طارق علی
مندرجہ ذیل اقتباس طارق علی کی کتاب ’دی ڈوئیل‘ (2008ء) سے لیا گیا ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ فاروق سلہریا نے ’پرزے ہوئے پیماں کتنے‘ کے عنوان سے کیا۔
1973ء میں جب میں پشاور گیا تو میں بغیر پاسپورٹ کے افغانستان سے ہو کر آیا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا یہ اب بھی ممکن ہے۔ اپنی اس کامیابی پر مسرور میں بذریعہ بس راولپنڈی پہنچا۔ اٹک کے پاس دریائے سندھ پار کرتے ہوئے شام ڈھلنے لگی۔ مجھے و ہ ڈھلتی ہوئی سرخ شام آج بھی یاد ہے جس کی دھوپ نے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔
دریا کا پرانا پُل ہمیشہ ہی بچپن اور جوانی کی یادیں تازہ کر دیتا ہے۔ طغیانی میں آئی موجِ دریا کا نظارہ کرتے ہوئے انسان کا ذہن تاریخ میں کھو جاتا ہے جو سکندر سے بھی قبل یورپ اور وسطی ایشیا سے متواتر آنے والے فاتحین کی جنوب کی طرف پیش قدمی کی گواہ ہے۔ عارضی پُلوں سے گزرتے ہوئے کتنے سپاہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں گے؟ یہاں سے ذرا اوپر، جہاں دریائے کابل پُر شور انداز میں اپنے زیادہ مشہور بھائی کے ساتھ شامل ہوتا ہے، وہاں مغل شہنشاہ اکبر نے ایک بہت بڑاقلعہ تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ ایسے دستوں کے قیام کے لئے بنایا گیا تھا جن کے ذمے حملہ آوروں کو روکنا، مقامی بغاوتوں کو کچلنا اور بلا شبہ تاجروں سے ٹیکس وصول کرنا تھا۔
چونتیس سال بعد اسلام آباد سے کار کے ذریعے سفر کرتے ہوئے اس پُل سے گزرا تو اپنے جوش و خروش پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا۔ اوپر قلعے پر اور نیچے دریا پر ایک نظر ڈالنے کے لئے میں نے گاڑی روک دی۔ یہ قلعہ اب سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والا بدنام بندی خانہ ہے اور اسے صرف فوجی حکومتیں ہی عقوبت خانے کے طور پر استعمال نہیں کرتیں۔ قلعے کے عین نیچے ابھری ہوئی جو دو چٹانیں ہوتی تھیں، باوجود کوشش کے نظر نہیں آئیں۔ کہاں گئیں؟ شائد وہ اس پرانے پُل سے ہی نظر آتی تھیں جو انیسویں صدی میں بنایا گیا تھا۔ وکٹورین انجینئرنگ کا شاہکار، وہ پرانا پُل مغل عہد کی عمارات کے کھنڈرات سے گھرا ہوا تھا۔ ان کھنڈروں میں ایک پرانا کتبہ بھی تھا جس پر ’طوائف کی آرام گاہ‘ کندہ تھا (یہ سزا ایک ملکہ نے اپنے شوہر کی پسندیدہ داشتہ کو دی تھی) جو بچپن میں ہم بچوں کو کھلکھلانے پر مجبور کر دیتا۔
