قیصر عباس
امریکی صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں وزارت خارجہ میں اپنی پہلی تقریر میں انسانی حقوق اور جمہوریت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا:
”یہی اہم معلوم ہوتاہے کہ ہم اپنی سفارتی سرگرمیوں کو جمہوری روایات کی بنیاد قرار دیں جن میں آزادی کا دفاع، زندگی میں ترقی کے نئے مواقع، بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حقوق، قانون کی پاسداری اور ہر شخص کی عزت ِنفس کا اعتراف شامل ہیں۔“
صدر نے اپنے خطاب میں جمہوری روایات اور انسانی حقوق کو امریکہ کی نئی خارجہ پالیسی کی بنیاد قرار دیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے لئے عالمی تعلقات میں اقدار اور نظریاتی اساس کو ہمیشہ سے اہمیت دی جاتی رہی ہے خواہ یہ صرف بیانیوں کی حد تک ہی کیوں نہ ہو۔ کیا اس کا یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی نئی حکومت سابق صدر ٹرمپ کی ’امریکہ سب سے پہلے‘ کی خارجہ پالیسی کو خیر باد کہنے کے لئے تیار ہے؟ اگر یہ درست ہے تو اس نئی حکمت عملی کا اثر دنیا کے سب سے اہم خطے مشرق وسطیٰ پر کیا ہو سکتا ہے جو تاریخی اعتبار سے ہمیشہ بین الاقوامی کشیدگیوں کا محور رہا ہے؟
اس تجزیے میں مشرق وسطیٰ کی چار اہم کشیدگیوں کا جائزہ لیا گیا ہے: ایران اور امریکہ کے مابین نئے ایٹمی مذاکرات اور علاقائی سالمیت، یمن میں انسانی حقوق اور قیام امن، اسرائیل میں فلسطینیوں کے حقوق اور شام میں جاری خانہ جنگی۔
ایران اور علاقائی تحفظ
موجودہ امریکی انتظامیہ نے حال ہی میں استنبول کے سعودی سفارت خانے میں سعودی صحافی جمال خوشقجی کے بے درددانہ قتل پر ایک خفیہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں واضح طور پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اس قتل کاذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے اجرا سے خطے میں انسانی حقوق کے نئے پیمانے معین کیے گئے ہیں اور اسی کے ساتھ سعودی سکیورٹی کے اہم ارکان پر پابندیاں بھی عائدکی گئی ہیں۔
لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کو قتل کا ذمہ دار قرار دینے کے باوجود ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اس امیر عرب ریاست سے اپنے سفارتی تعلقات بگاڑنا بھی نہیں چاہتا۔ اس کے باوجود امریکہ نے اس اقدام سے خطے میں سعودی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے جس کے نتیجے میں علاقائی تحفظ کے لئے اس کی اہمیت پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔
خطے کے تحفظ کا براہ راست تعلق ایران کے جوہری پروگرام سے بھی ہے جو عرب ریاستوں کی نظر میں علاقے کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس پس منظر میں سعودی عرب علاقائی تحفظ کے لئے کن پہلووں پر متفکر ہے اور ان کے حل کے لئے کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟
ایران اور امریکہ کے درمیان 2015ءمیں ہونے والے ایٹمی معاہدے میں، جن میں کئی یورپی ممالک بھی شامل تھے، صدر بائیڈن کی انتظامیہ کے کچھ ا ہم عہدے داروں کی کوششیں بھی شامل تھیں جو اس وقت صدر ابامہ کی انتظامیہ کا حصہ تھے۔ وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلوین ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے ایران کے ساتھ معاہدے کے مذاکرات میں حصہ لیا تھا اور اس طرح وہ خود اس معاہدے کو زندہ رکھنے میں سنجیدہ نظر آتے ہیں۔
لیکن ایران کے ساتھ مذاکرات اتنے بھی سہل نہیں ہیں کیونکہ دونوں ملکوں میں اس کی خاصی مخالفت کی جا رہی ہے۔ ایران میں جون میں نئے انتخابات ہونے والے ہیں جن میں صدر حسن روحانی کو، جو اس معاہدے کے حامی ہیں، معتدل حلقوں کی حمایت حاصل ہے لیکن رجعت پسند سیاسی دھڑے کی جانب سے انہیں مخالفت کا سامنا ہے۔ اس سے پہلے کہ رجعت پسند حلقے اقتدار میں آئیں، دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر آنا ضروری ہے۔
