہ تاریخی اہمیت کا حامل تھا، باچا خان سمیت ہر طرح کے سیاسی قیدیوں کو وہاں رکھا گیا تھا۔“
مزید 14 دن حراست میں رہنے کے بعد محسن داوڑ اور علی وزیر کو الزامات کے ساتھ عدالت میں پیش کیا گیا۔ ”ہمیں پتہ چلا کہ ہم پر خڑکمر میں پیش آنے والے واقعے پر نہیں بلکہ ایک مختلف الزام عائد کیا گیا، ایک آئی ای ڈی حملہ ہوا تھا جس میں فوجی افسر شہید ہوئے تھے، اس واقعے کی ایف آئی آر ہمارے خلاف درج کی گئی حالانکہ جب واقعہ پیش آیا اس وقت ہم ریاستی حکام کی تحویل میں تھے۔“
اس کے بعد دونوں پارلیمنٹیرینز کو پشاور سے ہری پور جیل منتقل کیا گیا۔ ”پشاور جیل کی انتظامیہ سے جب ہم نے درخواست کی تو ہمیں کتابیں پڑھنے کی اجازت دیدی گئی۔ ہم تو باہر نہیں جا سکتے تھے لیکن عملہ ہمارے پاس آ جاتا ، لہٰذا کچھ یوں انسانی رابطہ ممکن تھا۔ جیل انتظامیہ نے ملاقاتیوں کو بھی آنے کی اجازت دی لیکن ہری پور جیل میں صورتحال بالکل مختلف تھی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ہمیں جسمانی تلاشی کا سامنا کرنا پڑا۔ پشاور سے لائے گئے ہمارے سامان میں کتابیں بھی شامل تھیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ کتابیں ساتھ نہیں جا سکتیں، میرے پاس ”جنگ اور امن“ اور پشتو ادب پر کچھ کتابیں تھیں وہ سب چھین لی گئیں۔ صرف مودودی کی واحد کتاب ”خطبات“ کو ساتھ لے جانے کی اجازت ملی۔“
ان کا سیل ایک جیل کے ایسے بلاک میں تھا جہاں عسکریت پسندوں کو رکھا گیا تھا۔ جیل انتظامیہ نے محسن داوڑ اور علی وزیر کے قیام کے دوران ان قیدیوں کی نقل و حرکت کو محدود کردیا۔ ”یہاں تک کہ ان قیدیوں نے ہماری آمد کے بعد اپنے اوپر عائد پابندیوں کے خلاف بھوک ہڑتال کی۔ تاہم انھیں معلومات تک رسائی حاصل تھی کیونکہ انہیں کتابوں، ریڈیو اور اخبار جیسی سہولتوں کی اجازت تھی۔“
محسن داوڑ اور علی وزیر کو ایسی سہولیات کی اجازت نہ تھی۔ ”جب ہم نے اخبار خریدنے کے لئے پیسے دیئے تو وہ واپس آگئے اور ہمیں بتایا گیا کہ آپ کو ان چیزوں تک رسائی کی اجازت نہیں ہے۔ چار ماہ تک قید میں رہے، ہمارے پاس وقت اور اپنی توانائیوں کو صرف کرنے کیلئے کچھ نہ تھا۔ کچھ دن ہم نے اپنے سیل کو صاف کیا، بعض اوقات پورے بلاک کو بھی صاف کر دیتے۔ ہم نے محض وقت گزارنے کیلئے برتن اور کپڑے دھوئے۔ میں نے کام کرنا شروع کر دیا اور دن میں 9 گھنٹے سونے لگا، باقی دن میں علی وزیر کے ساتھ بات چیت میں گزارتا لیکن کسی موقع پر ہمارے پاس بات کرنے کے لئے بھی موضوع نہیں رہتا تھا، تو میں نے لڈو بورڈ کی درخواست کی۔ اس کیلئے بھی ناں کر دی گئی۔ انہوں نے ہمیں خشک میوہ جات رکھنے کی بھی اجازت نہیں دی تھی۔ ہمارے پاس کھانے کی بہت ہی کم اشیا تھیں جو ہمارے ملاقاتی ہمارے لیے لا سکتے تھے“۔
