ڈاکٹر علی مدیح ہاشمی
کافرِ عشقم مسلمانی مرا درکار نیست (امیر خسرو)
امیر خسرو نے یہ شعر شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کے لئے نہیں لکھا تھا لیکن اقبال پر یہ شعر صادق آتا ہے۔ آج ان کا یوم وفات ہے۔ ان کی فلسفیانہ حکمت آج بھی لاکھوں لوگوں کےلئے مشعلِ راہ ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ گو اقبال کو ”مفکرِ پاکستان“ اور ”حکیم الامت“ جیسے بھاری بھر کم خطابات سے نوازا گیا پھر بھی عام آدمی کے دل میں ان کا اصل مقام ان کی شاعری کی وجہ سے ہی ہے۔ اسی لئے یہ بات اور بھی حیران کن ہے کہ شاعری کے بارے میں اقبال کا رویہ کافی متضاد تھا۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں ”میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا…فنِ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی: ہاں، بعض مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کےلئے اس ملک کے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے ۔“
ان کی شاعری میں دلچسپی ( جیسے کہ انہوں نے کہا ) صرف اس حد تک تھی کہ اسے اپنی سوئی ہوئی قوم کو جھنجھوڑنے کی خاطر استعمال کریں۔ ان کے خطبہ الٰہ آباد کے تاریخی موقع پر، جب کچھ طلبہ نے ان سے شعر کہنے کی فرمائش کی تا کہ محفل کے مغموم ماحول کو کچھ ہلکا کیا جائے تو اقبال نے ان کو ڈانٹ کر کہا کہ وہ اپنا قیمتی وقت اور توانائی شاعری سے بہتر کسی کام میں صرف کریں۔ اس کے علاوہ، اقبال کی تاریخ، خاص کر اسلامی تاریخ پر گہری نظر تھی اور انہیں اس بات کا بلا شبہ علم تھا کہ شعرا کو تاریخی طور پر لوگ مشکوک نگاہوں سے دیکھتے چلے آئے ہیں اور ان پر یہاں تک الزامات لگائے گئے ہیں کہ وہ باطنی قوتوں سے رابطہ رکھتے ہیں ۔ قدیم زمانوں میں جزیرہ نماُ عرب میں” کاہن“ کا نام ان اشخاص کو دیا جاتا تھا جو معاوضے کے عوض بے خودی کی حالت میں آسمانی پیغام لوگوں تک پہنچانے کا دعویٰ کرتے تھے۔
اقبال کی شخصیت اور سوچ کا تضاد ایک حسین نمونہ ہے۔ ان کی شاعرانہ سوچ پر مغربی مفکّرین مثلاً ”نتشے ( Nietzsche ) گوئٹے (Goethe) اور برگسن (Bergson) کی گہری چھاپ ہے اور ان کا مسلمانانِ ہند کے علیحدہ دیس کا تصور جو انہوں نے 1930ءمیں اپنے خطبہ الہٰ آباد میں پیش کیا اس خونی حقیقت سے بالکل مختلف تھا جو 1947ءمیں ان کی وفات کے نو سال بعد معرض وجود میں آئی۔ 1922ءمیں برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم نے انہیں ”سر“ کے خطاب سے نوازا اور ان کا خطاب ”حکیم الامتّ“ بیسویں صدی کے دینی مصلح اور دارالعلوم دیوبند کے عالم مولانا شاہ اشرف علی تھانوی کا خطاب بھی تھا ۔ اقبال، جو علما حضرات سے خاص متاثر نہ تھے، اپنے شعر میں شاید اسی تضاد پر طنز کر رہے ہیں:
مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادئہ ناب
نہ مدرسے میں ہے باقی، نہ خانقاہ میں ہے
اقبال فلسفائے ”فن برائے فن“ کے شدید مخالف تھے۔ ان کی زندگی ”عمل“ کی تلقین کےلئے وقف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ” مفکر اقبال“ اور” فلسفی اقبال“ کا رتبہ پاکستان میں اتنا ہی بلند ہے جتنا ©”شاعر اقبال“ کا (نثری تحروں میں ان کی ایک اردو تحریر” علم اقتصاد“ اور دو انگریزی تحریریں” Development of Metaphysics in Persia “ جو ان کی میونخ (Munich ) یونیورسٹی کی پی ۔ ایچ ۔ ڈی تھیسس بھی تھی اور ان کی مشہور زمانہ ”Reconstruction of Religious Thought in Islam“ شامل ہیں)۔
