التمش تصدق
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں انتخابات کا وقت جیسے جیسے قریب آ رہا ہے مقامی سیاسی اشرفیہ کی اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے سرگرمیوں میں بھی تیزی آ گئی ہے۔ انتخابات سے قبل ہی بچے بچے کو معلوم ہے کہ نتائج کیا ہوں گے اور انتخابات میں کیسے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں پاکستان نواز سیاسی پارٹیاں فوجی اشرافیہ سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔ مسئلہ جموں کشمیر سے جڑے محکوم عوام کے حق خودارادیت اور حق آزادی کی حقیقی جدوجہد کو چھپانے کے لیے ریاستی سرپرستی میں کالعدم اور وفادار سیاسی جماعتوں کے ذریعے پاک فوج زندہ باد ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور مظلوم کشمیریوں سے یکجہتی کا ناٹک کیا جاتا ہے۔ پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیر میں اپنی من پسند حکومت کے لیے پہلے وفاداری خریدی جاتی تھی لیکن اب مقتدر قوتوں کی طرف سے وفاداری بیچی جاتی ہے۔ جس کے پاس سرمایہ ہے وہ سرمایہ کاری کرے اور اقتدار کے مزے لوٹے۔
نو آبادیاتی خطے کی مقامی اشرفیہ قومی غلامی اور طبقاتی جبر کے خلاف محنت کش عوام میں پائے جانے والے غم و غصے کو سامراجی طاقتوں سے سودے بازی اور اقتدار کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہے۔ پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیر کے حکمران طبقے کا بھی اب تک یہی طریقہ واردات رہا ہے۔ اب کی بار معاون خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب اور پاکستان سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین تنویر الیاس کی سیاست میں بطور امید وار وزیراعظم پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر آمد نے پی ٹی آئی کی قیادت سمیت پرانے سیاسی دلالوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔
تنویر الیاس نے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں سیاست کا باقاعدہ آغاز گزشتہ ماہ 27 فروری کو پاک فوج کے اعزاز میں جلسے سے کیا ہے۔ جلسے کی کامیابی کے لئے بڑے پیمانے پر پیسے، ریاستی مشینری اور دہشت گرد کالعدم تنظیموں کو نام بدل کر استعمال کیا گیا۔ مذہبی انتہا پسند درباری ملاں اور لبرل اپنے سیاسی، مذہبی اور مسلکی اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے اپنے آقاؤں کے اشارے پر تنویر الیاس کے سرمائے کی چھتری تلے طاقت کو سلامی پیش کرنے جمع ہوئے، دہشتگردوں سے ”یہ جو امن کی دھرتی ہے اس کے پیچھے وردی ہے“کہ نعرے لگوائے گئے۔
دوسری طرف دائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے تنویر الیاس پر جو تنقید کی جا رہی ہے، وہ کسی نظریاتی اختلاف یا سیاست میں سرمائے کی مداخلت کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس بات پر تنقید ہے کہ ہم آپ کے پرانے وفادار ہیں، آپ نے کیوں ہمیں نظر انداز کر کے ایک سرمایہ دار کو ہمارے اوپر بیٹھا دیا ہے۔ ایک شخص جس کا اس خطے کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا، یکدم سرمائے کی بنیاد پر اس علاقے کی سیاست کا اہم کردار بن گیا ہے۔ بظاہر یہ اعتراض درست معلوم ہوتا ہے لیکن ماضی میں بھی اقتدار کی سیاست اس سے کوئی زیادہ مختلف نہیں رہی ہے۔ سیاسی مفادات پر ضرب لگنے کی وجہ سے کچھ لوگوں کو سیاسی اخلاقیات، اصول اور نظریات یاد آ رہے ہیں، جو خود سامراجی دلالی کی بنیاد پر اپنی موروثی سیاست اور خاندانی بادشاہت قائم رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ قبائلی غیرت اور تعصب کو ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو یہاں کے حکمرانوں کا پرانا ہتھیار رہا ہے۔ سماج میں بڑے پیمانے پر سرمائے کی سرایت کی وجہ سے قبائلی ڈھانچہ ٹوٹ گیا ہے، اب اس کی باقیات ہی بچی ہیں۔ یہی وجہ ہے قبائلی غیرت اور تعصب کا یہ ہتھیار بھی سرمائے کی طاقت کے آگے بیکار ہے۔
جیسا کارل مارکس نے کمیونسٹ مینی فسٹو میں لکھا تھا کہ ”سرمایہ دار طبقہ جدید ذرائع پیداوار کی بنیاد پر قوموں کو حتیٰ کہ انتہائی وحشی قوموں کو بھی اپنی تہذیب کے دائرے میں کھینچ لاتا ہے۔ اس کے تجارتی مال کی ارزانی گولے بارود کا کام کرتی ہے، جن سے مار مار کر وہ ہر دیوار چین کو گرا دیتا ہے، ضدی سے ضدی وحشیوں کو جن کے دل سے غیروں کی نفرت کا جذبہ مارے نہیں مرتا، ہار ماننے پر مجبور کر دیتا ہے۔“
