ناصر اقبال
عام بول چال اورتحریر میں دانائی، خرد، شعور، دانش، فہم و فراست، قرینہ، سوچ و سمجھ، علم، فکر، سائنس، حکمت، فلسفہ، ذہانت، منطق، ادراک، دوراندیشی جیسے الفاظ عقل یا ہم معنی کے طورپر استعمال کئے جاتے ہیں حالانکہ یہ تمام اپنی ترکیب و تشریح میں ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں۔ ان کے حاصل مجموعہ کو البتہ عقل کا نام دیاجا سکتا ہے۔
یونانی فلسفیوں نے عقل کو انسان دوستی اور محبت جیسے لطیف جذبات سے مشروط کیاجبکہ ہمارے ہاں استاد چانکیہ کوتلیہ، وارث شاہ، علامہ اقبال جیسے مفکرین نے عقل کو چالاکی، مکاری او رعیاری سے تشبیہ کیا۔ عقل انسان کے فکری ارتقا کا نتیجہ ہے یا انسانوں پر عقل کسی اور دنیا کی طرف سے توارد ہوئی اس طرح کے سوالات بھی دنیا میں گردش پذیر رہتے ہیں۔
ترقی پسندی کے ادنیٰ طالب علم کے طور پر ہم عقل کی یونانی روایت کو ہی بہتر سمجھتے ہیں اور یونانی فلسفے کے ارتقاکو ہی عقل کا ارتقا تصور کرتے ہیں۔ تحریری شکل میں فلسفہ کی ابتدا تقریباً 6 سو سال قبل مسیح میں یونان سے ہوئی۔ یونانی فلسفے کے اس 500 سالہ دور میں تقریباً 60 جید فلاسفہ کی تعلیمات اور زندگیوں کے احوال ملتے ہیں۔ آج کی دنیا میںجوبھی علوم و فنون پڑھائے یاسکھائے جا رہے ہیں، کی بنیادیں اسی دور میں رکھی گئیں اور ان کی پرکھ کے معیارات کو بھی مقرر کیا۔
بعض مشاہیر موجودہ سائنس کو یونانی فلسفہ کاہی فٹ نوٹ یا حاشیہ گردانتے ہیں۔ ویسے تو یونانی فلسفہ بذات خود ایک بڑی تاریخ ہے جس کو بہت سے زاویوں سے دیکھا اور بیان کیا جا سکتا ہے۔ ذاتی طور پر راقم یونانی فلاسفہ سے جو سیکھ پایا اس میں اہم ہے کہ فلسفی کوئی امیر لوگ نہیں تھے اور سادہ زندگی گزارتے ۔ دولت و اقتدار کی حرص اور غیر اخلاقی معاملات سے بہت دور تھے۔ ان میں کسی کی ملازمت یا کاروبار کرنے کی قطعاً کوئی روایت نہیں ملتی۔ مجموعی طورالبتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلاسفہ آزادی فکر، عام معاشرتی زندگی میں اعتدال پسندی اور ریاستی معاملات میں عقل کی حکمرانی اعلیٰ کے متمنی رہے۔
اہل فلسفہ کی اس لمبی فہرست میں صرف افلاطون اور ارسطو سرکار و دربار سے منسلک نظر آتے ہیں لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انہوں نے دربار کی غلامی کی ہو یاکسی دنیاوی معاملے میں اپنی فکر پر کبھی کوئی سمجھوتا کیا ہو۔ یونانی فلسفہ عام آدمی کو کتنا متاثر کرپایا یہ ایک اور بحث طلب موضوع ہے البتہ اس وقت کی حکمران اشرافیہ ضرور سمجھ گئی کہ بادشاہت کی مضبوطی یا دوام کے لیے دربار یا مجلس چہل گانی میں صاحب عقل افراد کی موجودگی ضروری ہے۔
بادشاہ تلوار اور فوج کے زور پر فتوحات توکرلیتے مگرعوام پر طویل حکمرانی کے لیے داﺅ پیچ سیکھنے کے لیے اہلِ علم سے مشاورت درکار ہوتی لہٰذا بادشاہ انہیں دربار میں باعزت مقام دیتے، ان کے علاوہ دربار میں دو چار میراثی ٹائپ کے لوگ، بھانڈ، گویے اور مصور وغیرہ بھی درباری کے طورپر تعینات کر لئے جاتے۔ ہمارے اکثر دوستوں کا خیال ہے کہ بادشاہ محض اپنی تفریح طبع کے لیے ایسا انتظام کرتے تھے مگر ایسا بالکل نہیں تھا۔ مقصد یہ ہوتا تھا کہ یہ لوگ عوام میں بادشاہ کی علم، ادب دوستی کے تاثرکو مضبوط کریں اور پرچار کریں کہ بادشاہ نہایت دانا، عادل اور نیک پرہیزگار ہے۔ اس کے علاوہ انکی دربار میں یہ ذمہ داری بھی ہوتی کہ دربار میں بادشاہ سمیت کوئی سی بھی ہلکی بات نہ کرے بصورت دیگر جگت پانی نقد۔ اب ہم رومن فلسفے کے دور تقریباً (100BC-400AD) کا عمومی جائزہ لیتے ہیں۔
