خبریں/تبصرے

میر افضال سلہریا: کاروانِ آزادی کا انتھک سپاہی ہم سے بچھڑ گیا

حارث قدیر

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے ترقی پسند و آزادی پسند نوجوان رہنما میر افضال سلہریا اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ یکم فروری کی رات ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انکی موت واقع ہو گئی۔ میر افضال سلہریا کی نماز جنازہ منگل کی سہ پہر 3 بجے یونیورسٹی گراؤنڈ مظفرآباد میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے مختلف اضلاع سمیت مظفرآباد بھر سے ہزاروں کی تعداد میں سیاسی و سماجی رہنماؤں نے شرکت کی۔ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد میر افضال سلہریا کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مظفرآباد میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔

میر افضال سلہریا نے ساری زندگی کشمیر کی قومی آزادی اور استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے گزاری اور تقریباً 42 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ انہوں نے 1993ء کے اوائل میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی طلبہ تنظیم جموں کشمیر سٹوڈنٹس لبریشن فرنٹ (جے کے ایس ایل ایف) سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور تنظیم کے مختلف عہدوں پر رہ کر کام کرتے رہے، بعد ازاں انہیں تنظیم کا مرکزی چیف آرگنائزر بھی منتخب کیا گیا۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ امان اللہ خان کی قیادت میں بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں مسلح سرگرمیوں کی وجہ سے شہرت رکھتی تھی، بعد ازاں مسلح سرگرمیوں کے خاتمے کے بعد بھی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی سیاست کا مطمع نظر جموں کشمیر کے بھارتی زیر انتظام حصے کی بھارت سے آزادی کیلئے سرگرمیوں کے انعقاد سمیت جموں کشمیر کی مکمل خود مختاری کیلئے سرگرمیاں منعقد کرنا ہی رہا۔

میر افضال سلہریا اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے تنظیم کے اندر پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے عوام کو درپیش معاشی اور سیاسی مسائل کے حل کے حوالے سے جدوجہد پر زور دینے کے علاوہ انتخابی عمل میں شرکت کے پر زور حامی کے طور پر سامنے آئے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے قائد امان اللہ خان کے ساتھ عوامی سیاست میں شرکت سمیت دیگر اختلافات کی وجہ سے انہوں نے 2006ء میں اپنا سیاسی سفر امان اللہ خان سے علیحدہ کرتے ہوئے جے کے ایس ایل ایف کا علیحدہ گروپ قائم کر لیا تھا۔ 2007ء میں انہوں نے چند دیگر سینئر ساتھیوں کے ساتھ مل کر کشمیر نیشنل پارٹی (کے این پی) کے نام سے سیاسی جماعت قائم کر لی تھی اور اس کے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر زون کے صدر نامزد کئے گئے تھے۔ اپنی موت تک وہ کشمیر نیشنل پارٹی میں ہی بطور زونل صدر کام کر رہے تھے۔

میر افضال سلہریا پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور بالخصوص مظفرآباد میں ایک توانا مزاحمتی آواز کے طور پر جانے جاتے تھے۔ عوامی حقوق کی بازیابی، جموں کشمیر کی آزادی، خود مختاری اور غیر طبقاتی سماج کے قیام کیلئے متعدد تحریکوں کا حصہ رہے، متعدد مرتبہ قید و بند اور ریاستی تشدد کا سامنا کیا۔ دریائے نیلم پر ڈیم کی تعمیر کے بعد جب دریائے نیلم کا رخ موڑا گیا تو میر افضال سلہریا ان چند افراد میں شامل تھے جنہوں نے مظفرآباد شہر کو بنجر ہونے سے بچانے کیلئے سب سے پہلے آواز اٹھائی اور کئی روز تک احتجاجی دھرنا دیا۔ وہ تحریک آج بھی کسی نہ کسی حیثیت سے زندہ ہے اور اس تحریک میں میر افضال سلہریا کا کلیدی کردار رہا۔ اس کے علاوہ دریائے جہلم پر کوہالہ پراجیکٹ کے قیام کیلئے دریائے جہلم کا رخ موڑے جانے کے خلاف بھی تحریک کا حصہ رہے۔ وہ کل وقتی سیاسی کارکن تھے اور ہر عوامی مسئلے پر وہ ہمیشہ جدوجہد کی اولین صفوں میں رہے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں آزادی اور انقلاب کی جدوجہد میں شامل ہونے والے ہر سیاسی کارکن، طالبعلم اور نوجوان کی ہر لمحہ رہنمائی کو اپنا فریضہ سمجھتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ مظفرآباد میں ہونیوالی آزادی پسند اور ترقی پسند تنظیموں کی کوئی بھی سرگرمی ایسی نہیں ہوتی تھی جس میں میر افضال سلہریا شریک نہ ہوں اور جس کی تیاری و انعقاد کیلئے میر افضال سلہریا سب سے آگے نہ ہوں۔

05 اگست 2019ء کو بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی تنظیم نو اور مرکز کے زیر انتظام دو حصوں میں تقسیم کے بعد پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں قوم پرست اور ترقی پسند تنظیموں کا ایک اتحاد قائم ہوا تھا۔ میر افضال سلہریا کو اتفاق رائے سے اس اتحاد کا ترجمان مقرر کیا گیا تھا۔ اپنی موت سے چند گھنٹے پہلے تک بھی میر افضال سلہریا تمام قوم پرست اور ترقی پسند تنظیموں کے قائدین سے ٹیلیفونک رابطوں میں مصروف تھے۔ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے تمام تنظیموں کے رہنماؤں کو اطلاعات دے رہے تھے کہ 6 فروری کو راولپنڈی میں پیپلز نیشنل الائنس کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں اہم فیصلے کئے جائیں گے۔ یکم فروری کی شام ساڑھے 4 بجے اجلاس سے متعلق ان کا پیغام موصول ہوا تھا۔ اس کے بعد انکی موت کی خبر نے تمام سیاسی کارکنوں پرسکتا طاری کر دیا۔ انقلابی جدوجہد کا ایک انتھک ساتھی ہم سب سے جدا ہو گیا تھا۔

میر افضال سلہریا کی ساری زندگی جدوجہد سے تعبیر ہے اور جس طرح اپنی موت سے چند گھڑیاں پہلے تک وہ اس خطے کی حقیقی آزادی اور انقلاب کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی تگ و دو میں شامل تھے وہ آزادی اور انقلاب کے کارواں میں شریک تمام انقلابیوں اور آزادی پسند کارکنوں کیلئے ایک یہی پیغام چھوڑ گئے ہیں کہ آزادی اور انقلاب کے اس کارواں کا سفر جاری رکھا جائے، اسے کسی صورت رکنے نہ دیا جائے، نظریات سے اپنے آپ کو لیس کیا جائے اور حقیقی انقلابی متبادل کی تعمیر کے سفر کو تیز تر کرتے ہوئے اس خطے سے محکومی اور استحصال کی ہر شکل کا خاتمہ کرتے ہوئے حقیقی آزادی سے اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو فیضیاب کرنے تک اس جدوجہد کو جاری و ساری رکھا جائے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