عمر عبداللہ خان
کسی بھی سماج کے اندر پیدا ہونے والی کہانی اس سماج کے حالات، واقعات، کیفیات، رسم و رواج اور سب سے بڑھ کر تاریخ کاعرق ہوتی ہے۔ دیوی دیوتاوں کی مائیتھالوجی ہو، ہیر رانجھوں کی لوک داستانیں یا چارلی چیپلن کی فلمیں، کہانی سنانے کے طریقہ کارتو بدلتے رہے ہیں، لیکن سماجی ارتقا میں کہانی کی اہمیت اور کردار آج تک برقرار ہے۔ جہاں کہانی پورے سماج کے لیے ایک آئینے کا کام کرتی ہے، وہیں یہ ایک طاقت ور اوزار بھی ہے، جس کے ذریعے آپ ایک اکثریت کو ایک اقلیت کے جینوسائڈ پر آمادہ بھی کر سکتے ہیں اور غلامی سے آزادی کی جدوجہد کو تحریک بھی دے سکتے ہیں۔ ریاستی بیانئے بھی تخلیق ہو سکتے ہیں اور مزاحمتی پروپیگنڈابھی۔ ’محنت کرواور ایک دن امیر ہوجاو گے ‘جیسا منجن بھی بیچا جا سکتا ہے اور نئی نسل کے اندر تنقیدی سوچ و فکر بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حکمران طبقات اس پورے عمل پر اپنی گرفت کبھی کمزور نہیں ہونے دیتے۔ وہ نہ صرف اسکی تخلیق کو اپنے تابع رکھتے ہیں بلکہ سینسرشپ جیسے ہتھیاروں کے ذریعے آزادانہ تخلیق کا قتل عام بھی مسلسل جاری رہتا ہے۔ کسی سماج پر حکمرانوں کی گرفت جتنی کمزور ہوتی رہے گی، وہاں وطن عزیز کی طرح سینسر شپ بھی اتنی ہی شدید ہوتی چلی جائیگی۔ اس سب کے باوجود کبھی کبھار اس میٹرکس میں کوئی نہ کوئی گلچ پیدا ہو ہی جاتا ہے اور حکمرانوں کے نظریات کو چیلنج کرتی ہوئی کوئی کہانی منظرعام پر آجاتی ہے۔ ساؤتھ انڈین فلم ’سر‘ (SIR)بھی اسی طرح کی ایک کہانی ہے۔ اس نظام کی کمان سے نکلا ہوا ایک ایسا تیر جو اس کے اپنے ہی تمام اصولوں اور اخلاقیات کو چیر کر پار ہو جاتا ہے۔
پوسٹ ورلڈ وار انڈین سینما کا ہیرو ایک غریب آدمی تھا، جس کا مقابلہ گینگسٹر، بلڈر، سیاسست دان اور انکی گماشتہ کرپٹ ریاست کے نیکسزز سے ہوا کرتا تھا۔ پھر زمانے نے ڈھنگ بدلا سرمایہ داری کا سپر بوم ختم ہوا، مزدوروں کی پہلی ریاست ٹوٹ کر بکھر گئی اور باقی تمام چیزوں کی طرح فلم بھی نیو لبرل ازم کے عہد میں داخل ہو گئی۔ اب کہانی گلیوں محلوں، کچی بستیوں اور چوک چباروں میں مسکراتی زندگی سے نکل کر بڑے بڑے بنگلوں میں رہنے والوں کی عیاشیوں اور درمیانے طبقے کی محرومیوں کا ایک’ولگر‘ اظہار بن کر رہ گئی۔
تاہم آج جب نیولبرل ازم بھی ناکام ہو رہا ہے، تو اسکی سیاسی، سماجی اور معاشی پالیسیوں کے جبر تلے پسے ہوئے غریب عوام کا وہ ہیرو جو کہیں کھو گیا تھا، ایک بار پھر سلور سکرین پر لوٹا ہے اور سرمائے کے تمام خونی درندوں سے لڑ کر آنے والی نسلوں کوبچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس بات پر تو بحث ہوسکتی ہے کہ اس کوشش میں وہ لڑنے کے لیے جو راستہ وہ چن رہا ہے، اس پر چلتے ہوئے حقیقی کامیابی مل بھی سکتی ہے یا نہیں، لیکن اس بات کا اسے بخوبی ادراک ہو چکا ہے کہ اگراس نظام میں زندہ رہنا ہے تو اس سے لڑ کر زندگی چھیننی ہو گی۔
فلم شروع ہوتی ہے اور ہماری ملاقات تین نوجوانوں سے ہوتی ہے جو ایک ’تریپاٹھی ایدوکیشنل انسٹیٹیوٹ‘ میں پڑھتے ہیں۔ فلم کے اس سین میں ہم طلبہ سے بھرا ہوا کمرا دیکھتے ہیں، جس میں ایک ٹیچر کسی مشین کی طرح وائٹ بورڈ پرحساب لکھ رہا ہے اورمسلسل کسی خود کلامی میں مبتلا ہے۔ ان تینوں نوجوانوں کو اس ٹیچر کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی اور وہ بہت پریشان ہیں۔ پھریہ تین نوجوان ایک ویڈیو سٹور دریافت کر لیتے ہیں جہاں انہیں کچھ کیسٹس ملتی ہیں۔ یہ تینوں انہیں ’پارن‘سمجھ کر گھر لے آتے ہیں، تاہم چلانے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ ’پارن‘نہیں ہے، بلکہ اس میں تو کوئی شخص حساب پڑھا رہا ہے۔ یہاں فلم میں ایک میسٹری کا آغاز ہوتا ہے اور یہ نوجوان اس شخص کو دھونڈتے ڈھونڈتے ایک ڈسٹرکٹ کلکٹر کے دفتر میں پہنچ جاتے ہیں۔ کلکٹر انہیں اس پراسرار شخص کے بارے میں بتاتا ہے کہ یہ اسکے استاد بالو سر ہیں۔
یہاں سے فلم کی اصل کہانی کا آغاز ہوتا ہے اورنیریٹر ہمارے لیے کہانی سیٹ کرتا ہے۔ یہ بات ہے 1990ء کی، جب ہندوستان میں نجکاری کے نتیجے میں ایک بڑی مڈل کلاس نے جنم لیا اور ٹیکنیکل تعلیم (ایم بی بی ایس اور انجینئرنگ) کی ڈگریوں کی مانگ بڑھ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے شکشا (تعلیم) ایک منافع بخش دہندہ بن گئی۔ اسکا نتیجہ وہی نکلاجو ہر نیولبرل پالیسی سے ہمیشہ نکلتا ہے، کہ اوپر بیٹھی اشرافیہ نے نہ صرف اس سے مال بنایا بلکہ تعلیم کے سارے عمل کو ہی اپنے گھر کی لونڈی بنا کر رکھ دیا۔ دوسری طرف غریب کے بچے اس پوری دوڑ سے ہی باہر ہو گئے۔
نجی تعلیمی اداروں نے فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کرنا شروع کر دیا۔ سرکاری سکولوں کو ایک منصوبہ بندی کے تحت ناکام کیا گیا، نجی سکولوں نے سرکاری سکولوں کے بھی سارے اچھے ٹیچر خرید لیے اور آہستہ آہستہ بیشتر سرکاری سکول بند ہو گئے۔ بہت بڑی تعدادمیں وہ طلبہ جو مہنگی تعلیم نہیں خرید سکتے تھے، سکولوں سے باہر ہو گئے اور اسکی وجہ سے ایک سیاسی بحران کھڑا ہو گیا۔ احتجاج ہونے لگے اپوزیشن بھی بلیک میلنگ کے لیے میدان میں کود گئی اورحکومت نے دباؤ میں آ کر ایک فیس ریگولیشن بل لانے کی کوشش شروع کر دی۔ یہ بات جب تریپاٹھی انسٹیٹیوٹ کے مالک اور جو نیئر سکول ایسوسی ایشن کے صدر تریپاٹھی کو معلوم ہوئی تواس نے ایک چال چلی۔
