عمر عبداللہ
حال ہی میں ’ساکن بینڈ‘نے اپنے ایک نئے گانے ’انتباہ‘ کی ویڈیو جاری کی ہے۔’ساکن‘اسلام آباد کا ایک ابھرتا ہوا بینڈہے جو اپنی مشرقی دھنوں کی وجہ سے ایک منفرد سٹائل رکھتا ہے۔اس گانے کے بول ’ساکن‘ اور نمرہ گیلانی نے مل کر لکھے ہیں۔بہترین دھن اور شاعری کے ساتھ ساتھ اس گانے پر بنی شارٹ فلم نے اس پراجیکٹ کو چار چاند لگادیئے ہیں۔یہ فلم علی ارشد کی خوبصورت السٹریشن، میکائل احمد کی باکمال ہدایت کاری اور ’ساکن‘ کی موسیقی کا حسین امتزاج ہے۔ایک ایسے وقت میں جہاں موسیقی کے نام پر زیادہ تر اپنی محرومیوں کی مسلسل جگالی یاتصوف کا سہارا لے کر اس مادی دنیا کے مسائل اور پریشانیوں سے فرار پر اسرار ہی نظر آتا ہے، انتباہ ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔ گرامچی کے بقول پرانی دنیامر رہی ہے اور ایک نئی دنیاکو پیدا ہونے میں دشواری کا سامناہے چنانچہ یہ وقت وحشی درندوں کا وقت ہے۔انتباہ نے نہ صرف اس موجودہ عہد کی وحشت کی عکاسی کی ہے، بلکہ آگے بڑھ کر بڑی جرأت کے ساتھ اس وحشت سے لڑنے کے واحد حل کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
فلم کا فریم کھلتا ہے،دھن کا آغاز ہوتا ہے اورہم پانچوں بینڈ ممبرز کو لمبے سفر کے بعد ایک اونچے سے ٹیلے پر کھڑا دیکھتے ہیں،جن کے سامنے ایک شہر کی بلند دیواروں کے باہر مہاجروں کی ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ شہر کے اوپر ایک بہت بڑے باز کا مجسمہ بنا ہوا ہے جو پورے شہر پرسایہ کئے ہوئے ہے۔اسکے بعد بول شروع ہوتے ہیں:
چاہے ہم ہوش میں ہوں یاتو مدہوش رہیں
ہم کو معلوم ہے سچ کیا ہے جو خاموش رہیں
سچ جو کہتے ہیں یہاں انکو یہ ٹانگتے ہیں
انکے حربوں سے تو شیطان بھی پناہ مانگتے ہیں
فلم کے پہلے حصے میں ہمیں اس شہر کے اندر لے جایا جاتا ہے۔ یہ ایک ’ڈیسٹوپین‘ شہر ہے جس میں ہر شخص کسی طلسم کے اثر میں معلوم ہوتا ہے۔ اس حصے میں جارج اورول کے مشہور زمانہ ناول ’1984‘سے بہت سارے استعارے شامل کئے گئے ہیں۔ یہ ناول بنیادی طور پر سوویت یونین کے سٹالنسٹ کریکٹر پر تنقید کے طور پر لکھا گیا تھا،جسے سرمایہ داری کے حامی سوشلسٹوں کا منہ چڑھانے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ تاریخ کا طنز دیکھئے کہ جو ناول سوویت یونین کے مستقبل کی ایک پیش گوئی کے طور پر لکھا گیا تھا وہ آج من وعن سرمایہ دارانہ ریاستوں پر مکمل صادق آتا ہے۔اس شہر کی دیواروں پر ’غلامی آزادی ہے‘،’جنگ امن ہے‘ اور’لاعلمی طاقت ہے‘ جیسی تحریریں درج ہیں۔پھر مختلف مناظر میں اس شہر کے باسی سکرینوں کے سامنے سکتے کی حالت میں ایک گھومتے ’کیلے‘کو گھورتے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہ کیلا فلم نگار نے کامیابی کے استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے۔یہ وہی کیلا ہے جس کا جھانسا دے کرمحنت کشوں سے یہ استحصالی نظام قائم رکھوایا جاتا ہے اور نتیجے میں انسان بیگانگی کے پاتال میں گر کر تمام تر احساسات، جذبات،اپنے ارد گرد کے ماحول اور یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی غافل ہو جاتاہے۔