دنیا

آکسیجن اور ویکسین کو ترستی ایٹمی طاقتیں بمقابلہ سوشلسٹ کیوبا

فاروق سلہریا

بیس سال پہلے بش جونیئر کی امریکہ میں حکومت بنی تو انقلاب کیوبا کا محاصرہ سخت کر دیا گیا۔ کیوبا پر نیا الزام لگا کہ وہ بائیولوجیکل ہتھیار تیار کر رہا ہے۔ یہ سفید جھوٹ تھا۔

اس پراپیگنڈے کا جواب دیتے ہوئے فیدل کاسترو نے بیونس آئرس میں کی گئی ایک تقریر میں کہا: ”بم نہیں، ڈاکٹرز۔ سمارٹ ہتھیار نہیں، ڈاکٹرز“۔

اپنے ایک اور انٹرویو میں فیدل کاسترو نے ایٹم بم بنانے کی بابت کہا تھا کہ سرد جنگ کے دوران کیوبا کے لئے ایٹم بم بنانا کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ سوویت روس کی مدد سے یہ کام با آسانی کیا جا سکتا تھا مگر بقول کاسترو ہم یہ بم ماریں گے کسے؟ امریکی مزدوروں کو جو ہمارے بھائی ہیں؟

اس لئے کیوبا نے اگنی اور غوری بنانے کی بجائے تعلیم اور صحت کے شعبے پر توجہ دی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی کوئی قدرتی آفت آئے، کیوبا کا ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف مدد کے لئے پہنچتا ہے۔ 2005ء میں جب ہمارے ہاں بھی تباہ کن زلزلہ آیا تو کیوبا کا میڈیکل سٹاف، جس کی تعداد ہزار سے بھی زیادہ تھی، پہنچا۔ راقم بطور صحافی اس زلزلے کی کوریج کر رہا تھا۔ کیوبا کے ڈاکٹر مظفر آباد میں سب سے زیادہ مقبول غیر ملکی ڈاکٹر تھے۔

کیوبا نے ایٹمی طاقت بننے کی بجائے میڈیکل طاقت بننے کو ترجیح دی۔ اس کا فائدہ آج اس کے عوام کو بھی پہنچ رہا ہے۔ کرونا وبا کے دوران نہ صرف کیوبا نے بیس سے زائد ممالک میں امدادی ٹیمیں روانہ کیں بلکہ اب تک تین ویکسین تیار کر چکا ہے۔ کیوبا کی ان کامیابیوں کی مسلسل رپورٹنگ ’روزنامہ جدوجہد‘ میں گزشتہ ایک سال سے اس لئے بھی ہو رہی تھی تا کہ یہ سیکھا جا سکے کہ تیسری دنیا کا ایک ملک اپنی درست ترجیحات کی بنیاد پر صحت اور تعلیم کے شعبے میں کیسی کیسی کامیابیاں حاصل کر رہا ہے۔

اب آئیے اس کا مقابلہ کرتے ہیں برصغیر کی دو ایٹمی طاقتوں سے جہاں حکمرانوں نے ستر سال سے اپنے ڈیڑھ ارب شہریوں کو جنگی جنون میں مبتلا کر رکھا ہے۔ مندرجہ ذیل چارٹ دیکھ کر آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ کیوں پاکستان ویکسین اور ہندوستان دنیا بھر سے آکسیجن کی بھیک وصول کر رہے ہیں۔

صرف یہ جاننا ہی کافی ہے کہ کیوبا میں فی کس صحت پر ایک ہزار ڈالر جبکہ پاکستان اور ہندوستان میں بالترتیب 42 ڈالر اور 72 ڈالر خرچ کئے جا رہے ہیں۔ کیوبا میں شہریوں کی صحت پر آنے والے نوے فیصد اخراجات ریاست اٹھاتی ہے۔ پاکستان میں 65 فیصد خرچہ خود کرنا پڑتا ہے۔ ہندوستان میں شرح 73 فیصد ہے۔

باقی ہوشربا تفصیلات خود ملاحظہ کر لیجئے:

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