فاروق سلہریا
پاکستان میڈیا پر مسلط کردہ ہر طرح کے اینکر پرسنز اور تجزیہ نگار وں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ بات شروع کرتے ہی حماقت اور جہالت کی تمام حدیں پار کر جاؤ تاکہ بحث ممکن ہی نہ رہے۔ جب بات کا آغاز ہی آفاقی سطح کی حماقت سے ہو گا تو دلیل، شواہد، منطق، حقیقت نگاری اور سچ کی گنجائش ہی نہیں بچے گی۔
ایک ایسا کردار اور ان کا ٹویٹ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
یہ موصوف کسی چینل پر مارننگ شو ہوسٹ کرتے ہیں۔ اس ٹویٹ میں یہ خبر رساں ادارے رائٹرز کو، بلا واسطہ طالبان کے ناقدین کو، یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ پچھلے بیس سال تک ناقدین ِ طالبان کو افغانستان کا خیال کیوں نہ آیا۔
ہم خود طالبان کے ناقدین ہیں۔ ہم اویس منگل والا کی جگت بازی کا جواب کسی اور وقت دیں گے پہلے ہم ان سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ وہ کن انسانوں کے مرنے کی بات کر رہے ہیں؟
وہ ہزاروں انسان جو طالبان کے ان خود کش حملوں میں ہلاک ہوئے جو انہوں نے جنازوں، ہسپتالوں اور سکولوں پر کئے؟ یا ان انسانوں کی بات کر رہے ہیں جن کو طالبان جنگجو بم دھماکوں میں ہلاک کرتے رہے؟
یہ دہشت گردی بیس سال تک جاری رہی۔ اگر کبھی اویس منگل والا نے اپنے کسی مارننگ شو میں ان انسانوں کے مرنے کی مذمت کی ہو، کوئی نوحہ پڑھا ہو، کوئی افسوس کیا ہو یا ان معصوم لوگوں کے لواحقین کو اپنے کسی شو میں بلایا ہو تو ہمیں ضرور مطلع کیا جائے تاکہ ہم اویس منگل والا کی انسانی عظمت کے اچھی طرح قائل ہو سکیں۔
جس طرح کے مارنگ شو اور ٹویٹ اویس منگل والا کرتے ہیں اس سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں کبھی بھی طالبان کے خودکش حملوں، بم دھماکوں اور بربرانہ اقدامات سے کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ اس لئے ممکن ہے وہ ان افغان لوگوں کے مرنے کی بات کر رہے ہوں جو امریکی حملوں میں شہید ہوئے۔
ایک مرتبہ پھر راقم جاننا چاہے گا کہ کبھی کوئی مارنگ شو،کوئی ٹویٹ اویس منگل والا نے ان بیس سالوں میں کیا ہو جس میں بے گناہ افغان شہریوں کی امریکی دہشت گردی میں ہلاکت پر انہوں نے احتجاج کیا ہو؟ کبھی کو ئی مظاہرہ منعقد کیا ہو؟ کبھی کوئی ریلی نکالی ہو؟
اویس منگل والا چونکہ افغانستان پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں اور ان کو اندازہ ہے کہ وہاں کتنے افراد ہلاک ہو گئے یا کیوں موسیقی کے قتل پر واویلا نہیں کرنا چاہئے، اس لئے انہیں یہ بھی علم ہو گا کہ امریکہ کی افغانستان میں ریاستی دہشت گردی کے لئے جو ناٹو سپلائز جاتی تھیں وہ کراچی سے ہوتی ہوئی براستہ پشاور طورخم افغانستان پہنچتی تھیں۔
پانچ سال تک یہ سپلائز جب پشاور سے گزرتی تھیں تو وہاں ایم ایم اے کی حکومت تھی۔ رائٹرز کے کان کھینچنے سے پہلے اویس منگل والا نے کبھی مولانا فضل الرحمن، مولانا سراج الحق، مولانا سمیع الحق یا ان کے حمایتیوں سے پوچھا کہ بھائی لوگو تم افغان شہریوں کے قتل عام میں ہاتھ کیوں بٹا تے رہے ہو؟ اسی طرح کبھی جنرل مشرف اور ان کے کور کمانڈروں سے کسی ٹویٹ یا مارنگ شو میں یہ سوال کیا کہ جناب والا طالبان کو امریکہ کے ہاتھوں کیوں بیچا؟
چلیں مان لیا کہ ایم ایم اے والوں اور جنرل مشرف کے کور کمانڈروں سے سوال کرنا جان کو ویگو ڈالے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ سوال میں نے خود پوچھنے کی کبھی ہمت نہیں کی۔
کم سے کم اویس منگل والا نے کسی دن کسی مارنگ شو میں یا کسی ٹویٹ میں اتنا ہی کہہ دیا ہوتا کہ اے قوم یوتھ افغان بھائیوں کو ’نمک حرام‘ کہنا بند کرو کیونکہ اَسی کی دہائی میں ہم انہی افغان بھائیوں کی تعریف میں ’پناہ‘ ایسے ٹیلی ویژن ڈرامے چلاتے تھے، نوائے وقت اور تکبیر جیسے چیتھڑوں میں ان کی بہادری کے جھوٹے قصے لکھتے تھے اور علامہ اقبال کے اشعار پڑھا کرتے تھے۔
ماضی کی بات چھوڑیں۔ روز کے روز کابل سے فوٹیج موصول ہوتی ہے جس میں طالبان خواتین اور صحافیوں پر بد ترین تشدد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
17 افراد تو اس ہوائی فائرنگ کی وجہ سے ہلاک ہو گئے جو طالبان نے پنج شیر فتح ہو نے کی خوشی میں کابل اندر کی۔
تو جناب منگل والا صاحب کس دن مارنگ شو کر رہے ہیں آپ نیا طالبان کے اس نیا افغانستان بارے؟
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