نقطہ نظر

ایک بھاری قیمت، جو ادا کرنی ہے

علی مدیحہ ہاشمی

”ایلس: کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ مجھے یہاں سے کس راستے سے جانا چاہئے؟
دی چیشائر کیٹ: یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کہاں جانا چاہتے ہیں۔“

(اقباس از ’ایلس ان وانڈر لینڈ‘)

کچھ دن پہلے اسلام آباد سے ایک دوست کا فون آیا۔ وہ اپنی بوڑھی ساس کے لیے پریشان تھی،جو ایک بیوہ ہیں اور لاہور میں اکیلی رہتی ہیں۔ حال ہی میں گرنے کی وجہ سے انکا کولہا ٹوٹ گیا تھا۔ ان کی سرجری ہوئی اور انہیں گھر بھیج دیا گیا۔ ایک ہفتے بعد ایک بڑی سرجری کے صدمے کے علاوہ اب انہیں بخار تھا اور کچھ کھانے کو دل نہیں کررہا تھا۔ وہ پہلے سے ہی بیمار تھیں۔

میری دوست اور ان کا شوہر دونوں ہی اعلیٰ تنخواہوں والی نوکریاں کرنے والے پیشہ ور افراد ہیں، لیکن اس کے باوجود پریشان تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ لاہور میں کس سے رابطہ کریں۔ مریض کو اپنی جاری طبی ضروریات کیلئے فوری اور طویل المدتی دیکھ بھال کی ہر حال میں ضرورت تھی۔ خوش قسمتی سے میں انہیں لاہور میں صحیح لوگوں سے متعارف کروانے میں کامیاب رہا اور ایک معمولی بحران ٹل گیا۔

یہ ایک متمول خاندان ہے جس کے پاس اچھے تعلقات اور رابطوں کے ساتھ ساتھ صحت کی دیکھ بھال کی جو بھی خدمات دستیاب ہیں،ان تک رسائی کے لیے مالی وسائل موجود ہیں۔ پاکستان میں لاکھوں محنت کش خاندانوں کے پاس زیادہ آمدنی کا عیش و آرام نہیں ہے۔ درحقیقت گزشتہ چند سالوں میں پاکستانی معیشت تیزی سے سکڑی ہے۔ اب سیاسی استحکام کی علامات کے بعد خبروں پر بیرون ملک سے نئے مالیاتی ریسکیو پیکیج کا غلبہ ہے۔ اس بار ہمیں بتایا گیا ہے، یہ”طویل مدتی“ہوگا،گویااس کا جشن منایا جانا چاہیے۔ اگلے چند سال پاکستانی عوام کے لیے مزید مالی تکلیف کاعندیہ دے رہے ہیں، اور ہمیشہ کی طرح، جب لوگوں کو اشیائے خورد و نوش،بلوں اور صحت کی دیکھ بھال میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا، تو وہ صحت کی دیکھ بھال میں ممکنہ حد تک کمی کریں گے۔ اگر کوئی طبی ہنگامی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس میں احتیاطی نگہداشت کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ لاگت آئے گی۔

7 اپریل کو عالمی ادارہ صحت کی ورلڈ ہیلتھ اسمبلی نے 1948 میں عالمی یوم صحت کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا،یہ وہ فورم ہے جس کے ذریعے ڈبلیو ایچ او 194 رکن ممالک کے زیر انتظام چلایا جاتا ہے۔ صحت کا عالمی دن 1950 سے منایا جا رہا ہے۔ اس سال کا تھیم ’میری صحت، میرا حق‘ہے۔ ڈبلیو ایچ او عالمی صحت کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اہداف اور مقاصد کا تعین کرتا ہے۔ 2022 تک ان میں یونیورسل ہیلتھ کوریج، ہنگامی حالات سے نپٹنے کے لئے تیاری، ہر عمر کے فرد کے لیے صحت، غیر متعدی بیماریوں کی روک تھام اور علاج،اور ماں اور بچے کی صحت جیسی چیزیں شامل ہیں۔

پاکستان نے حالیہ دہائیوں میں ان میں سے بہت سے شعبوں میں کچھ ترقی کی ہے، لیکن پولیو، تپ دق، ہیپاٹائٹس اور ایچ آئی وی جیسی متعدی بیماریوں، اور دماغی حالات جیسے غیر متعدی امراض کے کنٹرول جیسے متنوع ایریاز میں اہم چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کو تو چھوڑیں ہمارے ماں اور بچے کی صحت کے اشاریے ابھی ہمارے پڑوسیوں سے بھی بہت نیچے ہیں۔ ہم نے کووڈ کی شکل میں 21ویں صدی کی سب سے بڑی صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے معقول حد تک اچھا کام کیا لیکن ہمارے صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔

ہر عمر کے لوگوں کے لیے صحت کو فروغ دینے کے حوالے سے ہماری پیش رفت بھی بچوں کی غذائی قلت کی بلند شرحوں اور خسرہ جیسی بچپن کی عام طور پر روکی جانے والی بیماریوں سے ہونے والی اموات کی ناقابل قبول حد تک بلند شرحوں کی وجہ سے پیچیدہ ہے۔

ماہر نفسیات اور دماغی صحت کے پیشہ ور کے طور پر مجھے پاکستا ن میں دماغی صحت کی معیاری خدمات تک رسائی سے قاصر تمام عمر کے لوگوں کی بے شمار کہانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں کے نوجوان، جنہیں ذہنی صحت کی مدد اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی سکول اور کالج کی تعلیم مکمل کر سکیں، وہ یہ خدمات حاصل کرنے سے قاصر ہیں؛بنیادی تولیدی صحت کی خدمات تک رسائی کی کمی کی وجہ سے شدید ذہنی صحت کے مسائل میں مبتلا خواتین؛ کمزور اور بیمار بزرگوں والے خاندان،جن کو بزرگوں کی دیکھ بھال میں مدد کی ضرورت ہے (جیسا کہ پہلے میں نے اپنی دوست کا تذکرہ کیا ہے)، یوں یہ ایک لمبی فہرست ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان خدمات کی تعمیر کے لیے قانون سازی کا فریم ورک 50 سال سے زیادہ عرصے سے موجود ہے۔ 1973 کے آئین میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تمام شہریوں کے لیے صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ سمیت ”بنیادی ضروریات“کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ آئین کے کئی آرٹیکلز اس کو مزید تفصیل سے بیان کرتے ہیں لیکن بنیادی پیغام بالکل واضح ہے: ہماری سرزمین کا قانون پہلے سے ہی یہ حکم دیتا ہے کہ ریاست کو پاکستانی شہریوں کو صحت کی تمام بنیادی سہولیات فراہم کرنی ہوں گی،جیسا کہ ڈبلیو ایچ او نے بیان کیا ہے، جس کا پاکستا ن بھی ایک رکن ہے۔ یہ سب کیسے کیا جائے، یہ معاملہ قابل بحث ہے لیکن حکومت آئین اور اپنے عالمی وعدوں کی تردید کئے بغیر اپنی بنیادی ذمہ داری سے دستبردار نہیں ہو سکتی۔

دنیا کا ہر ملک صحت کی دیکھ بھال کے حوالے سے اپنے اپنے چیلنجوں سے نبردآزما ہے لیکن ایک بات واضح ہے: صحت کی دیکھ بھال کو منافع کمانے والے ادارے کے طور پر فروخت کرنا ایک تباہی ہے،جیسا کہ امریکہ اس بات کا ثبوت ہے، جو مسلسل صحت کی دیکھ بھال پر فی کس زیادہ خرچ کرتا ہے اور بہت سے دیگر ملکوں کے مقابلے میں زندگی کی توقع، بچوں کی اموات وغیرہ کی صورت میں اس کے صحت کی دیکھ بھال کے بدتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

جنوب میں امریکہ کے پڑوسی ملک کیوبا نے اس کے برعکس کر دکھایا ہے، جس سے گذشتہ دہائیوں میں، تمام امریکی حکومتیں نفرت کرتی آئی ہیں۔ ایک پبلک فنڈنگ سے چلنے والا ایک مضبوط صحت کی دیکھ بھال کا نظام زیادہ تر اقدامات پر نجی، منافع بخش صحت کی دیکھ بھال کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے جبکہ طویل مدتی طور پربہت زیادہ پائیدار بھی ہے۔

بلاشبہ کیوبا دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی انتشار میں اپنی انقلابی قیادت میں جاگیرداری اور سرمایہ داری دونوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوا اور اپنے شمالی پڑوسی کے شدید دباؤ کے باوجود سوشلسٹ ترقی کی راہ پر گامزن رہنے میں کامیاب رہا۔ یہ بھی کوئی حادثہ نہیں کہ پاکستان کا 1973 کا آئین ایک جمہوری طور پر منتخب، ’سوشلسٹ‘حکومت نے ’مشرقی پاکستان کی علیحدگی‘ کے حادثے کے بعد تیار کیا اور منظور کیا۔کیا یہ ہمارے موجودہ بجٹ اور بین الاقوامی مالیاتی غلامی کی بند گلی میں ممکن ہے، جو ملک میں جابر حکومتوں کے ذریعے نافذ ہے؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔

(بشکریہ: دی نیوز آن سنڈے)
ترجمہ: حارث قدیر

Ali Madeeh Hashmi
+ posts

علی مدیح ہاشمی ماہر نفسیات اور فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے معتمد ہیں۔