دو چٹانیں کمال الدین اور جمال الدین نامی دو بھائیوں سے منسوب تھیں جنہیں مغل اعظم نے کنویں میں الٹا لٹکوا دیا تھا۔ اختلافِ رائے کے حوالے سے اکبر کی برداشت بارے اکثر مبالغہ سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جب یورپ میں کیتھولک انکوئزیشن نے دہشت مچا رکھی تھی، اس وقت اکبر نے فرمان جاری کیا ”انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق مذہب بدل سکتا ہے“۔ آگرہ میں اکبر نے جو مذہبی مناظرے منعقد کئے ان میں ہندو، مسلم، عیسائی، پارسی، جینی، یہودی اور چاروک مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے تشکیکی بھی شامل ہوتے جن کا کہنا تھا کہ برہمنوں نے صرف اپنے ”روٹی روزگار“ کی خاطر مرنے والوں کے لئے رسمیں بنا رکھی ہیں۔
جب اکبر کی حکوت کو خطرہ درپیش ہوتا تو وہ اپنے ہی جاری کردہ قوانین کی خلاف ورزی بھی کرتا لہٰذا وزیرستان کے باغی پشتونوں اور ان کے فلسفے سے اس کی ناراضی سمجھ میں آتی ہے۔ ان دونوں بھائیوں کا تعلق سولہویں صدی کے مسلم فرقے روشنائی سے تھا۔ اس فرقے کی بنیاد ان کے والد پیر روشن نے رکھی تھی۔ یہ لوگ ہر الہامی مذہب، نتیجتاً قرآن، کے منکر تھے۔ وہ بادشاہوں اور پیغمبروں کو وسیلہ ماننے کے قائل نہ تھے۔ خالق تو واحد ہے اور ہر انسان کو ذاتی حیثیت میں اس سے رشتہ جوڑناہے۔ مذہب اللہ اور بندے کے مابین فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔
اکبر مختلف مذاہب کے اشتراک سے ایک نیا نذہب تشکیل دینے میں مصروف تھا جس کا مقصد مختلف دھرموں اورطبقوں میں خلیج کو ختم کرتے ہوئے بھارت کو متحد کرنا تھا۔ روشنائیوں پر جبر کی وجہ کوئی نظریاتی مخاصمت نہ تھی۔ ان کی تعلیمات اس علاقے کے کسانوں میں مقبول تھیں اور زندگی بارے ان کا رویہ عموماََمرکزی انتظامیہ کے خلاف بغاوت کا جواز بنتا تھا۔ فوجی اور تجارتی مرکز کے طور پر پشاور شہر کی بنیاد رکھنے والے مغل بادشاہ کے لئے یہ ناقابلِ برداشت تھا۔
تیس لاکھ کی آبادی کا شہر پشاور پچھلے پچیس سالوں میں تین گنا بڑھ گیا ہے۔ اس کے مکینوں کی بڑی تعداد مہاجروں کی وہ تین نسلیں ہیں جوبیسویں اور اکیسویں صدی میں بڑی طاقتوں (امریکہ اور روس) کی شروع کی ہوئی باہم متصل تین جنگوں کے نتیجے میں یہاں آباد ہیں۔ برطانوی راج نے جو کلونیل شہر آباد کیا وہ کنٹونمنٹ کی طرز پر تعمیر کیا گیا جس کا مقصد برطانوی ہند کی شمال مغربی سرحد کو زارِ روس اور بالشویکوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے فوجی دستوں کا قیام و طعام تھا۔ شہر کا یہ کردار نہ صرف آج بھی باقی ہے بلکہ اس کے دائرہ کار میں اضافہ ہو گیا ہے۔
پشاور گو آج بھی سرحدی شہر ہے مگر صورتحال ہرگز وہ نہیں ہے جو نیو یارک ٹائمز نے اپنی 8 جنوری 2008ء کی اشاعت میں پیش کی ہے کہ ”صدیوں سے لا قانونیت اور بد امنی شہر کی زندگی کا حصہ ہے“۔ پشاور بارے یہ سوچ سلطنتِ برطانیہ کے ثنا خواں رُڈیارڈ کپلنگ کی ان تحریروں کی عکاس ہے جنہیں غلط طور پر تاریخ سمجھ کر پڑھا جاتا ہے۔ لاہور سے شائع ہونے والے سول اینڈ ملٹری گزٹ کی 28 مارچ 1885ء کی اشاعت میں کپلنگ کا ایک مراسلہ شائع ہوا جو اس نے پشاور سے بھیجا جسے اس نے ایک ”بھیانک صورت شہر“ قرار دیا۔ اس مراسلے میں برطانوی موجودگی بارے پائی جانے والی نفرت کا اظہار یوں کیا گیا ہے:
”مٹھائی فروشوں اور گھی فروشوں کی دکانوں کے سامنے، ان دکانوں کی روشنی میں بد ترین الفاظ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کتوں، خنزیروں، نیولوں اور بکریوں کے چہرے اور بھی بھیانک ہو جاتے ہیں جب وہ انسانی جسم پر سجے ہوں، انسانی ذہانت سے منور ہوں، لالٹین کی روشنائی میں بیٹھے ہوں، جہاں متواتر آدھا گھنٹہ ان کا مشاہدہ ہو سکتا ہے۔ پٹھان، آفریدی، لوگا، کوہستانی، ترکمان اور سرکش پٹھان نسل کی دیگر سینکڑوں شاخیں کسی انسانی وحوش خانے کی طرح گیٹ سے لیکر غور کٹری تک پھیلی نظر آئیں گی۔ اگر کوئی انگریز یہاں سے گزرے گا تو یہ اس پر تیوری چڑھائیں گے اور اکثر اس کے گزر جانے کے بعد زمیں پر بار بار تھوکیں گے۔ موٹی توند والا ایک بدمعاش، جس کا سر منڈا ہوا ہے اور گردن پر چربی کی تہیں لگی ہوئی ہیں، یہ مذہبی فریضہ سر انجام دینے میں بالخصوص پُر جوش ہے۔ وہ تھوک پھینکنے کی رسمی کارروائی پر اکتفا نہیں کرتا، وہ بلغم والی تھوک پھینکتا ہے جو اس کے ساتھیوں کے لئے تو کوئی خوشگوار تجربہ ہو گا مگر کسی یورپی کے لئے نتہائی کریہہ، سَر…ایسے لیکن ہزاروں ہیں۔ مرکزی سڑک زبردست قسم کے لفنگوں اور خوبصورت بدمعاشوں سے بھری ہوتی ہے۔ سب کسی دیکھنے والے کو یوں نظر آئیں گے گویا وحشی جانور ہیں جنہیں قتل اور تشدد سے روکنے کے لئے باندھ دیا گیا ہو اور اس روک کے خلاف وہ پیچ و تاب کھا رہے ہوں“۔
انیسویں اور بیسویں صدی میں یہاں زیادہ گڑ بڑ نہیں پائی جاتی تھی ماسوائے دورانِ جنگ۔ گو آزادی خواہ قومی رجحان کو دبانے اور ناکام بنانے کے لئے برطانیہ نے فوجی راج نافذ کر رکھا تھا اور معمولی باتوں پر کڑی سزائیں دی جاتی تھیں مگر بیسویں صدی میں یہاں چلنے والی سب سے بڑی تحریک بالخصوص پر امن تھی۔ 1930ء کی دہائی میں چارسدہ کے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں، غفار خان اور ڈاکٹر خان صاحب نے برطانیہ کے خلاف عدم تشدد پر مبنی تحریک شروع کی۔ ُسرخ پوش تحریک (یہ نام اس تحریک کے کارکنوں کی سرخ قمیضوں کی وجہ سے دیا گیا نہ کہ کسی نظریاتی بنیاد پر۔ یہ رضاکار گاندھی سے متاثر تھے، لینن سے نہیں) کے نام سے مشہور ہونے والی یہ تحریک جلد ہی پو رے خطے میں پھیل گئی۔ غفار خان ور ان کے رضاکار کسانوں کو راج کے خلاف منظم کرنے گاؤں گاؤں پہنچے اور جلد ہی دور دراز دیہاتوں میں بھی تحریک کی شاخیں قائم ہو گئیں۔
