خبریں/تبصرے

یک صنفی شہر بد بودار ہوتا ہے

یاسمین افغان

افغان خواتین کی جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ انہوں نے ہمیشہ قابضین کے خلاف جنگ میں ایک فعال کردار ادا کیا ہے، ایسی ہی ایک مثال ملالئی میوندی کی ہے جو آزادی کی لڑائی کے دوران اپنے کردار کے لیے مشہور ہیں اور کچھ لوگ انہیں 1880ء میں میوند جنگ کی فتح کی وجہ سمجھتے ہیں۔ شاہ امان اللہ خان کی اہلیہ ثریا تارزی نے ان اصلاحات کے لیے ان کا ساتھ دیا اور وہ پہلی خاتون تھیں جو اپنا چہرہ ڈھانپے بغیر عوام کے سامنے آئیں۔ ان کے اس اقدام کی وجہ سے خواتین کی عوامی زندگی میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ 1979ء میں سوویت افواج کی طرف سے افغانستان پر قبضے کے وقت بھی خواتین سڑکوں پر آئیں اور قابضین کے خلاف احتجاج کیا۔ انہوں نے سوویتوں کے خلاف مزاحمت میں اپنا کردار ادا کیا۔ 1992-96ء کے دوران، جب طالبان افغانستان پر حکومت کر رہے تھے، خواتین گھروں کی چار دیواری تک محدود تھیں اور بہت سے کارکنان خانہ جنگی کے دوران ملک چھوڑ کر بھاگ گئے لیکن پاکستان اور دیگر جگہوں پر مجاہدین کے خلاف سرگرمی سے کام کر رہے تھے۔ طالبان خانہ جنگی کے بعد با آسانی اقتدار میں آئے اور 1996ء سے 2001ء تک افغانستان کے بیشتر حصے پر کنٹرول کیا۔ عورتوں کو صرف سفید جوتے پہننے، یا اونچی آواز میں ہنسنے کی وجہ سے مارا پیٹا گیا، انہیں سنگسار کر دیا گیا اور خواتین عوامی زندگی سے غائب تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے افغانستان صرف مردوں کا ملک ہے اور عورتوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ امریکی اور نیٹو حملے نے خواتین کے لیے کچھ تبدیلیاں لائیں، جیسے تعلیم اور روزگار تک رسائی کے قابل بنایا۔ افغان خواتین نے پارلیمنٹ اور خواتین کے حقوق کے گروہوں اور سول سوسائٹی میں نمائندگی حاصل کرنا شروع کی۔ خواتین نے عوامی زندگی میں وزیروں سے لے کر گورنروں، ڈائریکٹروں سے لے کر فوج اور پولیس افسران تک نظر آنا شروع کر دیا۔ سیاسی اور عوامی شعبوں میں بہتر شرکت کی مانگ بڑھ گئی۔

15 اگست 2021ء کو طالبان بغیر کسی مزاحمت کے کابل میں داخل ہو گئے اور افغان صدر بھاگ گئے۔ اگلے دن شہر خالی ہو گیا کیونکہ ہر کسی کو بدترین حالات کا خدشہ تھا لیکن نوجوان افغان خواتین کا ایک گروپ باہر آیا اور طالبان کا مقابلہ کیا۔ یہ طالبان کے خلاف مظاہروں کا آغاز تھا۔ نوجوان خواتین کارکنان، جو بنیادی طور پر یونیورسٹی کی طالبات تھیں، نے مساوی حقوق اور سیاسی اور عوامی شعبوں میں شرکت کا مطالبہ کیا۔ جلد ہی اس احتجاج کے بعد ہرات شہر میں احتجاج بھی ہوا۔ تقریباً 60 طالبات، کارکن، اساتذہ اور سرکاری ملازمین باہر آئیں اور نعرے لگائے کہ ’خوفزدہ نہ ہوں، ہم ساتھ ہیں‘۔ ان کے پاس ایک اعلامیہ بھی تھا جس میں کہا گیا تھا کہ خواتین کی تعلیمی، سیاسی اور معاشی محرومی ظلم، امتیازی سلوک اور تشدد کی علامت ہے، ہم اس نظام کو قبول نہیں کر سکتے جو ہمیں ختم کرنا چاہتا ہے اور ہمارے حقوق کو نظر انداز کرنا چاہتا ہے۔ اگلے دن کابل نے ایک اور احتجاج دیکھا اور خواتین باہر نکلیں اور ان سے مساوی حقوق کا مطالبہ کیا۔ جلد ہی اس احتجاج کے بعد ایک اور احتجاج منعقد ہوا جہاں انہوں نے نعرہ لگایا کہ ’افغان خواتین قید کو قبول نہیں کریں گی، جمہوریت، انصاف اور آزادی زندہ باد‘۔ افغانستان کے جنوب مغرب میں واقع صوبہ نمروز میں لوگ خواتین کے اقتدار میں شراکت داری مانگنے کیلئے کئے گئے احتجاج پر جاگ اٹھے۔ ایک احتجاج میں مزار شہر میں خواتین نے کہا کہ خواتین کی شرکت کے بغیر خصوصی حکومت کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ انہوں نے یہ نعرہ بھی لگایا کہ ’ہم چادر (برقعہ) نہیں پہنیں گے‘، ’ایک صنف پر مشتمل شہربدبودار ہے‘، انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے حقوق اور آزادی کا مطالبہ بھی کیا۔


یہ افغانستان کے مختلف شہروں میں احتجاج کی پہلی لہر ہے۔ یہ احتجاج جاری رہے گی کیونکہ طالبان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ خواتین فیصلہ سازی کے عہدوں پر نہیں رہ سکتی ہیں اور انہیں شریعت کے اندر حقوق حاصل ہوں گے۔

طالبان نہیں جانتے کہ جب وہ آخری بار اقتدار میں تھے وہ 20 سال قبل کا وقت تھا۔ اب خواتین اور خاص طور پر نوجوان افغانوں کی نئی نسل ان کی سفاکیت کے سامنے نہیں جھکے گی اور اپنے حقوق کے لیے لڑے گی۔

Yasmeen Afghan
+ posts

’یاسمین افغان‘ صحافی ہیں۔ وہ ماضی میں مختلف افغان نیوز چینلوں کے علاوہ بی بی سی کے لئے بھی کام کر چکی ہیں۔ سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ان کا قلمی نام استعمال کیا جا رہا ہے۔