حسن خان
پاکستان میں مزاحمتی سیاست کی علمبردار بیگم نسیم ولی خان نے 16 مئی 2021ء کو چارسدہ کے ولی باغ میں زندگی کا آخری سانس لیا۔
وہ 1933ء میں مردان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد امیر محمد خان خدائی خدمتگار رہنما تھے۔ ان کے بھائی اعظم خان ہوتی قوم پرست سیاست دان تھے۔ ان کی شادی بلند پایہ قوم پرست رہنما خان عبدالولی سے ہوئی۔ ان کے سسر خان عبدالغفار خان عرف باچا خان ہر دلعزیز قوم پرست رہنما تھے۔ بیگم نسیم ولی نے روایتی پشتون گھریلو خاتون کا انداز زندگی اختیار کیا۔ عبد الولی خان سے شادی کے بعد ان کے ہاں دو بچوں کی پیدائش ہوئی، بیٹا سنگین ولی خان اور بیٹی ڈاکٹر گلالئی خان۔ انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے موجودہ صدر اور سوتیلے بیٹے اسفند یار ولی خان کی بھی پرورش کی۔ ایک ماں اور سیاسی رہنما کی حیثیت سے نسیم بی بی بہت خیال رکھنے اور محبت کرنے والی خاتون تھیں۔
فعال سیاست میں قدم رکھنے کے بعد اپنی وفات تک وہ پارٹی کارکنوں اور اپنے بچوں کے لئے مور بی بی یعنی ایک ماں کا درجہ رکھتی تھیں۔ بیگم نسیم اور ولی خان ایک قابل ذکر ازدواجی جوڑا تھا۔ بعض لوگوں نے انہیں ایک مثالی جوڑا بھی قرار دیا۔ ولی خان اعلیٰ صلاحیتوں کی حامل اپنی بیوی کا بہت احترام کرتے تھے۔ وہ ایک بڑے قوم پرست رہنما کی بہترین شریک حیات تھیں، گھریلو خاتون کی حیثیت سے وہ گھر کی دیکھ بھال کرتیں تاکہ ان کے شریک حیات گھر گرہستی کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو کر جمہوریت اور پسماندہ طبقات کے حقوق کیلئے جدوجہد کر سکیں۔
1975ء میں حکومت کی جانب سے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگنے پر نسیم ولی خان نے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ ولی خان، اسفند یار اور صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان سے پارٹی کے سیکڑوں کارکنوں کو گورنر حیات محمد خان شیر پاؤ کے قتل اور دوسرے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔
قومی وطن پارٹی کے رہنما آفتاب احمد خان شیر پاؤ کے بڑے بھائی حیات شیر پاؤ جامعہ پشاور میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ اجمل خٹک، افراسیاب خٹک اور نسیم بی بی کے بھائی اعظم ہوتی اور نیپ کے متعدد رہنماؤں نے گرفتاری سے بچنے کیلئے افغانستان میں جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔
جب نسیم بی بی ایک گھریلو خاتون کے طور پر روایتی سیاہ شال پہن کر گھر سے باہر نکلیں تب پارٹی، اس کی قیادت اور کارکن کٹھن حالات سے دوچار تھے۔ اے این پی کے سابق رہنما اور بی بی کے تا عمر بااعتماد ساتھی غلام احمد بلور بتاتے ہیں:”یہ وہ وقت تھا جب خاندان کے ارکان اور نیپ کے بزرگ رہنما جیلوں میں تھے یا جلا وطن۔ خان عبد الولی خان سے بی بی کے سیاسی کردار پر رہنمائی حاصل کرنے میں بیگم نسیم کے ساتھ جیل گیا۔ ولی خان نے ہمیں کہا کہ سیاسی طور پر جو بہتر لگے وہ کریں“۔
نیپ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، لہٰذا شیرباز خان مزاری کو صدر اور نسیم ولی خان کو سینئر نائب صدر بنا کر ایک نئی سیاسی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) تشکیل دی گئی۔ یہ ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز تھا۔
