ناصر اقبال
یہ تو کوئی نہیں بتا سکتا کہ انسانی تاریخ کے کس سمے غلامی کا آغاز ہوا البتہ ماہرین نے اپنے اپنے طریقوں سے کچھ اندازے ضرور لگائے ہیں۔
انسان کے غار یا جنگل کا دورجو کہ لاکھوں سالوں پر محیط ہے۔ چارلس ڈارون کے مطابق اس عرصے کے دوران سات انواع کے انسان زمین پر موجود تھے۔ ان میں سے پانچ انواع کس طرح نابود ہو گئیں جن کے بارے کوئی نہیں جانتا۔ باقی رہ گئے نیندر تھل اور ہومو سپیئن، قدرتی آگ کو محفوظ کرنے کا طریقہ نیندر تھل انسانوں نے دریافت کیا جبکہ ہومو سپیئن انسانوں نے ہتھیار یا ڈنڈے کی ایجاد اور استعمال سیکھ لیا جس سے ان کی لڑنے اور شکار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا۔ دونوں قسم کے انسان اپنے اپنے قبیلوں کی صورت بسیرا کرتے، شکار اور جنگلی پھلوں پر گزارا کرتے۔
ڈنڈے کی بدولت ہوموسپیئن انسان زیادہ مقدار میں شکار کرتے۔ شکار کی زیادہ مقدار دونوں قسم کے قبائل کے مابین چھینا جھپٹی کا باعث بنی، پھر جنگیں ہوئیں اور ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال ہوا۔ ارتقاء کے ماہرین تقریباً متفق ہیں کہ نیندر تھل انسانوں کاہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوموسپیئن انسانوں کے ہاتھوں سے ہی ہو ا۔
یہاں یہ واضح رہے ایک نسل کے انسانوں نے دوسری نسل کے انسانوں کو ہی قتل کیا اور اپنی نسل کو بچایا اس رجحان کو شاید نسل پرستی ہی کہا جا سکتا ہے۔ غار کے اس دور میں غلام داری کے کوئی شواہد نہیں ملتے البتہ حضرت انسان نے خواتین کو ان کے نسوانی مسائل کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں (شکار)سے علیحدہ کر کے بچوں کی حفاظت پر مامورفرما کر اسے اپنا معاشی دست نگر بنا چکا تھا۔
انسان کا اولین دوست یعنی کتا جو کبھی بھیڑیا ہوا کرتا تھا بھی اسی دور میں انسان کے قریب آیاپھر انسانوں نے اسے پالتو بناکر کے کام پر لگا دیا گیا۔ شاید انسان نے کتے والے تجربے سے سیکھ لیا تھا کہ اپنی اور دوسری انواع کو غلام بنا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اناج اور اسے اگانے کے طریقہ کار دریافت کر کے انسان جنگل سے نکل کر میدانوں آبسا اور باقاعدہ کھیتی باڑی کرنے لگا۔
شکار کی نسبت اناج کی پیداوار زیادہ یقینی اور فاضل تھی او ر اسکی سٹورویلیو بھی زیادہ تھی لہذا اسی فاضل ذخیرہ سے ذاتی ملکیت، وراثت اور پھر خاندان کے تصورات نے جنم لیا۔ ان تصورات کو جب عملی جامہ پہنایا گیا تو سختی خواتین کی آگئی لہذا خواتین کو ملکیت قرار دے کر گھریلو کیا گیا۔ اپنے فاضل ذخیرہ پیداوارکو بڑھانے کے لیے دوسرے قبیلوں پر حملے کئے جاتے، جنگ ہوتی لڑنے واے قتل کر دیئے جاتے، عورتوں بچوں اور دوسرے لوگوں کو غلام بنا لیا جاتا۔ زمین، پیداوار اور مال مویشیوں کو اپنی ملکیت میں لے کر دوبارہ سے معاشی سرگرمیوں میں کام میں لایا جاتا۔ یہی قبضہ شدہ وسائل سرمایہ کی اولین یا قدیم شکل مانے جاتے ہیں۔
زیادہ زمین اور زیادہ وسائل کے استعمال سے زیادہ پیداوار لی گئی پھر اسی پیداوارکے کچھ حصہ کو دوسری اجناس یا مویشی وغیرہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا یہی سے تجارت کا آغاز ہوتا ہے۔ وقت اور موقع کی مناسبت اور ضرورت کے پیش نظر انسانوں نے کھیتی، گوشت اور دودھ کے لیے مختلف انواع کے جانوروں اور پرندوں کو پالتو کیا، تجارت، نقل و حمل اور باربرداری کے لیے گھوڑے، گدھے، اونٹ اور ہاتھی وغیرہ کو بھی پالتو کر کے کام میں لایا گیا۔ افریقی ہاتھی کے معاملے میں انسانوں کو ناکامی ہوئی البتہ ایشائی ہاتھیوں پر انسان کاٹھی ڈالنے میں کامیاب ہوا۔
آج بھی دنیا بھر کے جنگلوں میں لاکھوں ماہرین باقی ماندہ حیوانات کو پالتو یا مسخر کرنے کی جستجو میں در بدر ہیں۔ ابتک انسانوں نے سب سے زیادہ کوششیں ناگ دیوتا کو مطیع کرنے کے لیے کی ہیں۔ سانپ پالتو تو نہ ہو سکے البتہ ان کا قیمتی زہر چالاکی اور طریقہ کار کے تحت نکال کر ادویات ساز اداروں کو بیچ دیا جا تا ہے۔
قرون اولیٰ کے دوران آقاوں کا فکری مسئلہ محض یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں حتی کہ اقوام کو غلام کیسے بنایا جائے جبکہ قرو ن و سطٰی میں غلامی کے ادارے کا تحفظ آقاوں مرکزی خیال رہا۔تو دوسری طرف غلاموں کی شدید خواہش یا زندگی کا واحد مشن فقط آزادی ہوتا۔اس دورمیں دنیا کی کل آبادی دو طبقات میں تقسیم رہی ایک طرف آقا تھے تو دوسری طرف غلام۔
آقاؤں نے غلامی کے ادارے کو قائم اور مضبوط رکھنے کے لیے جو طریقہ کار یا حربے استعمال کرتے اس میں قتل و غارت، تشدد، خوف، مایوسی، بے حسی، زنجیریں، کڑی نگرانی، بد سلوکی، بھوک یا نا کافی خوراک، غلام کو جسمانی یاسماجی طور پر اکیلا رکھا جاتا، حصول علم اور علاج معالجہ تو دور کی بات، غلام کوہمہ وقت جسمانی اور ذہنی طور پر غیر یقینی صورتحال (Confusion) میں رکھنا، خرید و فروخت کے معاملات،غلامی کے علامتی نشانات، حق ملکیت، غلاموں بارے اخلاقی اور سماجی قوانین کا بنانا اورنفاذ وغیرہ۔
غلاموں نے اپنی آزادی کے لئے جو جو طریقہ، چارہ یا جدوجہد کر سکے اس میں فرار ہو جانا، ہجرت یا علاقہ چھوڑ جانا یہ علیحدہ بحث ہے کہ وہ اس میں کتنا کامیاب ہو سکے عمومی طور پر انہیں پہلے سے بھی زیادہ سخت حالات کا سامنا کرنا پڑتا۔غلاموں نے بیگانگی یعنی (Alienation) کا راستہ اپنایا جس میں غلاموں نے اپنے آقاؤں کے دیے ہوئے کاموں میں نقص یا مسائل پیدا کرنے شروع کر دیے مثلاً اگر غلام پانی لانے جاتا تو گھڑا یا مٹکا توڑ آتا، آقا کی بات کو ٹھیک طریقے سے نہ سنتا اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کرتا۔ مقصد صرف آقا کو تنگ کرنا ہوتا تھا تاکہ آقا اسے تنگ آکر آزاد کر دے۔ اس بیگانگی کے متعلق بعض ماہرین کی رائے ہے کہ بیگانگی ایک شعوری عمل تھا جبکہ بعض کی رائے میں یہ ایک صرف رد عمل تھا۔
کارل مارکس نے ایک زمانے میں بیگانگی کے فلسفہ کو خاصی تفصیل سے بیان کیا۔مارکس کا فلسفہ بیگانگی، سرمایہ داری، صنعتی انقلاب، منافع،پرولتاریہ اور سرپلس ویلیو کے پس منظر میں ہی گھومتا نظر آتا ہے۔فیڈرک اینگلس کی بعض تحریروں میں البتہ غلاموں کی بیگانگی کا زکر ملتا ہے۔