اس تنظیم کی مقبولیت سے گھبرا کر راج نے فیصلہ کیا کہ ”برائی کا جڑ سے ہی خاتمہ“ کر دیا جائے۔ اس کا نتیجہ 1930ء میں قصہ خوانی بازار کے قتلِ عام کی صورت میں نکلا جب ہزار کے لگ بھگ سرخ پوش کانگریسی رہنماؤں کو خوش آمدید کہنے کے لئے جمع تھے کہ انہیں بتایا گیا کانگریسی رہنماؤں کے صوبہ سرحد میں داخلے پر پابندی ہے۔ کانگریس نے ایک جلسہ کیا اور انگریز ملکیت میں چلنے والی دکانوں کے مقاطعے کا تقاضا کیا۔ گورنر نے غفار خان اور بعض دیگر کی دفعہ 144 کے تحت گرفتاری کے احکامات جاری کئے جس کے تحت چار سے زیادہ افراد عوامی مقامات پر جمع نہیں ہو سکتے اور جنوبی ایشیا میں آج بھی یہ دفعہ اکثر زیرِ استعمال رہتی ہے۔ مظاہرین نے منتشر ہونے سے انکار کر دیا، فوجی دستوں نے گولی چلا دی، دو سو کارکن ہلاک ہو گئے۔ مزید لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انکی بڑی تعداد نے دستوں کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ چار دن تک پشاور اہلِ پشاور کے زیرِ انتظام پر امن انداز میں چلتا رہا تا آنکہ مزید برطانوی دستے کمک کے طور پر شہر میں آن پہنچے۔ قتلِ عام اور اس کے عواقب بارے ایک انگریز افسر سر ہربرٹ تھامسن کی رائے یہ تھی کہ یہ عین وہی بات تھی گویا ’ایک بچہ اپنی ہی شرارت سے گھبرا کر اپنی آیا کی محفوظ گود میں چلا آئے‘۔
پولیس کے جاسوسوں اور ایجنٹوں کے بھر پور استعمال کے باوجود انگریز سرکار غفار خان اور ان کے حامیوں بارے ایک بھی ثبوت سامنے نہ لا سکی اس کے باوجود سرخ پوش تحریک کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریاں، ان کو ہراساں کرنے کا عمل اور ان سے بد سلوکی جاری رہی۔ قصہ خوانی بازار کے واقعہ کی وجہ سے سرخ پوش تحریک کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ غفار خان مسلمان تھے اور اس کے باوجود ایک متحدہ سیکولر ہندوستان پر یقین رکھتے تھے لہٰذا مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کی نظر میں آ گئے۔
سرخ پوش تحریک نے کانگرس سے الحاق کی درخواست دی اور یہ درخواست منظور کر لی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کانگرس کا اس صوبے میں وجود قائم ہو گیا اور یوں 1937ء کے بعد ہونے والا ہر انتخاب یہ جماعت با آسانی جیت گئی۔ نہرو نے بعد ازاں اپنی سوانح عمری میں لکھا:
”یہ حیران کن بات تھی کہ اس پٹھان نے کس طرح عدم تشدد کا نظریہ قبو ل کر لیا بالخصوص نظرئیے کے طور پر وہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کی نسبت اس کے زیادہ قائل تھے اور چونکہ وہ عدم تشدد کے قائل تھے لہٰذا انہوں نے اپنے لوگوں کو بھی قائل کر لیا کہ کس طرح ہر اشتعال انگیزی کے باوجود پُر امن رہنا ہے۔ 1930…ء اور اس کے بعد جس خُود تنظیمی کا مظاہرہ سرحد کے لوگوں نے کیا وہ حیران کن تھا“۔
