پاکستان

آزادی اور غلامی

علی مدیح ہاشمی

۔۔۔۔”ارے احمق! اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آدمی کیسے گرتا ہے۔“

”دورِزوال میں،کون کیسے گرا، بہت اہمیت رکھتا ہے۔“

دی لائن اِن ونٹر۔1968

جانِ پدر!

مجھے حال ہی میں فوت ہونے والے ایک انتہائی معزز پاکستانی شہری روئیدادکا مضمون بھیجنے کا شکریہ۔

مذکورہ مضمون میں،ہمیشہ کی طرح خان صاحب نے اس بارے میں انتہائی مدلل اور دل سے لکھا ہے کہ ان کے پیارے ملک کو کیا مشکلات درپیش ہیں۔

یہ کہتے ہوئے کہ میں ان کے دلائل سے زیادہ قائل نہیں ہوسکا،لیکن میں دیکھ سکتا ہوں کہ ایسے مضمون آپ اور پاکستان میں آپ جیسے لاکھوں نوجوانوں کو کیسے متوجہ کرتے ہیں۔

خالی بیان بازی کو ایک طرف رکھ لیں تو کوئی بھی تلخ حقائق سے انکار نہیں کر سکتا۔ ہمارے پاس دنیا کی ایک بڑی نوجوان آبادی ہے۔ ہماری شرح پیدائش بلند ہے، یہ بلند شرح مستقبل قریب میں جاری رہنے کی توقع ہے۔ یہ آبادی ہماری طاقت بن سکتی تھی مگر ایسا نہیں ہو سکے گا۔ ہمارے تعلیمی ادارے وہ ہنر فراہم نہیں کر سکتے جو ہمارے نوجوانوں کو 21ویں صدی میں ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے درکار ہے۔ ہماری کمزور معیشت ایسی ملازمتیں پیدا کرنے سے قاصر ہے جو آپ اور آپ کے دوستوں کو پاکستان میں رہنے پر آمادہ کر سکیں۔

مغرب اور شاید جلد ہی چین اور دیگر ممالک،جو کہ شرح پیدائش میں کمی اور عمر رسیدہ آبادی کے آبادیاتی بحران کا سامنا کر رہے ہیں، اپنی صنعتوں اور کارخانوں کے لیے آپ میں سے زیادہ سے زیادہ افراد کو اپنے ملک لے جانے میں زیادہ دلچسپی لیں گے، اگرچہ یہ آپ کے خاندانوں کیلئے ذاتی دکھ کا باعث ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑا مسئلہ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ جب ہمارا بہترین اور روشن اثاثہ غیر ملکی ساحلوں کے لیے روانہ ہوتا ہے، تو ہمارے ملک کی ترقی کی رفتار نیچے کی طرف جاری رہتی ہے،کیونکہ وہ لوگ جو اپنے دماغ اور اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے بیڑی کو درست سمت میں لے جا سکتے تھے، وہ اس کشتی کو بڑی تعداد میں چھوڑ رہے ہیں۔

ہمارے ان ہم وطنوں اور خواتین کا کیا ہوگا جو اپنے بچوں کے منہ میں روٹی کا ایک لقمہ ڈالنے کے لیے ہر روز محنت کرتے ہیں؟ ان بچوں کا کیا ہوگا،جو دن رات کھیتوں اور کارخانوں میں کام کرتے ہیں، جن کا بچپن اس لیے چھین لیا گیا کہ ان کے والدین ان کا پیٹ بھرنے کی استطاعت نہیں رکھتے؟ ہمارے ان لاکھوں اور کروڑوں ساتھی پاکستانیوں کے بارے میں کیا خیال ہے،جو روز بروز مایوس کن غربت میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں، کسی معجزے کی امید اور دعا کرتے ہیں جو کبھی نہیں آئے گا؟

ہم جانتے ہیں کہ آپ اور آپ کے دوست ذہین، حساس اور مثالی ہیں اور اس سب ناانصافی پر سخت غصہ ہیں۔ایسا ہی ہے لیکن شاید جیسا کہ آپ اکثر نشاندہی کرتے ہیں کہ ہم نے اس ظلم و جبر سے سمجھوتا کر لیا ہے، جو آج خودغرضی کی بنا پر پاکستان میں موجود ہے۔

