حارث قدیر
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیاکہ جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور سیاسی اور جمہوری آزادیوں کے حوالے سے بلوچستان کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔
معلومات تک رسائی کے قانون کا فقدان ہے، صحافیوں کو پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مشکلات درپیش ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 78 فیصد بچیاں سکول نہیں جاتی ہیں، ہزاروں گریجویٹ نوجوان بیروزگار ہیں، ہائی وے چیک پوسٹوں پر تلاشیوں کے ذریعے شہریوں کو ہراساں کیا جانا معمول ہے، ڈیتھ سکواڈز متحرک ہیں اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بھی تاحال کم نہیں ہو سکا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے اندر بلوچستان میں جنسی زیادتی کے 39 کیس رپورٹ ہوئے، جنسی زیادتی اور قتل کے 3 کیس رپورٹ ہوئے، نابالغ بچوں کے ساتھ زیادتی کے 51، غیرت کے نام پر قتل کے 47، گھریلو تشدد کے 126، توہین مذہب کا 1، جبکہ ٹارگٹ کلنگ کے 18 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جبری گمشدگیاں 2020ء میں بھی بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں 450 گمشدہ افراد بازیاب ہوئے ہیں جبکہ 1800 مزید لاپتہ کئے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2011ء میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم کمیشن کے پاس گزشتہ ایک سال میں بلوچستان سے کل 537 افراد کے کیس درج ہوئے ہیں، جن میں سے 30 افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں، جبکہ کمیشن نے 222 افراد کو بازیاب کروایا ہے۔
رپورٹ کے مطابق لاپتہ افراد کے خاندان کے اراکین کو سکیورٹی ایجنسیز نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج کرنے سے منع کیا اور انہیں کہا کہ اگر وہ احتجاج کریں گے تو انکے خاندان کے لاپتہ افراد واپس نہیں آئیں گے۔
رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی عائد ہے، غیر ملکی افراد کو این او سی کے بغیر جانے کی اجازت نہیں ہے، یہاں تک کہ پاکستانی شہریوں کو بھی کئی علاقوں میں جانے کیلئے این او سی حاصل کرنا پڑتا ہے۔ 24 مربع کلومیٹر پر مبنی علاقے کی گوادر سٹی کے نام پر دیوار بندی کی جا رہی ہے جس کے ذریعے سے شہریوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد ہو جائیگی۔
رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے خلاف پرتشدد واقعات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران 8 فرقہ وارانہ واقعات ایسے رپورٹ ہوئے ہیں جن میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی کو ٹارگٹ کیا گیا۔ پر امن احتجاج کے حق کو بھی دفعہ 144 کے استعمال سے چھین لیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں لوکل گورنمنٹ انتخابات کے انعقاد کیلئے بھی کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا گیا۔
رپورٹ میں خواتین اور بچوں کے زندگیوں کو لاحق خطرات کو بھی آشکار کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں ہر 1000 میں سے 42 بچے دوران پیدائش طبی سہولیات کے فقدان کے باعث مر جاتے ہیں، محض 38 فیصد بچوں کی پیدائش کسی ماہر نرس یا ڈاکٹر کی نگرانی میں ہوتی ہے۔ ہر 10 میں سے 6 بچیوں کی کم عمری میں شادیاں کر دی جاتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دوران وبا بلوچستان کے 3 لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد کا روزگار چھن گیا اور صوبہ میں بیروزگاری کی شرح 18 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ کوئلے کی کانوں میں انتہائی غیر انسانی حالات میں محنت کش کام کرنے پر مجبور ہیں اورہر سال 100 سے 200 محنت کشوں کی مختلف حادثات میں ہلاکت ہو جاتی ہے۔
گزشتہ سال کے دوران 116 سے زائد حادثات کوئلے کی کانوں میں رونما ہوئے، رپورٹ کے مطابق کانوں میں حادثات کی ایک بڑی تعداد رپورٹ ہی نہیں ہوتی۔ گزشتہ ایک سال کے دوران 116 حادثات میں سے صرف 5 حادثات قومی میڈیا میں رپورٹ ہوئے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران کانوں میں حادثات کے نتیجے میں 58 مزدوروں کی ہلاکت ہوئی، جبکہ کم از کم 15 مزدور زخمی ہوئے۔