اداریہ

’یہ گرفتاری شہزاد اکبر کے کہنے پر ہوئی‘

اداریہ جدوجہد

صیاد و گلفروش ہی خوش بخت ہیں فراز
جو بھی چمن پرست تھا زندانیوں میں تھا

ہفتے کی صبح کا آغاز اس پریشان کن مگر متوقع خبر کے ساتھ ہوا کہ معروف صحافی عامر میر اور عمران شفقت کو ’اٹھا‘لیا گیا ہے۔ کچھ گھنٹوں کی تاخیر کے بعد معلوم ہوا کہ ایف آئی اے نے’گرفتار‘ کیا ہے۔

دونوں صحافیوں کو شام تک رہا کر دیا گیا لیکن اس واقعہ نے ایک مرتبہ پھر ملک میں آزادی اظہار کی سکڑتی ہوئی خلا کا اظہار کیا۔ عامر میر پاکستان کے معروف اینکر پرسن حامد میر کے بھائی اور ماضی کے معروف ترقی پسند کالم نگار و دانشور وارث میرکے صاحبزادے ہی نہیں، وہ عرصہ تیس سال سے خود بھی صحافت میں ہیں۔

وہ ماضی میں لاہور پریس کلب کے کئی بار عہدیدار منتخب ہونے کے علاوہ دی نیوز جیسے اخبارات اور ملک کے تمام بڑے نیوز چینلوں کے ساتھ وابستہ رہ چکے ہیں۔

لگ بھگ دو سال قبل، انہوں نے اپنا ٰیو ٹیوب چینل گگلی (Googly) کے نام سے شروع کیا۔ گگلی اپنی بے باک رپورٹنگ کی وجہ سے ایک اہم یوٹیوب چینل بن گیا ہے جس کے ساڑھے تین لاکھ سے زائد سبسکرائبر ہیں۔

اسی طرح عمران شفقت عرصہ دراز سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز لاہور کے اردو اخبارات سے بطور کورٹ رپورٹر اور کرائم رپورٹر کیا۔ بعد ازاں وہ ٹیلی ویژن میڈیم کے ساتھ وابستہ ہو گئے اور مختلف نیوز چینلوں میں پروڈیوسر کے طور پر کام کرتے رہے۔ کچھ عرصہ قبل جب بیروزگار کر دئیے گئے تو انہوں نے بھی اپنا یو ٹیوب چینل شروع کر دیا جو کافی مقبول ہو رہا ہے۔ ان کے یوٹیوب پروگرام’بیٹھک‘کے بھی سوا لاکھ سے زائد سبسکرائبر ہیں۔

عامر میر اور عمران شفقت کی گرفتاری پر حامد میر نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ عامر میر کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ میرے بھائی ہیں جبکہ عمران شفقت کو اس لئے گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے مجھ پر لگی پابندی بارے پروگرام کیا۔

معظم فخر جو لاہور کے ایک اور سینئر صحافی ہیں، انہوں نے اپنے ویلاگ میں دعویٰ کیا ہے کہ عمران شفقت کی گرفتاری شہزاد اکبر کے کہنے پر ہوئی کیونکہ عمران شفقت نے جہانگیر ترین گروپ کو توڑنے بارے پی ٹی آئی کی پس پردہ کوششوں بارے خبر دی تھی۔

یہ سب دعوے اپنی جگہ ایک بات طے ہے کہ گگلی ہو یا بیٹھک، حکمران طبقہ مین سٹریم میڈیا کے بعد اب سوشل میڈیا پر موجود اختلافی آوازوں کو دبانے پر تلا ہوا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک طرف تو اختلافی آوازوں کو دبانے کے لئے ٹرولز آرمی بٹھا دی گئی ہیں جو فیس بک اور ٹوئٹر پر ہر مخالف کو غلیظ ترین زبان میں گالیاں دینے پر مامور ہے، دوسری طرف ننگے تشدد کا سہارا لیا جا رہا ہے (مطیع اللہ جان، ابصار عالم، اسد علی طور، عامر میر، عمران شفقت تازہ ترین مثالیں ہیں) اور تیسرا حربہ یہ ہے کہ شہاب الدین جیسے ویلاگرز کی ریاستی سرپرستی کی جا رہی ہے۔

ایک طرف سرکاری ’اغوا‘ کی شکل میں خوف پھیلایا جاتا ہے تو دوسری جانب ٹرولز آرمی اور شہابیوں کی مدد سے منحرف افراد کی کردار کشی کے ذریعے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ یہ شرمناک کھیل اب رکنا چاہئے۔

اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔ اختلاف رائے اور مباحثہ معاشرے کو مہذب بنانے، ترقی دینے اور مسائل حل کرنے کی جانب پہلا بنیادی قدم ہے۔

اظہار رائے کے حق کے لئے قربانیاں دینے والے صحافی پاکستانی معاشرے کے ہیرو ہیں۔ ’روزنامہ جدوجہد‘ اس جدوجہد میں ان کے ساتھ ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts