لاہور (جدوجہد رپورٹ) میانمار کی سکیورٹی فورسز نے اتوار کے روز ایک جنازے پر بھی فائرنگ کر دی، یہ افراد ہفتے کے روز ملک بھر میں بدترین ریاستی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں 114 افراد کی آخری رسومات میں شریک تھے۔ ہفتے کے روز ہونے والی ہلاکتوں کے بعد فوجی حکومت کے خلاف احتجاج میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی مجموعی تعداد 440 سے زیادہ ہو گئی ہے۔
رائٹرز کے مطابق سوگواران پر فائرنگ کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں سے متعلق کوئی معلومات نہیں موصول ہو سکی، تاہم فائرنگ کے دیگر واقعات میں اتوار کے روز 3 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ملی ہیں۔ نسلی ملیشیاؤں میں سے ایک پر فوج کے فضائی حملوں کے بعد سرحدی علاقوں سے ہزاروں افراد تھائی لینڈ فرار ہو گئے ہیں۔
اتوار کے روز بھی ملک کے دارالحکومت سمیت دوسرے شہروں میں احتجاجی مظاہرے منعقد کئے گئے۔ مقامی خبروں کے مطابق ہفتے کے روز ہلاک ہونے والوں میں 6 اور 10 سال کی عمر کے بچے بھی شامل ہیں۔
قومیتوں کی جنرل سٹرائیک کمیٹی (جی ایس سی این) نے فیس بک پر ایک اہم پیغام میں کہا کہ ”ہم اپنے ہیروز کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس انقلاب کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ہمیں ہر صورتاس انقلاب کو جیتنا چاہیے۔“
ملک کے مختلف علاقوں کو کنٹرول کرنے والے 2 درجن کے قریب نسلی مسلح گروہوں اور فوج کے مابین شدید لڑائی شروع ہو چکی ہے۔ کیرن نیشنل یونین ملیشیا کے زیر قیادت علاقوں پر فوج کی فضائی بمباری کی وجہ سے 3 ہزار سے زائد افراد ہمسایہ ملک تھائی لینڈ فرار ہو گئے ہیں۔
واضح رہے کہ یکم فروری کو میانمار کی فوج نے آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے اقتدارپر قبضہ کر لیا تھا۔ فوجی اقتدار کے خلاف 2 ماہ سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاسی رہنماؤں سمیت ہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ احتجاج کو کچلنے کیلئے فوج کی خدمات لی جا رہی ہیں۔ اس دوران سرکاری ملازمین سمیت پیداواری سیکٹر کے محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد بھی جنرل سٹرائیک کمیٹی کے ساتھ ہڑتال میں شریک ہو چکی ہے۔ متعدد پولیس اہلکاران اور افسران کو بھی مظاہرین پر فائرنگ کے احکامات نہ ماننے اور جنرل اسٹرائیک کمیٹی کی کال پر ہڑتال میں شریک ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا جا چکا ہے۔ متعدد پولیس افسران اور اہلکاران فوجی حکومت کے تشدد کے احکامات ماننے سے انکار کر کے ملک سے فرار ہو چکے ہیں، درجنوں پولیس افسران و اہلکاران نے بھارت میں سیاسی پناہ کیلئے درخواستیں بھی دے رکھی ہیں۔
دنیا بھر میں میانمار کی فوجی حکومت کے ریاستی جبر اور تشدد کی شدید مذمت کی جا رہی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ترک کرنے، گرفتار صحافیوں، سیاسی رہنماؤں اور عام شہریوں کو فی الفور رہا کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