یہاں ہم فلم کے ولن سے متعارف ہوتے ہیں، جوفلم کا شائد سب سے دلچسپ کردار ہے اور اسے سموتھیراکانی نے بخوبی نبھایا ہے۔ تریپاٹھی ایک بلا کا شاطر انسان ہے جو پچھلی دھائی میں پیدا ہونے والے نو دولتیوں کی سوچ کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ وہ سرکاری سکولوں میں اپنے بہترین ٹیچر بھیج کر سکولوں کو بچانے کا اعلان کر دیتا ہے۔ یوں حکومت کو فیس سیونگ مل جاتی ہے اور وہ بل واپس لے لیتی ہے۔ دوسری طرف سرکاری سکولوں میں وہ صرف اپنے جونیئر ٹیچر بھیجتاہے، جو ابھی ٹرینگ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ تھوڑا نقصان کرکے بڑا فائدہ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔
ان سرکاری سکولوں میں جانے والے جونیئر ٹیچرز میں سے ایک بال گنگا در تلک (بالو) بھی ہوتاہے، جسے ایک گاؤں میں تعینات کر دیا جاتا ہے۔ یہاں فلم میں ہیرو بالو کی انٹری ہوتی ہے، بالو کا کردار مشہور اداکار’دہانش‘ نے نبھایا ہے۔ اس سے پہلے ’دہانش‘ ایک اور بہت ہی کمال فلم رانجھنا میں بھی اداکا ری کر چکے ہیں اور انہوں نے بالکل ویسی ہی معصومیت کے ساتھ یہ کردار بھی نبھایا ہے۔ بالو ایک ڈرائیور کا بیٹا ہے جس نے بڑی مشکل سے اپنی گریجوایشن کی ہے اور ٹیچر بھرتی ہوا ہے۔ بالو کچھ بھی کرکے اپنے اور اپنے گھر والوں کو اس غربت اورذلت سے نکالنا چاہتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اگر وہ محنت کرے گا، تویہ نظام اسے ضرور انعام دے گا۔
تریپاٹھی کا فلسفہ ہے کہ اگر ورکر تم سے کچھ مانگے، تو اسے کوئی ٹاسک دے کر پریشر بڑھا دو، اس طرح وہ ضرور غلطی کریگا۔ اسی طرح بالو سرکاری سکول جانے سے پہلے تریپاٹھی سے پوچھتا ہے کہ اگر ہم اچھا کام کریں، تو انعام کے طور پر ہمیں کیا ملے گا؟
جواب میں تریپاٹھی کہتا ہے کہ جس ٹیچر کے مضمون میں سارے بچے پاس ہو گئے، اسے پروموٹ کر دیا جائے گا۔ بالو بڑی دشواریوں سے گزر کر تریپاٹھی کا چیلنج پوراکر دیتا اور بچے اچھے نمبروں سے پاس ہو جاتے ہیں۔ یہ بات جب تریپاٹھی کو جب معلوم ہوتی ہے تو اسکے پیروں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ دوسری طرف بالوپر تریپاٹھی کی اصلیت کھل جاتی ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ ساری گیم فکس ہے۔ تریپاٹھی، حکومت، پولیس، سرپنچ سب ملے ہوئے ہیں۔ یہ نظام غریبوں کو نوازنے کیلئے نہیں بلکہ انہیں غریب رکھنے کے لیے سرگرم ہے۔ یہ شعور اسے لڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ تریپاٹھی اپنے سرمائے کی تمام طاقت لگا دیتا ہے، لیکن بالو تمام کٹھنائیوں سے گزر کر تریپاٹھی کو بل آخر مات دے دیتا ہے۔
