سیف الرحمن رانا
موجودہ حکومت نے تعمیراتی شعبہ کو جو ٹیکس ایمنسٹی دی ہے لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ پرائیویٹ رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز بالخصوص بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض ریاست کے اندر ریاست قائم کرکے پہلے ہی بحریہ ٹاون کے صارفین سے اربوں کھربوں روپے ماہانہ کی بنیادپر لوٹ رہے ہیں۔
کیا کوئی بتا سکتا ہے پرائیوٹ ہاوسنگ و کمرشل پراجیکٹس کے ڈویلپرز کس ملکی قانون کے تحت بجلی، پانی، سالڈویسٹ مینجمنٹ، سیوریج کے کنکشن دینے کے علاوہ حکومتی نرخوں سے زائد قیمت وصول کررہے ہیں؟
ایف بی آر، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں،اور مختلف اقدامات کی منظوری دینے والی اتھارٹیز کے بدعنوان اہلکاروں کے ساتھ مل کر لینڈ مافیا عام شہری سے اربوں بلکہ کھربوں روپے لوٹ رہے ہیں۔
رئیل اسٹیٹ ایجنٹس اور ڈویلپرز براہ راست ٹیکس چوری میں ملوث ہیں۔ ڈویلپرز کم نرخوں پر رجسٹریاں کروا کر رجسٹری فیس کی مد میں اربوں کے گھپلے کے مرتکب ہورہے ہیں۔
انتہائی کم نرخوں پر زمین خرید کر 1000 گنا تک منافع پر پلاٹ بیچتے ہیں جبکہ قومی خزانہ میں ایف بی آر اہلکاروں کی مدد سے اربوں مالیت کی ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ ایف بی آر کے ریکارڈ کی چھان بین کی جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ لوگ اپنے منافع کا ہزارواں حصہ بھی ٹیکس کی مد میں ادا نہیں کر رہے۔
سرکاری زمینوں اور شاہراہ عام کے لئے وقف زمینوں پر قبضے کرنیکا جو کام بحریہ ٹاؤن نے شروع کیا تھا،وہ بھیاب سب ہاوسنگ سوسائیٹیز کا معمول بن چکا ہے۔
بطور ڈویلپر ترقیاتی کاموں کے کام میں بھی وہ ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ پلاٹ کے صارفین سے انتہائی زیادہ ڈویلپمنٹ چارجز وصول کرکے انتہائی غیر معیاری ترقیاتی کام کرتے ہیں۔
بحریہ ٹاون نے مارکیٹ میں یہ ٹرینڈ بھی متعارف کروایا کہ اس کے پاس زمین کم ہوتی تھی جبکہ وہ فائلز یا پلاٹس زیادہ تعداد میں فروخت کرکے اربوں روپے اکٹھا کرتے۔ بعدمیں زمین نہ ہونے کی سبب پلاٹ کا قبضہ دینے سے انکار کرکے فائلوں کی قیمت دو تہائی تک گرا دیتے۔اگلے مرحلے میں اونے پونے داموں یہی فائلیں واپس خرید کر اربوں کے گھپلے کئے گئے۔
قرین قیاس ہے کہ اس طرح کیآمدن پر بحریہ نے ایک روپیہ بھی ٹیکس قومی خزانے میں جمع نہیں کرایا۔اب یہ طریقہ واردات کم و بیش تمام ہاوسنگ کالنیوں اور ڈویلپرز کا معمول بن چکا ہے۔
اسی طرح بحریہ ٹاون اور دیگر ہاوسنگ سوسائیٹیز والے پلاٹ کا قبضہ تو بروقت نہیں دیتے لیکن اقساط میں تاخیر پر لاکھوں روپے جرمانہ کردیتے ہیں۔ عدم ادائیگی پر پلاٹ منسوخی کی دھمکی دیتے ہیں۔ اس پر مزید ظلم اس قسم کی وصولی پر ایف بی آر اہلکاروں کی ملی بھگت سی ایک روپیہ بھی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔
پلاٹ کا قبضہ دینے کی آڑ میں لاکھوں روپے اضافی فیس بھی وصول کی جاتی ہے۔ بحریہ ٹاون اس مد میں صرف دس مرلے کا قبضہ دینے پر پانچ لاکھ روپے وصول کرتا ہے۔ حیرت ہے کہ یہ رقم نقد وصول کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ملکی قوانین کے مطابق جہاں کوئی ڈویلپر کسی ہاوسنگ سوسائٹی کی منظوری کے لئے متعلقہ محکمہ کے پاس درخواست جمع کروائے تو اسے این او سی اس وقت ملے گا جب وہ شاہرات، پارکس، پارکنگ، قبرستان، فلاحی مقصد کے لئے مختص کل پراجیکٹ کی ایک فیصد جگہ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، پانی کی سپلائی اور سیوریج کے ڈسپوزل کے لئے مختص جگہ منظوری دینے والے سرکاری ادارے کے نام منتقل کردے۔