ان کی فلسفیانہ حکمت کے باوجود ان کی شاعری ہی ہے جس نے اقبال کو تاریخ کے تیزی سے پلٹتے ہوئے صفحات سے اٹھا کر ان کے ہم وطنوں کے دلوں میں لا بٹھایا ‘ جیسا کہ ”زبورِ عجم“ میں انہوں نے دعا کی تھی :
خاکم بہ نورِ نغمہ داﺅد بر فروز
ہر ذرئہ مرا پر و بال ِ شرر بدہ
(اس خاک کو داﺅد علیہ السلام کے نغموں سے منور کر دے۔ مرا ہر ذرہ چنگاری پر سوار آسمان پر بلند ہو جائے)
وہ ایک کشمیری برہمن خاندان میں پیدا ہوئے جنہوں نے تین سو سال قبل اسلام قبول کیا تھا۔ ان کا گھرانہ ایک روایتی مذہبی گھرانہ تھا اور ان کے والد شیخ نور محمد ایک درویش صفت کاریگر تھے جو ٹوپیاں بناتے تھے ۔ ان کے والد کا رجحان ہمیشہ سے تصوف کی جانب تھا۔ اقبال کی ابتدائی تعلیم ممتاز استاد، سیالکوٹ سکاچ مشن سکول کے عربی کے پروفیسر سید میر حسن کی زیر نگرانی ہوئی۔
ان کی روحانی پرورش میں سید میر حسن کے کلیدی کردار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی سال بعد جب اقبال کو حکومت برطانیہ نے ”Knighthood“ سے نوازا تو انہوں نے یہ اعزاز صرف اس شرط پر قبول کیا کہ سید میر حسن کو” شمس العلما“ کا خطاب دیا جائے۔ کچھ سال بعد اقبال کے اسی محبوب استاد نے ایک اور شاعر کی تربیت کا بیڑا اٹھایا جن کا تعلق بھی سیالکوٹ سے تھااور جو بعد میں اقبال میں شعری جانشین قرار پائے یعنی فیض احمد فیض۔
گورنمنٹ کالج لاہور سے 1897ءمیں بی اے اور پھر 1899ءمیں عربی اور فلسفہ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر کے اقبال اورینٹل کالج سے منسلکہ پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرار مقرر ہوئے اور 1905ءتک وہاں رہے۔
شعر و شاعری وہ پہلے ہی شروع کر چکے تھے۔ بچپن وہ اپنی نظمیں مرزا داغ دہلوی کو اصلاح کےلئے بھیجا کرتے تھے جو انہیں یہ لکھ کر واپس بھیج دیتے تھے کہ نظمیں بہترین ہیں، اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں۔ 1905ءمیں اقبال نے اپنے ایک اور محبوب استاد اور مایہ ناز مستشرق (Orientalist)، سر تھامس آرنلڈ کے مشورے پر یورپ سے اعلیٰ تعلیم کی ٹھانی۔ انہوں نے کل تین سال یورپ میں گزارے۔ پہلے کیمرج یونیورسٹی کے ٹرینیٹی (Trinity) کالج سے بیچلرز اور پھر میونخ یونیورسٹی سے 1908ءمیں پی ایچ ڈی کی۔
اسی دوران 1906ءمیں کیمبرج سے قانون کی ڈگری بھی حاصل کی۔ انگلستان میںہی پہلی دفعہ آل انڈیا مسلم لیگ کی برطانوی کمیٹی میں شامل ہو کر عملی سیاست کا آغاز کیا۔ ہندوستان واپسی پر بھی وہ سیاست میں شامل رہے اور 1927ءمیں پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس تمام عرصے میں وہ صوبائی خود مختاری اور مسلمانوں کے علیحدہ رائے شماری کے بھرپور حامی ہے۔
یورپ میں ہی انہوں نے عشق کی دنیا میں قدم رکھا۔ ان کی شادی کچھ عرصہ پہلے ہو چکی تھی جس سے ان کے دو بچے، آفتاب اور معراج موجود تھے لیکن ان کی ازدواجی زندگی پر مسرت نہ تھی۔ لندن میں ان کی ایک حسین اور انتہائی ذہین مسلمان لڑکی عطیہ فیضی سے محبت اور پھر جرمنی میں ان کی فلسفہ کی استاد ایما ویگناسٹ (Emma Wegenast) سے ان کی قربت تشنہ رہی۔ اس کے بعد انہوں نے دو شادیاں کیں اور دوسری شادی سے ان کے دو بچے جاوید اور منیرہ پیدا ہوئے۔ بعد ازاں، اپنے ایک ذہین طالب علم، ایم ڈی تاثیر کو انہوں نے یورپ جانے سے پہلے رائے دی کہ وہ کسی یورپین لڑکی سے ہی شادی کریں۔ اس رائے کے نتیجے میں تاثیر اور ان کے بہنوئی فیض احمد فیض نے دو برطانوی بہنوں سے شادیاں کی۔
