پاکستان

وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی بنائیں گے نہ کالج‘ صرف لوگوں کو بیوقوف بنائیں گے!

فاروق سلہریا

اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان نے کچھ مقبولِ عام نعرے لگائے تھے۔ ان نعروں میں ایک”وعدہ“ یہ بھی تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس کو وہ حکومت میں آ تے ہی یونیورسٹی بنا دیں گے۔ تازہ ترین اخباری اطلاعات کے مطابق اب یونیورسٹی کی بجائے نوبت انجینئرنگ کالج تک آگئی ہے۔ آنے والے دنوں میں شاید بات پرائمری سکول تک پہنچ جائے اور آخر میں پتہ چلے کہ ایک ٹیوشن سنٹر کھول دیا گیا ہے۔جہاں فرسٹ لیڈی کے جن ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔

اس رپورٹ میں دو باتیں ثابت کی جائیں گی۔ اول یہ کہ وزیر اعظم ہاؤس میں کسی تعلیمی ادارے کے قیام کے معاملے میں یہ حکومت سنجیدہ نہیں۔ دوم وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی یا کالج کا بنایا جانا قانونی، جمہوری، مالی اور سیاسی لحاظ سے سراسر غلط ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ یہ ا قدام غیر قانونی ہے کیونکہ وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی بنانا اسلام آباد کے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی ہے۔ اگر یہ ماسٹر پلان وفاقی کابینہ بدل بھی دے تو یہ اسلام آباد کے اس سیکٹر میں لینڈ یوز (Land Use) کے منصوبے کے خلاف ہے۔ اس کے لئے نئی قانون سازی کرنی ہو گی۔

یاد رہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC)نے وزیر اعظم ہاؤس میں مجوزہ یونیورسٹی کے قیام کیلئے جو ابتدائی کانسیپٹ پیپر  (Concept Paper) تیار کیا تھا اس میں وفاقی کابینہ سے درخواست کی گئی تھی کہ اسلام آباد کا ماسٹر پلان بدلا جائے۔ بہ الفاظِ دیگر عمران خان کی ضد پوری ہونی چاہئے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے کی گئی قانون اور میرٹ کی بات تو صرف زیبِ داستان کیلئے تھی۔ اس ضد کے پورے ہونے پر بھی اعتراض نہ ہوتا اگر اس کی قیمت عام شہریوں کو ادا نہ کرنا پڑتی۔یہ قیمت پرانے منصوبے کے مطابق دس ارب روپے تھی اور اب تازہ منصوبے کے مطابق بڑھ کر پچیس ارب ہو گئی ہے۔

اب اس منصوبے کے غیر جمہوری پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

شروع میں جب یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا گیا تو یہ اعلان اِس عجلت میں کیا گیا تھاکہ یونیورسٹی کے قیام کے بنیادی اصول و ضوابط کی پابندی بھی نہیں کی گئی تھی۔ کسی بھی وفاقی یونیورسٹی کا چارٹر پارلیمنٹ منظور کرتی ہے۔ بغیرچارٹر منظور کرائے یونیورسٹی بنانے کا اعلان کر دیا گیا۔ جب اس حماقت کا احساس ہوا تو عمران خان نے وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی کا اعلان کرتے ہی عادتاًایک یو ٹرن لیا۔ وزیر اعظم ہاؤس میں بننے والی مجوزہ ’’اسلام آباد نیشنل یونیورسٹی“ کا نام’’انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ سٹڈیز“ میں بدل دیا گیا۔

موجودہ وزیر اعظم ہاؤس کی عمارت یونیورسٹی یا انجینئرنگ کالج کے لئے درکار عمارت کی ضروریات پورا نہیں کرتی کیونکہ وزیرِ اعظم ہاؤس کے موجودہ کمروں کو نہ تو لیکچر تھیٹرز میں بدلا جا سکتا ہے نہ ہی تجربہ گاہوں (Laboratories) میں۔ اس لئے نیا منصوبہ یہ ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کے لگ بھگ پچیس ایکڑوسیع لان پر ایک نئی عمارت تعمیر کی جائے گی۔ اب پچھلے ہفتے جو خبریں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق نئے منصوبے کے تحت یونیورسٹی بنے گی نہ ”انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز“ بلکہ ”نیشنل انجینئرنگ اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹ“ بنایا جائے گا جہاں انڈر گریجویٹ کلاسز نہیں ہوں گی بلکہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے علاوہ تحقیق کا کام کیا جائے گا۔

