قیصر عباس
صدر جو بائیڈن نے گزشتہ جمعرات کو امریکہ کی مختلف ریاستوں میں بڑھتے ہوئے فائرنگ کے واقعات کو ایک’قومی وبا‘قرار دیتے ہوئے اسلحہ پر پابندیوں اور سماجی سطحوں پر امدادی پروگرام کا اعلان کیا۔ ان اقدامات کے تحت اسلحہ کی عام خریدوفروخت پر پابندیاں لگائی جائیں گی تاکہ لوگ قانونی خامیوں کا سہارا لے کر خودکار اسلحہ نہ خرید سکیں۔
اسی دن ٹیکساس ریاست کے قصبے برائین میں فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور پانچ زخمی ہونے کی خبر بھی میڈیا پر گردش کر رہی تھی۔ علاقے کی ایک فیکٹری میں ہونے والے اس واقعے میں ملزم نے جدید اسلحہ کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں پر فائرنگ کی تھی۔
صدر نے جن اقدامات کا اعلان کیا ان میں سے ایک طریقہ کار کے تحت لوگوں کو مختلف حصے خرید کر رائفل بنانے سے روکنا بھی ہے جس پر قانونی لحاظ سے کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پستول کو رائفل میں تبدیل کر کے مزید مہلک بنانے پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے جس کے ذریعے عوامی مقامات اور سکولوں میں فائرنگ کر کے سینکڑوں لوگوں کو قتل کرنے کے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔
ریاستوں کو یہ قانونی حق بھی دیا جا رہا ہے کہ وہ مشتبہ افرادکے اسلحہ رکھنے کے قانونی جواز کو ختم کر سکتی ہیں جسے’ریڈفلیگ قوانین‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ صدر نے کمیونٹی میں تشدد کی روک تھام کے لئے وفاقی اداروں کو نئے پروگرام تشکیل دینے اور فنڈنگ کے اقدامات کا بھی اعلان کیا۔
ملک کے ترقی پسند اور لبرل حلقے عرصے سے ان پابندیوں کا مطالبہ کر رہے تھے اور اب یہی حلقے ان اقدامات کو ناکافی قرار دے رہے ہیں۔ دوسری جانب موجودہ انتظامیہ انہیں اسلحے پر پابندیوں کا صرف پہلا قدم کہہ رہی ہے۔
اگرچہ امریکیوں کی ایک بڑی تعدادان اقدامات کے حق میں ہے تاکہ ملک میں عوامی جگہوں پر قتل عام کے بڑھتے ہوئے واقعات کا خاتمہ ہو سکے لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے کیونکہ امریکہ کی دو بڑی جماعتیں اس موضوع پر ایک پلیٹ فارم پر کھڑی نظر نہیں آتیں۔
صدر جوبائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی شروع دن سے اسلحہ کی تیاری اور اس کی فروخت پر پابندیوں کے حق میں ہے لیکن رجعت پسند رپبلکن پارٹی اسلحہ ساز صنعتوں اور طاقتور اداروں کے حقوق کی حفاظت کی خاطر ان پابندیوں کے خلاف ہے۔
حال ہی میں امریکی ایوانِ نمائندگان میں، جہاں برسر اقتدار پارٹی کی اکثریت ہے، دو بل پاس کئے گئے ہیں جن کے تحت اسلحہ خریدنے والوں کے سابقہ رویوں اور ممکنہ جرائم کا ریکارڈ دیکھا جائے گا۔ دوسرے بل کے ذریعے اس ریکارڈ کی چھان بین کا عرصہ تین دن سے بڑھا کر بیس دنوں تک کیا جائے گا جو ایک موثر طریقہ کار ہے۔ خیال ہے کہ سینٹ میں ان دونوں بلوں کی ووٹنگ اتنی آسان نہیں ہو گی جہاں دونوں پارٹیوں کے نمائندوں کی تعداد برابر ہے۔
سوال یہ ہے کہ حالات اس نہج تک کیوں کر پہنچے کہ عوامی دباؤ کے باوجود اس قسم کے تشدد کے واقعات پر قابو نہیں پایا جا سکا؟ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں گزشتہ کئی برسوں سے فائرنگ کے واقعات میں معصوم لوگوں اور طالب علموں کی جانیں ضائع جا رہی ہیں۔ اس سال اب تک فائرنگ کے 120 واقعات میں 131 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