یہ استعارہ یوں تو پوری دنیاکی ایک جھلک ہے لیکن خاص طور پر سامراج کے دل امریکہ کے محنت کش طبقے کی موجودہ کیفیت اور نام نہاد ’گریٹ امریکن ڈریم‘ کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ایک اور منظر میں اسی طرح بہت سارے لوگ مختلف سکرینوں کے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں جن پر ایڈورڈ سنوڈن،میلکم ایکس، ڈاکٹر کنگ اوران جیسی دیگر شخصیات کی تصاویر نظر آتی ہیں جنہیں اس نظام نے بغاوت کے جرم میں مار کر اپنے نیوز سائیکل کا حصہ بنا دیااور یہ تمام آوازیں شور میں شامل ہو کر مدہم ہوتی چلی گئیں۔اس شہر کی مکمل نگرانی کی جا رہی ہے اور اس حصے کے اختتام پر ہمارا تعارف اس فلم کے ولن سے ہوتا ہے جو ایک بڑے سے کمرے میں بیٹھاسکرینوں کے ذریعے پورے شہر کی نگرانی کر رہا ہے۔
فلم آگے بڑھتی ہے اور اب ہم اس مہاجر کیمپ میں ہیں جوشہر کے باہر ہے۔یہاں ہماری ملاقات ایک مہاجر بچی سے ہوتی ہے، جو اس فلم کی ہیروئن ہے اور اسے بہت سارے میڈیا کے لوگ گھیرے ہوئے ہیں۔اور یہاں فلم نگار بہت ہی مہارت کے ساتھ لبرل کارپوریٹ میڈیا انڈسٹری کے کرتوتوں کی عکاسی کرتا ہے۔یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ نظام اور اسکے رکھوالے پہلے منافعوں کی ہوس میں بستیاں مسمار کرتے ہیں اور پھر ان کے مکینوں کے زخموں کوبھی پروڈکٹ میں تبدیل کر کے بیچتے ہیں۔اسی مونٹاج کے آخر میں ایک سین اس نقطے کو سمیٹتا ہے جس میں اس مہاجر لڑکی کا لیا گیا ایک فوٹو میگزین کور میں تبدیل ہو جاتا ہے جس پر لکھا ہے”ہم گوبر بیچتے ہیں کیوں کہ آپ کو یہ پسند ہے ۔“
فلم آگے بڑھتی ہے اور اب تن تنہایہ لڑکی ولن کے مد مقابل کھڑی ہے۔یہاں فلم میں ولن کے چہرے بدلنا شروع ہو جاتے ہیں، ٹرمپ،شی جن پنگ اورمحمد بن سلمان جیسے جابر حکمرانوں کے چہرے آنکھوں کے آگے گھومنا شروع ہوجاتے ہیں اور گانے کے یہ بول سنائی دیتے ہیں:
آندھیا ں آئیں گی طوفاں اب کیسے پلٹ پائیں گے
جو بنے ہیں خدا ان کے تختے بھی الٹ جائیں گے
ایک بڑے سے ویرانے میں یہ لڑکی بے بسی اور غصے کی کیفیت میں اپنے گھٹنوں پر گر چکی ہے۔ یہاں پانچوں بینڈ ممبر کروڑوں انسانوں کے ہمراہ بغیر کسی رنگ،نسل، زبان، ملک یا صنف کی تفریق کے اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف اس لڑکی کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔یہ سب دیکھ کر فلم کا ولن ان کوختم کرنے کے لئے ایک ’لال بٹن‘دباتا ہے جس پر ”یس وی کین“لکھا ہے، جو ابامہ کی الیکشن مہم کا نعرہ تھا۔ یہاں فلم نگار ایک بار پھر کمال مہارت کے ساتھ ان ناخداؤں سے بھی آگاہ کر رہا ہے جومسیحاؤں کے بھیس میں انسانوں کا خون پینے آتے ہیں۔
آرٹ نہ صرف سماج کے مجموعی شعور کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اسکو بدلنے، وسیع کرنے اور نکھارنے کا ٹول ہے۔’انتباہ‘نے ان تمام پہلوؤں کو اپنے اندر شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔ماضی میں جب انسان غاروں میں رہتا تھا تو آرٹ کے ذریعے سے آنے والے خطرات سے آگاہی کا کام لیا جاتا تھا اور آج اس فلم میں بھی ایک ’ڈسٹوپیا‘ کی پیش گوئی کی جارہی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس فلم میں اس ’ڈسٹوپیا‘کے اندر ایک ’یوٹوپیا‘ کی اُمیدبھی شامل ہے۔