آپ جو غصہ محسوس کرتے ہیں وہ مجھ سمیت ہر ایک نے ظاہر کیا تھا۔ ہم، آپ کے والدین اور بزرگ صرف انگلی اٹھانے سے خود کو بری الذمہ نہیں کر سکتے جب کہ ہم خود آرام دہ زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہم اپنے بجائے دوسروں پر الزام لگانا پسند کرتے ہیں۔ سیاست دان، ’ادارے‘، ہمیشہ سے موجود ’غیر ملکی ہاتھ‘، ہر ایک کو قصوروار ٹھہرانا جاتا ہے۔ سوائے اپنے آپ کے باقی سب غلط ہیں۔ اپنے آپ سے یہ پوچھنا اتنا مشکل کیوں ہے کہ میں یہاں کیا غلط کر رہا ہوں یا میں چیزوں کو بہتر بنانے میں کیسے اپنا حصہ ڈال سکتا ہوں؟ سوال پوچھنا الزام کو وہیں پہنچاتا ہے، جہاں سے اسکا تعلق ہے، یعنی مجھ پر۔

ہاں بلاشبہ ہم ایک پرانے سماجی نظام میں رہتے ہیں جو اپنی موجودہ شکل میں باقی دنیا کے ساتھ کبھی آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اور ہاں، پاکستان معاشی اور فوجی غلامی کے عالمی نظام کی ایک چھوٹی سی کڑی ہے جو ہر جگہ ظالم ریاستی اداروں کے ذریعے نافذ ہے۔ اس کی تصدیق کے لیے اخباری سرخیوں کے علاوہ کچھ اوردیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام اور دنیا بھر کی حکومتوں کی جانب سے اس کی بھرپور حمایت کرنے پر دنیا کی آبادی کی اکثریت مشتعل ہے۔

ہم سب فلسطینی عوام پر ہونے والی ہولناکی کو محسوس کرتے ہیں لیکن ہم سب اسے روکنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ پھر بھی ہم سب اپنا اپنا کردار ضرورادا کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بول سکتے ہیں، فلسطینی کاز کی حمایت میں ریلیاں نکال سکتے ہیں (مغرب میں ایسا کرنے پر لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں)، غزہ کے لوگوں کیلئے جو کچھ مددبھی کر سکیں اسکی پیشکش کر سکتے ہیں، کیونکہ آخر کار وہ ہمارے بھائی اور بہنیں ہیں۔

چند ماہ قبل آپ کے پرنانا، فیض احمد فیض کے نام سے منسوب میلے میں، ہم نے فلسطین کے ناقابل تسخیر جذبے کو منانے اور ان کی حتمی فتح، جو بالآخر ناگزیر ہے،کے بارے میں بات کرنے اور ترانے گانے کے لیے بہت سی تقریبات کا اہتمام کیا۔ یہ فتح اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی اندھیرے پر روشنی اور برائی پر اچھائی کی فتح۔ فیض کو دل سے اس فتح پر یقین تھا اور وہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں کئی سال فلسطینیوں کے درمیان بھی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل فلسطین نے انہیں اپنا سمجھ کر پیار اور عزت دی۔

آج آپ جیسے نوجوان دنیا کے ساتھ تعلق قائم کرنے اور پاکستان کے بے ہودہ، ناکارہ، غیر فعال نظام کو نظرانداز کرنے کے طرح طرح کے شاندار طریقے وضع کر رہے ہیں۔ کالج کے طلبہ اپنے خاندان کی آمدن میں مدد کرنے کیلئے مغربی کمپنیوں کے لیے آن لائن کام کرتے ہیں، ڈاکٹرز اور نرسیں پاکستان سے مغرب کے کلینک اور ہسپتال چلانے میں مدد کر رہے ہیں اور اس عمل میں پاکستان کیلئے آمدنی اور مہارت لاتے ہیں، انجینئرز اور دیگر آئی ٹی پروفیشنلز پاکستان سے دنیا بھر کی کمپنیوں کو تکنیکی خدمات فراہم کرتے ہیں،اس طرح یہ ایک لمبی فہرست ہے۔ میرے بیٹے وہ پاکستان ہی ہے جس پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم جری اور پرعزم لوگ ہیں۔ ہماری تاریخ نے یہ ثابت کیاہے۔ مایوسیاں پھیلانے والوں کی طرف توجہ مت دو۔ یہ جو تاریکی نظر آتی ہے، یہ صبح صادق سے پہلے کی تاریکی ہے۔ ہم اس سرزمین اور اس کے لوگوں کے لیے اپنی پوری کوشش کرتے رہیں گے اور ہم امید کرتے ہیں کہ وقت آنے پر، آپ ہمارا ساتھ دیں گے تاکہ ہم اس ناو کو درست سمت لے جا سکیں، اور یہ بیڑی ایک روشن مستقبل کی طرف گامزن ہوسکے۔

٭یہ خط مصنف نے اپنے بیٹے کو لکھا تھا۔

(بشکریہ: دی نیوز آن سنڈے)
ترجمہ: حارث قدیر

Ali Madeeh Hashmi
+ posts

علی مدیح ہاشمی ماہر نفسیات اور فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے معتمد ہیں۔