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں اسی جماعت کی حکومت قائم ہوتی ہے جس کی وفاق میں حکومت ہوتی ہے۔ چند روز میں پارٹی بنتی ہے اور اس کی حکومت بھی بن جاتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے پاکستان میں موجود وفاقی حکومت یہاں بہت مقبول ہوتی ہے بلکہ اس خطے کا سیاسی ڈھانچہ نو آبادیاتی طرزِ پر اس طرح سے تشکیل دیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ قانون ساز اسمبلی کی کل 53 نشستوں میں سے 12 نشستیں مہاجرین کی ہیں، جن میں جیتنے والے امیدواروں کے ووٹوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے۔ ان نشستوں پر وفاقی حکومت براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس خطے کی حکومت اور اسمبلی کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے، عوام کی اکثریت ریاست کی اصل حیثیت کا ادراک رکھتی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ طاقت کا اصل منبع وفاقی حکومت ہے اور ان انتخابات سے کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے ووٹ کا استعمال کسی بڑے مقصد کے بجائے انتخابات کے دوران حاصل کیے جانے والے فائدے کے لیے کیا جاتا ہے۔ بنیادی حقوق کے حصول کے لئے بھی جیتنے والے امیدوار سے ذاتی اور سیاسی تعلقات ضروری ہیں۔ اجتماعی مسائل کے حل کے لیے انفرادی طور پر وعدے کیے جاتے ہیں اور ووٹ لیے جاتے ہیں۔
یوں تو پاکستان میں بھی انتخابات جیتنے کے لیے امیدوار کا ا سٹیبلشمنٹ کا منظور نظر ہونا ضروری ہے لیکن پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں تو بطور پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ہی اسٹیبلشمنٹ کی وفاداری کی یقین دہانی ضروری ہے۔ متنازعہ ریاست جموں کشمیر کے پاکستانی کنٹرول والے حصے میں انتخابات میں حصّہ لینے کے لیے الحاق پاکستان کا حامی ہونا ضروری ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت یا فرد جو الحاق پاکستان کا حمایتی نہیں ہے وہ انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہے۔ اس طرح انتخابات سے قبل ہی عوام کی اکثریت کو انتخابات کے عمل سے باہر کر دیا جاتا ہے۔ انتخابات میں الحاق پاکستان کی شرط پاکستانی حکمران طبقے کی کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کی حقیقت کو بھی عیاں کرتی ہے۔
پاکستانی حکمران طبقے کی طرف سے دنیا کو اور مظلوم کشمیری عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ منتخب عوامی نمائندوں کے ذریعے بننے والی اسمبلی اس خطے کانظام حکومت چلا رہی ہے لیکن حقیقت میں اس خطے کا مکمل کنٹرول مٹھی بھر سول اور فوجی اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے۔ یوں تو سرمایہ دارانہ جمہوریت ہی سرمائے کی آمریت ہے، جس میں اکثریتی محنت کش عوام کے پاس صرف ووٹ دینے کا حق ہے اور اقلیتی سرمایہ دار طبقہ ہی ووٹ لینے کا حق اور اختیار رکھتا ہے۔ سرمایہ دارانہ آزاد ملکوں میں بھی نام نہاد آئین ساز اسمبلی ہوتی ہے لیکن اس خطے کو تو نو آبادیاتی طرز کے ایکٹ 74ء کے تحت چلایا جا رہا ہے، قبل ازیں تمام اختیارات وزارت امور کشمیر کے پاس تھے جو اب 13 ویں آئینی ترمیم کے بعد براہ راست وزیراعظم پاکستان کے پاس ہیں۔ قانون سازی کے جو محدود اختیار ات موجود ہیں ان کو بھی وزیر اعظم پاکستان منسوخ کر سکتا ہے اور پاکستان کی پارلیمنٹ، جس میں کشمیر کا کوئی نمائندہ موجود نہیں ہے، میں منظور ہونے والے قوانین پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بغیر کسی قانونی سازی کے لاگو ہو جاتے ہیں۔ یہ ان قانون ساز اداروں کی حیثیت ہے جن کے انتخابات کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔
ایسی صورتحال میں یہاں کی سیاسی جماعتوں اور امیدواروں سے کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے مسائل کے حل اور نمائندگی کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے، جو خود اپنے اختیارات کے حصول کی لڑائی لڑنے سے قاصر ہیں۔ اگر ان کو اختیارات مل بھی جائیں تو قبائلی تعصبات، دولت اور طاقت کی بنیاد پر منتخب ہونے والے یہ اراکین اس اہلیت اور صلاحیت سے محروم ہیں کہ عوام کی فلاح کے لیے کوئی اقدامات کر سکیں۔ تعلیم، علاج، روزگار کی فراہمی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر جیسے عوام کے حقیقی مسائل کے حل میں نہ انکی دلچسپی ہے اور نہ انکے حل کا کوئی ٹھوس پروگرام اور منشور ان کے پاس ہے۔ امید واروں کی اہلیت دولت اور قابض ریاست کی پشت پناہی ہے۔ انتخابات کا یہ مہنگا کھیل چند دولت مندوں کا ہے، محنت کش عوام کا اس میں تماشائیوں سے زیادہ کوئی کردار نہیں ہے۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کے مسائل کا حل انتخابات میں نہیں انقلاب میں ہے، سرمایہ دارانہ جمہوریت میں نہیں محنت کشوں کے اپنے اقتدار میں ہے۔