یہاں دو امر اوربھی قابلِ ذکر ہیں۔

اول تازہ منصوبہ ڈاکٹر عطا الرحمان کا برین چائلڈ ہے جو مشرف آمریت کے دور میں منظور بھی ہو گیا تھا۔ جس طرح عمران خان کو مشرف آمریت کے وزیروں مشیروں سے کوئی مسئلہ نہیں اسی طرح انہیں مشرف دور کے منصوبوں سے بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔

دوم نئے منصوبے کی ذمہ داری وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کو دی گئی ہے جبکہ پچھلے منصوبے کا کام ایچ ای سی کو سونپا گیا تھا۔ اصول و ضوابط کے مطابق تو یہ کام ایچ ای سی کو ہی کرنا ہے مگر اس گومگو کی کیفیت سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔

سنجیدگی کے حوالے سے مزید دلچسپ امر یہ ہے کہ اگلے سال کے بجٹ میں مجوزہ یونیورسٹی کے لئے کوئی رقم مختص نہیں ہوئی۔ ہاں البتہ سابقہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک کانفرنس کی گئی تھی جس پر تین کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ مذکورہ کانفرنس میں اتفاق سے امریکہ کی یوٹا یونیورسٹی (University of Utah) سے بھی ماہرین شامل ہوئے۔ ایچ ای سی کے موجودہ چیئر مین طارق بنوری موجودہ نوکری پر آنے سے پہلے مذکورہ یونیورسٹی سے منسلک تھے۔ امید ہے یہ لوگ پاکستانی ٹیکس دہندگان کے خرچے پر پاکستان نہیں آئے ہوں گے۔

یہ بھی یاد رہے کہ موجودہ حکومت نے ایچ ای سی کا بجٹ کم کر دیا ہے۔

اب ذرا مالی حوالے سے اس منصوبے کا جائزہ لیتے ہیں۔

فرض کیجئے وزیر اعظم ہاؤس میں 25 ارب سے کوئی تعلیم و تحقیق کا ادارہ بن بھی جاتا ہے تو بات صرف 25 ارب تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ موجودہ وزیر اعظم ہاؤس کی تعمیر پر خرچ ہونے والے اربوں روپے بھی بے کار جائیں گے۔ ذ را سوچئے کل کلاں ایک نیا وزیر اعظم سمجھے کہ انہیں وزیر اعظم ہاؤس کی ضرورت ہے تو قومی خزانے کی پیٹھ میں ایک نیا خنجر گھونپ دیا جائے گا۔

یہ بالکل درست بات ہے کہ سرکاری رہائش گاہیں اس قدر پر تعیش نہیں ہونی چاہئیں مگر یہاں یہ بات زیر بحث نہیں۔ فی الوقت ہمارا مقصد صرف اس نکتے کی طرف توجہ دلانا ہے کہ سرمایہ داروں کے ایک نمائندہ سیاستدان کو اگر شہرت درکار ہے تو اس کا بوجھ قومی خزانے پر نہ ڈالا جائے۔ اگر اسلام آباد میں یونیورسٹی بنانے کا اتنا شوق ہے اور حکمرانوں کی پر تعیش سرکاری رہائش گاہیں عمران خان کو فحش لگتی ہیں تو حکمران طبقے کے نجی محلات بھی اکثریت کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ خود عمران خان بھی بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ کا ایک حصہ کسی تعلیمی ادارے کے لئے دان کر سکتے ہیں۔

ہمارا یہ مقصدبھی نہیں کہ کسی نئی یونیورسٹی کی تعمیر کی مخالفت کی جائے مگر مجوزہ منصوبے کے کچھ سیاسی پہلو بھی ہیں لہٰذا اب اس مجوزہ منصوبے کے سیاسی پہلو ں کو جانچتے ہیں۔

جس ملک میں قومی سوال انتہاؤں کو چھو رہا ہو وہاں یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ25 ارب روپے سے باجوڑ یا وزیرستان میں یونیورسٹی کیوں نہیں بنائی جاتی؟ یہ یونیورسٹی بلوچستان، تھر پارکر یا سرائیکی وسیب میں کیوں نہیں بنائی جا رہی؟

اسلام آباد میں پہلے سے 21 یونیورسٹیاں ہیں۔ ان میں سے 14 یونیورسٹیاں پبلک سیکٹر میں ہیں۔ اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں پانچ مزید پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں اور دو سب کیمپس ہیں۔ اس کے بر عکس پورے بلوچستان میں نو یونیورسٹیاں اور دس سب کیمپس ہیں۔ پورے (سابقہ) فاٹا میں ایک یونیورسٹی ہے۔ گویا’ ’ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے“ مگر مارگلہ کے مضافات میں!

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