مسلم اکثریت والایہ صوبہ تصورِ پاکستان اور مسلم لیگ سے بیگانہ ہی رہا گو بعد ازاں مسلم لیگ نے سامراجی نوکر شاہی، پولیس اور دھونس دھاندلی کے امتزاج سے اس صوبے میں پیر جما لئے۔ ہندو مسلم تقسیم کو انگریز سرکار پورے انہماک کے ساتھ پروان چڑھاتی رہی تھی لہٰذا وہ تذبذب کا شکار تھی اور اسے سرخ پوشوں پر خوب تاؤ آ رہا تھا۔ انگریز دور کے ایک اور سرکاری افسر َسر اولف قاروئی نے اپنی کتاب میں اس بابت عارفانہ رجعت پسندی کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ پشتون (نو آبادیاتی اصطلاح میں پٹھان) قوم بارے قاروئی کی رقم کردہ تاریخ عمومی طور پر دلچسپ ہے مگر جا بجا ایسی ندرتیں بھی ملیں گی: ’یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ پٹھان روایت نے کس طرح ہندو قیادت سے اتنا لمبا عرصہ نبھاہ کر لیا کہ بہت سے لوگ ہندو کو ظاہر دار، منافق اور دو رُخا سمجھتے ہیں…ایسے میں اِس نے کس طرح ایک ایسی جماعت سے تعلق قائم کر لیا جو بھارتی بلکہ برہمن قیادت میں چل رہی تھی‘۔ انہی خطوط پر ایسی کئی حماقتیں اس کتاب میں موجود ہیں۔ جو پشتون انگریز کی مرضی پر چلنے کو تیار نہ تھے ان سے سختی کے ساتھ نپٹا گیا۔
ایک امریکی صحافی اس تنازعے کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے گاندھی کا انٹرویو کیا۔ گاندھی سے اس نے پوچھا: ’مغربی تہذیب بارے آپ کا کیا خیال ہے‘؟ بوڑھے لومڑ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’خیال تو اچھا ہے‘۔
یہ جواب دیتے ہوئے گاندھی کے ذہن میں پشتونوں کے ساتھ ہونے والا سلوک نمایاں تھا۔
برطانوی ایجنٹ قبائل کو ساتھ ملانے کے لئے رشوت دیتے جبکہ پراپیگنڈہ باز یہ جھوٹا پراپیگنڈہ کرتے کہ غفار خان، جو ویسے ایک پاکباز مسلمان تھے، خفیہ برہمن ہے۔ کانگرس رہنماؤں کی اس صوبے میں داخلے پر پابندی تھی مگر برطانوی نواز مسلم لیگ کے لئے تمام دروازے کھلے تھے۔ برطانوی راج کی اس فیاضی کے باوجود پشتونوں کی اکثریت اگر قائل نہ ہو سکی تو اس سے غفار خان کی تحریک کے اثر و رُسوخ کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ان کے عدم تشدد اور متحدہ آزاد ہندوستان کے نظریات کی جڑیں بہت گہری تھیں۔ کئی دہائیوں کے تشدد اور رشوت ستانی (یہ عمل پاکستان بن جانے کے بعد بھی جاری رہا) کے نتیجے میں ان نظریات کو اس دھرتی سے اکھاڑا جا سکا مگر گمبھیر نتائج کے ساتھ۔
یہ سا مراجی مفروضہ کہ پٹھان ’عالی ظرف وحشی‘ اور ’بچگانہ‘ ہوتا ہے، نو آبادیاتی ادب میں نمایاں ہے۔ ِکپلنگ کے افسانے اور مغلوب ہم جنس پرستانہ جذبات پر مبنی اِس کا ناول ’کِم‘ میں بھی ایسا ہی ہے۔ خود ہی اس بات کا قا ئل ہو جانے کے بعد کہ یہ قدیم جنگجو قبائل کسی منطقی سوچ کا مظاہرہ نہیں کر سکتے اور انہیں مسلسل مدد کی ضرورت ہے، انگریز سرکار بہت حیران ہوئی جب پٹھان عدم تشدد کے راستے پر چل پڑے۔ استعمار ی تاریخ دانی میں تو پٹھان اور تشدد لازم و ملزوم تھے۔
پشاور میں آج جو کشیدگی اور متشدد رجحانات دکھائی دیتے ہیں، ان کا تعلق گذشتہ چندصدیوں سے کم اور پڑوسی ملک افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ سے زیادہ ہے۔