قرون وسطیٰ بڑے پیمانے کی جنگوں کا عہد ہے چنانچہ ا ب غلاموں سے فوجی کا کام بھی لیا جانے لگانتیجتاََ غلام جنگجو ہوئے او ریوں غلاموں کی تحریک آزادی میں تشدد کا عنصر شامل ہوا۔غلاموں کی مسلح بغاوتیں برپاء ہوئیں جن میں سپارٹکس (رومن سلطنت) کی مشہور زمانہ بغاوت ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ انفرادی کار وائیوں میں بیشمار آقاء قتل کر دیئے گئے۔
یورپ کی احیائے علوم کی تحریک، صنعتی انقلاب اور نو آبادیاتی ادوار میں جسمانی غلامی کا تصور بتدریج کمزور پڑنے لگاجو آخر کار 1860ء میں باضابطہ طور پر براہم لنکن کے اعلان برائے خاتمہ غلامی کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا ہے۔تاریخ کا یہ ایک اور علیحدہ سے باب ہے کہ اس اعلان آزادی کے نتائج ابرہم لنکن اور امریکہ کو کس طرح سے بھگتنے پڑے۔
غلاموں کی منظم اور مسلح بغاوتوں کے باعث اس وقت کے سیانے آقاؤں نے اندازہ کر لیا تھا کہ باوجود تمام حربوں کے اب لمبا عرصہ تک جسمانی غلامی کے ادارے کو قائم نہیں رکھا جا سکتا، چنانچہ متبادل کے طور پر” ذہنی غلامی” کے تصور نے جڑ پکڑی۔
فکری الجھاؤ (Confusion) کو ہتھیار بنایا گیا اور اسے استعمال کرنے کی ذمہ داری پیشوائیت کے سپرد کی گئی۔آج دنیا میں جتنے بھی قابل ذکر مذاہب نظر آتے ہیں ان کی بنیادیں اور ترویج کا کام قرون وسطٰی میں کر لیاگیا۔ اس دوڑ میں سرفہرست ہندو مت اور کنفیوشش ازم آتے ہیں جنہون نے نہایت کامیابی سے انسانوں کی جسمانی غلامی کو ذہنی غلامی میں بدل دیاجبکہ باقی ابھی اپنی حقیقی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔
بالادست اقوام یا ممالک نے تمام نوآبادیاتی دور میں ذہنی غلامی کے تصورات سے خوب فائدہ اٹھایا اور جی بھر کر زیر اقوام کی دولت کو لوٹا۔ انگریز برصغیرپر تقریباً دو سو سال قابض رہا، لوٹ مار کے ساتھ ساتھ ذہنی غلامی کے فامولوں کو بھی آزماتا رہا۔ آج اسے یہاں سے کوچ ہوئے بھی ستر سال سے اوپر ہو گئے مگر برصغیر کی عوام کی ’Confusion‘ کا عالم یہ ہے کہ وہ آ ج تک یہ طے نہیں کر سکے کہ انگریز دشمن تھا یا دوست۔
پوری دنیا میں بے حسی، بیگانگی،ذہنی انتشار کا اس حد تک پھیلاؤ ہو چکا کہ تمام تر وسائل، اخلاقی جواز، عالمی اداروں کی موجودگی،طاقت ور ممالک کی حمایت اور دنیا بھر کی سول سوسائٹی کی مذمت کے باوجود مسئلہ فلسطین جیسے چھوٹے مسئلے کا بھی حل تو دور کی بات کوئی قابل عمل حل کا فارمولہ بھی تیار نہیں ہو سکا۔ذاتی طور پر راقم کسی کی نیت پر شک نہیں کرتالیکن یہ نتیجہ ضرور اخذ کرتا ہے کہ غلام یا منتشر ذہن کبھی بھی فیصلوں اور نتائج پر نہیں پہنچ سکتے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اب دنیا میں آقا بھی اپنے سرمایے اور کروفر کے ذہنی غلام ہو چکے۔
اس پس منظر میں آج دنیا میں آزادیوں کی واحد امید کی کرن ترقی پسند تحریک ہے مگر شاید کچھ دبی دبی سی ہے۔ تحریک کے ہر ممبر کو سب سے پہلے اور کم از کم اپنی ذہنی یا فکری آزادی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