فلم طبقے کے سوال کے ساتھ ساتھ ذات کے سوال کو بھی ذیلی طور پر چھیڑتی ہے۔ فلم میں تعلیم کے کاروبار کی تباہ کاریوں پر بہت ہی جرأت مندانہ تنقید رکھی گئی ہے۔ فلم سنبل ازم کے ذریعے ایک اور بہت بڑا پیغام دیتی ہے کہ ٓانے والی نسلوں کی تعلیم اور تربیت کے لیے سنیما کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اپنے پیغام کے حساب سے یہ ایک بہت بڑی فلم ہے مگر شاید اتنی سٹل (Subtle) نہیں ہے۔ کردار بہت ون ڈائمنشنل ہیں اور کیری کیچر لگتے ہیں۔ کہیں کہیں فلم بہت ہی اچھے ان ٹینس ڈرامائی مومنٹس بنانے میں کامیاب ہوتی ہے لیکن کچھ جگہیں ایسی بھی ہیں،جہاں بلڈ اپ تو ہے لیکن پے آف نہیں۔ فلم میں اداکاری کے محاذ پر کچھ اچھی پرفارمنسزہیں۔ خاص طور پر مورتھی کا کردار نبھانے والے کین کروناس کی اداکاری متاثر کن ہے۔
ایک مرتبہ دلپ کمار نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہمیں یعنی مشرق کو ابھی بہت ترقی کرنی ہے۔ پہلے یہاں سڑکیں ٹھیک ہونگی، مکان ٹھیک ہونگے، سکول بہتر ہونگے، تعلیمی معیار بلند ہو گا، پھر ہی جا کر آپکی فلم کا بھی معیار بہتر ہو گا۔ آرٹ کسی اقتصادی یاسیاسی خلا میں تعمیر نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہو گا کہ ہم نے فلم میں کوئی معیار حاصل کر لیا ہے۔ ہا ں مگر کوئی فلم نگار اس طرف کوشش کرتا ہے اور وہ خوبصورتی تک نہیں بھی پہنچ پاتا اور صرف کسی بدنما چیز کی بد نمائی ہی کم کر دے، تو یہ بھی ترقی کی طرف ایک قدم ہو گا۔ وینکی آتولوری بھی اپنی فلم کے ذریعے کچھ ایسا ہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے عہد میں جب سماج پر اس قدر حماقت اور لا مقصدیت چھائی ہو، وہاں اس فلم کی جرأت اور ہمت قابل ستائش ہے۔
اس فلم کو اس پار بیٹھ کر دیکھتے ہوئے ایک اور بہت دلچسپ احساس ہوتا ہے۔ اس فلم کے کرداروں کے نام بدل دیں اور ’شکشا‘کو ’تعلیم‘ اور ’ویپار‘کو ’دھندہ‘ کہہ دیں توسرحد کی دوسری طرف بھی من و عن یہی کہانی ہے۔ سرمائے کے جبر میں سرحدیں بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں اور سرمائے کا کردار دونوں اطراف یکساں ہے۔
پاکستان میں بھی تعلیم ایک جنس بن چکی ہے جس کے کور پر لکھا ہوا ہے’غریبوں کی پہنچ سے دور رکھیں‘۔ ایک طرف تعلیم اس ملک کا سب سے منافع بخش کاروبار ہے اور دوسری طرف ’سرکاری اعداد و شمار‘ کے مطابق تین کروڑ بچے سکول نہیں جاتے۔ بلوچستان میں 95 فیصد بچیاں سکولوں سے باہرہیں۔ اعلیٰ تعلیم تو لوگوں کے لیے ایک خواب بن چکی ہے۔ نجی تعلیم سماج کے لیے ایک باشعور اور آزاد انسان پیدا کر ہی نہیں سکتی۔ اسکے خمیر سے صرف کارپوریٹ غلامی پیدا ہو سکتی ہے۔ ایسے میں اس ملک کی طلبہ تحریک کو تعلیم کے اس کاروبار کے خلاف جدوجہد تیز ترکرنا ہو گی اور مفت تعلیم کا حق چھیننا ہو گا۔