دوسری طرف امریکہ میں بھی کچھ سیاست دان اس معاہدے کے خلاف ہیں جن کا کہنا ہے کہ ایران پر عائد پابندیوں کو ہر صورت میں جاری رہنا چاہئے۔ کانگریس میں رپبلکن پارٹی کے اکثر سرکردہ رہنما نہیں چاہتے کہ امریکہ ایران معاہدے کو دوبارہ زندگی ملے۔ ادھر ایران مذاکرات سے پیشترتمام پابندیوں کو ختم کرانا چاہتا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ ایران نے نہیں، امریکہ نے معاہدے کو خیرباد کہا تھا اور اسے ہی معاہدے کو بحال کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔
حال ہی میں نطنز میں ایران کے جوہری افزودگی کے مرکز پر سائبر حملے میں اسے خاصا نقصان پہنچایا گیا ہے اور ایران نے اس کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا ہے جب کہ امریکہ نے کہا ہے کہ حملے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ مبصرین کے خیال میں اسرائیل اس حملے کے ذریعے مذاکرات میں خلل ڈالنا چاہتا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مذاکرات میں شامل فریقین ان ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف ہیں اور بات چیت کو آگے بڑھانے میں سنجیدہ نظر آتے ہیں۔
اس صورت حال میں ایران اور امریکہ نے یورپی ممالک کی ثالثی قبول کرتے ہوئے مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے لیکن یہ کہنا بھی درست ہے کہ دونوں فریقوں کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔
یمن میں انسانی حقوق اور قیام امن کے امکانات
یمن کا موجودہ بحران جس میں حوثی جنگ جووں اور سعودی حمایت یافتہ لیڈر منصور ہادی کے درمیان جنگی تصادم سے انسانی حقوق اور غریبوں کی حالت زار مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ کرونا وائرس نے ملک کی غربت، تشدد اور بھو ک کے مسائل کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
سابق صدر ٹرمپ نے سعودی تعلقات کو اہمیت دیتے ہوئے نہ صرف یمن میں جاری خانہ جنگی پر آنکھیں بند کر لیں بلکہ اس میں سعودی کردار کو تقویت دیتے ہوئے اس سے جنگی سامان اور طیاروں کی فروخت کے معاہدے بھی کئے۔ نتیجے کے طورپر یمن ایک عرصے سے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے جہاں بنیادی سہولتوں کی فراہمی عوام اور خصوصاً بچوں کے لئے عذاب بنی ہوئی ہے۔
اس کے مقابلے میں جو بائیڈن کی انتظامیہ یمن میں حالات کو معمول پر لانے کے لئے نئی پالیسیوں پر عمل درآمد کر رہی ہے۔ اس نئی خارجہ پالیسی کے تین بڑے اہداف ہیں: ملک میں سعودی حملوں کے خاتمے کے لئے سعودی عرب کی سرپرستی سے احتراز، حوثی قبائلیوں کو ’فارن ٹیررسٹ آرگنائزیشن ‘ کی فہرست سے نکالنا اور فریقین کے درمیان ثالثی کے ذریعے بات چیت کا آغاز۔
جو بائیڈن کی انتظامیہ کو اس نئی پالیسی پر کئی یورپی ممالک کی حمایت حاصل ہے جن میں فرانس، جرمنی اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ یمن کے حالات سدھارنے کے لئے اپنا کردار اداکرنے کے لئے سنجیدہ ہے۔ حوثی قبائل کے مفادات کے تحفظ کے لئے ایرانی تحفظات ، علاقائی سکیورٹی کے لئے عرب ممالک کی تشویش اور یمن میں امن کے قیام میں رکاوٹیں امریکہ کے لئے چیلنج ثابت ہو سکتی ہیں۔
اسرائیل میں فلسطینیوں کے انسانی حقوق
سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا کہ جو بائیڈن سابق صدر ابامہ کی پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے اسرائیل کی فلسطینی علاقوں میں تجاوزات کی مخالفت اور فلسطینی حقوق اور دیگر مسائل کے حل کے لئے موثر پالیسی وضع کریں گے۔ لیکن لگتا ہے کہ ابھی تک نئی انتظامیہ اسرائیل کی مخالفت لینے کو تیار نہیں ہے۔ شاید اس کی وجہ امریکہ میں ایک مضبوط اسرائیلی لابی ہے جو ملک کی سیاست، میڈیا اور اقتصادی ڈھانچے میں انتہائی طاقتور کردار اداکرتی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ امریکی سفارتی خانے کو تل ابیب میں دوبارہ منتقل نہیں کریں گے جسے اسرئیلی حکومت نے یروشلم منتقل کر دیا تھا جو ایک فلسطینی علاقہ ہے۔ فسطینیوں کے لئے یہ ایک اصولی مسئلہ ہے جس کا مطلب اسرائیل کے تسلط کو فلسطینی علاقوں میں تسلیم کر لیا جائے۔