ماتحت عدالت کی سماعتوں کے دوران محسن داوڑ اورعلی وزیر نے جج سے کہا کہ وہ انہیں اخباروں اور کتابوں تک رسائی فراہم کریں۔ ”ہم نے درخواستیں جمع کرائیں لیکن سماعت کے دوران جج نے اسے دائرہ اختیار کا مسئلہ بنا دیا اور یوں یہ معاملہ حل نہیں ہوا۔“
دو ماہ کے بعد علی وزیر کی طبیعت بگڑنے پر انہیں جیل ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ محسن داوڑ نے اپنی قید کے باقی دو ماہ قریب قید تنہائی میں گزارے۔ ”بدھ کے روز میرے ملاقاتیوں کو مجھ سے ملنے کی اجازت تھی لیکن یہ اجازت صرف کنبہ کے افراد کیلئے تھی۔ علی وزیر کو ہسپتال لے جانے کے بعد انہوں نے مجھے لڈو بورڈ بھی دیدیا۔ وقت گزارنے کیلئے مجھے اکیلے ہی لڈو کھیلنا پڑی ۔ مجھے ایک کتاب یاد آئی جو میں نے پڑھی تھی کہ ٹراٹسکی اپنے سیل میں 1,111 قدم چلتا تھا لہٰذا میں نے بھی اپنے سیل میں یہی کرنا شروع کیا، ایک پیر دوسرے کے سامنے رکھتا اور 1,111 تک گنتی کرتا۔ مجھے اپنے سیل کے دروازے کی سلاخوں کی تعداد بھی یاد ہے۔ جو 35 تھی…یہ وہ اذیت تھی جو ہم نے جیل میں رہتے ہوئے برداشت کی، انہوں نے لوگوں سے ہمارے تعلقات منقطع کردیئے اور ہمیں تنہا چھوڑ دیا۔ وہ ہمیں تھکا دینا چاہتے تھے۔“
چار ماہ کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے داوڑ اور وزیر کی ضمانت منظور کر لی اور وہ دونوں بالآخر رہا ہوگئے۔
آگے بڑھنے کا راستہ
جون میں ایک سال سے زیادہ عرصے تک پی ٹی ایم کے خلاف معاندانہ رویہ برقرار رکھنے کے بعد حکومت نے اپنے وزیر دفاع کے ذریعے پی ٹی ایم رہنماوں کو مذاکرات کی میز پر مدعو کیا ۔ داخلی طور پر مفلوج رہنے کے باوجود پی ٹی ایم قیادت نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش کا خیرمقدم کیا۔ خڑکمر ہلاکتوں کے ایک سال بعد 26 جون کو ایک پریس کانفرنس میں متحدہ محاذ کے ذریعے تحریک کے رہنماوں نے حکومت سے اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
محسن داوڑ اس تحریک کی نوجوان قیادت کیلئے نئے امکانات طور پر ایک نئی ترقی پسند قوم پرست جماعت کی تشکیل کیلئے وکالت کررہے ہیں۔ منظور پشتین اس سے متفق نہیں ہیں اور علی وزیر اس بارے میں زیادہ واضح نہیں ہیں۔ محسن داوڑ پر امید ہیں کہ مستقل کوششوں کے ذریعے اس تعطل کو توڑا جا سکتا ہے۔
میں نے محسن داوڑ سے پوچھا کہ قائد بننے کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے بڑے غور و فکر سے جواب دیا: ”میں نے بطور سیاسی کارکن یہ سیکھا ہے کہ قیادت صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ خاص طور پر بحران کے دوران۔ میں نے اپنی زندگی میں یہی کام کرنے کی کوشش کی ہے“۔