پچھلے سال فائرنگ کے ذریعے تشدد کے 578 واقعات ہوئے جب کہ 2019ء میں 417 واقعات ہوئے تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے کرونا کی وبا کا عمل دخل بھی ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہوئی اور ان کی نفسیاتی پیچیدگیوں میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ واقعات ایک لمبے عرصے سے جاری ہیں اور پچھلے سات سالوں میں ان میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیاہے (صرف دوسالوں کے علاوہ جن میں ان جرائم کی تعداد قدرے کم رہی)۔ 2016ء میں اس قسم کے 269 واقعات ہوئے تھے اور جب سے اب تک سینکڑوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔
ملک میں اسلحہ کا استعمال کئی اقسام کے جرائم میں ہوتا ہے جن میں نفسیاتی محرکات، خودکشی، سماجی تصادم، سکولوں میں فائرنگ اور عوامی مقامات پر ہلاکتیں شامل ہیں۔ ان میں لوگوں کے ہجوم پر اسلحے کا استعما ل اور سکولوں میں تشدد کے دوران بیشتر ہلاکتیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ عوامی مقامات پر فائرنگ کے ذریعے سب سے زیادہ لوگ شاپنگ مال اور دکانوں میں ہلاک ہوتے ہیں حالانکہ عام تاثر یہ ہے کہ سکولوں میں فائرنگ سے سب سے ذیادہ ہلاکتیں ہوتی ہیں۔
عالمی سطح پر امریکہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں فائرنگ کے واقعات میں سب سے آگے ہے جن میں فرانس، جرمنی اور آسٹریلیابھی شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر ممالک میں اسلحے کی عام لوگوں تک رسائی پر سخت قوانین موجود نہیں ہیں۔ لیکن لاطینی امریکہ کے کئی ترقی پذیر ممالک میں اس قسم کے جرائم کی تعداد امریکہ کے مقابلے میں ذیادہ نظر آتی ہے۔
اور قریب سے تاریخی پس منظر کا تجزیہ کیا جائے تو یہ مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ امریکی آئین کی دوسری ترمیم کے تحت لوگوں کو اسلحہ رکھنے کے حقوق حاصل ہیں۔ یہ ترمیم اٹھارویں صدی سے چلی آ رہی ہے جس زمانے میں پر تشدد گروہوں کی جانب سے لوگوں کے جان و مال کو خطرات لاحق تھے اور اسی لئے انہیں اپنے دفاع کے لئے اسلحہ رکھنے کا حق حاصل تھا۔ اب یہی آئینی شق ان حلقوں کی بنیادی توجیح بلکہ جذباتی دفاع کا ایک جزو بن چکی ہے جو اسلحہ رکھنا اپنا آئینی حق سمجھتے ہیں۔ یہی آئینی جواز اسلحہ ساز فیکٹریوں اور رطاقتور لابی گروپ ’نیشنل رائفل ایسوسی ایشن‘ کا موثر حربہ بھی ہے۔
’وائلنس پالیسی سنٹر‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ:
’نیشنل رائفل ایسوسی ایشن‘ کو اسلحہ بنانے والی کمپنیز امونیشن اور ان سے متعلق آلات کی فروخت میں شامل اداروں کی جانب سے کئی ملین ڈالر دئے جاتے ہیں۔ ان صنعتوں کے اعلیٰ عہدہ داران اس ادارے کے بورڈ کے رکن ہیں اور اس کی فنڈنگ اور ادارے کی کارکردگی کا مکمل حصہ ہیں۔ عملی طور پر یہ سب ایک مقصد کے تحت ہورہا ہے یعنی اسلحہ ساز اداروں کو مزید فعال بنایا جا سکے اور اسلحہ کی فروخت میں اضافہ کیا جائے۔“
اس سیاسی کھیل کے پس منظر میں کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ صرف اسلحہ کے حصول پر پابندیاں عائد کر کے ہی تشدد کے واقعات پر قابو پایا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے کئی محققین نے کام کیا ہے تاکہ سیاسی بیانیوں سے قطع نظر یہ دیکھا جائے کہ آیا مباحثے کے دونوں فریقین کہاں تک صحیح ہیں۔
یونیورسٹی آف مسوری، کولمبیا کے دو محققین نے ایک طویل عرصے پہ محیط تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ اسلحہ کی فروخت پر قانونی پاندیوں سے جرائم میں کمی ہو سکتی ہے کہ نہیں؟ تحقیق کے نتائج کچھ اس طرح تھے:
”کہا جا سکتا ہے کہ اسلحے کے حصول پر سخت پابندیوں کے ذریعے کچھ حد تک تو جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن ہماری تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کے بیانیے پوری کہانی بیان نہیں کرتے۔ اس کے برعکس اسلحے پر پابندیوں کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کی سطح پر یا انفرادی بنیادوں پر لوگوں کی تعلیم و تربیت اس مسئلے کی روک تھام میں ذیادہ موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔“
تحقیقی نتائج سے یہ اخذکیا جا سکتا ہے کہ جن ریاستوں میں اسلحے پر پابندیاں ہیں ضروری نہیں کہ وہاں جدید اسلحے کے ذریعے لوگوں کی جان و مال کاتحفظ بھی کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میری لینڈ، کنکٹی کٹ اور کیلیفورنیا جیسی ریاستوں میں جہاں سخت پابندیا ں عائد ہیں، اس قسم کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں۔
تو کیا یہ کہنا درست ہے کہ خودکار رائفل اور جدید اسلحے پر پابندیوں کے ذریعے کچھ حد تک تو جرائم میں کمی ہو سکتی ہے لیکن ان پر مکمل طور پر قابو پانا ممکن نہیں؟ دراصل ان جرائم پر قابو پانے کے لئے قانونی پابندیاں اور کمیونٹی میں جرائم کی روک تھام دونوں قسم کے اقدامات ضروری ہیں۔ امریکہ میں مقبول بیانیوں نے سماجی اور کمیونٹی کی سطحوں پر ٹھوس اقدامات پر سنجیدگی سے نہیں غورنہیں کیا۔
محققین نے درج ذیل اقدامات کے ساتھ ساتھ اسلحے کی تیاری اور ان کی خرید و فروخت پر بھی زور دیا گیا ہے:
اؤل تو یہ کہ پولیس اور سماجی کارکنوں میں تعاون کی شدید ضرورت ہے۔ ان علاقوں میں جہاں غربت اور بے روزگاری موجود ہے صرف پولیس کی موجودگی ہی نہیں بلکہ سکیورٹی کے اداروں کا عام لوگوں سے تعاون فائرنگ کے واقعات میں موثر ثابت ہو سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سماج کے اہم اداروں، جن میں صحت عامہ، مذہبی مراکز اور سماجی تنظیمیں شامل ہیں، سے انتظامیہ اور سکیورٹی کے اداروں کا تعان جرائم میں خاصی حد تک کمی کر سکتا ہے۔ ان اداروں کے تعاون سے لوگوں کی تربیت، جدید تکنیک کے ذریعے جرائم کا پیشگی سراغ لگانا اور اداروں کی فنڈنگ جیسے اقدامات سے کسی حد تک لوگوں کی جان و مال کاتحفظ کیا جا سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ذہنی امراض کا تعلق فائرنگ کے واقعات سے کچھ حد تک ضرور ہے۔ ملک میں فائرنگ کے ذریعے لوگوں کی ہلاکتوں کے تقریباً تیس فیصد جرائم کا تعلق، جن میں اسلحہ استعمال کیا جاتا ہے، لوگوں کی نفسیاتی بیماریوں اور ذہنی امراض سے ہے۔ صحت عامہ کے اداروں کے ذریعے ان نفسیاتی عوامل کا مناسب علاج ممکن ہو سکتا ہے جس سے ان جرائم میں کمی ہو سکتی ہے۔
ان سب کے علاوہ سب سے بڑا مسئلہ سماج میں امیر اور غریب طبقوں کے درمیان آمدنی کی بڑھتی ہوئی خلیج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غربت اور بے روزگاری کے بد ترین دنوں میں سماجی جرائم میں اضافہ دیکھا گیا ہے لیکن بد قسمتی سے ملک کی دونوں سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ان سماجی مسائل پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ سماجی اور اقتصادی مسائل پر توجہ دئے بغیر اسلحے کے زور پر عام لوگوں اور خصوصاً اقلیتوں کے خلاف تشددپر قابو پانا ناممکن ہے۔
امریکہ میں جدید اسلحے کے استعمال کے ذریعے تشدد کے واقعات ایک تشویشناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ یہی وہ دور بھی ہے جہاں اقتصادی بدحالی، غربت اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کے اس نظام میں نشانہ یا تو غریب عوام یا پھر اقلتیں بن رہی ہیں۔ اس صورت حال میں لوگ سوال کر رہے ہیں کہ اسلحے کی صنعتوں کے منافع بخش کاروبار کے تحفظ کے لئے جمہوریت کے اصل حصہ داروں کی زندگیوں کو کب تک داؤں پر لگایا جاتا رہے گا؟
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