دوسرا یہ کہ اسرائیل مسلسل فلسطینی علاقوں پر تجاوزات قائم کر رہا ہے۔ غرب اردن میں اسرائیلی آبادیوں کو مزید بڑھایا جا رہا ہے اور علاقے کے فلسطینی باشندوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ (ڈپارٹمنٹ آف سٹیٹ) نے ان اقدامات کے خلاف کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ’ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ‘ نے حال ہی میں فلسطینی باشندوں کے خلاف اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے اور ایہ اقدام سابق صدر ٹرمپ کے اقدامات سے کچھ مختلف نہیں ہے جنہوں نے کورٹ کے وکیل پر وہ پابندیاں عائد کر دی تھیں جو عموماً دہشت گردوں پر لگائی جاتی ہیں۔
اگرچہ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مسائل پر امریکی خارجہ پالیسی کیا رخ اختیار کرے گی لیکن اب تک واشنگٹن کے رویے سے یہ انداہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا!
شام کا بحران
شام مشرق وسطیٰ کا ایک گمبھیر ترین بحران ہے۔ بحران کا آغاز خطے میں نوجوانوں کی تحریکوں سے ہوا جس نے کئی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اگرچہ دوسرے ملکوں میں ان تحریکوں پر اندرونی، علاقائی اور عالمی طاقتوں کی مدد سے قابو پا لیا گیا لیکن شام میں اس تحریک نے اندرونی سول خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی جس میں اب کئی گروہ اور بین الاقوامی طاقتیں شامل ہو چکی ہیں۔
القاعدہ، حزب اللہ، کرد اور داعش سمیت دنیا کے کئی ممالک اب شام کی اس جنگ میں شریک ہیں جن میں ترکی، روس، ایران اور امریکہ بھی شامل ہیں۔ اس صورت حال نے ملک کی اقتصادی، سیاسی اور سماجی زندگی کو تباہ کر دیا ہے اور عملی طور پر قصبے اور شہر کھنڈر بن گئے ہیں۔
شام کی اس خانہ جنگی نے تقریباً نصف ملین لوگوں کی جانیں لی ہیں، 23 ملین بے گھر ہو گئے ہیں اور 5 ملین لوگوں نے دوسرے ملکوں میں پناہ لے لی ہے۔ ملک اب جنگی گروہوں، غیر ملکی ملیشا اور شام کی فوج کے درمیان کئی حصوں میں بٹ چکا ہے۔ القائدہ کے تحت کام کرنے والے ایک گروہ نے شمال مغربی ادلب صوبے کا کنٹرول سنبھال رکھا ہے۔ ترکی کا ایک حمایت یافتہ گروپ سرحدی علاقوں کی پٹی پر قابض ہے اور امریکی امداد کے سہارے کرد جنگ جو شمال مشرقی علاقوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ باقی ماندہ ملک پر صدر اسد کی سکیورٹی فورس کا کنڑول قائم ہے۔
اس خونریزی کے باوجود شام کے آمر بشر الاسد اب تک ملک پر حکومت کر رہے ہیں لیکن ملک کے جن قدرتی وسائل پر ان کی اقتصادی ساکھ قائم تھی اب تباہ ہو گئی ہے۔ ان حالات کے مد نظر زیادہ تر امکان یہی ہے کہ شام کا یہ بحران آنے والے وقت میں جاری رہے گاجب تک امریکہ ، اس کے اتحادی اور دوسری طاقتیں خطے کی خارجہ پالیسی میں اپنی سمت معین نہ کر لیں۔
مشرق وسطیٰ کا بحران ا ور امریکی خارجہ پالیسی
سابق صدر ٹرمپ نے اپنی ترجیحات کے لئے مشرق وسطیٰ کے بحران میں جنگی جنون اور سیاسی چپقلش کو مزید ہوا دی تھی۔ انہوں نے خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب کو خطے کی سکیورٹی کے احساس کو بڑھاتے ہوئے ایک طرف تو اسرائیل سے قریب کیا اور دوسری طرف امریکی اسلحہ کی فروخت کی راہیں بھی ہموار کیں۔
