یاسمین افغان
طالبان نے اعلان کیا ہے کہ تمام مرد طلبہ اور مرد اساتذہ ہفتے سے سکولوں میں حاضر ہو سکتے ہیں۔ وزارت تعلیم کے بیان میں لڑکیوں کی تعلیم کا ذکر نہیں ہے۔
افغان خواتین کے نام سے ایک ٹویٹر صارف نے ٹویٹ کیا ہے کہ ”جیسا کہ لگتا ہے کہ طالبان افغان خواتین اور لڑکیوں سے بہت نفرت کرتے ہیں اور ان کو (سماجی سرگرمیوں سے) خارج کرتے اور انہیں محروم کرتے رہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ تمام 17-18 ملین خواتین اور لڑکیاں اس ملک کو چھوڑ دیں اور طالبان کو اپنے آپ اور بندوق برداروں کے ہمراہ چھوڑ دیں۔ وہ ہمارے لائق نہیں ہیں۔“
بامیان کے ایک اور ٹویٹر صارف نے ٹویٹ کیا ہے کہ ”طالبان کی خواتین سے، خواتین کی تعلیم، خواتین کے کام اور خواتین کی مالی آزادی سے دشمنی سے اس سے کہیں زیادہ ہے جو زیادہ تر لوگ سوچتے ہیں۔ طالبان کا یہ ویژن اور منصوبہ نہ صرف خواتین کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کا مستقبل اور تقدیر ہماری طرح ہی بھیانک ہو۔ کیونکہ عورت کی تعلیم نسلوں تبدیلی کے برابر ہے۔“
کابل کے ایک رہائشی نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ”میرے 3 بچے ہیں، 2 بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ میری بیٹی جماعت نہم میں ہے اور بیٹے 8 اور 10 گریڈ میں ہیں، میرے بیٹے آج سکول گئے اور میری بیٹی گھر پر رہی۔ میں اپنی بیٹی کے ساتھ آنکھ ملا کر نہیں دیکھ سکتا۔ میں ایک باپ کی حیثیت سے اپنے آپ کومجرم محسوس کر رہا ہوں، جس نے اپنی بیٹی کی پیدائش پر وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کے حقوق کے لیے لڑے گا لیکن اب مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں زنجیروں میں ہوں اور میں اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔“
ایک تعلیم کیلئے کام کرنے والی سماجی کارکن پشتانہ زلمی خان درانی نے ٹویٹ کیا ہے کہ ”اگر مسئلہ وسائل کا نہ ہونا ہے تو اس کا ایک حل پہلے سے موجود ہے، اگر اساتذہ کی کمی ہے تو ہمارے پاس اس کا بھی حل ہے۔ لیکن اگر مسئلہ یہ ہے کہ آپ کا پورا گروپ اس بات سے متفق نہیں ہے کہ لڑکیوں کو سکول میں پڑھنا چاہیے تو آپ اس سرزمین کی بیٹیوں کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں۔“
سمیرا (فرضی نام) کابل میں رہتی ہیں اور 12 ویں جماعت کی طالبہ ہیں، وہ مضبوط بننے کی کوشش کر رہی تھیں لیکن ان کی آواز لڑکھڑا رہی تھی، سمیرا کا کہنا تھا کہ ”پہلے کورونا کی وجہ سے ہم اپنے سکولوں میں صحیح طریقے سے پڑھنے کے قابل نہیں تھے اور اب یہ غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ میرے خود کیلئے بہت بڑے منصوبے تھے۔ میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں، اگر طالبان ہمیں سکول جانے کی اجازت نہیں دیتے تو میں یا دوسری لڑکیاں ڈاکٹر یا ٹیچر کیسے بنیں گی یا کسی اور پیشے میں کیسے جائیں گی۔“
سمیررا کی آنٹی، جو پیشے سے ٹیچر ہیں، کا کہنا تھا کہ ”میری 2 جڑواں بیٹیاں ہیں جو کہ 7 ویں جماعت میں ہیں لیکن اب وہ سکول نہیں جا سکتیں۔ میں دیکھ سکتی ہوں کہ وہ اس وقت کتنی ٹوٹی ہوئی ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ میں انہیں گھر پر پڑھاؤں گی لیکن وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنی ہم جماعتوں اور ٹیچرزکو یاد کریں گے۔ ان میں سے ایک صبح سے رو رہی ہے اور بعض اوقات میں خود ٹوٹ جاتی ہوں کیونکہ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں ان کو پرسکون کروں یا یہ بتاؤں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔“
سال 2019ء کے لیے اقوام متحدہ میں نوجوانوں کی نمائندہ عائشہ خرم نے ٹویٹ کیاکہ ”طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے ایک ماہ بعد تمام مرد وں کابینہ تشکیل دی گئی، تمام مرد سرکاری ملازمین نوکریوں پر واپس آئے، تمام مرد طلبہ واپس (تعلیمی اداروں میں) آئے۔ اب یہ سب مرد وں کاافغانستان ہے۔ یہ ان کا پورا نظریہ ہے۔“
آخری بار جب طالبان اقتدار میں تھے تب خواتین کو منظم طریقے سے تعلیم اور کام سے روک دیا گیا تھا۔ جب یہ گروپ 1996ء میں برسر اقتدار آیا تو افغان خواتین کو یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کبھی بھی تعلیم یا ملازمت تک رسائی حاصل نہیں کر سکتیں۔ طالبان نے کہا تھا کہ جب حالات بہتر ہوں اور سیکورٹی بہتر ہو جائے تو لڑکیاں اپنے سکولوں اور عورتیں اپنے کام پر واپس جا سکیں گی، لیکن ایسا کبھی نہیں ہو سکا، اس لیے طالبان کا یہ موقف جانا پہچانامعلوم ہوتا ہے۔ افغان لڑکیاں اور خواتین پرامید نہیں ہو سکتیں کیونکہ اس وقت ان کی تعلیم اور کام پر خاموش پابندی ہے۔