اسی طرح کسی بھی ہاوسنگ سوسائٹی میں بچھایا گیا بجلی، پانی، سیوریج، سٹریٹ لائٹ، کیبل، سوئی گیس غرضیکہ ہر قسم کا ترسیل کانظام متعلقہ سرکاری محکمے یعنی لیسکو، واسا، سوئی ناردرن گیس، پی ایچ اے، میونسپل کارپوریشن، ضلع کونسل یا کنٹونمنٹ بورڈ کی ملکیت بن جاتا ہے۔
بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض نے ملک کے بدعنوان نظام اور سرکاری عملے کو مال کا لالچ دے کر ساتھ ملایا اور ریاست کے اندر ریاست قائم کرکے ملکی نظام کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ ’فائل کو پہیہ‘لگا کر سرکار کو اپنی لوٹ کھسوٹ پر خاموش تماشائی بنادیا۔یوں بحریہ ٹاون کھربوں ’کما‘ چکا ہے۔ بحریہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اب ہر سوسائٹی یہی کچھ کررہی ہے۔
بحریہ ٹاؤن نے حکمرانوں اور سرکار اداروں کو خرید کر اس قدر لوٹ مار کی ہے کہ اب نقشہ کی ازخود منظوری کی آڑ میں لاکھوں روپے وصولی، ضروریات زندگی کے لئے درکار بجلی پانی جیسے کنکشن دینے کی مد میں ہزاروں روپے کی فیس وصولی،سٹریٹ لائٹ بل کی وصولی بغیر کسی لائسنس اور قانونی اجازت کے ازخود بجلی پیدا کرکے صارفین کو مہنگے ترین نرخوں پر بیچنا اور اربوں کی ٹیکس چوری،میٹر پانی و بجلی کی ماہانہ کرایہ،سیکورٹی، مالی اور تعمیر و مرمت کے نام پر ماہانہ اربوں کی ریکوری۔۔۔ بدمعاشی کے زور پر سرعام کی جارہی ہے۔
اسی طرح پی ٹی وی فیس، بجلی میٹر کرایہ، پانی میٹر کی مد میں اربوں کے سرکاری محاصل کاس بھی احتساب یا حساب کتاب کسی کے علم میں نہیں۔ گورنمنٹ محصولات کو بلڈر کے پرائیویٹ اکاونٹس میں جمع کرنا ان حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ دن رات یہ راگ الاپتے ہیں کہ ملک مقروض ہے۔ وہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے کھربوں روپے کی ریکوری کیوں نہیں کرتے ہیں؟
فیٹف منی لانڈرنگ میں ملوث رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کی بات کررہا ہے جبکہ حکومت یہ بات قوم کو بتانے کو ہی تیار نہ ہے۔ اگر حکومت نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ٹیکس ایمنسٹی دی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اس سیکٹر سے پیدا ہونے والی آمدن اور دیگر فوائد کو ریاستی کنٹرول میں لا کر قوم پر چڑھے قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال میں لائے۔
اسی طرح جن سرکاری زمینوں پر پرائیویٹ ڈویلپرز قبضہ کر کے پلاٹ بیچ چکے ہیں، اگر صرف اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہی ان سے ریکوری کر لی جائے تو کھربوں روپے راتوں رات حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
راولپنڈی اسلام آباد میں ایک حکومتی ایم پی اے کے بقول 325 ارب کی سرکاری زمینوں پر قبضہ کرکے بیچ دی گئی ہیں۔ سب سے زیادہ سرکاری جگہوں پر بحریہ ٹاؤن نے قبضہ کرکے کھربوں روپے کمائے۔
قصہ مختصر یہ ملک بحریہ ٹاونوں کی ضد میں ہے۔ کچھ بڑے بحریہ ٹاون ہیں،کچھ چھوٹے۔۔۔۔ رئیل اسٹیٹ کا سارا کاروبار کسی نہ کسی ملک ریاض کے قبضے میں ہے۔