خالد احمد
ترجمہ: رانا مبشر
ہندوستان میں سال 2019ء کے اختتام کے موقع پر جو کچھ ہوا وہ اس کے باوجود ناقابل یقین ہے کہ ہندوستان میں مذہب کا اثر بہت بڑھ گیا ہے۔ یہ سب پاکستانیوں کے لئے خصوصاًحیران کن تھا جو خودکئی دہائیوں سے اسلامی انتہا پسندی کا شکار ہیں۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کانپو ر صرف اس بنا پر نالاں ہے کہ وہاں طلبہ نے دسمبر میں کیمپس میں شہری ترمیمی ا یکٹ کے خلاف احتجاج کے دوران فیض احمد فیض کی مشہور نظم ”ہم دیکھیں گے“سنائی تھی۔ نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک پروفیسر نے بھی شکایت کی کہ ”احتجاج کرنے والے طلبہ نے اس تقریب میں فرقہ وارانہ تبصرے کیے تھے“۔
مندرجہ ذیل مصرعے بہت ناگوار گزرے:
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا، مردودحرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
اعتراض لفظ ”بت“پر تھا جسے ”مورتی“کے تناظر میں دیکھاگیا اور اس لئے اسے ایک فرقہ وارانہ توہین کے طور پر سمجھا گیا۔ شاید اللہ کی توہین کے تناظر میں بھی۔
واپس پاکستان کی جانب آتے ہیں جہاں ہندوستان میں ہونے والے احتجاج پر سب حیران تھے۔ فیض ایک انتہائی سیکولر شخص تھے۔ انہیں سوویت یونین سے لینن امن انعام ملا تھا۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں انہیں اسلام پسند انتہا پسندوں کے ہاتھوں بدسلوکی کاشکار بننا پڑا۔ یہ انتہا پسند اس بات سے ناراض تھے کہ فیض نے اسلامی علامات کو ایک انتہا پسند مذہبی نظام کے خلاف احتجاجی نظم میں استعمال کیا۔ اس نظام کے خلاف لکھی گئی نظم کا عنوان ”ہم دیکھیں گے“ قرآن مجید سے لیا گیا تھا۔
جنرل ضیا کب کا اس دنیا سے کوچ کرگیا، فضائی حادثے میں مشکوک طور پر مارا گیا، لیکن ضیا کا قانون قانونی ضابطوں میں اسلامی ترمیم کے ذریعے آج بھی برقرار ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ کچھ پاکستانی ہندوستان میں مذہب کی بلند ہوتی آوازوں کو اپنی فتح کے طورپر دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:دیکھو، ہم نے پاکستان کو تشکیل دینے والے دو قومی نظریے پر اپنے اعتقاد کا اعلان کرکے بالکل ٹھیک کیاتھا۔ آج ہندوستان میں وہی بات سڑکوں پر ہورہی ہے۔ یہ نظریہ1947ء کے بعد زیادہ عرصہ تک زندہ نہیں رہ سکا۔ بنگلہ دیش نے بھی خود کو ایک قوم کی حیثیت سے پاکستان سے علیحدگی اختیار کر لی۔ آزاد ہوکر سیکولر آئین اورحیرت انگیز طور پر رابندر ناتھ ٹیگور کے لکھے ہوئے ”جامع“ قومی ترانہ کو اپنایا۔ پاکستان اپنے مشہور دو قومی نظریے کی بنا پر علیحدہ ہونے کے بعد بھی اپنا وجود باقی نہیں رکھ سکا۔ بالآخر بنگلہ دیش کی صورت میں اس کے ٹکڑے ہوگئے۔ کیا ہندوستان باقی رہ سکے گا؟
ہندوستان در حقیقت، فیض کی فرقہ واریت سے ناراض نہیں ہے۔ یہ فیض کے تکثیری پیغام سے ناراض ہے۔ اس نے کچھ عرصہ پہلے ہی اس کے پیغام کو ناپسند کرنا شروع کردیاتھا۔ 2016ء کے موسم خزاں میں، جب جیو مامی 18 واں ممبئی فلم فیسٹیول ہوا تو فیض احمد فیض کی لکھی ہوئی کہانی پر بنائی گئی فلم ”جاگو ہوا سویرا“ پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یاد رہے اس فیسٹیول میں ”انڈین پیپلزتھیٹرایسوسی ایشن“ کے، پدما شری ایوارڈ یافتہ، ٹرپتی میترا سمیت اہم ہندوستانی ستارے شامل تھے۔
پھر 2018ء میں، فیض احمد فیض کی صاحبزادی(پاکستان میں فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ کی ٹرسٹی) منیزہ ہاشمی کو، نئی دہلی میں 10مئی کو منعقدہ 15 ویں ایشیا میڈیا سمٹ میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی حالانکہ انہیں تقریب میں تقریر کی باضابطہ دعوت دی گئی تھی۔ منیزہ ہاشمی نے بھارت میں ”کیا تمام اچھی کہانیاں تجارتی لحاظ سے بھی کامیاب ہونی چاہیں؟“پر تقریر کرنا تھی لیکن جب وہ نئی دہلی میں اپنے ہوٹل پہنچیں تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے نام پرتو کوئی کمرہ بک ہی نہیں کیا گیا ہے کیونکہ ”اس تقریب میں کسی بھی پاکستانی کو مدعو نہیں کیا گیا ہے“۔ انہوں نے ہندوستان سے جاتے ہوئے کہا: ”مہمان مقرر کے طورپر دعوت دینے کے باوجود کوئی بھی مجھے اجلاس سے خطاب کرنے کی اجازت دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔“