رومن فلسفی اور چرچ
اس پانچ سوسالہ دور میں صرف علم انجینئرنگ کو فروغ حاصل ہوا اور فلسفہ کی ترکیب میں اخلاقیات کا ہر دو منی ’Ethics‘ اور ’Morality‘ کا اضافہ کیا گیا۔ رومن فلاسفی اور رومن ایمپائر کاارتقا بھی تقریباً ساتھ ساتھ ہی ہے۔ اپنے یونانی پیش روﺅں کے برعکس رومن فلسفیوں کی اکثریت دربار سے باقاعدہ منسلک رہی۔ سلطنت روم پر 101 قیصروں نے حکمرانی کی جن میں چند باقاعدہ فلسفی بھی تھے یعنی پہلے دربار سے منسلک ہوئے اور بعدازاں موقع پا کر قیصر بھی بن بیٹھے۔ ان میں مارکوس اور ایلیس انٹونینس (161-180AD) خاصا نمایاں نام ہے۔ اس دور کے فلسفیوں کا خیال تھا کہ بادشاہوں کو عقل پڑھانے اور قانون و آئین سازی کے ذریعے سے معاشرہ میں عقل کے چلن کو عام کیا جا سکتا ہے۔
عیسائی مذہب کے ابھار کے ساتھ ہی قیصرروم (306-337AD) کونسٹنٹائن (Constantine) نے عیسائی مذہب قبول کر لیا اور ایمپائر پر عیسائی مذہب لاگو کر دیا۔ اب فلسفیوں کے لیے مسئلہ بن گیا کہ عقل کے نفاذ یا حاکمیت کوبذریعہ بادشاہ یقینی بنایا جائے یا چرچ کے تقدس کو زینہ بنایا جائے۔ اس کے بعد فلسفیوں نے چرچ میں بھی حاضری دینی شروع کر دی۔ اس قبیل کے فلسفیوں میں سینٹ آگسٹائن (354-450AD) کانام سر فہرست ہے جس نے عیسائیت کی بنیادی مبادیات کو ترتیب دیا۔
رومن فلسفیوں کی عقلی مساوات میں بادشاہ کی طاقت، عیسائیت کی اخلاقیات اور دنیاوی معاملات کے لیے یونانی فلسفہ شامل تھیں۔ یہاں ہم رومن فلسفیوں کی نیت پر شک نہیں کرتے وہ شائدصدق دل سے چاہتے ہوں کہ اس نئی مساوات سے عام لوگوں کی زندگیوں کوبدلا جا سکتا ہے۔
رومن فلسفیوں کی 500 سالہ شبانہ محنت کانتیجہ رومن ایمپائر کی طاقت اور حجم میں بے پناہ اضافہ ہوا اور اسے دیکھا دیکھی یورپ کی دیگر ریاستوں نے بھی طاقت پکڑی، چونکہ چرچ کے فروغ میں بھی فلسفیوں کا خاصا عمل دخل تھا۔ نتیجتاً چرچ بھی اتناطاقت ور ہوگیا کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ ریاست زیادہ زیادہ اثر و رسوخ رکھتی ہو یا چرچ۔ ریاست اور چرچ کے عروج اور ادغام کا منطقی انجام عقل و خرد کے انہدام کی صورت میں ہوا، اور اگلے ایک ہزار سال یعنی (500-1500 AD) کے دوران کوئی قابل ذکر یا قد آور فلسفی یا سائنسدان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ اس عرصہ کو یورپ کی ڈارک ایج یاقرون وسطیٰ بھی کیا جاتا ہے۔
احیا کی تحریک
جدید فلسفی کا دورانیہ (AD 1500 )سے اب تک کا مانا جاتا ہے۔ جدید فلاسفی پرایک نظر ڈالنے سے پہلے یورپ کے احیا کی تحریک کو دیکھنا ضروری ہے۔ احیا کی تحریک بذات خود ایک بڑی تاریخ ہے جس میں (1200-1600) تقریباً بے شمار واقعات، بغاوتیں، تحریکیں اور تحریریں ملتی ہیں۔
ہماری نظر میں زیادہ اہمیت کے حامل واقعات میں 1215ءمیںمیگناکارٹا نامی معاہدہ کا لکھا جانا جس میں سیاسی آزادیوں، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی حتی ٰ کہ بادشاہ کو بھی قانون کے تابع بنانے کا تصور مضبوط ہوا۔ گو کہ چرچ معاہدہ میں فریق نہ تھا مگر شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کے تصورات کے پیش نظر چرچ کے الہیاتی و ابدی اختیارات پربھی سوالات اٹھنے لگے۔