یہ بات کچھ حیران کن ہے کہ اقبال مغرب کے بارے میں اس سختی سے لکھتے رہے گو کہ مغربی تعلیم اور مغرب کے فلسفیانہ اور شاعرانہ خیالات نے ان کو بہت کچھ دیا۔ پھر بھی، اقبال مغرب کے اخلاقی اور ذہنی انحطاط کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ انہیں افرنگ کے سرمایہ دار غاصبوں سے سخت نفرت تھی۔ کہتے ہیں:
شرارے جستہ گیراز درونم
کہ من مانند رومی گرم خونم
وگرنہ آتش از تہذیب نو گیر
برونِ خود بفیروز اندروں میر
(میرے اندر سے ایک شعلہ لے
کہ میرا دل رومی کی مانند دکھتا ہے
ورنہ نئی تہذیب سے آگ لے آ
باہر سے سجالے اور اپنی روح کو مار ڈال)
کوئی شاعر اپنے حالات اور اپنے معاشرے سے علیحدہ نہیں رہ سکتا۔ اقبال نے پہلے جنگ عظیم کا خون خرابہ اور اس کے بعد مسلمانوں کی قدیم سلطنت ِعثمانیہ کا زوال اور تنسیخ اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ تحریک خلافت کی ناکامی، جلیانوالہ باغ میں ہونےوالا دلسوز قتل ِعام، سلطنت روس میں زار (Czar) شاہی کا خاتمہ اور تاریخ میں پہلی مزدروں کی حکومت کا قیام اور ہندوستان میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی سماجی اور اقتصادی پسماندگی نے ان پر گہرا اثر ڈالا جس کی بدولت ان کی سو چ کا ایک مرکزی جزو یعنی” وحدة اسلامیہ“ یا ’Pan – Islamism‘ وجود میں آیا۔
جیسا کہ فیض نے لکھا” (اقبال کی سوچ کا فلسفیانہ تضاد) ان تمام عقلی تضادات کی عکاسی کرتا تھا۔ وہ تمام خواب، تمام عزائم جو برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے درمیانے طبقے کے خواب تھے اور اسی وجہ سے ان کی شاعری ترقی پسند طبقے اور قدامت پسند گروہوں میں یکساں مقبول رہی۔ اسی لئے انہیں پاکستان کے قومی شاعر کا خطاب ملا “۔
لیکن یہ اقبال کی شاعری کا آخری دور ہے جس میں انہوں نے انسان کی عظمت اور اس کی تنہائی دونوں وابستہ موضوعات پر بھرپور غور کیا اور یہی ان کی شاعری کا سب سے پختہ اور سنہرا دور تھا۔ جیسا فیض نے لکھا ”یوں لگتا ہے کہ بہت سے متفرق مضامین پر طبع آزمائی کے بعد آخر کار اقبال کو وہ موضوع ملا جو ان کی شاعرانہ قوت کے شایانِ شان تھا“۔ اسی دور میں ان کے پسندیدہ موضوع” خودی“ نے بھی جنم لیا۔ اس دور میں فطرت کی وہ تمام عام اشیا جن کا استعمال انہوں نے پہلے دور کی شاعری میں کیا تھا مثلاً سورج ‘ چاند‘ پھول، یہ تمام فطرت کے حسین نظاروں سے بڑھ کر ایک اور درجہ پا گئے۔ ایسے اشارے جن کا مقصد انسان کو زندگی کا مطلب سمجھانا تھا، اسے کائنات میں اس کا مقام دکھانا تھا۔
شاید یہ اتفاق نہیں ہے کہ اقبال کا پسندیدہ” شاہین“ قدیم مصر کے دیوتا” ہورس“ (Horus) کی علامت بھی تھا جو ظاہر اور باطن کو آپس میں ملاتا تھا۔ یہ شاہین انسان کی قابلیت میں اقبال کے یقین کا مظہر ہے۔ وہ ” مشتِ خاک“ جو ہمہ وقت ایک بے نیاز کائنات سے سرگرداں ہے کہ اپنی زندگی کے معنی دریافت کرے، بیک وقت اپنے حالات اور کبھی خدا سے بھی گتھم گتھا ہے:
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفرید ی ا یاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نو شینہ سازم
رات پیدا تو نے کی پیدا کیا میں نے چراغ
خاک پیدا تو نے کی پیدا کیا میں نے ایاغ
تیری قدرت نے بنائے کوہ و صحرا، دشت و راغ
میری محنت نے بنائے گلشن و گلزار و باغ
سنگ سے میں نے آئینہ پیدا کیا
زہر سے میں نے نوشینہ پیدا کیا
(منظوم ترجمہ از فیض)
اقبال کے آخری ایاّم سخت محرومی کے تھے۔ 1935ءمیں ان کی بیگم وفات پا گئیں، انہیں شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور آخر میں گلے کے شدید مرض سے ان کی آواز جاتی رہی۔ 12 اپریل 1938ءکو اقبال وفات پا گئے۔ ان کے آخری دو کام، ایک انگریزی تصنیف ”ایک گمنام پیغمبر کی کتاب “ اور ہندو صحیفے” رامائن“ کا ترجمہ ادھورے ہی رہے۔
کہتے ہیں انسان کو نظر وہی کچھ آتا ہے جس کی اسے پہلے سے تلاش ہو۔ یہی حال اقبال کا ہے۔ ان کا ہر قاری ’مذہبی ‘ سیاسی یا فرقہ وارانہ تعلق سے قطع نظر ‘ اقبال کے الفاظ میں اپنے دل کی بات ڈھونڈ لیتا ہے ۔ یہ سچ ہے کہ اقبال کی شاعری دینِ اسلام کے سنہرے ماضی کا بڑے فخر سے ذکر کرتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اقبال کی نظر میں” مردِ مومن“ اور” وحدت الا سلامیہ“ کی تعریف اٹل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس مُلّا پر بھی شدید تنقید کرتے ہیں جو صرف حوروں کا وعدہ کرتا ہے۔ اقبال کی شاعری اکثر ادب اور تعظیم کی سرحدوں کو عبور کر جاتی ہے۔ ان کا خدا سے” شکوہ“ سادہ بھی ہے اور دلیر بھی، اس حد تک کہ جب انہوں نے یہ نظم پہلی بار انجمن ِ حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھی تو لوگ ہکابکا رہ گئے۔ ان کی شاہکار نظم” جبریل و ابلیس“ میں شیطان طرّہ بہ طرّہ جبریل کو جواب دیتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ اس کے جواب جبریل کے اعتراضات سے زیادہ قوی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ، بقول وکٹر کیرنن’ گوکہ اقبال کی شاعری” عمل“ کی بہت معنی خیز تلقین سے بھرپور ہے، پھر بھی، اس میں” خیال پسندی“ کا بہت گہرا عنصر ہے اور اکثر جگہ عمل کے ارادے آخر کار آسمانی دعاﺅں کے ساحل سے ٹکرا کر غرق ہو جاتے ہیں‘۔
یہ طے ہوا کہ یہ اقبال کے ساتھ بھی زیادتی ہو گی اور ان کے قارئین کے ساتھ بھی کہ ہم ان کی شخصیت اور فن کے متضاد پہلوﺅں کو ایک ہی طاق میں سمونے کی کوشش کریں ۔ ہمیں اقبال کو بھی وہ چھوٹ دینی پڑے گی جو کہ انسان ہونے کے ناطے ہم اپنے آپ کو دیتے ہیں۔ اقبال کو” ترقی پسند“ یا ”قدامت پسند“ کہنا کوتاہ نظری بھی ہے اور ان کے ساتھ زیادتی بھی۔ ان کے مترجم وکٹر کیرنن نے لکھا ہے:
”1947ءکے ان ہولناک دنوں میں، انُ ہندوﺅں اور مسلمانوں میں، جنہوں نے اپنی جان کی بازیاں لگا کر دوسرے مذہب کے لوگوں کی جانیں بچائیں، کئی ایسے ضرور ہونگے جن کی سانسوں میں اقبال کی شاعری رچی بسی تھی۔ آخر یہ اقبال کی عمر بھر کی تلقین تھی کہ دین کی روح اس کے بےرونی روپ سے بڑھ کر ہے، کہ اُسے ہر لمحہ نیم حکیم اور بدعت کرنےوالے سے خبردار رہنا ہو گا اور یہ کہ ایک قوم کو یا آگے بڑھنا پڑے گا یا مٹ جانا ہوگا۔“
اس مضمون کی تیاری میں ہم کنِگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ فائزہ حمید کے شکر گزار ہیں۔