ہندوستان اس اخلاقیات سے دور جارہا ہے جس نے ایک زمانے میں اس کو مجبور کیا کہ وہ ”بندے ماترم“کو ایک بار اپنے قومی گیت کے طور پر اپنالے لیکن انہوں نے ترانے سے پہلے دو مصرعوں کو حذف کردیا کیونکہ وہ مسلمانوں کو ناگوارگزرتے تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پولارائزیشن آج اس قدرزیادہ ہے کہ مسلم سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ شفیق الرحمن بارق نے لوک سبھا میں واقعتایہ کہاکہ: ”بندے ماترم اسلام کے خلاف ہے، ہم اس کی پیروی نہیں کرسکتے ہیں۔“ ان کے بیان کے جواب میں پارلیمنٹ میں کئی رہنماؤں نے ”بندے ماترم“ او ر ”جئے شری رام“کے نعرے لگائے۔
یہ اس دور کی بات ہے جب تقسیم سے پہلے سب ہندوستانی تھے۔ 1918ء میں، یورپی ممالک کے ایک گروہ نے عثمانی خلافت کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا چونکہ ترکی کا خلیفہ تمام مسلمانوں کا خلیفہ تھا، لہٰذا برطانوی ہندوستان میں اس کا رد ِعمل سامنے آیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد، جو 1947 ء میں آزادی کے بعد ہندوستان کے وزیر بنے تھے، نے احتجاج کا مطالبہ کیا۔ تحریکِ خلافت پوری تاریخ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تحریک بن گئی اور اس کی قیادت ایک ہندو نے کی جس کو آج تمام ہندوستانی مہاتما گاندھی کے نام سے یاد کرتے ہیں جبکہ مسلم قائدین علامہ اقبال اور جناح اس تحریک سے دور رہے۔ اس تحریک کی اہمیت تھی کیونکہ اس میں ہندوؤں نے حصہ لیا تھا۔ اس بے مثال تعاون نے دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ اس جامعہ کا ایک مقصد مسلمانوں میں ”حقیقی اسلامی اور ہندوستانی اقدار کو فروغ دینا“ تھا۔ یہ یونیورسٹی ہندوستان کے ممتاز تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے۔ گاندھی نے شاعر علامہ اقبال کو وائس چانسلرشپ بھی دے دی جس کو انہوں نے مسترد کردیا۔
فیض کے پوتے علی ہاشمی نے نئی دہلی میں منعقدہ ایک کانفرنس سے اپنی والدہ کو دعوت کے باوجود خطاب کرنے کی اجازت نہ ملنے پر ایک مضمون لکھا جس میں ”پاک و ہند سرحد کے دونوں اطراف خونریزی اور مذہبی تناؤ کے عروج“پر نوحہ کیا اور اس بات کی نشاندہی کی کہ فیض کا بھارت سے تعلق اتنا ہی تھا جتنا کہ پاکستان کے ساتھ تھا۔ فیض پاکستان میں سیالکوٹ کے قریب پیدا ہوئے اورپلے بڑھے، فیض کی پہلی ملازمت ایم اے او کالج، امرتسر میں تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران انہوں نے دہلی میں برطانوی ہند کی فوج میں خدمات انجام دیں۔ سری نگر میں شادی ہوئی اور اس سرزمین سے گہراپیار برقرار رکھا جو 1947 ء کے بعد ہندوستان بن گیا تھا۔ اس کی دونوں بیٹیاں اسی ہندوستان میں پیدا ہوئیں جو اب ہندوستان ہے۔
علی ہاشمی نے کہا: ”فیض نے ہندوستان کی تقسیم کے بارے میں کبھی بھی اعلانیہ رائے نہیں دی تھی لیکن 1947ء کے پاکستان ٹائمز میں ان کے اداریوں نے یہ خوب واضح کیا کہ وہ اجتماعی خونریزی (پاکستان کے قیام) کے بارے میں کیسے خیالات رکھتے تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے لکھاکہ مسلمانوں کو اپنا پاکستان، ہندوؤں اور سکھوں کو اپنا منقسم پنجاب اور بنگال مل گیا، لیکن مجھے ابھی تک کسی ایسے مسلمان، ہندو یا سکھ سے ملنا ہے جو دونوں ممالک (پاکستان اور ہندوستان) کے مستقبل کے بارے میں پرجوش خیالات رکھتاہو۔ میں کسی ایسے ملک کے بارے میں نہیں جانتا جس کے لوگ آزادی ملنے پر اس قدر رنجیدہ اور شکستہ دل ہوں“۔