ان کی کوششوں سے کچھ عرب، خلیج اور افریقی ریاستوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کئے۔ بحرین، متحدہ عرب امارات، سوڈان اور مراکش کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کئے جن کے بدلے میں انہیں مختلف طریقوں سے نوازہ گیا۔
متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے امریکہ کے جدید جنگی اسلحہ اور لڑاکا ہوائی جہازوں کی فروخت کے معاہدے کئے گئے۔ سویڈن میں ’سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ‘ کے اعداد و شمار کے مطابق خطے میں سعودی عرب کی اسلحے کی درآمد میں 61 فیصد اضافہ، مصر میں 136 فیصد اور قطر میں 361 فیصد اضافہ ہوا۔
ان رجحانات کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ عرب ممالک اور دوسرے مسلمان ملکوں کی سکیورٹی کے خدشات کے تحت ایران اور ان ملکوں کے درمیان کشمکش مزید بڑھ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان ملکوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بھی تیزی آئی ہے اور آمروں کے سخت گیر رویوں سے جمہوریت کے قیام کے امکانات اب اور کم ہوتے جا رہے ہیں۔
ان سب مسائل کے علاوہ دوسرے ملکوں میں شام کے تارکین وطن میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی افواج کی علاقے میں موجودگی یا ان کے انخلا کے فیصلے امریکی خارجہ پالیسی اور مشرق وسطیٰ کے لئے اہم ہوں گے۔ ایک اور چیلنج ایران کے جوہری پروگرام کی روک تھام اور اس کے نتیجے میں خطے میں ایٹمی ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو کم کرنا بھی امریکی پالیسی کے لئے اہم مسائل ہوں گے۔
خطے کے ان گو نا گوں مسائل کے پیش نظر امریکہ اپنی خارجہ پالیسی کے نئے اہداف، جمہوری روایات کا احترام اور انسانی حقوق کی پاسداری، کو مقدم رکھنے میں کہاں تک کامیاب ثابت ہو سکتا ہے؟ امریکی وزارت خارجہ کی اب تک کی کوششوں اور بیانات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے یہ اہداف یمن اور سعودی عرب میں کسی حد تک حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں کے بارے میں امریکہ کی پالیسیاں واضح اور دوٹوک نظرآ رہی ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل میں فلسطینی باشندوں کے حقوق کے تحفظ لئے ابھی تک کوئی امریکی حکمت عملی سامنے نہیں آئی اور فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی تجاوزات کی توسیع کے بارے میں بھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
شام میں بڑھتی ہوئی کشیدگی میں امریکہ کی دلچسپی اگرچہ کم نہیں ہوئی لیکن وزیر خارجہ بلنکن کا یہ کہنا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی عمل دخل میں اضافے کے بجائے اس میں کمی کی جا سکتی ہے اہمیت کا حامل ہے۔
امریکہ کی نئی خارجہ پالیسی میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے نئے عوامل پر کہاں تک عمل درآمد ہو سکتا ہے؟ اس سلسلے میں صدر بائیڈن کا یہ بیان اصل صورت حال کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے جو انہوں نے ڈپارٹمنٹ آف سٹیٹ کی اسی تقریر میں کیا تھا جس کا شروع میں ذکر کیا جاچکا ہے:
”ہماری قیادت کے لئے ضروری ہے کہ وہ عالمی سطح پر آمرانہ رویوں کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ کے مقابلے میں چین کے بڑھتے ہوئے عزائم اور روس کے ان ارادوں پر نظر رکھیں جن کے ذریعے وہ جمہوری اقدار کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔“
امریکہ کی نئی خارجہ پالیسی کی ان ترجیحات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ عالمی سیاست سرد جنگ کے ایک نئے دور کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس پس منظر میں اندیشہ تو یہی ہے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کا نیا امریکی منترہ سفارتی بیانیوں سے آگے نہیں جا سکے گا!
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