میگنا کارٹا عملی طورپر ایک ناکام معاہدہ کے طورپر جاناجاتا ہے مگراس کے بعدسے آج تک دنیا میں بننے والے آئین و قوانین کے پیش لفظ میں اس کی جھلکیاں ضرور نظر آتی ہیں۔ برطانوی بادشاہ اور چرچ کے درمیان سیاسی کشمکش کے نتیجے میں مارٹن لوتھر کی اصلاح چرچ کی تحریک (1517-1521) برپا ہوئی اور چرچ کو ویٹیکن شہر اٹلی تک محدود ہونا پڑایوں یورپ میں صنعتی انقلاب کی راہ ہموار ہوئی۔
یورپ کے احیا کے اولین واقعات میں 1683ءمیں جنگ ویانا میں شکست کے بعد سلطنت عثمانیہ کاعملی طور پر بے اثریامرد بیمار کی صورت اختیار کر جانا۔ 1789ءمیں انقلاب فرانس اور 1871ءمیں پیرس کمیون کے واقعات شامل ہےں۔ دنیا کی سیاسی تاریخ میں جنگ ویانا ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جو کہ ٹیکنالوجی اور جسمانی یا تلوار کی طاقتوں کے مابین لڑی گئی۔
آسٹرین فوج نے تاریخ میں پہلی دفعہ جنگ میں رائفلوں کا استعمال کیا۔ اس طرح ہزاروں سالوں کے قائم تلوار بازی کی حاکمیت اعلیٰ کے دورکا خاتمہ ہوا اور دنیا ٹیکنالوجی کی حاکمیت اعلیٰ کے دور میں داخل ہو گئی۔ جنگ ویانا سے جنگ عظیم دوم تک کے دورانیہ کوٹیکنالوجی کا دور تصور کیا جاتا ہے جس کاسرخیل برطانیہ کو مانا جاتا ہے۔ برطانیہ کی دیکھا دیکھی دنیا میں ٹیکنالوجی بنانے کی دوڑ شروع ہوئی کیونکہ ٹیکنالوجی کی حاکمیت کا تصور اس قدر غالب آ چکا تھا اور یہی خیال کیاجاتا کہ جتنی ایڈوانس ٹیکنالوجی اسی قدر زیادہ حاکمیت۔ جرمنی، فرانس، روس، جاپان بعد کے کھلاڑی ہےں۔ جنگ عظیم دوم کے ساتھ ہی دنیا سے یہ دور بھی ختم ہوا۔ فلسفے اور سا ئنس کے ارتقا کے حوالے سے یہ دور اچھا دور ثابت ہوا۔
دور جدید کے فلسفیوں نے اپنے پیش روں یعنی رومن فلسفیوں کی غلطیوں کو نہیں دہرایا۔ اس کے دور کے تقریباً تمام فلسفی چرچ اور دربار جیسے اداروں سے دور ہی رہے اور فکر کی آزادانہ روش کو اپنایا، یہاں تک کہ نطشے، پروفیسر برکلے، ہیگل جیسے آئیڈلسٹ بھی چرچ سے کوسوں دور رہے۔ شاید اسی وجہ سے انہوں نے یونانی اور رومن فلسفیوں کی نسبت عوام کے زیادہ حصے کو متاثر کیا۔
مارڈن فلاسفی کی اثر پذیری کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف آئیڈیلسٹ سکول کے پیروکاروں نے نازی پارٹی کی شکل میں منظم ہو کر جرمنی میں اقتدار حاصل کیا جبکہ دوسری طرف مادیت پسند سکول کے پیروکاروں نے بالشویک پارٹی کے ذریعے اس میںانقلاب برپا کر کے روس میں اقتدار حاصل کیا۔ نازی پارٹی اور بالشویک پارٹی گو کہ اپنے خیالات و طریقہ کار میں ایک دوسرے کی ضد تھے لیکن یہ بھی طے ہے کہ ان کے ذریعے عام لوگ ہی اقتدار میںآئے اوران میں روایتی اشرافیہ کاعمل دخل نہیں ملتا۔ یونانی اور رومن فلاسفی بادشاہت، جاگیرداری، غلام داری، الہیات اور تلوار بازی کے مضبوط ترین ادوار کے پس منظر میں لکھی گئی جبکہ جدید فلاسفی کے اوقات یہ تمام ادارے نہ صرف انحطاط کا شکار تھے بلکہ یورپ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر کے انڈسٹریل انقلاب میں سے گزر رہا تھا۔
تاریخ نے پھر سے کروٹ لی۔ ٹیکنالوجی کے چمپیئن آپس میں لڑ پڑے اور جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا سے ٹیکنالوجی کی حاکمیت اعلیٰ کا دور بھی ختم ہو گیا۔ 1949ءبریٹن وڈ کانفرنس میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ٹریڈ آرگنائزیشن کی بنیاد یں رکھ کر امریکہ نے ریاستی سطح پر دوسرے ممالک کو سودی قرضوں کے اجرا کو ورلڈ آرڈر کے طورپر دنیا میں لاگو کیا۔
آج ہم سرمایہ کی حاکمیت اعلیٰ کے دور میں رہ رہے ہےں۔ اب ہم جائزہ لیتے ہیں تاریخ کے اس دور میںعقل کی کوئی گنجائش ہے یا عقل کہاںکھڑی ہے اس ضمن میں ہماری ناقص ریسرچ اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ سرمایہ اپنی سرشت میں ماضی کے بادشاہوں کی طرح ہی باقاعدہ عقل دشمن ہے اور یقین رکھتا ہے کہ کائنات کی تمام عقل سمٹ کر سرمائے کی جزو بن چکی ہے اور جو بھی عقل سرمائے کے دائرہ کار یا سمجھ سے باہر ہے وہ کفر اور بغاوت ہے۔
موجودہ عہد سرمایہ داری اور فلسفہ
امریکی سرمائے کے مالکان نے دانستہ یا نا دانستہ طور پر دنیا بھر میں سرمائے کے جال کو اس طرح سے بچھایا کہ عقل کبھی بھی سرمائے کی حاکمیت اور سامراجیت کے آڑے نہ آسکے ۔ امریکی سرمائے نے اپنی ابتدا میں دنیا کی کچھ ریاستوں کو زوجیت میں لیا (پہلا ماسٹر پلان) پھر یکے بعد دیگرے باقی دنیاکو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ریاست نامی ادارہ چونکہ اپنے روزِ اول سے کنفرم عقل دشمن تھا اور سرمایہ بھی آج تک اپنے وجود کاکوئی اخلاقی اور عقلی جواز فراہم نہیں کر سکالہٰذا ان دونوں کے ملاپ سے دنیا میں جو کچھ پیدا ہوا اسے تفصیل سے رقم کرنے کے لیے مشتاق احمد یوسفی مرحوم کا قلم چاہیے۔
گذشتہ 70 سالوں کا اگر جائزہ لیا جائے توصاف نظر آئے گا کہ چمچے کڑچھے تو دور کی بات سرمائے کا سرخیل امریکہ بذات خود تمام وسائل کے ہوتے ہوئے بھی کوئی ڈھنگ کاکام نہیں کرسکا اور دنیا بھر میں کوئی قد آور سیاسی لیڈر، مفکر، ادیب بھی سامنے نہیں آ سکا۔
ہمارے اکثر کامریڈ موجودہ سرمایہ داری کے ڈانڈے ایڈم سمتھ او رلارڈکینزکے ساتھ جوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی پس منظر میں اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ہمارے خیال میںیہ دونوں حضرات مفت میں ہی بد نام ہیںاور ان کا موجودہ سرمایہ داری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
موجودہ سرمایہ دارانہ سسٹم راک فیلر جیسے خصیص سرمایہ دار کے فرمودات اورملفوظات پر کھڑا ہے جن میں عقل اور اخلاقیات کی کوئی گنجائش نہیں۔ راک فیلر کے مطابق ”سرمایہ خداکا عطاکردہ تحفہ ہے اورالہیاتی طاقتیں رکھتا ہے“۔ سرمائے کو صرف جوش و خروش والے ملازم ہی درکار ہوتے ہیں، خرید کا بہترین وقت وہ ہے جب گلیاں اور بازار انسانی خون سے تر ہوں وغیرہ۔
نظر نہ آنے والی مایوسی اور جبر کے اس دور میں دنیا میں کہیں کہیںعقل البتہ انیسویں اور بیسویں صدی کے ہتھیار اور طریقہ کار اٹھائے سرمایہ داری کا مقابلہ کرنے کی خواہش اور اراد ہ کرتے ضر و ر نظر آتی ہے ۔ عقل یونان میں پیدا ہوئی روم میں گھٹنے گھٹنے چلی، احیا کے دور میں پاﺅں پر کھڑی ہوئی اور اب وقت آ گیا ہے اس کا سامراجی سرمائے سے مقابلے کا۔ عقل جیت گئی تو دنیا میں باقی رہ پائے گی۔
دوسری صورت میں شاید کرہ ارض بھی قائم نہ رہ سکے۔