غلام احمد بلور این ڈی پی کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو آج بھی یاد ہے جب نسیم بی بی نے پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی معزولی تک سر پر سیاہ شال اوڑھنے کا وعدہ کیا تھا۔ بی بی نے جو کہا وہ کر کے دکھایا۔ 1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے این ڈی پی کے 50 رہنماؤں کو غداری اور دوسرے الزامات کے تحت گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ 1977ء میں نسیم بی بی نے عام انتخابات کے دوران اپنی پارٹی کی قیادت کی، وہ صوابی اور چارسدہ سے قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب ہوئیں۔
وہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں جیتنے والی پاکستان کی پہلی خاتون تھیں۔ بھٹو مخالف تحریک کے دوران نسیم بی بی نے بھٹو اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف شعلہ بیان تقریروں کے باعث خاصی مقبولیت حاصل کی تھی۔ بی بی اپنے مضبوط اعصاب کے باعث جانی جاتی تھیں۔ غلام احمد بلور کے مطابق 1977ء میں جب حزب اختلاف نے بھٹو پر دباؤ ڈالنے کے لئے قومی اسمبلی سے استعفے پیش کرنے کا حتمی فیصلہ کیا تو سب سے پہلے بی بی نے اپنی دونوں نشستوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ نسیم بی بی کو چار بار صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر منتخب ہونے کا منفرد اعزاز حاصل تھا۔ وہ تین بار عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا کی صدر اور کے پی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی منتخب ہوئیں۔
نظم و ضبط اور پارٹی معاملات میں مور بی بی ”آئرن لیڈی“ کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ نسیم ولی خان میں غیرمعمولی قوت فیصلہ بھی پائی جاتی تھی۔ اے این پی خیبر پختونخوا میں دو بار اتحادی حکومتوں کا حصہ رہیں۔ تاہم جب پارٹی کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو انہوں نے دستبرداری اختیار کر لی۔ 1998ء میں اے این پی نسیم بی بی کی سربراہی میں (ن) لیگ کے ساتھ مخلوط حکومت کا حصہ رہی۔
جب وزیر اعظم نواز شریف نے صوبہ سرحد کا نام پختون خوا رکھنے سے انکار کر دیا تو بی بی نے بعض صوبائی وزرا اور پارٹی رہنماؤں کی ہچکچاہٹ کے باوجود حکومتی اتحاد چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ 2012ء میں خیبر ٹی وی کو دیئے گئے اپنے آخری انٹرویو میں نسیم بی بی نے راقم کو بتایا کہ نواز شریف صوبے کا نام خیبر پختونخوا رکھنے پر راضی تھے، میں نے اسے مسترد کر دیا کیوں کہ میرا موقف تھا کہ جب ہم مخلوط حکومت کا حصہ بنے تو ہم سے پختونخوا کے نام کا وعدہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب 2010ء میں اے این پی نے اسفند یار ولی کی سربراہی میں اس نام پر اتفاق کر کے پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد قائم کیا تو وہ دنگ رہ گئیں۔
90ء کی دہائی کے آخر میں وہ پارٹی پر اپنا کنٹرول اور اثر و رسوخ کھونے لگیں۔ پارٹی امور پر ان کے ’سخت‘ کنٹرول اور اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے سے پارٹی رہنماؤں میں ناراضی بڑھنے لگی تھی۔ 2006ء میں اپنے شوہر خان عبد الولی خان کے انتقال کے بعد بی بی بالکل کمزور ہو گئیں اور دو سال بعد بیٹے سنگین ولی خان کی وفات نے انہیں مزید افسردہ کر دیا۔ انہوں نے پارٹی کے اندر ایک گروپ بنانے کی کوشش کی۔ اسے اے این پی ولی کہا جاتا تھا۔ تاہم بگڑتی صحت اور بڑھتی عمر نے انہیں دوبارہ فعال ہونے میں مدد نہ دی۔ یوں ایک سیکولر قوم پرست جماعت کی آئرن لیڈی سیاسی طور پر منظر عام سے غائب ہو گئی۔ بہر حال نسیم ولی خان کی موت تک پارٹی کارکنوں نے ان کی مور بی بی کے طور پر تعظیم کی۔
بشکریہ: دی نیوز آن سنڈے